لاگ ان

جمعہ 20 محرم 1446 بہ مطابق 26 جولائی 2024

لاگ ان

جمعہ 20 محرم 1446 بہ مطابق 26 جولائی 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 20 محرم 1446 بہ مطابق 26 جولائی 2024

جمعہ 20 محرم 1446 بہ مطابق 26 جولائی 2024

صوفی جمیل الرحمان عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم

شام عہدِ اسلام میں

موضوع پر کلام سے قبل ایک ضمی بات سمجھ لینی چاہیے اور وہ یہ کہ شام کے دامن ِاسلام میں آنے کے بعد بھی شرار ِ رُومی کی ستیزہ کاری جاری رہی۔اس کا پَسْ منظر یوں ہے کہ مسلمانوں نے دونوں پڑوسی طاقتوں،فارس اور روم کو شکست تو دے دی تھی لیکن ان کی شکست میں ایک فرق تھا۔شاہِ فارس کی پوری سلطنت مسلمانوں نے فتح کر لی تھی اور دنیا میں سے آتش پرستوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔یہ نبی کریمﷺکی اس پیش گوئی کے مطابق تھا کہ جب شاہِ فارس نے رسول اللہﷺکے نامۂ مبارک کوچاک کیا تو آپﷺنے فرمایا تھا کہ عنقریب اس کی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ لیکن سلطنتِ روم کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔اسلام سے شکست کھا کر اس کی وسعت و طاقت میں تو زوال آیا لیکن وہ اپنی ذات میں قائم رہی۔اس ضمن میں یہ فرمانِ رسولﷺپیش نظر رہنا چاہیے:«فَارِسُ نَطْحَةٌ أَوْ نَطْحَتَانِ ثُمَّ لَا فَارِسَ بَعْدَهَا أَبَدًا وَالرُّومُ ذَاتُ الْقُرُونِ كُلَّمَا هَلَكَ قَرْنٌ خَلَفَ مَكَانَهُ قَرْنٌ أَهْلُ صَخْرٍ وَأَهْلُ بَحْرٍ هَيْهَاتَ لِآخِرِ الدَّهْرِ هُمْ أَصْحَابُكُمْ مَا كَانَ فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ» (مصنف ابنِ ابی شیبہ)’’فارس تو تمھاری ایک یا دو ٹکر کی مار ہے پھر اس کے بعد کبھی کوئی سلطنتِ فارس نہ ہو گی البتہ روم کے کئی سینگ ہیں جب بھی کوئی سینگ ہلاک ہو گا دوسرا سینگ اس کی جگہ لے لے گا۔روم کے سینگ چٹانوں والے اور سمندروں والے ہیں افسوس کہ وہ آخری دور میں بھی جب تک زندگی میں کوئی خیر رہے گی وہ تمھارے مدِمقابل رہیں گے‘‘۔تو اس پیش گوئی کے مطابق روم ہمیشہ ہمارے مدِ مقابل رہے اور یہ مقابلہ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمدِ ثانی تک جاری رہے گا۔تاریخی طور پر مسلمانوں اور رومیوں کا تصادم کئی طریق پر رہا ہے۔سلطنتِ روم کا عین اور مرکز قسطنطینہ اور دیگر یورپی علاقے تھے۔ایشیا اور افریقہ کے علاقے سلطنتِ روم کے نو آبادیاتی علاقے یا مقبوضات تھے۔مسلم روم تصادم کی پہلی صورت مقبوضات میں تصادم کا ہونا تھا۔مسلمانوں نے خلافت ِراشدہ میں جتنے علاقے فتح کیے ان میں سے کئی ایک مثلاً مصر،طرابلس،آرمینیا،آذر بائیجان،شام و فلسطین رومی مقبوضات تھے۔ان علاقوں میں مسلم روم کشمکش دو طرح سے جاری رہی۔پہلی صورت تو یہ کہ رومی اپنے سابقہ مقبوضات میں،اپنے سابقہ محکومین یا اُن علاقوں میں بسے رہنے والے رومیوں کی سرپرستی کر کے انھیں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے جنھیں مسلمانوں کی طرف سے فرو کرنے کے لیے جہاد کیا جاتا رہا۔ہم اس کی چند مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:اسکندریہ،روم کا باجگذار مصری علاقہ تھا۔ ۲۰ ہجری میں اسے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے فتح کیا تھا۔ ۲۵ ہجری میں اور ایک روایت کے مطابق ۳۲ ہجری میں،یہاں بسنے والے رومیوں نے شاہِ روم قسطنطین بن ہرقل کو خط لکھ کر مسلمانوں کی فوجوں کی قلت کی خبر دیتے ہوئے انھیں حملے کی دعوت دی۔شاہِ روم نے اپنے ایک کمان دار منویل کو لشکر دے کر بھیجا۔جس نے یہاں موجود مسلمانوں کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کر لیا۔حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما جو اس وقت فسطاط میں تھے،انھوں نے اسکندریہ پر حملہ کیا۔شہر سے باہر رومی فوجوں سے جنگ ہوئی۔شکست کھا نے کے بعد رومی اسکندریہ میں داخل ہو کر محصور ہو گئے۔مسلمانوں نے منجنیق نصب کر کے دیواروں کو توڑا اور شہر میں داخل ہو کر قبضہ کر لیا اور منویل کو قتل کر دیا گیا۔(فتوح البلدان)آرمینیا اور آذر بائیجان دورِ فاروقی میں فتح ہو چکے تھے۔دورِ عثمانی کے ابتدائی عرصے میں یہاں کے لوگوں نے جزیہ موقوف کر کے بغاوت کی راہ اختیار کی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے والیٔ کوفہ حضرت ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ کو ان کی گوش مالی کے لیے روانہ کیا۔انھوں نے کئی علاقے فتح کیے جس پر اہلِ آذر بائیجان نے تجدیدِ معاہدہ کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی۔یہاں سے انھوں نے سلمان بن ربیعہ الباہلی رحمۃ اللہ علیہ کو بارہ ہزار کا لشکر دے کر آرمینیا کی جانب روانہ کیا جہاں انھیں فتح نصیب ہوئی۔(تاریخ ابنِ خلدون)مقبوضات میں تصادم کی دوسری شکل مسلمانوں کی پیش قدمی کی صورت میں پیش آ جاتی تھی۔مسلمان جن علاقوں میں ا قدامی طور پر جہاد کرتے ہوئے پیش قدمی کرتے ان میں سے کئی علاقوں میں رومی اپنے مفادات کے تحفظ یا بہ الفاظِ صحیح اپنے استحصالی نظام کے تحفظ کی خاطر میدان میں آ جاتے۔اس کی مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ۲۵ ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبد الله بن ابی سرح کو افریقہ میں پیش قدمی کا حکم دیا اور ان کی مدد کے لیے مدینہ سے ایک فوج روانہ کی جس میں حضرت عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن عمرو بن العاص،عبد اللہ بن زبیر،حضرت حسن بن علی اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہم اجمعین شامل تھے۔یہاں رومی گورنر جرجیر ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر لے کر مسلمانوں کے مقابلے میں آ گیا۔مسلمانوں نے جنگی چال کے طور پر اپنے آدھے لشکر کو دن کے پہلے حصے میں لڑایا اور باقی کو جنگ سے الگ رکھا۔ظہر کے بعد آرام کرنے والی فوج نے تھکی ماندی رومی فوج پر اچانک ایسا حملہ کیا کہ ان کے چھکے چھوٹ گئے۔ان کا سالار جرجیر مقتول اور اس کی بیٹی قیدی بنی۔(تاریخ ابنِ خلدون) تصادم کی تیسری صورت یہ تھی کہ مسلمان سلطنتِ روم کے مرکز کی طرف حملہ آور ہوتے۔سلطنتِ روم کی ابتدا،حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے ستائیس سال قبل(۲۷ ، قبلِ مسیح)میں اٹلی کے شہر روم سے ہوئی تھی اور کئی صدیوں تک وہی اس کا دار الحکومت رہا۔۳۸۰ عیسوی میں روم کی سلطنت نے عیسائیت اختیار کی اور ۴۷۶عیسوی سے اس کا دارلحکومت قسطنطنیہ کو بنا دیا گیا تب سے وہی رومہ کی عیسائی سلطنت کا دار الحکومت تھا۔یاد رہے کہ یہ منحرف عیسائیت تھی جو پالزم کے کفر پر مبنی تھی۔اس طرح قسطنطنیہ کئی صدیوں سے کفر کا مرکز تھا اور قبلۂ دوم فلسطین اور ارضِ پاکِ شام بھی اسی کے تسلط میں تھے۔دنیا میں توحید کے فروغ،شرک و کفر کے سدِباب اور قبلۂ دوم کو توحید پر قائم رکھنے کے لیے مرکز کفر و شرک،قسطنطنیہ کا زوال ضروری تھا۔چنانچہ رسول اللہﷺنے قسطنطنیہ فتح کرنے والی فوج کو بشارت دی تھی۔اس بشارت کو پانے کے لیے مسلمان حملہ آور ہوتے رہتے تھے اور یہ تصادم کی تیسری صورت تھی۔تصادم کی چوتھی صورت وہ تھی کہ روم،نورِ خدا کو بجھانے کے لیے مرکزِ تو حید بیت المقدس پر حملہ آور ہو کر اسے چھیننے کی کوشش کرتا رہتا۔ ہماری گزارشات کا تعلق تصادم کی انھی آخری دو قسموں سے رہے گا۔

دورِ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما

شام کی اکثر و بیشترفتوحات دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور میں مکمل ہو چکی تھیں جن کا مختصر بیان پہلے گذر چکا۔دورِ فاروقی میں دمشق پر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما گورنر تھے۔۱۸ ہجری میں آپ کے انتقال کے بعد،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کی جگہ پر آپ کے بھائی حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو گورنر بنا دیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت(۲۳ ہجری)تک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی دمشق کے حاکم رہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں والیٔ فلسطین عبد الرحمن علقمہ کے انتقال پر فلسطین کو بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عملداری میں دے دیا گیا۔کچھ عرصے بعد بلقاء،اردن،انطاکیہ،قلیقیہ بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عمل داری میں داخل کیے گئے۔ ۲۵ ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ترقی دے کر پورے شام کا گورنر بنا دیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت(۳۵ ہجری)تک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر رہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفۂ راشد بنے۔لیکن حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اتفاق نہ ہو سکا۔شام پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حاکم رہے لیکن شام مرکزی خلافت کی عمل داری سے باہر رہا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت(رمضان سنہ ۴۰ ہجری)کے بعد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی گئی۔حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں کی خون ریزی سے بچنے اور اتحاد و اتفاقِ امت کی خاطر حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما سے صلح کی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔یہ نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق تھا۔اسی صلح کے ضمن میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ منبر پر بٹھاتے ہوئے بہ اندازِ تعریف رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:«ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ،وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ(عَظِيمَتَيْنِ)»’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا‘‘۔(صحیح بخاری،سنن نسائی)ربیع الاول سنہ ۴۱ ہجری میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انعقاد ہوا اور آپ امت مسلمہ کے پانچویں متفقہ اور بنو امیہ کے پہلے خلیفہ بن گئے۔آپ اپنی وفات سنہ ۶۰ ہجری تک اس منصب پر فائز رہے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام پر بطور گورنر اور بطور خلیفہ کل چالیس سال حکومت کی۔باہمی اختلافات کے دورانیے کے علاوہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام پر عمدہ طریقے سے حکومت کی۔ابنِ کثیر لکھتے ہیں:وَقَدْ أَحْرَزَهُ غَايَةَ الْحِفْظِ وَحَمَى حَوْزَتَهُ،وَمَعَ هَذَا لَهُ فِي كُلِّ سَنَةٍ غَزْوَةٌ فِي بِلَادِ الرُّومِ’’ انھوں نے شام کو حد درجے محفوظ شہر بنا دیا اور اس کی حدود کی حفاظت کی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر سال روم پر بھی حملہ کیا کرتے‘‘۔رومیوں کے ساتھ آپ کے معرکوں کا مختصر بیان یوں ہے کہ ۲۴ ہجری میں رومی ایک لشکرِ جرار تیار کر کے شام کی طرف بڑھنے لگے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ کو ان کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جبکہ خلیفۂ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم پر اہلِ کوفہ کا ایک لشکر بھی مدد کو آن پہنچا۔دونوں لشکروں نے نہ صرف ان کے حملے کو پسپا کیا بلکہ آگے بڑھ کر رومی حدود میں داخل ہو کر کئی علاقوں کو تاراج کیا۔(تاریخِ طبری)قبرص ایک شامی جزیرہ تھا۔ یہ عمدہ آب و ہوا،شاندار پھل اور قیمتی معدنیات والی سرزمین تھی۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہاں حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں مل سکی تھی۔خلیفۂ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد آپ نے بحری بیڑا تیار کیا اور ۲۸ ہجری میں جزیرۂ قبرص پر حملہ کیا۔اس جنگ میں حضرت عبادہ بن صامت الانصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجۂ محترمہ امِ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔اس مہم میں نبی کریمﷺ کا وہ خواب ظہور پذیر ہوا جس میں آپ ﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کو سمندر میں سوار ہو کر جہاد کرتے دیکھا تھا۔جب آپ ﷺنے اس کی خبر دی تو سیدہ امِ حرام رضی اللہ عنہ کی درخواست پر ان کے لیے دعا کی تھی کہ اللہ آ پ کو ان سمندری مجاہدوں میں شامل کرے۔فتح کے بعد واپسی کے سفر پر امِ حرام رضی اللہ عنہا خچر سے گر کر شہید ہوئیں۔(تاریخ ابنِ کثیر) ۳۱ ہجری میں رومی بادشاہ قسطنطین بن ہرقل ایک بحری بیڑہ لے کر مسلمانوں کے ہاتھوں افریقہ میں پہنچنے والی ہزیمت کا بدلہ لینے نکلا۔بحیرۂ روم میں موجودہ ترک علاقے اناضول(اناطولیہ) کے نزدیکی ساحلوں میں مسلمانوں کا ان سے آمنا سامنا ہوا۔رومیوں کے پاس ایک ہزار جنگی کشتیاں تھیں جبکہ مسلمانوں کے پاس صرف پانچ سو کشتیاں تھیں۔مسلمانوں کے سالار عبد اللہ بن ابی سرح تھے مسلمانوں نے انھیں پیشکش کی کہ اگر تم چاہو تو خشکی پر اتر کر مقابلہ کریں رومیوں کی طرف سے پانی پانی کی آوازیں آ رہی تھیں مسلمانوں نے اپنی کشتیاں ان کی کشتیوں کے ساتھ باندھ لیں اور دو بدو لڑائی شروع ہوئی۔یہ ایک خوفناک جنگ تھی،راوی کہتے ہیں کہ دور دور تک سمندر کا پانی سرخ ہو گیا۔مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی جبکہ رومی تقریباً دگنی تعداد میں مارے گئے۔یہاں تک کہ شاہ قسطنطین بن ہرقل بری طرح زخمی ہوا اور بعد میں علاج معالجے کے دوران ہی فوت ہو گیا۔یوں مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی اور سمندروں پر رومیوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا۔(تاریخ ابن خلدون) ۳۲ ہجری میں مسلمان ایک بار پھر قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔اس بار دو طرفہ حملہ کیا گیا۔خشکی کے راستے گورنر ِ شام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خود حملہ آور ہوئے اور ابنِ کثیر کے مطابق مضیق قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔جبکہ طرابلس کی طرف سے بُسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ حملہ آور ہوئے۔قسطنطنیہ کے نزدیک رومی لشکر سے ایک لڑائی پیش آئی جس میں اگرچہ بیس ہزار رومی قتل کیے گئے لیکن مسلمانوں کا نقصان بھی اتنا ہو چکا تھا کہ انھوں نے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے لوٹنے کا فیصلہ کیا۔(ابنِ کثیر،مواقف حاسمہ)ابنِ خلدون کے مطابق ۴۲ ہجری میں ایک مسلمان لشکر روم کے بعض علاقوں پر حملہ آور ہوا جس نے چند مقامات پر انھیں شکست دی۔۴۳ ہجری میں بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا اور قسطنطنیہ کے نزدیک پہنچ گئے۔ ۴۴ ہجری میں حِمص کے گورنر حضرت عبد الرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہما،روم پر حملہ آور ہوئے جو دو سال بعد شام واپس آئے۔۴۸ ہجری میں عبد الله بن قيس الفزاری نے اسی سال،عبد الرحمن القطبی،مالك بن ہبيرة اليشكري اور عقبہ بن عامر الجهني نے سمندری راستے سے حملہ کیا ۴۹ ہجری میں مالک بن ہبیرہ نے پھر حملہ کیا اور اسی سال عبد الله بن كرز الجيلي نے گرمیوں میں جبکہ يزيد بن ثمرة الرہاوی نے جاڑے میں روم کے بعض علاقوں پر حملہ کیا اسی سال عقبہ بن نافع نے بھی حملہ کیا۔ ۴۹ ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک لشکرِ جرار قسطنطنیہ کی طرف روانہ کیا۔اس کے قائد سفیان بن عوف تھے۔جلیل القدر صحابۂ کرام عبد اللہ ابن عباس،عبد اللہ ابن عمر،عبد اللہ ابن زبیر،ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین اس لشکر میں شامل تھے۔یزید بن معاویہ بھی اسی لشکر میں تھے اور ابنِ کثیر کے مطابق وہی اس کے قائد بھی تھے۔ أَوَّلُ جَيْشٍ يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ۔بسر بن ابی ارطاۃ رضی اللہ عنہ اپنی بحری فوج کو لے کر حملہ آور ہوئے اور بغیر مضیق ہیلیس الدردنیل تک پہنچ گئے۔مسلمان فوجیں قصرِ ہبدومون تک پہنچا دی گئیں جو قسطنطنیہ سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔تختِ روما پر اس وقت قسطنطین چہارم تھا،رومیوں نے اپنی پوری طاقت اور وسائل قسطنطنیہ کے دفاع پر مرکوز کر رکھے تھے۔کئی مہینے یہ محاصرہ جاری رہا لیکن مسلمان قلعے میں داخل نہ ہو سکے۔نا ر یونانیہ کے گولے مسلمانوں پر برسائے جاتے۔سردیوں کی آمد پر مسلمان محاصرہ ترک کر کے کیزکوس نامی جزیرہ پر چلے گئے جہاں ان کے مراکز قائم تھے۔ ۵۷ ہجری تک یہی حال رہا،۔گرمیوں میں مسلمان محاصرے پر آ جاتے اور سردیوں میں جزیرے پر چلے جاتے۔لیکن اس طویل مہم کی کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ہزاروں مسلمان اس مہم میں شہید ہوئے۔حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔سینکڑوں کشتیاں اور دیگر سامان تباہ ہوا۔آخر کارخلیفۃ المسلمین اور شاہِ روم میں ایک معاہدۂ امن وجود میں آیا جس کی رو سے چالیس سال تک جنگ نہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس امن معاہدے کے چند سال بعد سن ۶۰ ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ،آپ اپنی وفات سے قبل معاہدے کی مدت کے دوران ہسپانیہ اور افریقہ کی فتح میں مشغول رہے اور اسی عرصے میں مملکتِ قوطِ نصرانیہ فتح کی۔(موقف جاسمہ ۳۶ تا ۳۸)

جاری ہے

لرننگ پورٹل