لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024

مفتی اویس پاشا قرنی
مدیر فقہ اکیڈمی

عشرہ عربی میں دس کو کہتے ہيں ۔يہاں اس سے ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن مراد ہیں۔ان ایام کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ جو اعمال ان میں نبیﷺ نے تلقین فرمائے ہیں ان میں سے بعض واجب کا درجہ رکھتے ہیں،بعض سنتِ مؤکدہ کا اور بقیہ احکام مستحب واقع ہوئے ہیں۔اولاً ان ایام کی فضیلت کو سمجھ لینا مفید ہوگا۔

عشرۂ ذو الحجہ کے چند فضائل

سورة الفجر کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بعض قسمیں اٹھائیں ہیں۔علماےکرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب قرآن مجید میں کسی شے کی قسم اٹھاتے ہیں تو اس کا ایک مقصد ’’مقسوم بہ‘‘ کی فضیلت ظاہر کرنا بھی ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالْفَجْرِ *وَلَیَالٍ عَشْرٍ * وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾ ’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی ، اور جفت اور طاق کی‘‘۔ (سورۃ الفجر: ۳-۱) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فجر کے وقت کی قسم اٹھائی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ وقت اپنے دامن میں بہت سی فضیلتیں سمیٹے ہوئے ہے۔بعض علماے کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خاص یومِ عرفہ کی فجر مراد ہے۔اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم اٹھائی۔ان دس راتوں کو متعین کرنے میں مفسرین نے الگ الگ آرا کا اظہار کیا ہے۔لیکن اکثریت کا رجحان ذو الحجّہ ہی کی ابتدائی دس راتوں کی جانب ہے۔معلوم ہوا کہ ان راتوں کی خاص فضیلت ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے علماے کرام نے یہ بحث فرمائی کہ پورے سال میں سب سے زیادہ فضیلت کے حامل ایام کون سے ہیں۔اسی بحث کے نتیجے میں بعض حضرات نے تو ذو الحجّہ کے ابتدائی دس ایام کو رمضان کے آخری عشرے سے بھی زیادہ فضیلت کا حامل قرار دیا ہے۔اگرچہ اکثریت کی رائے اس سے مختلف ہے مگر وہ حضرات بھی رمضان کے آخری عشرے کو صرف لیلۃ القدر کے باعث افضل جانتے ہیں۔تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے جفت اور طاق کی قسم اٹھائی ہے۔اگرچہ ان کے تعیّن میں بھی بہت سے اقوال ہیں لیکن یہاں مضمون کی مناسبت سے ایک قول پیش کیا جاتا ہے،وہ یہ کہ جفت سے یوم النّحر اور طاق سے یومِ عرفہ مراد ہے۔(دیکھیے زادالمسیر از امام ابن جوزی رحمہ اللہ)

اسی طرح نبیﷺ کی ایک حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو: «مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ، قَالُوا:وَلا الجِهَادُ، قَالَ: وَلَاالجِهادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ» (بخاری شریف)’’کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جس میں اللہ کے نزدیک اچھے اعمال ذو الحجّہ کے پہلے دس دن میں کیےہوئے اعمال سے زیادہ محبوب ہوں۔ صحابہ﷢نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ آپﷺنے فرمایا :اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس نہ لائے‘‘۔معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک ان ایام کی غیر معمولی اہمیت ہے۔

عشرۂ ذوالحجہ کے چند اعمال

ذو الحجہ کے پہلے عشرے میں کئی اعمال مشروع ٹھہرائے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو مستحب و مسنون ہیں اور بعض واجب کے درجے کے ہیں ۔اب ہم ان اعمال کو ان کی فضیلت اور ان کی فقہی و شرعی حیثت و حکم کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ دین کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی کی مشابہت بھی اس کے اجر یا وزر(وبال) میں شریک کر دیتی ہے۔نیک لوگوں کی مشابہت نیکوں کے زمرے میں جبکہ فسّاق و فجّار کی مشابہت اُن ہی کے زمرے میں شریک کر دیا کرتی ہے۔اس بات کو آپﷺنے یوں تعبیر فرمایا: «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ» (سنن ابی داؤد)’’جو جس قوم کی مشابہت کرتا ہے وہ اُن ہی میں شمار کیا جائے گا‘‘۔ایک اور روایت میں فرمایا: «مَنْ کَثَّرَ سُوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْهُمْ» (مسندِ ابی یعلیٰ)’’جو کسی قوم کے پرستاروں کی تعداد میں اضافے کا ذریعہ بنے تو وہ اُن ہی میں شمار کیا جائے گا‘‘۔ایک معنی یہ بیان کیا گیا کہ دنیا میں ان میں شمار کیا جائے گا جبکہ بعض نے اسے آخرت سے متعلّق مانا ہے۔اور ایک معنی تو بالکل واضح ہے کہ وہ ان کے اجر یا وزر (وبال)میں شریک ٹھہرا دیا جائے گا۔چونکہ ان ایام میں بہت سے حضرات احرام کی پابندیوں میں حج کی عظیم عبادت ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اِن ہی میں ایک پابندی بال اور ناخن نہ کاٹنے کی بھی ہے ،اس لیے تمام اطراف و اکنافِ عالم میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دے کر حجاج کی فضیلت میں شریک کر لیا گیا۔ ارشادِ نبوی ہے: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِہٖ» (مسلم شریف)’’جب ذو الحجّہ کا مہینا شروع ہو اور تم میں سے کسی کا قربانی کا ارادہ ہو تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘۔ اس روایت میں تو صرف قربانی کا ارادہ رکھنے والے کا ذکر آیا ہے جبکہ دیگر روایات میں اس عمل کو بقیہ مسلمانوں کے لیےبھی مشروع قرار دیا گیا ہے۔ایک روایت ملاحظہ ہو: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِھَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟قَالَ :لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» (سننِ ابی داؤد)’’مجھے حکم دیا گیا ہے یوم الاضحیٰ کو عید منانے کا ،(کہ) اللہ نے اس دن کو اس امت کے لیے (عید)بنا دیا ہے۔ایک صاحب نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! اگر میرے پاس صرف ایک بکری یا اونٹنی ہو جسے میں نے کسی کام سے اجارے وغیرہ پر لیا ہو تو کیا میں اسے ذبح کر دوں۔آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ (جب بقیہ افراد ذبیحہ پیش کریں)تو تم اپنے بال اور ناخن کاٹ لینا اور موچھیں کتروا لینا اور زیرِ ناف بال صاف کر لینا، پس اللہ کے نزدیک اسی پر تمھارے لیے قربانی کا پورا پورا اجر ہوگا‘‘۔

ہمارے علماےاحناف کے نزدیک ان ایام میں بالوں اور ناخنوں کا نہ کاٹنا قسمِ مستحب میں شامل ہے یعنی پابندی پر ثواب ہے، اگر پابندی نہ بھی کرے تو گناہ نہیں ہوگا۔جبکہ حنابلہ کے نزدیک ان کا کاٹنا حرام ہے۔(۱)

دن کا روزہ اور شب کی عبادت

فضیلتِ عشرۂ ذو الحجہ سے متعلق مذکورہ روایت سے یہ بات تو واضح ہے کہ ان ایام میں کیا جانے والا ہر نیک عمل بقیہ ایام کی نسبت زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ایام کو قیمتی کس طرح بنایا جائے۔کیوں کہ دین کی اساس نبیﷺاور خیر القرون پر قائم ہے تو اس معاملے میں بھی ان ہی سے رجوع کرنا مفید معلوم ہوتا ہے۔ نبیﷺنے ان ایام میں مسلسل روزے رکھنے کی عبادت کو مشروع ٹھہرایا ہے اور ان راتوں کے لیے قیام اللیل کی خصوصی ترغیب بھی دی ہے۔ارشادِ نبوی ہے: «مَا مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا أَيَّامٌ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا، مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ، وَإِنَّ صِيَامَ يَوْمٍ فِيهَا لَيَعْدِلُ صِيَامَ سَنَةٍ، وَلَيْلَةٍ فِيهَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ» (سننِ ابنِ ماجہ)’’اللہ کے نزدیک کسی بھی دن کی عبادت عشرۂ ذو الحجہ کی عبادت سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اس کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور اس کی رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے‘‘۔

یومِ عرفہ کا روزہ

جہاں اس عشرے میں روزوں کی عمومی ترغیب دی گئی ہے وہیں یومِ عرفہ یعنی نو ذو الحجّہ کے روزے کو خصوصی اہمیت کا حامل ٹھہرایا گیا ہے۔عرفہ اس میدان کا نام ہے جہاں حجاجِ کرام نو ذو الحجّہ کو قیام فرماتے ہیں۔حدیث میں آیا: «الحَجُّ یَوْمُ عَرَفَةَ» (سننِ ابی داؤد)’’حج قیامِ عرفہ کا نام ہے‘‘۔حجاج کے لیے اس دن کی اہمیت وقوف کے اعتبار سے ہے،اس لیے حجاج اس دن کا روزہ نہیں رکھیں گے۔جبکہ بقیہ اطراف و اکنافِ عالم میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اس دن کا روزہ مشروع ٹھہرایا گیا ہے۔سنن ابی داود کی روایت ہے: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ» ( سننِ ابی داؤد)’’رسول اللہﷺنوذو الحجہ اور یومِ عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے‘‘۔ اس روایت میں نبیﷺنے روزے کی فضیلت کو نو تاریخ کے ساتھ متعلق کیا ہے،اسی لیے علما نے فرمایا کہ تمام اطرافِ عالم میں بسنے والے مسلمان اپنی رؤیتِ قمری کے اعتبار سے اس روزے کا تعین کریں گے۔عوام میں یہ بات غلط مشہورہے کہ نو ذو الحجہ کا روزہ سعودی عرب کی رؤیت کے مطابق رکھا جائے گا۔حالانکہ جس طرح رمضان و عید کے تعین میں اپنی ہی رؤیت کا اعتبار ہوتا ہے اسی طرح ۹ ذو الحجہ کی فضیلت بھی اپنی ہی رؤیت سے متعلق ہے۔اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ روزہ اصلا غیر حجاج کے لیے مشروع ہے،حجاج کے لیے اس دن روزہ رکھنا ممنوع ہے، تو یہ بات کیسے ممکن ہو سکتی ہے کہ اس کے تعین میں حجاج کی رؤیت کا اعتبار ہو۔پس معلوم ہوا کہ یہ روزہ بھی تمام مسلمان اپنی اپنی رؤیت کے اعتبار سے ہی رکھیں گے۔اس روزے کی فضیلت کو نبیﷺنے بایں الفاظ بیان فرمایا: «صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَ السَّنَةَ الَّتِیْ بَعْدَهُ» (مسلم شریف)’’یومِ عرفہ کے روزے کے بارے میں؛ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ یہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا‘‘۔ معلوم ہوا کہ عمل تو بہت ہی مختصر ہے مگر اس پر جو اجر دیا جا رہا ہے وہ نہایت قیمتی و بیش بہا ہے۔ یہ اجر و ثواب ویسے تو ہر شخص کے لیے ہے لیکن ایک بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے،لہذا ایسے گناہوں سے توبہ کےساتھ اگر یہ اعمال انجام دیے جائیں تو نہایت مفیدثابت ہوں گے۔لہذا اس فضیلت کو سمیٹنے کا خود بھی اہتمام کرنا چاہیے اور گھر والوں کو بھی اس کی ترغیب دلانی چاہیے۔

اس عشرے کا خاص عمل

ہمارے دین کا یہ مستقل قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شے کو چاہیں فضیلت بخش دیں، قرآن میں فرمایا: ﴿وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ یَخْتَارُ﴾ ’’اورتمھارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جو چاہتا ہے)پسند کرتا ہے‘‘۔(القصص: ۶۸) معلوم ہوا کہ عقل پرست شخص دین دار نہیں ہو سکتا۔جس شخص کو دین کا ہر حکم ماننے کے لیے logical reasoning سے گزرنا پڑتا ہو وہ دین کے مزاج سے آشنا ہی نہیں ہوا۔یہ دین اللہ کا ہے اور یہ اسی کے مختارِ کل ہونے کا مظہر ہے کہ وہ جس شے کو چاہے افضل قرار دے دے، اگرچہ عقل اس فضیلت کو نہ سمجھتی ہو۔مثلًا سال میں بارہ مہینے ہیں،حجم کے اعتبار سے سب ہی برابر ہیں لیکن اللہ نے رمضان کے مہینے کو بقیہ کی نسبت ایک خاص مقام دے دیا۔اسی طرح جمعے کا دن بقیہ ایام سے افضل قرار پایا۔ و علی ہذا القیاس۔آج کا جدید ذہن چاہتا ہے کہ پہلے ہر بات کو سمجھ لے اور پھر مانے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے ایسے احکام جاری کیے ہیں جن کی حکمت صرف وہ ہی جانتا ہے اور ان کی مقصدیت کو سمجھے بغیر ہی انھیں انجام دے دینا مقصود ہے جیسا کہ مضمون کے آغاز میں مفصلاً ذکر ہوا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بعض ایام میں بعض اعمال کا اجر بڑھا دیا ہے۔ویسے تو ان ایام میں تمام ہی اعمال قیمتی ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمتِ کاملہ کے تحت کوئی ایک خاص عمل بقیہ اعمال سے بھی افضل قرار پاتا ہے۔مثلًا رمضان کا ہر عمل ہی مبارک ہے مگر تلاوتِ قرآن اس مہینے کا خاص عمل شمار کیا جاتا ہے۔اسی طرح ذو الحجہ کے پہلے عشرے میں یہ اعلی فضیلت ذکر و اذکار کے ساتھ خاص کی گئی ہے۔پھر تمام اذکار میں سے بھی تسبیح، تحمید، تہلیل اورتکبیر کو افضلیت بخشی گئی ہے۔ (یہ تمام کلمات تیسرے کلمے میں جمع کردیے گئے ہیں)۔ارشادِ نبوی ہے: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ» (مُسندِ احمد) ’’کوئی دن اللہ کے نزدیک عشرۂ ذو الحجہ سے زیادہ عظمت والا نہیں ہےاور کسی دن میں کیا ہوا عمل بھی اللہ کے نزدیک ان ایام میں کیے ہوئے عمل سے زیادہ محبوب نہیں، ہےتو پس تم ان ایام میں تہلیل، تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو‘‘ ۔ تہلیل سے لا الہ الا اللہ، تحمید سے الحمدللہ اور تکبیر سے اللہ اکبر کہنا مراد ہے۔بعض روایات میں تسبیح (سبحان اللہ کہنا) کا بھی ذکر آیا ہے۔حضرت ابنِ عمراور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کا تو معمول تھا کہ آپ دونوں ان ایام میں بازاروں میں جا کر بلند آواز سے تکبیر پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ بقیہ افراد بھی ساتھ آواز یں ملا لیا کرتے تھے۔ ہماری زندگی میں کچھ اوقات ایسے ہوا کرتے ہیں جن میں لازمی طور پر کچھ نہ کچھ وقت ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔جسے آج compulsory waste of time سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خصوصًا ان ایام میں اور عمومًا پورے سال میں تمام اوقات کو اللہ کے ذکر سے حقیقتاً قیمتی بنالینا چاہیے۔ان اذکار کےعلاوہ استغفار کو بھی ایک خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے۔ہر فرد کوچاہیےکہ روزانہ کثرت سے اس کا بھی ورد کیا کرے۔

تکبیرِ تشریق

عشرۂ ذوالحجہ کے واجب اعمال میں سے ایک عمل تکبیراتِ تشریق کا ہے۔جہاں ذکر و اذکار کی عمومی ترغیب دی گئی ہے وہیں یہ خاص ذکر ایسا ہے جسے واجب ٹھہرا دیا گیا ہے۔احادیث میں دو مختلف طریقوں سے اس کا ذکر وارد ہوا ہے۔پہلا طریقہ ملاحظہ ہو: اللهُ أكْبَرُ اللهُ أكْبَرُ لَا إلٰہَ إلَّا اللهُ وَ اللهُ أكْبَرُ اللهُ أكْبَرُ و للهِ الْحَمْدُ (مصنَّف ابنِ ابی شیبہ)دوسرا صیغہ بایں الفاظ نقل ہوا: اللهُ أكْبَرُ کَبِیْرًا وَّ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ بُکْرَۃً وَّ أَصِیْلًا (کتاب الاُم، للشافعی)اس تکبیر کو دونوں ہی طریقوں سے پڑھنا جائز ہے۔اگرچہ ہمارے علماےاحناف کے نزدیک پہلا اور شوافع کے نزدیک دوسرا طریق اولیٰ ہے۔

طریقہ:۹ ذو الحجہ کی فجر سے لے کر ۱۳ ذو الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے اس تکبیر کا پڑھنا واجب ہے۔مفتیٰ بہ قول کے مطابق یہ تکبیر؛ امام، مقتدی ،منفرد، مسبوق، مرد و عورت سب ہی پر واجب ہے۔(۲) مسافر پر اصلًا تو یہ تکبیر واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ کسی مقیم امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے تو تبعًا اس پر بھی اس کا وجوب ثابت ہو جاتا ہے۔مردوں کے لیے باآوازِ بلند اور مستورات کے لیے آہستہ آواز میں اس تکبیر کا پڑھنا واجب ہے۔مرد چونکہ عمومًا مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے اس تکبیر کا یاد رکھنا آسان ہوتا ہے۔خواتین کو چاہیے کہ عمومًا گھر کے جس حصے میں نماز ادا کرتی ہیں وہاں کوئی ایسی علامت لگا لیں جو کہ ان تکبیرات کی یاد دہانی کا ذریعہ بن جائے۔لہذا وہ بھی باآسانی اس واجب کو ادا کر پائیں گی۔اگر کوئی شخص یہ تکبیرات پڑھنا بھول جائے یا نماز کے فورًا بعد قصدًا وضو توڑ دے تو اب ان تکبیرات کو نہ پڑھے۔لیکن چونکہ اس نے ایک واجب عمل کو ترک کیا اس لیے اس پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہوگا۔

یہاں ایک حکمت کی بات بھی سمجھ لینا مفید ہوگا، وہ یہ کہ جن ایام میں یا جن مقامات پر تعظیم کے باعث نیکیوں کا اجر بڑھ جایا کرتا ہے اِن ہی مواقع پر گناہ کا وزر بھی بڑھ جاتا ہے۔یہ اس لیے کہ اتنے عظیم موقعے پر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی بجائے معاصی پر گامزن رہنا شعائر اللہ کی توہین کے مرادف ہے۔لہذا ان ایام میں خصوصًا اور بقیہ ایام میں عمومًا ہر طرح کی معصیت سے بچنے کا خوب اہتمام ہونا چاہیے۔یہ کچھ وہ اعمال تھے جن کا تعلق پورے عشرے سے تھا اب چند وہ مباحث پیش کیے جاتے ہیں جن کا تعلق ۱۰ ذو الحجہ سے ہے۔

قربانی

’’قربان‘‘ عربی زبان کا مصدر ہے۔اگرچہ اردو زبان میں جس عمل کو قربانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے لیے عربی زبان میں ’’أضحیّة‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔اس کی جمع ’’أضاحي‘‘ آتی ہے اور اسی نسبت اس عید کو بھی عید الاضحیٰ کہا جاتا ہے۔قرآن مجید نے سورۂ مائدہ میں ہابیل و قابیل کے واقعے میں قربانی کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال کیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿إذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ﴾ ’’جب دونوں نے قربانی پیش کی اور ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی‘‘۔(المائدۃ:۲۷) علامہ آلوسی رحمہ اللہ روح المعانی میں اس مقام پر قربانی کی تعریف بایں الفاظ ذکر کرتے ہیں: ما یتقرب به إلی الله تعالى من ذبيحة و غيرها ’’قربانی اس شے کا نام ہے جس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے‘‘۔پچھلی امتوں میں بھی قربانی کا ایک خاص طریقہ رائج تھا جسے ’’سوختنی قربانی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔کچھ خاص مقامات طے ہوتے تھے جہاں جاکر لوگ اپنی اپنی قربانی پیش کیا کرتے تھے۔اور اگر وہ قربانی عند اللہ مقبول ہوتی تو بطورِ علامت آسمان سے ایک آگ آکر اس کو جلا دیا کرتی تھی۔اس امت کے لیے نفسِ قربانی تو برقرار رہی مگر یہ خاص طریقہ منسوخ ہو گیا۔اور یہ اس امت پر اللہ رب العزت کا خاص فضل و انعام ہے کہ قبولیت و عدمِ قبولیت کو چھپا کر سب کو عدمِ قبولیت کی رسوائی سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزِ قیامت کی رسوائی سے بھی بچائے۔ آمین

فضیلتِ قربانی

چونکہ ہم ایک مادہ پرست دور میں زندہ ہیں اور آج ہر شے مال کے اعتبار سے تولی جاتی ہے، اس لیے قربانی بھی وسائل کا ضیاع نظر آتی ہے۔بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اتنا خون بہانے سے تو بہتر ہے کہ کسی تنگدست کی مدد کر دی جائے۔تو اصولی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے،کہ ہمارے دین نے بعض اعمال چند اوقات کے ساتھ خاص کر دیے ہیں۔ایسے ہی اعمال کو اصولیّین ’’الواجب المقیّد‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص ان اوقات میں تمام اچھے کام انجام دے مگر اس واجب کو ادا نہ کرے جو ان کے ساتھ خاص ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔ان اوقات میں اصلًا اس واجب ہی کو سر انجام دینا نیکی کہلائے گا۔بعینہٖ یہ معاملہ قربانی کا ہے۔اگر کوئی شخص یوم النحر کو ہزاروں تنگدستوں کی مدد کردے تب بھی نہ وہ قربانی کے اجر کو پہنچ پائے گا اور نہ اس پر سے اس کا وجوب ساقط ہوگا۔ارشادِ نبوی ہے: «مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلاَفِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا» (سننِ ترمذی)’’یوم النحر کو ابن آدم کا کوئی عمل بھی اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔بے شک وہ جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔نیز قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔لہذا خوب خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

بقیہ جانوروں کے برعکس اونٹ کو کھڑے کھڑے ہی حلقوم پر چھری ماری جاتی ہے۔قربانی کے اس خاص طریقے کو نحر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لہذا اس روز کو یوم النحر بھی کہا جاتا ہے۔روایت میں فرمایا گیا کہ ابھی زمین پر خون کا پہلا قطرہ نہیں گرتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ قربانی شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کرنا تقوے کا اظہار ہے۔اور تقوی افعالِ قلوب میں سے ہے۔تو اللہ تعالیٰ تو ویسے ہی دلوں کے حال سے واقف ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک اصل اہمیت اسی اخلاص و تقوی کی ہوتی ہے۔اسی بات کو قرآنِ مجید نے بایں الفاظ ذکر فرمایا : ﴿لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُومُها وَلَا دِمَآ ئُها وَلٰکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾ (الحج:۳۷)’’اللہ تعالیٰ کے پاس نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمھارا تقوی پہنچتا ہے‘‘۔آخر میں فرمایا کہ اس قربانی کو خوش دلی سے انجام دیا کرو۔یعنی قربانی کرتے وقت نہ کسی مشقت کا احساس ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی کراہیت کا۔آج کل ایک عجیب رویہ چل پڑا ہےکہ بعض لوگ اپنے آپ کو اتنا مہذّب سمجھتے ہیں کہ جانور ذبح کرنے کے اس عمل سے کراہیت کھاتے ہیں۔خون بہانے کو بھی کوئی غیر مہذّب کام سمجھا جاتا ہے۔جاننا چاہیے کہ یہ رویہ ایک بد عملی ہی نہیں بلکہ تجدد و گمراہی ہے۔بندۂ مومن تو ہر صورت میں اللہ کے حکم کا پابند ہے۔جانور ذبح کرنا تونسبتًا آسان بات ہے، اگر اللہ کا حکم ہو تو اہل ایمان تو میدانِ جہاد میں انسانوں کی گردنیں مارنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔نیز اگر قربانی کرنے میں کچھ مشقت بھی ہو تو اسے گوارا کر لینا چاہیے کیونکہ یہ مشقت بھی روزِ قیامت اجر کا باعث بنے گی۔

ترکِ قربانی پر وعید

جہاں اس عظیم عبادت کو سر انجام دینے پر بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں وہیں بلا عذر اس کے ترک کرنے پر بڑی وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں۔ارشادِ نبوی ہے: «مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا» (مسندِ احمد) ’’جو شخص وسعت رکھنے کے با وجود بھی قربانی نہ کرے تو ہمارے مصلے(عید گاہ)کے قریب نہ آئے‘‘ ۔اس روایت سے ایک تو اس عمل کے بلا عذر ترک کرنے کی کراہیت کا اندازہ ہو جاتا ہے،اور دوسرا ایک اہم فقہی اصطلاح کی طرف اشارہ بھی مل جاتا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی لفظ کے اصطلاحی معنی قرآن و سنت سے نہیں اس فن کے ماہرین کے اتفاق سے طے ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کچھ اصطلاحات کے اشارے نص میں مل جایا کرتے ہیں۔جیسے کہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ قربانی ہر صاحب ِوسعت پر واجب ہے۔ مزید یہ کہ ’’مَنْ‘‘ اس مفہوم کو ادا کررہا ہے کہ ہر صاحبِ وسعت کی وسعت کا علیحدہ اعتبار ہوگا، اور ہر صاحبِ استطاعت پر علیحدہ قربانی واجب ہوتی ہےنہ کہ ایک گھر سے ایک بکری۔قربانی کا فقہی درجہ متعین کرنے میں اول دور سے کچھ نہ کچھ اختلاف رہا ہے۔احناف کے نزدیک ہر صاحب ِوسعت پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔جبکہ بقیہ ائمّہ اسے سنتِ مؤکّدہ جانتے ہیں۔(۳)

جاری ہے

حوالہ جات
(۱) فالمستحب لمن قصد أن يضحي عند مالك والشافعي أن لا يحلق شعره، ولا يقلم ظفره حتى يضحي، فإن فعل كان مكروها. وقال أبو حنيفة: هو مباح، ولا يكره، ولا يستحب. وقال أحمد: بتحريمه كذا في رحمة الأمة في اختلاف الأئمة. وظاهر كلام شراح الحديث من الحنفية أنه يستحب عند أبي حنيفة(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة، باب في الأضحية)
(۲) أما صفته فإنه واجب.وأما عدده وماهيته فهو أن يقول مرة واحدة…وأما وقته فأوله عقيب صلاة الفجر من يوم عرفة وآخره في قول أبي يوسف ومحمد – رحمهما الله تعالى – عقيب صلاة العصر من آخر أيام التشريق.(الفتاوى الهندية، كتاب الصلاة، الباب السابع عشر في صلاة العيدين، تكبيرات أيام التشريق)
(وقالا بوجوبه فور كل فرض مطلقا) ولو منفردا أو مسافرا أو امرأة لانه تبع للمكتوبة (إلى) عصر اليوم الخامس (آخر أيام التشريق، وعليه الاعتماد) والعمل والفتوى في عامة الامصار وكافة الاعصار. (الدر المختار، كتاب الصلاة، باب العيدين)
(۳) يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة، والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى. (الفتاوى الهندية، كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا)

لرننگ پورٹل