لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی


خلافتِ عباسیہ اور سلطنتِ روم

عہدِ محمد بن ہارون الرشید المعتصم باللہ (۲۱۸ تا ۲۲۷ ھ)

محمد المعتصم بن ہارون الرشید ا بن المہدی بن المنصور العباسی یہ خلیفہ مامون کے سوتیلے بھائی تھے۔ جو خلیفہ مامون کی وصیت سے خلیفہ بنائے گئے۔شروع کے چند سال معتصم کی توجہ آذربائیجان کی طرف رہی جہاں، اباحیت و مزدکیت کے پرچارک بابک الخُرَّمي نے غُل مچایا ہوا تھا۔ ۲۲۲ ھ میں جب خرمیوں پر فتح حاصل ہوئی اور ان کے قلعوں پر قبضہ کیا تو وہ روم کی سرحدوں میں داخل ہو گئے اور شاہِ روم کو مسلمانوں پر حملے کے لیے قائل کیا۔ چنانچہ ۲۲۲ھ میں رومیوں نے ایک لاکھ سے زیادہ تعداد کے لشکر سے مسلمانوں کے مقبوضہ رومی علاقوں میں مسلمانوں پر حملے شروع کیے اور زِبَطره اور مَلَطيہ کے علاقوں کو تاراج کیا اور بہت سارے مسلمانوں کو قتل اور قیدی کیا۔ اسی سانحے میں معتصم تک ایک مسلمان قیدی عورت کی خبر پہنچی تھی کہ وہ وَامُعْتَصِمَاهُ! پکار رہی تھی۔ یہ سنتے ہی خلیفہ لَبَّيْكِ لَبَّيْكِ کہتے ہوئے اپنے تخت سے اٹھے، النَّفِيرَ النَّفِيرَ کہتے جنگ کا اعلانِ عام کرتے ہوئے محل سے نکلے اور فوجوں کو تیاری کا حکم دیا۔ پھر انھوں نے بغداد کے قاضی اور دیگر معززین کو بلا کر اپنے ایک تہائی مال کی وصیت، جہاد فی سبیل اللہ اور ایک تہائی کی وصیت اپنے غلاموں اور رشتے داروں کے حق میں کی جب کہ ایک تہائی اپنی اولاد کے حق میں چھوڑا۔ دریاے دجلہ پار کر کے،خلیفہ اپنے دستوں کے ساتھ رکے اور کچھ دستوں کو زبطرہ کی طرف روانہ کیا۔ پ تا چلا کہ رومی کاروائی کے بعد اپنے علاقوں میں لوٹ گئے ہیں۔ یہ دستے م تاثرین کی مدد کے بعد واپس لوٹ آئے۔

راستے میں اطلاع ملی کہ رومی واپس چلے گئے ہیں۔ معتصم نے عموریہ پر حملے کا ارادہ کیا۔ رجب ۲۲۳ ھ میں وہ عموریہ کی طرف روانہ ہوئے اور انقرہ سے ہوتے ہوئے عموریہ کا محاصرہ کر لیا۔خلیفہ کے دو کماندارافشین اور اشناس پہلے روانہ ہو چکے تھے۔ مسلمانوں کی فوج تین حصوں میں تھی ایک حصہ اَفشین کے زیرِ کمان تھا۔ دوسرا، اَشناس جبکہ تیسرا خلیفہ المعتصم کے زیرِ کمان تھا۔ محاصرے کے دوران منجیقوں سے سنگ باری جاری رہی۔ فوج کے تینوں حصے باری باری جنگ لڑتے ایک دن ایک حصہ لڑ تا جبکہ دوسرے دن دوسرا، آخر کار چند دن کے بعد قلعہ اور شہر فتح ہو گیا۔ یہ رمضان تھا۔ کچھ دن یہاں مقیم رہنے کے بعد خلیفہ واپس ہو کر طرسوس آ گئے۔ اس فتح کے نتیجے میں مسلمانوں کو کثیر تعداد میں غلام اور مال غنیمت ہاتھ آئے۔ تیس ہزار رومی مقتول ہوئے اور تیس ہزار قیدی بنائے گئے۔ (الکامل، تاریخِ شاکر،معارک بین العرب والروم)معتصم اپنے بھائی کی طرح خلقِ قران کا قائل اور اس کا داعی تھا۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو اسی کے دور میں مبتلاے آزمائش کیا گیا۔ ۲۲۷ھ میں المعتصم شدید بیمار ہوئے۔ مرَض الموت ہی میں انھوں نے اپنے بیٹے ہارون کو خلفیہ بنا دیا اور ان کی زندگی ہی میں بیعت خلافت کا انعقاد بھی ہو گیا۔

عہدِ ہارون بن محمد الواثق باللہ (۲۲۷ تا ۲۳۲ ھ)

یہ المعتصم کے بیٹے اور مامون الرشید کے بھتیجے تھے۔اپنے والد کی طرح خلقِ قرآن کے بدعی عقیدے کے داعی تھے۔ اس کے دور میں احمد بن نصر رحمہ اللہ کو خلقِ قرآن کی اعلانیہ مخالفت کے نتیجے میں شہید کیا گیا۔ البتہ زندگی کے آخری دور میں یہ اس عقیدے سے تائب ہو گیا تھا۔ سلطنتِ روم کے ساتھ اس عہد میں کوئی خاص مہم درپیش نہ ہوئی۔ عباسی جرنیل خاقان الخادم کے ذریعے سلطنتِ روم کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ پیش آیا جس کے نتیجے دونوں طرف سے کثیر تعداد آزاد کی گئی۔ البتہ یہاں پر خلیفہ ہارون الواثق نے شقاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے تو رومی محاذ سے واپس آنے والے جرنیلوں کا خلقِ قرآن کے حوالے سے امتحان لیا گیا۔جس کے نتیجے میں ا نکار کرنے والے کئی جرنیل شہید کر دیے گئے۔ دوسرا حکم اس نے یہ جاری کیا کہ روم کی طرف سے آنے والے قیدیوں پر خلقِ قرآن کا عقیدہ پیش کیا جائے، جو اس عقیدے کی موافقت کریں انھیں قبول کیا جائے اور جو موافقت نہ کریں انھیں رومیوں کے پاس ہی چھوڑ دیا جائے۔ مسلمانوں کے پاس رومی قیدی زیادہ تعداد میں تھے۔ جو تبادلے کے بعد بچ رہے وہ احسان کرتے ہوئے رہا کر دیے گئے۔ ۲۳۲ ھ میں واثق کا انتقال ہوا۔

عہدِ جعفر بن محمد المتوکل علی اللہ (۲۳۲ تا ۲۴۷ ھ)

جعفر المتوکل بن معتصم، اپنے بھائی الواثق باللہ کے انتقال کے بعد خلیفہ بنائے گئے۔خلیفہ بننے کے وقت ان کی عمر ۲۶ سال تھی۔ یہ اہلِ سنت کے عقیدے کے قائل اور خلقِ قرآن کے منکر تھے۔امام ابنِ کثیر کے الفاظ میں ان کے دور میں سنت کا بول بالا اور بدعت کا قلع قمع ہوا۔ بعض لوگوں نے انھیں عمر بن عبد العزیز کے مثل قرار دیا ہے۔ جعفر المتوکل رحمۃ اللہ علیہ نے تمام شہروں کو خط لکھ کر خلقِ قرآن کے عقیدے کے فروغ کی ممانعت کی اور اس حوالے سے لوگوں پر سختی کو موقوف کیا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بغداد بلا کر ان کا بہت اکرام کیا۔ الواثق کے ہاتھوں شہید ہونے والے محمد بن نصر کا جسد مبارک سولی سے اتروا کر وارثوں کے حوالے کیا۔ لوگ آپ کے جسم کو دیکھنے کے لیے آتے اور عقیدت سے چھو لیتے۔ خلقِ قرآن کے پِرچارک ابنِ ابی داؤد کو معزول کیا اور امام احمد بن حنبل کی مشاورت سے یحیٰ بن اکثم کو قاضی القضاۃ مقرر کیا۔ الواثق کے وزیر ابن الزیات کو معزول کر کے سزا دی۔ اس کے علاوہ انھوں نے بدعنوانی کے خلاف کوشش کی اور عُمال اور راشی افسروں کو سزائیں دیں اور ناجائز قبضہ کیے ہوئے اموال بحق بیت المال ضبط کیے گئے۔المتوکل نے ذمیوں کے متعلق بھی بہت ساری اصلاحات کیں انھیں مسلمانوں جیسے حلیے اور لباس سے منع کیا۔

۲۳۵ ھ میں خلیفہ المتوکل نے اپنے بعد اپنے تین بیٹوں کے حق میں ولیٔ عہدی کی وصیت کی۔محمد، انھیں المنتصر کا لقب عطا کیا،زبیر انھیں المُعتَزّ کا لقب دیا اور ابراہیم کو المؤَیَّد کا لقب عطا کیا۔ جہاں تک المتوکل کے عہد میں روم کا معاملہ ہے تو ۲۳۱ ھ میں ہونے والی روم مسلم صلح کی بدولت چند سال امن رہا۔ ۲۳۸ ھ میں آرمینیا کے عیسائیوں نے بڑی بغاوت کھڑی کی اور یہاں کے امیر یوسف بن محمد بن یوسف کو شہید کر دیا۔ المتوکل نے بُغا الکبیر کو ادھر روانہ کیا جس نے عیسائیوں کو ہزیمت سے دوچار کیا۔ اسی سال رومیوں نے مصر کی جانب دِمیاط کے علاقے پر سمندری راستے سے حملہ کیا۔ تین سو جہازوں کے ساتھ انھوں نے جامع مسجد کو آگ لگائی، بہت سارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو قیدی بنا لیا اور واپس لوٹ گئے۔اس غارت گری کا جواب علی بن یحیٰ الارمنی نے بلاد ِروم پر حملہ کر کے دیا۔انھوں نے پہلے ۲۳۸ ھ اور پھر ۲۳۹ ھ میں روم کے علاقوں پر حملہ کر کے انھیں سخت سزا دی۔

۲۴۱ ھ میں، تَوفیل بن میخائل کی بیوہ اور ملکۂ روم تھیوڈورا نے بہت سارے مسلمان قیدیوں کو عیسائی مذہب اختیار کرنے کا حکم دیا اور ایسا نہ کرنے والوں کو قتل کر دیا۔ اسی سال مِصِّيصہ کی جانب عَین زَربہ کے مقام پر رومیوں نے حملہ کیا اور بہت سارے مسلمان مرد و عورتوں کو قیدی بنا لیا گیا جنھیں بعد میں تاوان لےکر چھوڑا گیا۔ اس کے بعد علی بن یحیٰ الارمنی نے روم کی طرف حملہ کیا۔اگلے سال جزیرہ کے علاقے میں شِمشاط (دریاے فرات کے ساحلی شہر) کی طرف حملہ کیا۔۔ سینکڑوں مسلمانوں کو قیدی بنا یا اور آمد شہرتک چلے گئے۔ یہان مسلمان مجاہدین اور عمر بن عبد اللہ الاقطع نے ان کا پیچھا کر نے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ کر اپنے علاقوں میں چلے گئے۔ خلیفہ المتوکل نے علی بن یحی کو بلادِ روم پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ ۲۴۳ ھ میں المتوکل نے دمشق کی طرف سے بُغا کو بلادِ روم پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا جو گرمیوں کے موسم میں یہاں داخل ہوئے۔ میخائیل بن تیوفل قیصرِ روم نے ۲۴۵ھ میں قیدیوں کے تبادلے کی درخواست دی جس پر اگلے سال کہیں جا کر عمل در آمد ہوا۔اسی سال روم نے سُمیساط (دریاے فرات کے غربی کنارے پر آباد رومی شہر جو اس وقت مسلمانوں کے قبضے میں تھا) پر حملہ کیا اور بہت ساری مسلمانوں کو قتل کیا اور پانچ سو کے لگ بھگ مسلمانوں کو قیدی بنا لیا۔اس کے جواب میں علی بن یحی الارمنی نے لگا تار دو سال روم پر حملہ کیا جبکہ ان حملوں میں عمر بن عبد اللہ الاقطع بھی شریک کماندار کے طور پر شامل تھے۔ اسی عرصے میں مسلمانوں نے سمندری راستے سے جہازوں کے ذریعے اِنضالیا پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ اس حملے میں مسلمانوں نے ۱۸ ہزار رومی قیدی بنائے۔ قیدیوں کے تبادلے میں اڑھائی ہزار کے لگ بھگ مسلمان قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔۲۴۷ ھ میں المتوکل نے اپنے بیٹے زبیر المُعتَزّ کو محمد المنتصر پر سبقت دینا چاہی اور منتصر سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حکم کو تسلیم کرے لیکن اس نے انکار کیا۔ خلیفہ کا محافظ دستہ ترک سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ منتصر نے ترک سپاہ سے ساز باز کی اور ایک رات اس نیک دل خلیفہ کو شہید کر دیا۔

المتوکل کے خاتمے پر عباسیوں کا دورِ اول ختم ہوا جو قوت اور شان و شوکت کا دور کہلا تا ہے۔ متوکل کی حکومت کا خاتمہ، دورِ زوال کی ابتدا کہلائی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ اس دور میں حکومتی معاملات میں فوج کی شرکت عام طور پر پائی جاتی تھی کہ ہر حکمران لازما فوجی بھی ہوا کر تا تھا۔ لیکن اس کے باوجود فوجی معاملات حکومت پر غالب نہیں ہوتے تھے۔ المنتصر کے ایما پر، ترک فوجیوں کے ہاتھوں خلیفہ المتوکل کی شہادت، فوجی مداخلت بلکہ غلبے کی ایک نشانی تھی۔ دورِ اول میں اگرچہ ادارۂ خلافت سے آزاد مسلمانوں کی ریاستیں موجود تھیں، مثلا تونس میں اغالبہ،اندلس میں امویہ،فاس میں ادارسہ کی حکومت لیکن دورِ ثانی میں مشرق کی طرف بھی آزاد مسلمان ریاستوں کا قیام شروع ہو گیا۔ اس کی انتہا منگولوں کے ہاتھوں سقوطِ بغداد پر ہوتی ہے۔ (تاریخ محمد الشاکر)

محمد بن جعفر المنتصر باللہ (۲۴۸ ھ)

یہ اپنے باپ کو قتل المتوکل کر کے خلافت پر قابض ہوا تھا۔ فوج میں ترکی افسروں کا غلبہ تھا۔ جو المتوکل کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔ وہ اس بات سے خائف تھے کہ منتصر کے بعد اس کے دوسرے بھائی جو ولیٔ عہد مقرر ہو چکے تھے خلیفہ نہ بن جائیں۔ ان افسران کے مشورے اور دباؤ پر المنتصر نے دھونس اور دھاندلی سے دونوں ولیٔ عہدوں سے استعفی لے لیا۔ لیکن اسی دوران المنتصر بیمار ہو کر راہیٔ ملکِ عدَم ہوا۔وہ صرف ۶ ماہ ہی تخت پر بیٹھ سکا تھا۔ اس کے دور میں شاہِ روم نے بلادِ شام پر چڑھائی کے لیے پیش رفت کی۔جس کے جواب میں خلیفہ المنتصر نے وصیف ترکی کو ایک لشکر جرار کے ساتھ روم پر چڑھائی کا حکم اس تاکید کے ساتھ دیا کہ لڑائی سے فارغ ہو کر سرحدوں پر مقیم رہے تا کہ آئندہ بروقت جوابی کاروائی کی جا سکے۔ (تاریخِ ابن کثیر)

احمد بن محمد المستعین باللہ (۲۴۸ تا ۲۵۲ ھ)

منتصر کے انتقال کے بعد فوجی افسران نے احمد بن محمد المعتصم کو خلیفہ بنایا جو منتصر کے چچا تھے۔المستعین کے دور میں عمر بن عبد اللہ الاقطع کی زیرِ قیادت، ملاطیہ کی طرف رومیوں سے جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ سپاہ سالار سمیت ایک ہزار مسلمان شہید ہوئے۔بدلے کے طور پر نامور کماندار علی بن یحی الارمنی نے رومی علاقوں پر حملہ لیکن یہاں بھی وہی صورت پیش آئی کہ کمانڈر چار سو مسلمانوں سمیت شہید ہو گئے۔اس سے مسلمانوں کو بہت مشکلات پیش آئیں۔ المستعین کا دور بہت پر آشوب تھا۔ان کے عہد میں طبرس تان، حمص، کوفہ، قزوین وغیرہ میں شورشیں برپا رہیں۔ کچھ ترک فوجی افسر خلیفہ سے ناراض ہو گئے۔ انھوں نے سابقہ ولیٔ عہد المعتز کو جیل سے فرار کرا کر سامراء پہنچایا جہاں ان کی بیعت کی گئی۔اس کے بعد سامراء سے ایک لشکر بغداد پر حملہ آور ہوا۔ غیر فیصلہ کن لڑائی کے بعد ایک معاہدے کے تحت المستعین باللہ مستعفی ہو گئے اور المعتز کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت کر لی گئی۔

زبیر بن جعفر المعتز باللہ (۲۵۲ تا ۲۵۵ ھ)

یہ المتوکل کے بیٹے اور سابقہ ولی العہد تھے۔ ان کا نام محمد بن جعفر بھی ب تایا گیا ہے۔ان کے دور میں افراتفری ہی رہی۔ امَرا کی محاذ آرائی کے علاوہ خوارج نے بھی غُل مچائے رکھا۔ روم کے ساتھ ایک معرکہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔۲۵۵ ھ میں معتز نے استعفی دے دیا۔ امرا نے ان کے ساتھ نہایت اہانت آمیز سلوک کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ چند دن بعد یہ جاں بحق ہو گئے۔

محمد بن ہارون المہتدی باللہ (۲۵۵ تا ۲۵۶ ھ)

محمد بن ہارون ؛المعتز کے چچا زاد تھے۔ یہ ایک نیک دل اور عبادت گزار آدمی تھے۔ جب المعتز کو معزول کیا گیا تو محمد بن ہارون کو بغداد سے سامراء بلا کر ان سے بیعت لینے کی درخواست کی۔ا نھوں نے المعتز سے ملاقات کیے بغیر بیعت سے انکار کیا اور ملاقات پر المعتز کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا۔ جب معتز نے خود خلافت سے عاجزی کا اظہار کیا اور سب سے پہلے خود المہتدی کے ہاتھ پر بیعت کی تو انھوں نے خلافت کے منصب کو قبول کیا۔ (تاریخِ شاکر)

یہ لگا تار روزے رکھا کرتے۔ ناچ گانے اور موسیقی سے پرہیز کرتے۔ بہت معمولی کھانا کھایا کرتے۔ ان کا گھر بھی سادہ سا تھا اور اس میں سازو سامان بھی بقدرِ ضرورت اور عام سا تھا۔ یہ کہا کرتے کہ میں عمر بن عبد العزیز کی راہ پر چلنا چاہ تا ہوں۔ انھوں نے ناچ گانے پر پابندی لگائی۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا انتظام کیا اور لوگوں کے مسائل سننے کے لیے کھلی کچہری لگایا کرتے۔ امرا اور کمانداروں کے ہاتھوں، خلفا کی اہانت و معزولی کا انھیں رنج تھا اور انھوں نے اس رواج کو بدلنے کی کوشش کی۔لیکن ناکام رہے اور باغی فوجوں کے خلاف جنگ میں شکست کھا کر مقتول ہوئے۔المہتدی کی حکومت ایک سال پر محیط رہی،جس میں رومی محاذوں پر کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔

احمد بن جعفرالمعتمد علی اللہ (۲۵۶ تا ۲۷۹ ھ)

المہتدی باللہ کے بعد احمد بن جعفر ؛ المعتمد علی اللہ کے لقب کے ساتھ خلیفہ بنائے گئے۔ ۲۶۱ ھ میں انھوں نے اپنے بیٹے جعفر کو ولیٔ عہد بنایا اور اس کے بعد اپنے بھائی المُوَفَّقْ کو ولیٔ عہد مقرر کیا۔ان کے بھائی ایک لائق اور انصاف پسند شخصیت تھے اور حکومت کے اکثر اختیار انھی کے پاس تھے۔ خلیفہ نے خوش ہو کر انھیں ناصر الدین کا لقب عطا کیا تھا۔ ۲۷۸ھ میں الموفق کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ ان کے بیٹے احمد بن الموفق کو ولیٔ عہد مقرر کیا گیا اور خلیفہ نے اپنے بیٹے جعفر کو معزول کر دیا۔ اگلے سال ۲۷۹ ھ میں خلیفہ کا انتقال ہو گیا۔ المعتمد کا دور داخلی انتشار سے بھرپور تھا۔ عبیدیوں کی تحریکِ زَنج، قرامطہ، اسماعیلیہ، صفاریہ کے علاوہ علوی تحریک نے بھی سرکشی کی۔ خلافتِ بغداد کی زیادہ تر صلاحیتیں انھی لڑائیوں سے نمٹنے میں صرف ہوئیں۔ مصر میں ایک عرصے سے ترک امیر، احمد بن طولون کی خود مخ تار لیکن خلافتِ بغداد کی دوست ریاست قائم تھی۔ ابنِ طولون کے بعد اس کے بیٹے خمارویہ کی حکومت میں مصر اور بغداد کے مابین کشیدگی اور لڑائی ہوئی لیکن پھر صلح ہو گئی۔

روم کے حالات

۲۵۷ ھ میں بَسيل الصَّقلَبی نام کماندار، شاہ ِروم میخائل کو قتل کر کے تخت پر براجمان ہوا۔ اس کے بعد روم مسلم لڑائیوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ ۲۵۷ ھ میں رومیوں نے ملطیہ پر حملہ کیا مسلمانوں نے کامیابی سے دفاع کیا لیکن ۲۶۰ ھ میں انھوں نے مسلمانوں سے لولوۃ شہر چھین لیا۔ ۲۶۴ ھ میں مسلمان عبد اللہ بن رشید بن کاؤس کی قیادت میں بلادِ روم پر حملہ آور ہوئے لیکن شکست کھا کر پسپا ہوئے اور مسلمان کماندار بھی قیدی بنا لیے گئے۔۲۶۵ ھ میں احمد بن طولون انطاکیہ کی طرف سے روم میں داخل ہوئے لیکن اہلِ روم نے ان سے صلح کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔ اسی سال روم نے اناطولیہ کے علاقے اضنہ کی طرف سے حملہ کیا اور چار سو مسلمان قیدی بھی ساتھ لے گئے۔ ۲۶۶ ھ میں انھوں نے دیار بکر کی طرف لوٹ مار کی اور ۲۵۰ مسلمان قیدی ساتھ لےگئے۔ البتہ جزیرہ کے علاقے نصیبین کے مسلمانوں نے پیچھا کر کے حملہ کیا اور رومیوں کو شکست دی اور ان کا کماندار مارا گیا۔۲۶۶ ھ میں ابنِ طولون کی فوج شام کی طرف سے بلادِ روم میں میں داخل ہوئی اور باوجود قلتِ تعداد کے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور رومیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ ۲۷۰ ھ میں رومیوں نے ایک لاکھ کے لشکرِ جرار کے ساتھ طرسوس کی طرف سے حملہ کیا۔ یہاں مسلمانوں نے انھیں شکست دی، ان کے کماندار سمیت بڑی تعداد مقتول ہوئی۔ ۲۷۴ ھ میں میں یازمان الخادم نے بلادِ روم پر حملہ کیا اور اور فتح پائی۔ بہت سارے رومی قتل ہوئے اور مسلمانوں کو بھاری مالِ غنیمت حاصل ہوا۔ (تاریخِ شاکر، ج: ۶، ص: ۶۴ تا ۷۷)

جاری ہے

لرننگ پورٹل