لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂٔ تحقیق و تصنیف

قربانی کی مشروعیت اور فلسفہ
سورۃ الحج، آیت نمبر: ۳۷ – ۳۵

﴿وَالْبُدْنَ جَعَلنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَائِرِ اللّٰهِ لَکُمْ فِیهَا خَیرٌ، فَاذکُرُوا اسمَ اللّٰهِ عَلَیهَا صَوَآفَّ، فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَکُلُوا مِنْهَا وَ أَطْعِمُوا القَانِعَ وَ المُعْتَرَّ ،کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰهَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَاؤُهَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُهُ التَّقوٰی مِنکُم،کَذٰلِکَ سَخَّرَهَا لَکُم لِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰکُم ،وَ بَشِّرِ المُحْسِنِینَ﴾

’’اور قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔ چنانچہ جب وہ ایک قطار میں کھڑے ہوں، ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب (ذبح ہوکر) ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ، اور ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو صبر سے بیٹھے ہوں، اور ان کو بھی جو اپنی حاجت ظاہر کریں۔ اور ان جانوروں کو ہم نے اسی طرح تابع بنا دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دئیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انھیں خوشخبری سنا دو‘‘۔

قربانی کی تاریخ

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نفسِ قربانی کا تصور حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے کسی نہ کسی شکل میں ہر قوم میں موجود رہا ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کا واقعہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے: ﴿وَ اتلُ عَلَیهِم نَبَأ ابنَی اٰدَمَ بِالحَقِّ إِذ قَرَّبَا قُربَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَ لَم یُتَقَبَّل مِنَ الاٰخَرِ﴾ (مائدہ: ۲۷) ’’اور (اے پیغمبر) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘۔ امام مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:اِبنا آدم، هابيل و قابيل، لصلبِ آدم، فقرّب أحدهما شاةً و قرب الآخر بَقْلا، فقبل من صاحب الشاة، فقتله صاحبه. (جامع البيان في تأويل القرآن، ج:۱۰، ص:۲۰۴ ) ’’حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ہابیل اور قابیل، تو ان میں سے ایک نے بکری کی قربانی پیش کی جبکہ دوسرے نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ ترکاری صدقہ کرکے قربانی پیش کی، چنانچہ بکری کی قربانی دینے والے کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے بھائی نے اسے قتل کر دیا‘‘۔ اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا طریقہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کا تصور پہلے سے تھا، البتہ اس کی ایک خاص پہچان تب بنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اولوالعزم صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم سےذبح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعے کی یادگار کے طور پراُمّتِ محمدیہ علٰی صاحبہا الصلاۃوالسلام پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔ اس یادگار موقعے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مابین جو گفتگو ہوئی ہے، قرآن کریم کی روشنی میں اسے ملاحظہ فرمائیں:

حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا اپنے بیٹے سے مکالمہ

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملک شام سے وادیٔ بطحا میں تشریف لائے تو اپنے ساتھ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو بھی ساتھ لائے۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے حضرت سارہ علیہ السلام سے نکاح کیا تھا اور ان سے کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے بعد حضرت ہاجرہ علیہ السلام آپ کے عقد میں آئیں تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ﴿رَبِّ هَب لِي مِنَ الصّٰلِحِینَ﴾ ’’میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے دے جو نیک لوگوں میں سے ہو‘‘۔ ﴿فَبَشَّرنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیمٍ﴾ ’’چنانچہ ہم نے انھیں ایک بردبار لڑکے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی خوشخبری دی‘‘۔ ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعي قَالَ یٰبُنَي إِنِّي أَرٰی فِي المَنَامِ أَنِّي أَذبَحُکَ فَانظُر مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰأَبَتِ افعَل مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُنِي إن شاءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِینَ﴾ ’’پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو انھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔ یہ حکم اگرچہ خواب میں دیا جار ہا تھا، لیکن انبیاے کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا۔ ﴿فَلَمَّا أَسلَمَا وَ تَلَّه لِلجَبِینِ﴾ ’’چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا‘‘۔ چونکہ باپ بیٹے دونوں نے تو اسے اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے یہ طے کیا تھا کہ باپ بیٹے کو ذبح کرے گا، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا۔ ﴿وَ نَادَینٰهُ أَن یّٰإِبرٰهِیمُ﴾ ’’اور ہم نے انھیں آواز دی کہ: اے ابراہیم!‘‘۔ ﴿قَد صَدَّقتَ الرُّءیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجزِي المُحسِنِینَ﴾ ’’تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں‘‘۔ ﴿إِنَّ هٰذَا لَهُوَ البَلٰٓـؤُا المُبِینُ﴾ ’’یقیناً یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا‘‘۔ ﴿وَ فَدَینٰهُ بِذِبحٍ عَظِیمٍ﴾ ’’اور ہم نے ایک عظیم ذبیحے کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا‘‘۔ جب باپ بیٹے دونوں نے اللہ تعالیٰ کا حکم بجالانے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بطور معجزہ انھیں یہ کرشمہ دکھایا کہ اپنی طرف سے ایک مینڈھا بھیجا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بجائے چھری اس پر چلی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ سلامت رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تاریخ کا وہ عظیم الشان کارنامہ سر انجام دیا جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی، کیونکہ باپ کا اپنے لختِ جگر کو قربان کرنا اپنے آپ کو ذبح کر نے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ چنانچہ یہ اتنا بڑا عزم اور صبر والا کا م تھا کہ قرآنِ کریم نے اسے ﴿البَلٰٓـؤُا المُبِینُ﴾ ’’یعنی کھلا ہوا امتحان‘‘ قرار دیا ہے، اس لیےایک باپ کا اپنے لختِ جگر کی گردن پر اپنے ہاتھوں سے چھری چلانا کتنا مشکل ہے، اس کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا! اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کا صبر و ضبط بھی مثالی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر خود کو قربان ہونے کے لیے پیش کیا اورآپ کے عزم میں ذرّہ برابر تزلزل نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ جذبۂ خلیل اور صبرِ ذبیح کا یہ عاشقانہ عمل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جانوروں کی قربانی کرنا ایک خاص عبادت بن گیا اور اس کی یادگار کے طور پر حضور اکرم ﷺ کی امت کے لیے بھی ہر سال اسی تاریخ کو قربانی کی مشروعیت کا حکم آیا۔ لہٰذا امتِ محمدیہ علٰی صاحبہا الصلاۃوالسلام میں ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب قرار دی گئی۔ چنانچہ سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں حضور اکرم ﷺ کی امت میں جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔

قربانی کی مشروعیت

ہر بالغ صاحبِ نصاب پر عیدالاضحیٰ کے دن قربانی کرنا واجب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لِرَجُلٍ:‏أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، فَقَالَ الرَّجُلُ:‏أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى،‏أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ:‏لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» (سننِ نسائی) ’’رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: مجھے قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ) کو عید منانے کا حکم ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید کا دن بنایا ہے۔ اس شخص نے عرض کیا: اگر میرے پاس ایک دو دھ والی بکری کے سوا کچھ بھی نہ ہو (یعنی اگر میں صاحبِ نصاب نہیں ہوا) تو کیا میں اس کی قربانی کروں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم (قربانی کے دن) اپنے بال، ناخن کاٹو، اپنی مونچھ تراشو اور زیرِ ناف بالوں کی صفائی کرو، تو یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری قربانی ہے‘‘۔ اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا یعنی قربانی کرنا ہے۔ قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے اور یہ کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو‘‘۔ (جامع ترمذی) لہٰذا مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عیدالاضحیٰ کے دن قربانی کرنا ہر صاحبِ نصاب مومن پر واجب ہے۔

قربانی کا فلسفہ

قربانی کا پیغام بالکل واضح ہے، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعے میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ہمارے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اللہ کا حکم ہر تعلق اور ہر رشتے پر مقدم ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوں اور اس میں ہم اپنے مزاج، عقل اور سماجی تعلقات کو دخل نہ دیں اگر یہ چیزیں ہمیں اللہ تعالیٰ کی بندگی سے روک دیں، کیونکہ ساری کامیابیوں کا مدار اللہ کے احکام کو ماننے اور دل و جان سے ان پر عمل کرنے پر ہے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم متوجہ ہو تو ہمیں چاہیے کہ اس میں حکمتیں ڈھون ڈنے کے بجا ئے صدقِ دل سے اس پر عمل کریں اور اس کے سا منے سر ِتسلیم خم کریں۔

لرننگ پورٹل