احمد جاوید
معروف شاعر، نقاد اور دانشور
تھا جانبِ دل صبح دم وہ خوش خِرام آیا ہوا |
آدھا قدم سوے گریز اور نیم گام آیا ہوا |
رقص اور پاکوبی کروں، لازم ہے مجذوبی کروں |
دیکھو تو ہے میرا صنم، میرا امام آیا ہوا |
دریاے درویشی کے بیچ، طوفان بے خویشی کے بیچ |
وہ گوہرِ سیراب، وہ صاحِبْ مقام آیا ہوا |
اے دل بتا! اے چشم کہہ! یہ روے دل بر ہی تو ہے |
یا ماہ؛ چرخِ ہفت میں بالاے بام آیا ہوا |
ہے ذرہ ذرہ پُر صدا، اہلا و سہلاً مرحبا |
کیا سر زمینِ دل پہ ہے وہ آج شام آیا ہوا |
تجھ پر پڑی یہ کس کی چھوٹ، اے چشمِ حیراں کچھ تو پھوٹ |
کیا حدِّ بینائی میں ہے وہ غیب فام آیا ہوا |
لرزاں ہے دل میں راز سا، شعلہ قدیم آوام سا |
یا لالۂ خاموش پر رنگِ دوام آیا ہوا |
ہے موسمِ دیوانگی، پھر چاک ایجاد مری |
لوٹا رہے ہیں پہلے کا خیاط کام آیا ہوا |
میری طرف سے اے عزیز، دل میں نہ رکھنا کوئی چیز |
پھرتے بھی دیکھا ہے کہیں صاحِبْ غلام آیا ہوا |
خورشید سامانی تری اور ذرہ دامانی مری |
ہے عجوبہ دیکھنے ہر خاص و عام آیا ہوا |
اک گرد اڑی صحرا سمیت، اک موج اٹھی دریا سمیت |
دنیاے خاک و آب میں تھا کوئی شام آیا ہوا |
یک عمر رفتاری کے ساتھ، یک ماہ سَیّاری کے ساتھ |
یک چرخ دوَّاری کے ساتھ، گردش میں جام آیا ہوا |
صد چشم بیداری کے ساتھ، صد سینہ سرشاری کے ساتھ |
سو سو طرح شہبازِ دل ہے زیرِ دام آیا ہوا |