لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

مولانا حماد احمد ترک
نائب مدیر ماہنامہ مفاہیم کراچی

مسجد کے وسیع صحن میں ہر طرف لوگ نظر آ رہے تھے۔ کہیں بیٹھے ہوئے، کہیں چلتے پھرتے ہوئے اور کہیں کھاتے پیتے ہوئے۔ بچوں کی بھی کثیر تعداد تھی۔ وجہِ تعجب اگرچہ واضح ہے لیکن پھر بھی عرض کیے دیتے ہیں:وہ ترکی جہاں کبھی اذان پر پابندی تھی، حجاب ممنوع، داڑھی رکھنا جرم اور عربی رسم غیر قانونی تھا۔ آج وہاں نمازوں میں اتنی رغبت باعثِ حیرت و خوشی کیوں نہ ہوتی۔ اکثریت مقامی خواتین و حضرات کی تھی۔ یہ وہ استنبول ہے جہاں دنیا کے ہر کونے سے سیاح آتے ہیں اور عیش کوشی کا ہر سامان یہاں میسر ہے۔ اس کے باوجود کسی مسجد میں اتنا ہجوم بلاشبہہ قابلِ رشک ہے اور دین دوستی کا ثبوت ہے۔ قارئین کو مسجد لے جانے سے قبل ہم ایک اہم پہلو کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں:وہ یہ کہ سلطان محمد فاتح مسجد میں غیر مقامی سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ستم یہ ہے کہ دوردراز اسلامی ممالک سے سیاح استنبول آتے ہیں لیکن نہ سلطان کی مسجد کی زیارت کرتے ہیں نہ سلطان کی مرقد پر حاضر ہوتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری فاتح بلدیہ میں سیاحوں کی آمد معدوم ہے۔ انھیں سیاحتی ادارے اس طرف کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے اور نہ ہی لوگ اس طرف آتے ہیں۔ جبکہ سلطان محمد فاتح کی عظمت کے لیے اس سے زیادہ اورکیا کہا جائے کہ حدیث پاک میں انھیں نعم الأمیر(بہترین سالار) کہا گیا۔ بہرحال؛جس وقت ہم احاطے میں داخل ہوئے تو نمازِعشا کا وقت قریب تھا۔ اذان شروع ہو چکی تھی۔ یہاں اذان اور نماز میں زیادہ وقفہ نہیں ہوتا، لہٰذا مسجد کے داخلی حصے کی طرف روانہ ہو گئے۔ نمازِعشا باجماعت ادا کی۔ نماز کے بعد معمول کے موافق امامِ مسجد نے تلاوت کی۔ جب دعا ہو چکی تو استادِ محترم نے فرمایا کہ فتحِ استنبول کے شکرانے اور سلطان کے ایصالِ ثواب کے لیے سورۃالفتح کی تلاوت کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ پھر مسجد سے باہر نکل آئے۔

مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے ایک چھوٹے دروازے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس پر سورۃالنساء کی آیت نمبر ۱۰۳ ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾ (بیشک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے)درج ہے۔ داخل ہوتے ہیں تو سامنے وضوخانہ ہے۔ عموماً تمام مساجد میں وضوخانے کا انداز یکساں ہے۔ صحن کے وسط میں دائرے کی شکل میں تعمیرشدہ ان وضوخانوں پر جنھیں ترکی میں شادریوان کہتے ہیں چھتری نما چھت ہوتی ہے۔ نلکوں کا انداز نہایت شاہانہ ہے۔ نلکہ کھولتے ہوئے بھی فخر محسوس ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ نلکا نہیں کوئی شاہی قفل ہاتھوں میں ہے۔ عثمانیوں کے یہاں مساجد کی خوبصورتی اور تزئین و آرائش کا نہایت اہتمام ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، ہر تہذیب اپنی نمائندہ عمارات کی تزئین کا اہتمام کرتی ہے۔ جس طرح یورپ میں بازاروں کی آرائش و زیبائش کا خوب اہتمام نظر آئے گا کہ ان کو وہاں مرکزی اہمیت حاصل ہے اسی طرح مسلمانوں میں مساجد کی زیب و زینت کا اہتمام نظر آئے گا کہ یہ شعائرِ اسلام کی عظمت کا ذریعہ ہے۔

مسجد کے داخلی دروازے پر دو سطری کتبے پر عربی رسم میں سلطان کا نام درج ہے۔ اس سے ذرا نیچے مسجد کے آداب کی رعایت اور زائرین کے وقت کو باعثِ اجر بنانے کے لیے نویت الاعتکاف(میں نیت کرتا ہوں اعتکاف کی)لکھا ہوا ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی نظر اوپر کو اٹھتی ہے تو چھت سے معلق خوبصورت فانوس نظر آتےہیں۔ ذرا آگے بڑھیں تو مسجد کے درمیانے گنبد پر نظر ٹھہر جاتی ہے جہاں جلی انداز میں خلفاےاربعہ کا نامِ نامی درج ہے جبکہ باقی جگہ دیگر عشرۂ مبشرہ کے اسماےگرامی لکھے ہوئے ہیں۔ داخلی دروازے کی اوپر والی دیوار پر حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے اسماے مبارک تحریر ہیں۔

مسجد سے باہر نکل کر بائیں طرف بڑھیں تو متعدد اولیا اور علما کی قبور ہیں جن کے گرد آہنی جنگلا لگا ہوا ہے۔ اسی جنگلے کے ساتھ بائیں طرف چلتے ہوئے تھوڑا سا آگے بڑھے تو سلطان محمد فاتح کا مزار نظر آیا۔ اس وقت مزار بند تھا چنانچہ باہر ہی سے فاتحہ خوانی کی۔ سلطان کی مسجد اور مرقد دونوں ہی انواروتجلیات کا مظہر ہیں۔ یہاں آنکھیں کم اور دل زیادہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ جو کچھ قلم بند ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ قلب پر نقش رہتا ہے ’’لب پر نہیں آ سکتا‘‘ ۔ سلطان محمد فاتح جنھیں محمدِ ثانی کہا جاتا ہے(محمدِ ثانی اس لیے کہ ان سے قبل بھی ایک عثمانی سلطان گزرے ہیں جنھیں محمد اول کہا جاتا تھا) نے کم سنی میں سلطنتِ عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالی۔ محض ۲۱ سال کی عمر میں بازنطینوں کے آخری قلعے کو چھین کر عظیم قسطنطنیہ کی فتح اپنے نام کی۔ مسندِ احمد کی روایت ہے:آپﷺنے بشارت دی تھی: ’’لازماً قسطنطنیہ فتح ہو گا اور کیا ہی بہترین امیر ہو گا وہ امیر(جو اسے فتح کرے گا)اور کیا ہی بہترین ہو گا وہ لشکر‘‘ ، اس بشارتِ نبوی کا سہرا سلطان کے سر بندھا۔ اس فتح کا قصہ بھی کیا خوب ہے۔ جتنا بیان کرتے ہیں اتنا ہی لطف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ اول اول تو سامع کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا۔

بہترین حفاظتی حصار، مضبوط فصیل اور گہرے پانیوں سے محفوظ اس بازنطینی قلعے کو سلطان نے اللہ کی مدد اور بہترین منصوبہ بندی سے فتح کیا۔ دفاعی لحاظ سے اس شہر میں داخلے کی واحد صورت بحری راستہ تھا جس پر ایک مضبوط زنجیر لگائی گئی تھی اور زنجیر کے اردگرد سپاہیوں کی بڑی تعداد شہرپناہ کی چوکیوں پر مامور تھی۔ سلطان نے راتوں رات سمندر کے ایک حصے سے بحری جہازوں کو زنجیر کے اس پار منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت بحری جہازوں کو خشکی کے ایک حصے سے گزرنا تھا۔ اس کے لیے لکڑی کے تختے بچھائے گئے، اس پر جانوروں کی چربی ملی گئی اور بحری جہازوں کو مضبوط رسیوں کے ساتھ گھوڑوں سے باندھا گیا اور خشکی سے گزار کر زنجیر کے اس پار اتارا گیا۔ یہ کام اس قدر غیر متوقع تھا کہ بازنطینی اس اچانک حملے کی تاب نہ لاتےہوئے شکست کھا گئے اور تین محاذوں پر جنگ کرتے ہوئے اسلامی لشکر نے ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ فتح کیا۔

سلطان کی مرقد سے واپس اولیا کی قبور والے احاطے میں آئے تو استادِ محترم نے بتایا کہ انھیں قبور میں سے ایک قبر عظیم ولی اللہ اور جید عالمِ دین شیخ امین سراج رحمۃاللہ علیہ کی ہے۔ شیخ نےجامعہ ازہر میں کئی سال علومِ دینیہ کے تحصیل کی۔ ترکی لوٹے تو علامہ زاہدالکوثری علیہ الرحمۃ سے استفادہ کیا۔ علامہ زاہد الکوثری سلطنتِ عثمانیہ میں وزیرِ معارف تھے۔ آپ کی ذات علومِ دینیہ کا وہ بحرِ کراں تھی جس نے حنفیہ کے مستدلات اور گراں قدر فقہی ذخیرے کو از سرِ نو زندہ کیا اور وکیلِ احناف کہلائے۔ شیخ امین سراج روے ارضی پر آپ کے آخری شاگرد تھے۔ شیخ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نےاسلام کے عظیم علمی ذخیرے کوعثمانی دور سے لے کر لادینیت سے واپسی کی طرف مائل ترکی تک منتقل کرنے میں ایک پل کا کردار ادا کیا۔سیکیولر ترکی کے تمام دورانیے میں شیخ اس روایت کو مسلمانوں میں منتقل کرتے رہے حتی کہ ترکوں میں پھر سے اسلامی شعور اور روایات کی طرف رجوع کا رجحان پیدا ہوا اور اب متعدد علما خَم ٹھونک کر اس میدان میں اتر آئے ہیں۔ صد شکر کہ ہمیں بھی حضرت شیخ امین سراج رحمہ اللہ سے نسبت حاصل ہے، اور وہ اس طرح کہ ہمارے اساتذہ میں سے استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب دامت برکاتہ اور اور استاذِ گرامی حضرت قبلہ مفتی اویس پاشا قرنی صاحب مد ظلہ دونوں کو شیخ امین سراج رحمہ اللہ سے اجازتِ حدیث حاصل ہے اور دونوں ہی اساتذہ نے ہمیں شیخ کی مرویات کی اجازت مرحمت فرمائی۔ الحمد للہ رب العلمین!

شیخ کی علمی خدمات کا تذکرہ کچھ یوں ہے کہ آپ نے سلطان فاتح مسجد کو تعلیم و تعلم کا مرکز بنایا اور علومِ شرعیہ کی نہریں جاری کیں۔ ہزاروں علما و طلبہ آپ سے مستفید ہوئے۔ کئی قیمتی کتب کا ترکی زبان میں ترجَمہ کیا۔ قرآن اور حدیث کو ترکوں میں پھر سے زندہ کیا۔ قضیۂ فلسطین کے لیے ماحول سازگار بنایا اور ترکی کے مسلمانوں کو القدس کی اہمیت و فضیلت سے رُوشناس کرایا۔ آپ نے مصطفٰی کمال کے جدید جمہوریہ ترکی کو اسلامی روایت اور اقدار سے قریب کیا اور تیزی سے لادینیت کی طرف رواں دواں ترکی کی رفتار کو سست کر دیا۔ شیخ امین سراج اور ان ایسے دیگر علماے کرام کی خدمات نے سیکیولر ترکی کا منصوبہ ناکام بنانے میں اہم کردار اداکیا۔ گزشتہ برس یعنی ۲۰۲۱ء میں شیخ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون

اندھیرے میں شیخ کی قبر تلاش کرنے میں کچھ وقت لگا۔ قبر کی شناخت کے بعد فاتحہ پڑھی اور وہاں سے مسجد کے دوسرے حصے کی طرف بڑھے۔ یہاں کئی کمرے اور عمارتیں نظر آئیں۔ معلوم ہوا کہ یہ اپنے زمانے میں درس گاہیں اور طلبہ کے رہائشی کمرے تھے۔ سلطان فاتح مسجد کے باہر ایک کتبہ نصب ہے جس میں اس پورے منصوبے کو فاتح سوشل کمپلیکس کہا گیا ہے، اس کتبے پر یہ تحریر لکھی ہوئی ہے: ’’یہ کمپلیکس محمدِ ثانی کا تیار کردہ ہے۔ اسے ۱۴۶۳ء سے۱۴۷۰ء کے درمیان ماہرِ تعمیرات عتیق سنان نے تعمیر کیا۔ ترکی کے اسلامی تعمیراتی ورثے کا یہ سب سے بڑا کمپلیکس ہے جس میں طلبہ کے لیے درس گاہیں، ایک کتب خانہ، ایک ہسپتال، محتاجوں اور فقیروں کی امداد اور داد رسی کے لیے ایک غریب خانہ، مسافر خانہ، چنددکانیں، سلطان کا مزار اور غسل خانے شامل ہیں۔ اصل مسجد تو کسی زمانے میں منہدم ہو گئی تھی۔ آج جو مسجد موجود ہے اسے سلطان مصطفٰی ثالث نے۱۷۶۷ء میں ماہرِتعمیرات محمد طاہر آغا سےتعمیر کروایا۔ موجودہ تعمیرسابقہ تعمیر سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے مرکزی گنبد کا قطر ۲۶میٹر ہے جو چار ستونوں پر کھڑا ہے۔ چار نصف گنبدوں، دو میناروں اور دو بالکونیوں کے ساتھ فنِ تعمیر کا شاہ کار ہے۔ گنبدوں پر انتہائی عمدہ اور نفیس آرائش و زیبائش نظر آتی ہے۔ آرائشی کام میں یورپی طرزِتعمیر کا عکس بھی جھلکتا ہے۔ مسجد کے دونوں طرف درس گاہیں قائم ہیں، کچھ درس گاہیں سڑک کی تعمیر میں منہدم ہو گئیں اور تقریباً ۸ درس گاہیں اب بھی موجود ہیں۔ قبلہ کی سَمت میں ایک کتب خانہ موجود ہے جو ۱۷۴۲ء میں قائم ہوا، اس کے دو دروازے اور ایک گنبد ہے‘‘ ۔

مسجد سے باہر آئے تو ہم نے خود کو ایک بازار میں پایا جو ’’مالٹابازار‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ کچھ دیر بازار میں گھومنے کے بعد عشائیے کے لیے ایک شامی ریستوران میں داخل ہوئے۔ اندر بے پناہ رش تھا۔ پھر بھی ایک کونے میں جگہ مل گئی۔ شامیوں کا خاصہ شاورما ہے لہٰذا اسی کی فرمائش کی گئی۔ کھانے کی تیاری میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ سکتا تھا۔ ایک دوست نے اسی دوران دلائل الخیرات شریف کی منزل پڑھنی شروع کر دی۔ ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہو گئے۔ ادھر منزل ختم ہوئی اور ادھر کھانا آ گیا۔ شاورمے تو پہلے بھی بہت کھائے تھے لیکن پہلی بار حقیقی شاورما نصیب ہوا۔ بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے شاورموں اور اس ’اصلی شامی شاورمے‘ میں وہی فرق تھا جو کراچی اور پنجاب کی بریانی میں ہوتا ہے۔ اتنی مماثلت تھی کہ دونوں ہم نام تھے۔ باقی، اجزاے ترکیبی، بناوٹ، ذائقے اور تاثیر میں ایسی مخالفت تھی جیسی بھیڑ اور بھیڑیے میں۔ کھانا کھا کر باہر آئے تو ایک دکان سے ’کُنافہ‘ لیا۔ کُنافہ ایک عرب روایتی میٹھی سوغات ہے اور عربوں کا ہی خاصّہ ہے۔ کُنافہ کھانے کے بعد بازار میں چہل قدمی کی۔ کھجور اور زیتون انواع و اقسام کے سجے ہوئے تھے۔ اور بھی کئی مقامی سوغاتیں نظر آ رہی تھیں۔ اسی بازار میں دائرے کی شکل میں بنی ہوئی قدیم عثمانی طرز کی پانی کی سبیل نظر آئی جس کی ہر جانب غالباً ترکی زبان میں اشعار لکھے ہوئے تھے۔ خطاطی عربی رسم میں تھی اس لیے الفاظ پڑھے جا سکتے تھے۔ البتہ قابلِ فہم صرف محمود خان کا نام تھا۔

بازار سے واپسی کا سفر کچھ طویل ہے، چنانچہ آپ کو ایک دلچسپ نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہیں تاکہ راستہ بھی کٹتا رہے اور وقت بھی کارآمد ہوجائے۔ نکتہ یہ ہے کہ مساجد کو حدیث شریف میں پسندیدہ ترین اور بازاروں کو مبغوض ترین مقامات قرار دیا گیا ہے۔ جب یوں ہے تو پھر سلطان فاتح مسجد کا دروازہ بازار میں کیوں کھلتا ہے؟ صرف اسی مسجد کا نہیں، مسجد ایوب سلطان، بادشاہی مسجد، دلّی کی جامع مسجد وغیرہ وغیرہ۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ مسجد سے متصل دکانوں کی آمدنی مسجد کے لیے وقف ہوتی تھی، لہذا مسجد کے اخراجات کے لیے کبھی کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسجدیں صرف عبادت گاہ نہیں علمِ دین کی تحصیل کامرکزبھی ہوا کرتی تھیں، اور مسلمان بالخصوص مساجد میں مقیم علما و طلبہ ضروریاتِ زندگی کے لیے دور دراز نہ گھومتے پھریں، مسجد سے نکلیں اور ضرورت کے موافق خریداری کر کے واپس آجائیں، دنیا کی دیگر رنگینیوں میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔

یہاں سے رہائش گاہ کی طرف سفر شروع کیا تو ایک مقام پر سحلب نامی مشروب نظر آیا۔ ایک صاحب کے حلق میں کچھ تکلیف تھی، انھیں یہ اجنبی مشروب اپنے حلق کے لیے مفید معلوم ہوا(نہ جانے قبل ازاستفادہ، افادیت کے کیونکر قائل ہوئے)بہرحال ایک پیالہ انھوں نے حاصل کر لیا۔ یہ قہوے سے مماثل ایک میٹھا مشروب تھا جو گرم مسالوں اور دیگر اجزا پر مشتمل تھا۔ ذائقہ نہایت عمدہ تھا۔ ذائقے کی شہرت نے سب کو اس کا مشتاق کر دیا۔ پیالہ ایک تھا اور امیدوار متعدد۔ باری باری ہم سب نے اس کا لطف لیا۔ گرم اس قدر تھا کہ یک بارگی بڑا گھونٹ لینا ممکن نہ تھا، پھر بھی اس مختصر سےگھونٹ کے لطف کا دورانیہ اتنا طویل تھا کہ دوسرا دور چلنے تک وہ دہن کو مشغول رکھتا تھا۔ ان ہلکی پھلکی چسکیوں کی بدولت سحلب کے دور چلتے رہے اور فاصلہ کم ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ کارا گمرک اپنی رہائش پر آن پہنچے۔ سب ہی تھکے ہوئے لگ رہے تھے لہٰذا اپنے اپنے بستروں پر دراز ہو گئے۔

نمازِ فجر میں اٹھانا ایک ساتھی نے اپنے ذمے لے لیا۔ مستقل چلنے کی وجہ سے نیند بھی خوب آئی۔ رات جتنی گہری ہوتی جاتی تھی موسم بھی مزید سرد ہوتا جاتا تھا۔ خیر، نمازِفجر کے قریب ہڑبڑاہٹ سے نیند ٹوٹ گئی اور آنکھ کھلی تو باہر شور سا محسوس ہوا۔ یہ تو پہلے ہی دیکھ چکے تھے کہ ہماری رہائش کے بالکل سامنے تھانہ واقع تھا۔ اس شور اور آگے پیچھے گاڑیوں کی آمد نے تشویش میں ڈال دیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لوگ ہیں جو سامان ادھر سے ادھر لے جاتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کو آوازیں دیتے تھے اور کبھی بھاری سامان کھینچتے تھے۔ نمازِ باجماعت ادا کر کے تجسس و تشویش کورفع کرنے کے لیے جیسے ہی کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ نظارہ غیر متوقع تھا۔ آنکھیں حیرت سے پھیل سی گئیں۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل