لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂ تحقیق و تصنیف

سورۃ النساء آیت:۱۱۴

﴿لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَا هُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا﴾

’’لوگوں کی بہت سی خفیہ سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، الا یہ کہ کوئی شخص صدقے کا یا کسی نیکی کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کے کرنے کے لیے ایسا کرے گا، ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے‘‘۔

آیت مبارکہ کی تشریح

آیتِ مذکورہ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ان اعمال کا تذکرہ فرمایا جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں جبکہ اس آیتِ مبارکہ میں ان اعمال کی تلقین فرمائی گئی ہے جو پسندیدہ اور مطلوب ہیں ۔ آیت مذکورہ میں ان اعمال کی تعداد تین بتلائی گئی ہے جن کا بجالانا باعث اجر و ثواب ہے۔وہ صدقہ و خیرات کی ترغیب دینا، معروف کی دعوت دینا اور اصلاح بین الناس جیسے مہتم بالشان اعمال ہیں ۔ ان کی مختصر تشریح پیشِ خدمت ہے:﴿نَجْوَاهُمْ﴾ النجوى،المسارَّة بالحديث بين اثنين فأكثر.’’النجویٰ ؛دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان خفیہ گفتگو کو کہاجاتا ہے‘‘۔(التفسير الوسيط للقرآن الكريم ج:۲،ص:۹۰۵ ، الناشر: الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية)جبکہ امام زجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وعرَّفها بعضُهم :بالحديث الذي يَنْفَرد به اثنان فأَكثر ،سِرًّا أو جهرًا.وعلى كلٍّ، فضمير (نجواهم) للناس عامة ،لأن الحكم عام،’’بعض لوگوں نے ہر اس گفتگو کو النجوى قرار دیا ہے جو دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان ہو ،خواہ وہ پست آواز سے ہو یا بلند آواز سے ہو۔جبکہ دونوں حالتوں میں اس کی ضمیر عام لوگوں کی طرف لوٹتی ہے کیونکہ اس کا حکم عام ہے‘‘۔(التفسير الوسيط للقرآن الكريم ج:۲،ص:۹۰۵، الناشر: الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية )

﴿بِصَدَقَةٍ﴾ ضيافة أو إقراض غيره ، ’’ضیافت و مہمان نوازی یا کسی کو قرض فراہم کرنا‘‘۔ (دَرْجُ الدُّرر في تَفِسيِر الآيِ والسُّوَر ج:۲،ص:۶۳۲،الناشر :مجلة الحكمة ،بريطانيا)

﴿أَوْ مَعْرُوفٍ﴾ :هو ما عُرِف حسنُه شرعا أَو عرفا ،فينتظم أَصنافَ البرّ والخير، ’’معروف ہر اس کام کو کہتے ہیں جو عرفاً اور شرعاً محمود ہو، پس نیکی اور خیر کی تمام اصناف کو معروف شامل ہے‘‘۔ (التفسير الوسيط للقرآن الكريم ج:۲،ص:۹۰۵ ،الناشر: الهيئة العامة لشئون المطابع الأميرية)

﴿أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ﴾تأليف بينهم ،’’لوگوں کے درمیان محبت و الفت پیدا کرنا‘‘۔ (دَرْجُ الدُّرر في تَفِسيِر الآيِ والسُّوَر ،ج:۲،ص:۶۳۲،الناشر:مجلة الحكمة ، بريطانيا)

اس آیت مبارکہ میں یہاں اس بات کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ لوگوں کے وہ باہمی مشورے اور تدبیریں جو محض غیبتوں، لغویات اور معصیت یا کسی انسان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوں ان میں کوئی خیر نہیں ہے۔ کیونکہ عام طور پرلوگوں کے زیادہ تر مشورے آخرت کی فکر اور انجام پر غور کرنے سے آزاد ہوتے ہیں، اس بنا پر ان میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی ۔ البتہ لوگوں کے ایسے مشوروں اور سرگوشیوں میں ضرور خیر اور بھلائی ہے جو صدقہ و خیرات کی ترغیب دینے ، نیکی کا حکم کرنے اور لوگوں میں صلح کرانے پر مشتمل ہوں،ان تین اعمال کے مخالف جتنی سر گرمیاں ہیں وہ آخرت کے اعتبار سے مفید نہیں ہیں۔ ان میں سے پہلےصدقے کا ذکر کیا گیا ہے ، صدقے کے حکم میں صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ دونوں آتے ہیں اور اسی طرح دوسرے مسلمان بھائی کو قرض دینا اور اس کی ضیافت کرنا بھی صدقے میں شامل ہے۔جبکہ معروف نیکی کے ہر کام کوکہا جا تا ہے، اس کے متعلق مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’امر بالمعروف، ہر نیکی کے حکم اور ترغیب کو شامل ہے، جس میں مظلوم کی امداد کرنا، حاجت مندوں کو قرض دینا، گم شدہ کو راستہ بتا دینا وغیرہ سب نیک کام داخل ہیں اور صدقہ اور اصلاح بین الناس بھی اگرچہ اس میں داخل ہے، لیکن ان کو تخصیص کے ساتھ علیحدہ اس لیے بیان کیا گیا کہ ان دونوں کا نفع متعدی ہے اور ان سے ملت کی اجتماعی زندگی سدھرتی ہے۔نیز یہ دونوں کام خدمتِ خلق کے اہم ابواب پر حاوی ہیں۔ ایک جلب منفعت یعنی خلق اللہ کو نفع پہنچانا، دوسرے دفع مضرت، یعنی لوگوں کو تکلیف اور رنج سے بچانا۔ صدقہ نفع رسانی کا اہم عنوان ہے، اس لیے جمہور علماء تفسیر کا قول ہے کہ اس جگہ صدقہ عام ہے جس میں زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ بھی داخل ہیں اور نفلی صدقات بھی، اور ہر نفع جو کسی کو پہنچایا جائے‘‘۔(معارف القرآن جلد،۲،ص:۵۴۶) اسی طرح امر بالمعروف کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:«كَلَامُ ابْنِ آدَمَ كُلُّهُ عَلَيْهِ لَا لَهُ إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ أَوْ ذِكْرُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ»(شعب الإيمان، حدیث:۵۱۱)’’ابن آدم کا کلام اس کے لیے وبال ہے ، سوائے اس کے کہ اس نے نیکی کا حکم دیا ہو یا برائی سے روکا ہو یا اللہ کے ذکر میں مشغول ہو‘‘۔راوی کہتے ہیں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کسی نے مذکورہ حدیث کے متعلق کہا کہ یہ کتنی ہی سخت حدیث ہے! تو حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا :کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا ہے:﴿لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَا هُمْ﴾ ؟ یہ تو بالکل اس حکم کے عین موافق ہے ، اور کیا آپ نے نہیں سنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿والعصر إن الإنسان لفي خسر﴾؟ یہ تو بعینہ یہی حکم ہے۔(التفسير الكبير ،ج:۱۱ ، ص:۲۱۸ ،دار إحياء التراث العربي بيروت)

آیتِ مبارکہ میں مذکور تین اعمال میں سے تیسرا عمل اصلاح بین الناس بھی ایک مہتم بالشان عمل ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ حضورﷺ کے اس ارشادِ مبارک سے لگا یا جا سکتا ہے :«عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ:أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّدَقَةِ ؟قَالُوا :بَلَى !قَالَ :صَلاَحُ ذَاتِ البَيْنِ ،فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ البَيْنِ هِيَ الحَالِقَةُ»(سنن الترمذي، حدیث : ۲۵۰۹ )’’حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو درجے کے اعتبار سے صلاۃ ، صوم اور صدقے سے بھی افضل ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ ضرورارشاد فرمائیں !آپﷺ نے فرمایا: وہ دو بندوں کے درمیان صلح کرا دینا ہے ،اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈ دینے والی ہے‘‘ ۔ الغرض لوگوں کی باہمی رنجشوں کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنا اوردو بندوں کے درمیان میل جول کرا دینا ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس کے لیے اگر ظاہری طور پر جھوٹ بولنا پڑے تو اس پر بھی گناہ نہیں ہے۔حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:«لَيْسَ الْكَاذِبُ بِأَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي إِصْلَاحِ مَا بَيْنَ النَّاسِ» (مسند احمد)’’وہ شخص جھوٹا نہیں کہلا تا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے کوئی بات کہہ دیں‘‘۔

لہذا آیت مبارکہ میں مذکور اعمال کے سوا جتنی خفیہ، علانیہ تدبیریں اور مشورے ہیں، سب میں عموماً آخرت کے اعتبار سے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان کا اندیشہ ہے۔جبکہ یہ تین کا م ؛صدقے کی ترغیب دینا، نیکی پر ابھارنا اورلوگوں کے درمیان صلح کرانا ایسے کام ہیں جو آخرت کے اعتبار سے باعث اجر ہیں۔مگر یہاں بھی شرط یہ ہے کہ یہ کام محض اللہ کی خوشنودی کے واسطے انجام دینے چاہییں اور ان کاموں کے بجالانے میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔آیت کے آخر میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ عظیم الشان کام اس وقت مقبول ہیں جب ان میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تلاش کی جائے نہ کہ کسی نفسانی خواہش کی نیت ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان تین اعمال کی بجاآؤری کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

لرننگ پورٹل