لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

اداریہ
مدیر ماہنامہ مفاہیم، کراچی

حاجیوں سے کچھ باتیں

حج کے مہینے شروع ہو چکے ہیں اور حاجی؛ حج کے مبارک سفر کے لیے علمی وفکری اور ’’سفری‘‘ تیاریوں میں مصروف ہیں تو ﴿خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى﴾ ’’بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘ کے مصداق ہم ’’چند حرف‘‘ ان کے ساتھ کیے دیتے ہیں۔ مطلوب اس سے اپنی ہی بہتری ہے کہ حاضری سے تو ہمیں ’’پیچھے رکھا‘‘ گیا لیکن وہاں کے تذکرے سے تو ہم باز نہ رہیں گے۔ ہو سکتا ہے اس بابرکت تذکرے کے صلے میں ہمیں حاضر ہی کر لیا جائے۔ حج کے آداب و ارکان بہت سارے ہیں۔ احرام کا درویشانہ لباس اور اس کی مجذوبانہ پابندیاں، بیت اللہ اور صفا مروہ کے عاشقانہ پھیرے، عَرَفہ اور مُزدَلِفہ کی عاجزانہ حاضری اور مِنَی کی قربانی اور قیام، تو ان آداب و ارکان کی پابندی کا نام حج ہے۔ ہر رکن ایک ظاہری صورت رکھتا ہے جس کو برقرار رکھنا یقیناً ضروری ہے۔ لیکن ان ارکانِ ظاہری کا ایک باطن، ایک ’’روحِ بلالی‘‘ بھی ہے کہ جس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ارکانِ حج کی روح؛ رب تعالیٰ سے تعلق و محبت اور اس کا شعور ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ حج کا حاصل شعائر اللہ کا احترام ہے جو اصل میں تقویٰ کی ایک عملی مشق ہے: ﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ (الحج : ۳۲)’’اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو پس وہ دلوں کے تقوی میں سے ہے‘‘۔ شعائر، شعیرہ کی جمع اور شُعور سے مشتق ہے۔ وہ نمایاں علامات جو کسی کی عظمت پہ دلالت کرتی ہوں۔ لیکن شعائر کی تعظیم تو اس کے دل میں ہو گی جو صاحبِ شعائر کی عظمت کا شعور و ادراک رکھتا ہو اور شعائر کے پاس آتے جاتے اس عظمت کا دھیان اور اس کی یاد بھی رکھتا ہو۔ اگر رویہ اس کے برعکس غفلت والا ہو تو ایسے کو ’’اقبال بھی شانِ کبریا نہیں بتا سکتا ‘‘۔!!

تو اللہ کی یاد، اس کی عظمت کا دھیان، اللہ کے خاص بندوں کے مرتبے کا احساس جن کی یادیں شعائرِ حج کے ساتھ جڑی ہیں یہی حج کی روح ہے۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ نے صفا و مروہ کو شعائر اللہ کہا:﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ﴾ (البقرة :۱۵۸)’’بےشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں ‘‘جب کہ رسول اللہ ﷺ نے انھی صفا و مروہ اور دیگر شعائر کو اللہ کی یاد کے ذرائع قرار دیتے ہوئے فرمایا: «إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ» (سنن ابی داؤد ) ’’بے شک بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی اور جَمَرات پر رمی کرنا اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے مشروع کیے گئے ہیں‘‘۔ اس حدیث کی تشریح میں ملا علی القاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’چاہیے کہ ان متبرک مقامات پر اللہ کو یاد کیا جائے اور غفلت سے بچا جائے ‘‘۔ تو حج کے ارکان پورے شعور کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ ان مقامات کے تقدس اور ان مقامات کو شرف بخشنے والی ذات باری تعالیٰ کی عظمت اور ان شعائرکو علمی و عملی طور پر بیان کرنے والے، رسول خدا ﷺ اور ان کی سنتِ شریفہ کے مرتبے و منزلت کا لحاظ کرتے ہوئے مناسک ادا کیے جائیں گے تو حج کی کامل روحا نی برکات حاصل ہوں گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اعمال ِ حج کے ساتھ ’’ذکر اللہ ‘‘ کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے حالانکہ اللہ کی یاد تمام ہی عبادات میں مطلوب ہے۔ شارحین نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا چوں کہ یہ اعمال بظاہر عبادت نہیں دکھتے (کیوں کہ ان میں ادھر ادھر دیکھنے، کھانے پینے یا بات کرنے کی اجازت ہے) لہذا ان اعمال میں اللہ کو یاد رکھنے کی اضافی تلقین کی گئی تاکہ ان میں زبانی عبادت یعنی ذکر کی آمیزش ہو جائے اور وہ ذکر ان ارکان کا ایک نمایاں تعبدی وصف اور روح بلکہ وہ ان اعمال کا شعار قرار پائے۔ (الفتح الربانی)

اعمال ِ حج کے دوران ’’دھیان گیان‘‘ کی تلقین ِ غزالی، آج کے دور میں اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ اور اس کی عظمت سے غافل کرنے والی ’’بَہلاوے کی چیزیں ‘‘لَهْوُ الْحَدِيث کی بھرمار ہو گئی ہے۔ موبائل فون پر تصاویر اور ویڈیو بنانا پھر واٹس ایپ یا فیس بک پر نشرکرنا اور اس سے بڑھ کر عین کعبے کے سامنے کھڑے ہو کر آن لائن یا لائیو جا کر دعا کرنا ’’قبلے کو حدِ ادرک سے بالکل اوجھل کر کے قبلہ نما بنا دیتا ہے‘‘۔ کہاں وہ حکم کہ﴿وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ﴾ (البقرہ:۱۴۴) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منھ اسی (کعبے ) کی طرف پھیر لو‘‘ اور کہاں یہ عالم کہ سامنے بیٹھے ہیں لیکن سامنا نہیں کر پا رہے۔ تو یہ مشینوں کی حکومت کا دور ہے جس کے سبب دلوں کو موت ہے کہ ان آلات نے احساس محبت کو کچل ڈالا ہے۔ تو مشینوں اور آلات کے داخلی جال (انٹر نیٹ ) سے بچتے ہوئے حج کریں گے تو مناسک حج میں اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا دھیان، اس کی فکر نصیب ہو گی۔ہم دیکھتے ہیں کہ مناسکِ حج کے ذیل میں ذکر اللہ کی بہت تاکید کی گئی ہے:﴿فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ ﴾ (البقرہ: ۱۹۸( ’’پس جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اس کا ذکر کرو جیسا کہ اس نے تمھیں ہدایت کی ہے‘‘۔اور مناسک کی تکمیل کے بعد بھی اسی کا حکم دیا گیا: ﴿فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا﴾ (البقرہ :۲۰۰) ’’پس جب تم اپنے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو جیسے کبھی اپنے آبا و اجداد کو یاد کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کا ذکر کرو‘‘اللہ تعالیٰ کی یاد حاصل ہو جائے اور اس کی عظمت کا دلی احساس ہو جائے تو اس کا ظہور دعا و مناجات اور تو بہ و استغفار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے چناں چہ دورانِ حج استغفار کا حکم بھی دیا گیا :﴿ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ (البقرہ :۱۹۹)’’پھر تم وہاں (پہنچ کر)لوٹو جہاں سے سارے لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ سے بخشش مانگتے رہو بے شک وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘۔ یہی نقشہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ حج میں نظر آتا ہے۔میدانِ عرفات میں نمازِ عصر سے فارغ ہو کر آپ ﷺ قبلہ رُو ہوئے:«فَأَخَذَ فِي الدُّعَاءِ، وَالتَّضَرُّعِ، وَالِابْتِهَالِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ» (زاد المعاد ) ’’پھر آپ ﷺ دعا، اظہار عجز اور آہ و زاری میں مشغول ہوئے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا‘‘۔ یومِ عرفہ کی دعا کی ترغیب دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:«خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ»(سنن ترمذی)’’بہترین دعا یوم عرفہ کی ہے‘‘۔

مزدلفہ میں اول وقت نمازِ فجر پڑھنے کے بعد آپ مشعر الحرام کے پاس آئے :«فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا» (صحیح مسلم ) ’’قبلہ رو ہو کر آپ ﷺ نے اللہ کی جناب میں دعا کی اور تکبیر و تہلیل کرتے رہے یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہو گئی‘‘۔ رمی کرتے وقت آپ ﷺ ہر کنکر کے ساتھ تکبیر کہتے اور پہلے دو جمرات پر آپ ﷺ قبلہ رو ہو کر طویل دعا فرماتے۔آپ کی دعا میں سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا مَبْرُورًا، وَذَنْبًا مَغْفُورًا» )مسندِاحمد)’’اے اللہ میرے حج کو حج مبرور و مقبول بنا دے اور میرے گناہ معاف فرمادے‘‘۔

بیت اللہ شریف تو ہے ہی مقامِ دعا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل بوقتِ تعمیرِ کعبہ دعا فرماتے ہیں:﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ (البقرة: ۱۲۷ تا ۱۲۹) ’’اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے، اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار ! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم دونوں کو اپنا مکمل فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری تابع دار ہو اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی معاف کردینے کا خوگر (اور) بڑی رحمت کا مالک ہے۔ اور ہمارے پروردگار ! ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انھی میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن )

نبی کریم ﷺ جب حرم میں داخل ہوتے اور بیت اللہ شریف آپ کے سامنے آتا تو دعا مانگنے لگتے۔ (سنن ابی داؤد) روایات میں آتا ہے «لَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ البَيْتَ، دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا» ’’جب آپ ﷺ خانۂ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے ہر ہر کونے میں کھڑے ہو کر دعا فرمائی‘‘ اگرچہ یہ خانۂ کعبہ کے اندر کی بات ہو رہی ہے لیکن اس سے بیت اللہ شریف میں دعا کے اہتمام کی تعلیم ملتی ہے۔(صحیح بخاری ) طواف کے دوران بھی دعائیں مانگنا آپ ﷺ سے ثابت ہے۔

تو آنے والے دنوں میں حاجیوں کے لیے دعا و مناجات کے خوب مواقع ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: «وَفْدُ اللَّهِ ثَلَاثَةٌ: الْغَازِي وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ»(سنن نسائی ) ’’تین لوگ اللہ کے وفد میں شامل ہیں غازی، حاجی اور معتمر‘‘۔حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللَّهِ إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوهُ غَفَرَ لَهُمْ»(سنن ابنِ ماجہ )’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کا وفد ہیں اگر وہ اس سے دعا کریں تواللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر وہ بخشش مانگیں تو اللہ ان کی مغفرت فرما دیتا ہے‘‘۔

زائرینِ حرم اور ان کی دعاؤں کا رتبہ دیکھیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے، نبی کریم ﷺ سے عمرے پر روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا :«أشْرِكْنَا يَا أُخَيَّ في دُعَائِكَ»’’پیارے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا ‘‘۔ (سنن ابی داؤد ) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، وَصَافِحْهُ، وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ، فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ»(مسندِ احمد ) ’’جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو اور اس سے مصافحہ کرواور اس سے درخواست کرو کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ہی تمھارے لیے دعاے مغفرت کرے اس لیے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر آیا ہے‘‘۔

صفوان بن عبد الله بن صفوان رحمہ اللہ اپنی ساس محترمہ، سیدہ ام الدرداء کے پاس آئے تو وہ ان سے پوچھتی ہیں کیا اس سال آپ کا حج کا ارادہ ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں،تو سیدہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: «فَادْعُ اللهَ لَنَا بِخَيْرٍ» ’’ہمارے لیے اچھی اچھی دعائیں کیا کیجیے گا‘‘۔(صحیح مسلم )ہم اپنے حاجیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے اہل و عیال اور اہل وطن کے ساتھ ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

لرننگ پورٹل