لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

ابنِ عباس
معاون قلم کار

نبی اکرمﷺکے وسیلے سے دعا مانگنا


عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ البَصَرِ أَتَى النَّبِيَّﷺفَقَالَ: اُدْعُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَنِي قَالَ:«إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ». قَالَ: فَادْعُهْ، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ(سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی، مستدرک حاکم، مسند احمد)

’’عثمان بن حُنَیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص آپﷺکے پاس آئے اور عرض کیا:اے اللہ کے نبی میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے اس بیماری سے شفایاب کرے۔ آپﷺنے فرمایا: ’’اگر تُو دعا کرانا چاہے تو دعا کرا لے اور اگر تو اس بیماری پر صبر کرے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے‘‘۔اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ! دعا ہی فرما دیجیے۔ آپﷺنے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرےاور اچھی طرح وضو کرے،پھردو رکعت پڑھے اور پھر یہ دعا پڑھے:اے اللہ میں تجھ سےسوال کرتا ہوں اور تیری جناب میں تیرے ہی پیغمبرمحمد نبیِ رحمت کا وسیلہ پکڑتا ہوں،اے محمد!میں اپنے رب کے حضور آپ کا وسیلہ پکڑتا ہوں،اپنی اس حاجت میں، تاکہ یہ حاجت پوری ہو جائے۔اے اللہ! میرے حق میں ان کی یہ شفاعت قبول فرما‘‘۔

حدیث کا موضوع

اس حدیث پاک کا موضوع تَوَسُّل ہے۔ تَوَسُّل کا لغوی معنی تقرب ہے۔کسی دوسرے تک پہنچنے کے واسطے یا ذریعے کو وسیلہ یا توسل کہتے ہیں۔تَوَسُّل کا اصطلاحی مطلب لغوی مطلب سے ملتا جلتا ہے۔توسل کا ایک اطلاق ان اعمال پر ہوتا ہے جن کے ذریعے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ کسی دوسرے سے درخواست کرنا کہ وہ ہمارے لیے اللہ کے قرب یا کسی شے کے حصول کے لیے دعا کرے ، یہ بھی توسل ہے۔اسی طرح اپنی دعا میں کسی نیک شخصیت کا نام لے کر، اللہ تعالیٰ سے اس کے وسیلے اور واسطے سے کوئی درخواست کرنا بھی توسل ہے۔ان معنوں میں توسل دعا کا ایک طریقہ ہے جس میں سوال اللہ تعالیٰ ہی سے کیا جاتا ہے نہ کہ کسی مخلوق سے۔ توسلِ مشروع میں مُتوسَّل به(جس کے ذریعے سے توسل کیا جاتا ہے) بارے میں یہ اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ وہ نیک اور اللہ کی محبوبیب کے مقام پر فائز ہے ، یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ مُتوسَّل به کا اللہ پر کوئی زور چلتا ہے اور اللہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہے۔

توسل میں یہ نہیں سمجھا جاتا کہ متوسل بہ اپنی ذات میں نفع و نقصان کا قادر ہے، بلکہ نفع و نقصان اللہ ہی کے ہاتھ میں سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ کسی واسطے کے بغیر دعا نہیں کی جا سکتی اور توسل لازمی ہے۔ بلکہ ایک مستحب امر ہے۔یہ حدیثِ مبارکہ نبی کریمﷺکی ذاتِ گرامی سے توسل یا وسیلہ اختیار کرنے کی دلیل ہے۔امام شوكانی تحفۃ الذاكرين میں لکھتے ہیں: وَفِي الحَدِيث دَلِيلٌ على جَوَازِ التوسّلِ برَسُول اللهﷺإلَى الله عزوَجل مَعَ اعْتِقَاد أَن الْفَاعِلَ هُوَ الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَأَنهٗ الْمُعْطِي الْمَانِعُ مَا شَاءَ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لِمْ يَكُنْ ’’یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی جناب میں رسول اللہﷺکی ذات سے توسل اور وسیلہ اختیار کرنے کی دلیل ہے۔البتہ اس میں اعتقاد یہ رہنا چاہیے کہ فاعلِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی عطا کرنے والا اور وہی روکنے والا ہے۔ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا‘‘۔

تشریح

ضریر؛ضعیف النظر کو بھی کہتے ہیں اور اندھے کو بھی۔ اس روایت میں اندھا مراد ہے اور اندھے سے بھی وہ اندھا کہ جس کی نظر پہلے تو تھی لیکن پھر زائل ہو گئی اس لیے کہ ایک روایت میں ہے:قد ذَهَبَ بَصَرُهٗ’’اس کی بینائی چلی گئی تھی‘‘ کے الفاظ آتے ہیں۔ صبر کی تلقین سے گویا آپﷺنے اسےحدیثِ قدسی کی طرف متوجہ کیا: «إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِي بِحَبِیْبَتَیْهِ فَصَبَرَ، عَوَّضْتُهُ مِنْهُمَا الجَنَّةَ»يُرِيدُ: عَيْنَيْهِ (صحیح بخاری) ’’جب میں اپنے بندے کی آزمائش کروں اس کی دو پسندیدہ چیزوں (یعنی آنکھوں) کے معاملے میں اور وہ ا س پر صبر کرے تو میں اس کے بدلے میں اسے جنت دوں گا‘‘۔

رسول پاکﷺکا سائل کو اختیار دینا

علامہ طِّيبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’آپﷺنےاس شخص کی درخواست پر اسے اپنی دعا اور صبر میں سے ایک کا اختیار دیا تو وہاں دعا کی نسبت اپنی طرف کی۔ لیکن اس شخص نے صبر کے بجائے آپﷺسے دعا کی در خواست کی تو آپﷺنے اس کے لیے دعا نہیں کی بلکہ اسے حکم دیا کہ وہ خود اپنے لیے دعا کرے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ آپﷺنے اس شخص کی طرف سے صبر کے بجائے صحت یابی کی دعا کے اختیار کرنے کو نا پسند کیا کہ اس نے نسبتاً اعلی شے کو چھوڑ کر ادنیٰ کو اختیار کیا۔ اس لیے آپ نے اس کے لیے دعا کرنے کو پسند نہ کیا بلکہ اسے حکم دیا کہ وہ خود اپنے لیے دعا کرے۔ لیکن نبی کریمﷺکی شانِ رافت و رحمت نے سائل کی دستگیری سے بالکلیہ اجتناب کو بھی پسند نہ کیا بلکہ اسے ایک ایسی دعا سکھا دی کہ جس میں قبولیت کی زیادہ امید تھی۔ علامہ نور الدین سندھی رحمہ اللہ نے شرحِ سنن ابنِ ماجہ میں لکھا کہ آپﷺامت کو توسل کی تعلیم دیتے ہوئے یہ بتانا چاہتے تھے کہ میری شفاعت بھی گویا بمنزلہ دعا ہی کے ہے۔اس لیےآپﷺنے خود دعا نہیں فرمائی بلکہ اس شخص کو خود دعا کرنے کی تلقین فرمائی۔(حاشیہ سندھی علی سنن ابنِ ماجہ)

دعا کے حصے

امام ملا علی القاری رحمہ اللہ اس دعا کی ترتیب واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس دعا میں پہلے تو اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے اس سے سوال کیا گیا ۔پھر نبی اکرمﷺسے توسل (وسیلہ ) اختیار کیا گیا جو خطاب ہی کے طریقے پر ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کیا گیا جس میں نبی کریمﷺ کی شفاعت (وسیلہ) قبول فرمانے کی دعا کی گئی۔

(1)اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے نبیِ رحمت محمدکے ذریعے سے‘‘۔ ان الفاظ میں سوال اور دعا تو اللہ تعالیٰ سے ہے البتہ اللہ کی جناب میں اپنی درخواست کی قبولیت کے لیے نبی کریمﷺکی ذاتِ اقدس کو بطورِ وسیلہ پیش کیا گیا ہے۔ (2)يَا مُحَمَّدُ إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى لِيَ’’اے محمد! میں آپ کی ذاتِ اقدس کا وسیلہ پکڑتا ہوں اپنی رب کی جناب میں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو جائے‘‘۔ان الفاظ میں پہلی اہم چیز یا محمد کا صیغہ ہے۔ کسی خاص عقیدے کے تحت مثلًا یہ کہ نبی اکرمﷺاللہ کی طرح ہر جا موجود ہیں تو مخاطب کا صیغہ اس نیت سے استعمال کرنا تو جائز نہیں ہے البتہ محبت و تعظیم کے تحت مخاطب کا صیغہ استعمال کرنا جائز ہے۔ علامہ نور الدین السندھی لکھتے ہیں: ’’یا محمد کے الفاظ میں مقامِ شفاعت و سفارش میں نبی کریمﷺکو ان کے نام کے ساتھ پکارنا جائز ہے۔ اس لیے کہ یہ مقامِ تعظیم ہےاور دل میں آپﷺکی یاد کا سبب بنتا ہے اور ان الفاظ میں دورانِ دعا آپﷺکو اپنے قلب و ذہن میں حاضر سمجھنااور آپ کو مخاطَب کرنا اسی طرح جائز ہے جس طرح نمازکے دوران آپﷺکا استحضار اور آپ سے خطاب جائز ہے۔

أَتَوَجَّهُ بِكَ’’میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں آپ کے ذریعے سے درخواست گزار ہوں‘‘۔ امام ملا علی القاری رحمہ اللہ اِن الفاظ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہاں (ب) استعانت کا ہے۔مستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے جیسا کہ ﴿إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے استعانت کا صیغہ اپنے حقیقی معنوں میں صرف اللہ ہی کےلیے جائز ہے۔ البتہ کبھی استعانت مجازی معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے۔اس مقام پر خطاب اور استعانت توسل کے معنی میں ہے جیسا کہ شارحین نے وضاحت کی ہے۔ پہلے تو اللہ تعالی سے سوال کیا گیا، جو خطاب کےانداز میں ہے۔ پھر نبی کریمﷺسے توسل کیا گیا جو خطاب ہی کے انداز میں ہے۔

(3)اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ’’اے اللہ!نبی کریمﷺکی شفاعت میرے حق میں قبول فرما‘‘۔بعض علما نے ان الفاظ کی روشنی میں یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ نبی کریمﷺنے اس نابینا کے لیے دعا کی ہو گی اور اسی دعا کو یہاں شفاعت سے تعبیر کیا گیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آپﷺنے اس کے لیے دعا کی نہ ہو بلکہ صرف اسے دعا سکھا دی ہو کہ وہ خود دعا مانگ لے۔ اس صورت میں گویا نابینا صحابی نے رسول اللہﷺکے توسل کو ہی ہی شفاعت قرار دیا اس لیے کہ آپﷺکا توسل کی تعلیم دینا اور اس کے ساتھ دعا سکھانا بمنزلۂ شفاعت کے ہے۔

علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے فیض الباری میں توسل کی دو قسمیں بیان کی ہیں:ایک کو توسّلِ فعلی کہا ہے۔ وہ یہ صورت ہے کہ متوسَّل بہ(جس کے ذریعے توسل کیا جائے) دعا کرے۔ اور دوسری قسم توسلِ قولی ہے۔ وہ یہ کہ متوسِّل (توسل کرنے والا) متوسَّل کا نام لے کر اللہ کی جناب میں دعا کرے۔ حضرت رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی للہ عنہ کے عمل سے کہ انھوں نے قحط کے زمانے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی:إنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نبيِّنا فاسْقِنَا’’اے اللہ! ہم تیری جناب میں تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ پکڑتے ہیں، ہمیں بارشیں عطا فرما۔ پھر وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے: قُمْ يا عبَّاس فاسْتَسْقِاے عباس! کھڑے ہو جائیے اور اللہ سے بارش طلب کیجیے‘‘۔مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ توسلِ فعلی ہے جس میں متوسَّل، متوسِّل کی درخواست پر اس کے حق میں دعا کے ذریعے اس عمل میں شرکت کرتا ہے۔۔جبکہ دوسرا توسّل ِقولی ہے جس میں توسُّل کرنے والا، متوسَّل کا نام لے کر اللہ کی جناب میں دعا کرتا ہے۔ نابینا صحابی والی روایت:اللّٰهُمَّ إني أتوجَّهُ إليكَ بنبيكَ محمَّدٍ نبيِّ الرّحمةِسے توسلِ قولی ثابت ہوتا ہے۔

نبی کریمﷺکے دنیا سے چلے جانے کے بعد توسل

بعض لوگوں نےصرف نبی اکرمﷺکی زندگی میں آپ سے توسل کو جائز قرار دیا لیکن صحیح یہ ہے کہ حدیثِ زیر مطالعہ کی ایک دوسری روایت بلکہ اس کے شانِ ورود سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺکی وفات کے بعد بھی آپﷺسے توسل کرنا جائز ہے۔علامہ نور الدین سندھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’حدیث شریف نبی اکرمﷺ کی زندگی میں آپ کی ذاتِ مکرم سے توسل کرنے اور آپ کو اپنا وسیلہ اور شفیع بنانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک آپ کی وفات کے بعد کی بات ہے تو اس پر امام طبرانی کی روایت روشنی ڈالتی ہے‘‘۔جس روایت کی طرف علامہ نے اشارہ کیا وہ معجم الکبیر میں منقول ہے۔ امام طبرانی نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس روایت میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک شخص کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کوئی حاجت درپیش تھی لیکن حضرت عثمان اس کی جانب التفات نہیں فرماتے تھے۔ ایک دن اس شخص نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے خلیفہ ٔوقت کی شکایت کی تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کل صبح کو وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو اور اس کے بعد یہ دعا کرو:اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍﷺنَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي فَتَقْضِي لِي حَاجَتِيپھر اپنی حاجت کی تلاش کرو۔

اگلے دن وہ شخص یہ عمل کر کے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی محفل میں گیا تو اس کی حاجت پوری کی گئی۔ واپسی پر اس شخص نے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے خلیفۂ وقت سے میری سفارش کی۔ تو انھوں نے بتایا کہ میں نے تو خلیفہ سے کوئی بات نہیں کی بلکہ یہ تو اس عمل کی برکت ہے جو میں نے آپ کو بتایا تھا۔پھر حضرت عثمان بن حنیف نے نابینا صحابی کا پورا واقعہ بیان کیا۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابیِ رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکے انتقال کے بعد بھی توسل کے قائل تھے اور یہ واقعہ اس عمل کے مجرب و مشروع ہونے کی بھی ایک دلیل ہے۔

لرننگ پورٹل