لاگ ان
منگل 14 شوال 1445 بہ مطابق 23 اپریل 2024
لاگ ان
منگل 14 شوال 1445 بہ مطابق 23 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
منگل 14 شوال 1445 بہ مطابق 23 اپریل 2024
منگل 14 شوال 1445 بہ مطابق 23 اپریل 2024

مولانا حافظ حماد احمد ترکؔ
نائب مدیر، ماہنامہ مفاہیم، کراچی

یقیناً قارئین بے تابی سے منتظر ہوں گے کہ یمنی ریستوران میں ایسا کیا پیش کیا گیا جو ہمارے لیے غیر متوقع تھا، تو آپ کا انتظار ختم کیے دیتے ہیں۔ قارئینِ کرام حضرموت ہوٹل میں کھانے کے اختتام پر دودھ پتی چائے پیش کی گئی، اور چائے بھی ایسی کہ بوڑھے کو جوان اور مفلوج کو متحرک کر دے۔ سبحان اللہ! کیا بات تھی اس چائے کی۔ اس چائے کی تعریف پر ہم شیخ ابراہیم ذوقؔ کا ایک شعر قارئین کی نذر کرتے ہیں:

پیرِ مغاں کے پاس وہ داروہے جس سے ذوقؔ
نامرد؛مرد، مرد؛ جواں مرد ہو گیا

آپ دارو کی جگہ ’’چائے‘‘ بھی پڑھ سکتے ہیں، نہ شعر کا وَزْن ٹوٹے گا نہ مفہوم بدلے گا۔

رات گہری ہو چکی تھی۔ اکسرائے سے واپس رہائش گاہ روانہ ہو گئے۔ اگلی صبح استاذِمحترم کی مشغولیت تھی چنانچہ ہم نے ایک اور صاحب کی رہنمائی میں سفر کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے فتحِ قسطنطنیہ پینوراما سینٹر پہنچے۔ اس احاطے میں فتح کی تفصیلات، لشکر کی تعداد اور تمام محاذوں کا حال تصاویر اور نقشوں کے ذریعے واضح کیا گیا تھا۔ مختلف شیشوں میں سلطان محمد فاتح کے عہد کے ہتھیار بھی رکھے ہوئے تھے۔ اوپر والی منزل پر ایک بہت بڑی اسکرین نصب تھی جو فتح کا پورا منظر پیش کرتی تھی۔ اس منظر میں اوپر آسمان تھا، ایک طرف دیوارِقسطنطنیہ کہیں سے شگاف زدہ اور کہیں سالم دکھائی دیتی تھی۔ فصیلِ شہر پر بازنطینی پہرےدار دفاع کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ دوسری طرف سلطان کا لشکر، پیادے، گھوڑے، منجنیقیں، توپیں حتی کہ توپوں سے داغے گئے گولے بھی منظر کا حصہ تھے۔ یہ سب تو اسکرین پر تھا۔ نیچے زمین پر ایک دائرے کی شکل کی آڑ تھی جس کی دوسری طرف عثمانی لشکر کی تلواریں، تیر، نیزے، ڈھالیں، پتھر، گولے اور توپیں رکھی ہوئی تھیں۔ پس منظر میں رزمیہ دھن بج رہی تھی۔ کبھی ایک طرف سپاہیوں کے حملے اور نعرۂ تکبیر کی آواز آتی تھی اور کبھی دوسری طرف سے گھوڑے ہنہناتے تھے۔ پورا منظر ایسا تھا جیسے واقعتاً ہم میدانِ جنگ میں موجود ہیں۔ باہر نکلے تو گھاس پر ایک توپ رکھی تھی۔ غرض یہ پورا احاطہ ہی فتحِ قسطنطنیہ کی تصویر تھا۔ یہاں سے روانہ ہوئے تو ہمارے میزبان ہمیں سب سے پہلے سیدناابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی قبرِمبارک پر لے گئے۔ یہ قبرِمبارک کسی آبادی کے درمیان واقع تھی۔ سیدناابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے کون واقف نہیں۔ آپ ان چند صحابہ میں سے ہیں جن کی مرویات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ ان صحابہ کو اصطلاحاً مُکْثِرین (کثرت سے روایت کرنے والے) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد دو بزرگوں حضرت شعبہ اور حضرت ابوسعود کی قبور پر حاضری ہوئی۔ یہاں سے ہم سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے مزارشریف پر آ گئے۔ حضرت کعب وہ جلیل القدر صحابی ہیں جو تبوک میں شرکت سے رہ گئے تھے اور جن کا ذکر سورۂ توبہ میں آتا ہے۔ اس قبرِمبارک پر بلاشبہہ انواروتجلیات کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ یہاں سے واپس ہوئے تو ایک دل چسپ منظر نظر آیا۔ ایک استاد اپنے ساتھ اسکول کے بچوں کو لیے قطار کی صورت میں مزارشریف پر حاضری کے لیے چلے آ رہے تھے، واقعتاً خوش کن منظر تھا۔ بچوں کو کم سنی سے ہی یہ باور کروا دیا جائے کہ کہاں جانا مفید ہے اور کیا دیکھنا اہم ہے تو تمام عمر وہ اس تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حضرت کعب کی قبرِ مبارک کے ساتھ ایک اور قبر حضرت حافر کی تھی۔ یہاں سے ہم نمازِ ظہر کے لیے سیدناابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ میزبانِ رسولﷺسیدناابوایوب انصاری اس لشکر کے ساتھ تھے جسے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے اموی خلیفہ نے روانہ کیا تھا۔ آپ کی وفات شہر سے قریب ہی ہوئی چنانچہ آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ گولڈن ہارن کے قریب جسے خلیج بھی کہتے ہیں یہ مسجد قائم ہے۔ اسے ترکی میں ایوب سلطان مسجد کہا جاتا ہے۔ استنبول کی یہ قدیم ترین اور مقدس ترین مسجد سلطان محمد فاتح کے عہد میں ۱۴۵۸ء میں تعمیر کی گئی۔ مرورِزمانہ نے اس مسجد کو کمزور کر دیا اور زلزلے سے اس کی بنیادیں تک ہل گئیں۔ ۱۷۹۸ء میں سلطان سلیم ثالث نے اسے منہدم کروا کر دوبارہ تعمیر کروایا۔ اکثر سلاطین کی تقریبِ تاج پوشی اسی مسجد میں ہوئی۔ نمازِ ظہر ادا کر کے سیدناابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی مرقدِمبارک پر حاضری دی۔ قلب کو پیمانہ کیا اور نورِنبوت نے قلب کی ویران دنیا کو ایسا منور اور آباد کر دیا کہ کبھی وہاں ظلمت کا گزر بھی نہ ہوا ہو۔

یہاں سے روانہ ہوئے تو اگلی منزل’’مینیا ترک‘‘ تھی۔ مینیا ترک ایک بہت بڑے پارک کا نام ہے جس کا مطلب ہے ’’چھوٹا ترکی‘‘۔ اس پارک کا قیام ۲۰۰۳ء میں عمل میں آیا، جس میں ترکی اور اس کے گرد ونواح میں واقع قدیم تاریخی عمارات کے عمدہ نمونے تیار کیے گئے ہیں۔ کل ۱۳۶ /نمونے موجود ہیں جن میں سے ۶۰ /استنبول کے، ۶۳ /اناطولیہ کے اور ۱۳/ بیرونِ ترکی تعمیر کیے گئے عثمانی شاہ کار شامل ہیں۔سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، مولانا روم، ارطغرل غازی اور معمار سنان کے مزارات،قبۃ الصخراء فلسطین، آیا صوفیا، مختلف مساجد، قومی اسمبلی، عدلیہ، توپ کاپی میوزیم، کلیسا، ہوائی اڈہ، ریلوے اسٹیشن، ریلوے لائن، کپادوکیا کے نمکین پہاڑ اور ان کے علاوہ بہت سی اہم عمارات کے نمونے موجود ہیں۔ ۶۰ ہزار اسکوئر میٹر پر محیط یہ شان دار پارک استنبول کے تفریحی اور ثقافتی مقامات میں انفرادی اہمیت رکھتا ہے جہاں کسی بھی سیاح کو چند گھنٹوں میں ترکی کے اہم سیاحتی مقامات سے واقفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ تمام نمونے اتنی مہارت سے تیار کیے گئے ہیں کہ بالکل حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ سیاحوں کی علمی استعداد میں اضافے کے پیشِ نظر یہ سہولت بھی دستیاب ہے کہ مینیا ترک کی موبائل ایپلیکیشن تیار کی گئی ہے جو ’’گوگل پلے اسٹور‘‘ سے انسٹال کی جا سکتی ہے۔ اس ایپ کی مدد سے ہر نمونے کی تاریخی و ثقافتی اہمیت معلوم کی جا سکتی ہے۔ یہ معلومات آٹھ زبانوں میں دستیاب ہیں جن میں عربی، فارسی اور انگریزی بھی شامل ہیں۔

مینیا ترک کے باہر ایک ’’الٹا گھر‘‘ رکھا ہوا ہے جسے تفریحی مقام کے طور پر سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ ہم وقت کی تنگی کے باعث اس طرف نہ جا سکے، باہر سے ہی اس الٹے گھر کی زیارت کی اور روانگی کے لیے گاڑی میں سوار ہو گئے۔ ہمارے میزبان ہمیں نمازِ عصر کے لیے ایک ایسی مسجد میں لے آئے جس کا طرز مسجدِ اقصیٰ سے مشابہ تھا۔ محراب اور ستون مسجدِ اقصیٰ کی طرز پر بنائے گئے تھے۔ اس مسجد میں بھی تین اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ ایک قبر پر مشہور محدث حضرت سفیان بن عیینہ کا نام درج تھا، لیکن یہ بات محلِ نظر ہے کیونکہ آپ کی وفات مکہ معظمہ میں ہوئی تھی۔

اس مسجد سے باہر آئے تو قریب ہی ساحل واقع تھا۔ چند لمحے ساحل پر گزار کر ایک معروف ’’بوریک‘‘ ریستوران میں داخل ہو گئے۔ بوریک اناطولیہ کی روایتی سوغات ہے جسے آٹے سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں مختلف چیزیں بھری جاتی ہیں: کبھی سبزی، کبھی پنیر اور کبھی گوشت۔ پکتے وقت کافی لمبا ہوتا ہے، جب مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے تو ٹکڑے کر کے پیش کرتے ہیں جیسے ہمارے یہاں پیٹس کی شکل ہوتی ہے اسی طرح ترکی میں بوریک کی شکل ہوتی ہے، البتہ ذائقہ پیٹس سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ بوریک سے لطف اندوز ہونے کے بعد فاتح بلدیہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نمازِ مغرب اور کھانے کے لیے ایک جگہ قیام کیا۔ اس کے بعد کئی سالوں سے ترکی میں مقیم ایک مہربان اور شفیق ہستی جناب ڈاکٹر ندیم صاحب کی میزبانی میں ’’ایمی ہا‘‘ نامی ادارے کا دورہ کیا گیا۔ اس ادارے میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جمع کیا جاتا ہے اور ان کے پیشے سے متعلق معاشرتی اصلاح کے پہلو اِن پر اُجاگر کیے جاتے ہیں۔ وکیلوں، صحافیوں، طبیبوں، اساتذہ، طلبہ اور دیگر انواع کے طبقات کو یہاں مدعو کیا جاتا ہے اور عوامی فلاح و اصلاح کے حوالے سے ان کے کردار کو نمایاں کیا جاتا ہے، ان کی سابقہ خدمات کو سراہا جاتا ہے اور آئندہ کی حکمتِ عملی تیار کی جاتی ہے۔ ایک بہت وسیع آڈیٹوریم بھی موجود ہے جہاں مختلف عنوانات کے تحت خطبات اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

یہاں سے ہم اپنی رہائش گاہ آن پہنچے۔ ڈاکٹر ندیم صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک ملاقات کراچی میں ہوچکی تھی جس کی یادیں سالوں مستحضر رہیں گی، استنبول میں ان سے دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی۔ یہاں بھی ان سے اچھی گفتگو رہی، ترکی کے سیاسی حالات پر ان سے بہت استفادہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب ہم سب کواسی وقت کہیں لے جانا چاہتے تھے لیکن تھکن سےچور مسافروں میں کسی نئی منزل کی جستجو باقی نہیں رہی تھی، اور ڈاکٹر صاحب کو انکار بھی ممکن نہیں تھا، چنانچہ اس اِکسیر کا سہارا لیا گیا جو ہر مریض کو بھلا چنگا کردے۔ ہمیں حکْم ہوا کہ سب کے لیے چائے تیار کی جائے، اس کارِ خیر میں ڈاکٹر صاحب کی بہت سی قیمتی باتیں سننے سے ہم قاصر رہے لیکن چائے نے سب ساتھیوں میں ایک نیا عزم پیدا کردیا۔ ایک صاحب نےکراچی سے مٹھائی کے کچھ ڈبے تحفتا ساتھ کر دیے تھے، ان ڈبوں پر انگریزی رسم میں نجانے مٹھائی کا کیا نام لکھا تھا لیکن ہم اسے ’’سُن پاپڑی‘‘ کہتے تھے(انگریزی رسم میں اردو لکھنے کا یہی انجام ہونا تھا)۔ بہرحال، لذتِ کام و دہَن سے فارغ ہو کر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

یہ ایک محلّہ تھا جہاں مختصر ساقہوہ خانہ، کتب خانہ اور کراٹے کلب تھا۔ تعارف یوں کروایا گیا کہ اس کلب اور قہوہ خانے کو چلانے والے اسی محلے کے وہ روشن طبع لوگ ہیں جنھیں لڑکپن میں جدید سیکیولر ترکی کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ انھوں نے انتہائی چھوٹے پیمانے پر؛ بزرگوں کے مشورے سے، طلبہ کو جوڑنا شروع کیا۔ کتب کا تبادلہ، عمومی گفتگو، مباحثہ، خطاب وغیرہ ان کا طریقِ کار رہا جس سے انھوں نے ذہن سازی کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ قہوہ خانے کی آڑ میں، کتب خانے اور کراٹے کلب کےمنصوبوں میں درحقیقت ذہن سازی اور افراد کی تیاری کا کام جاری رہا۔ ان کی دیکھا دیکھی دیگر قصبوں میں بھی اس نوعیت کے سلسلے چل نکلے۔ یہ طلبہ بڑے ہوئے اور ملک و قوم کے مختلف شعبوں میں پہنچے۔ جہاں بھی گئے اس مقصد کو ساتھ لے گئے۔ یوں آج کے اسلام پسند ترکی کے لیے کوششیں اور محنتیں ہوئیں۔ کسی فردِ واحد، کسی سرکاری حکم نامے اور کسی جماعت یا ادارے سے من حیث المجموع قوموں کا مزاج نہیں بدلا جاسکتا، عوامی اصلاح ہی اس تبدیلی کی واحد وجہ ہے۔ ان عالی ہمت لوگوں کی سعی و جہد کا نتیجہ تھا کہ اس کراٹے کلب اور قہوہ خانے میں موجود نوجوان کھلے عام اذانیں سن رہے تھے، روانی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے تھے، اسلامی علوم کا حصول کچھ مشکل نہ تھا۔ انھی محنت کشوں میں ایک نام محمد علی صاحب کا تھا۔ ادھیڑ عمری میں بھی جذبہ جوان اور حوصلہ بلند تھا۔ علی صاحب ہمیں اپنے گھر لے گئے، مہمان نوازی بھی کی اور اپنے قیمتی خیالات سے مستفید بھی کیا۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو رات گہری ہو چکی تھی، رہائش گاہ واپس پہنچے اور سونے کے لیے دراز ہو گئے۔

اگلے دن یعنی ۱۷ نومبر کو ترکی کے ایک بڑے اورتاریخی شہر بورصا روانگی تھی۔ نمازِ فجر اور ناشتے کے بعد ضروری سامان جمع کیا، بورصا میں سردی کا امکان تھا اس لیے جیکٹ اور چھتری ساتھ لے کر باہر آ گئے۔ یہاں ایک سیاحتی ادارے کی گاڑی اور میزبان ہمارے منتظر تھے۔ میزبان ترکی زبان ہی جانتے تھے اس لیے ایک رہبر اور مترجم بھی ساتھ تھے جو عربی اور انگریزی روانی سے بول سکتے تھے۔ استنبول سے بورصا کا سفر شروع ہوا۔ بورصا انتہائی قدیم شہر ہے جو بحرِ مرمرہ کے کنارے کافی بلندی پر واقع ہے۔ اسے کچھ عرصہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ ہماری رہائش سے بورصا تک تقریباً تین گھنٹے کا راستہ تھا۔بورصا دیکھنے کے بنیادی طور پر تین سبب تھے: ایک راستے میں واقع طویل چیئر لفٹ جو ایک پہاڑ ’’اولو داغ‘‘ یعنی بلند چوٹی پر بنائی گئی ہے، دوسری بورصا کی جامع مسجد جسے ترکی میں ’’اولو جامی‘‘ یعنی بڑی مسجد کہتے ہیں، اور تیسرے سلطنتِ عثمانیہ کے بانی ’’سلطان عثمان اول‘‘ اور ان کے بیٹے ’’سلطان اورخان‘‘ کا مزار۔ تقریباً ایک گھنٹے کے قریب سفر کرنے کے بعد گاڑی کا رخ سمندر کی طرف ہو گیا۔ رفتہ رفتہ گاڑی ساحل کے نزدیک ہونے لگی حتی کہ سمندر سے چند میٹر کا فاصلہ رہ گیا۔ بالآخر یوں لگا کہ گاڑی سمندر میں اتر جائے گی اچانک ایک غیرمتوقع منظر نے حیرت میں ڈال دیا، ایسا منظر حقیقت میں تو درکنار کسی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل