لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

نبی کریمﷺکی شخصیت و ذات تو بابرکت ہے ہی لیکن اس کے علاوہ آپﷺکی ذات سے جڑی ہر چیز بھی باعثِ برکت ہے۔ چنانچہ آپ کا وجودِ گرامی آپ کے اعضاے مبارکہ اور آپﷺآثار و افعال برکت کا منبع ہیں۔ اس برکت میں مادی و معنوی دونوں قسم کی برکتیں شامل ہیں۔ چنانچہ آج کی مجلس میں ہم آپﷺکی برکات کے بیان کے ذریعے تبرک حاصل کرتے ہیں۔

ایامِ رضاعت و بچپن کی برکات 

نبی کریمﷺتھوڑے دنوں کے تھے کہ دستورِ عرب کے مطابق قبیلہ سعد بن بنو بکر کی خواتین مکہ میں آئیں تاکہ رضاعت کے لیے بچے حاصل کر سکیں۔ ان خواتین میں حلیمہ بنت ابی ذوئب بھی تھیں جو ایک لاغر سواری پر تھیں جس کی وجہ سے وہ دوسری خواتین سے پیچھے رہ گئیں اور سب کے بعد پہنچیں۔انھی حلیمہ رضی اللہ عنہا کے حصے میں آمنہ کے لعل حضرت محمد مصطفیﷺآئے۔ان دنوں بنو بکر کے علاقے میں بارشوں اور خوراک کی کمی تھی جس کی وجہ سے ان کے جانوروں میں دودھ کی پیداوار کم تھی۔ خواتین کی صحت بھی قابلِ رشک نہ تھی اور ان کے بچے بھی ماؤں کے دودھ کی قلت کا شکار رہتے تھے۔ بہرحال حلیمہ سعدیہ حضور کریمﷺکو ماں کے پاس سے لے کر اپنے خیمے میں گئیں تو انھیں اپنا دودھ پلایا۔ آپﷺنے پہلے دودھ پیا اور آپ کے چھوڑنے کے بعد آپﷺکے دودھ شریک بھائی نے سیر ہو کر دودھ پیا اور دونوں شیر خوار بچے سکون کی نیند سو گئے۔سیدہ کے خاوند بکری کی طرف گئے تو دیکھا کہ اس کے تھن دودھ سے تنے ہوئے ہیں۔ پس دونوں نے خوب سیراب ہو کر دودھ پیا اور رات آسودگی کی نیند میں بسر کی۔سیدہ کا بیان ہے کہ اس سے پہلے ہم رات کو بچے کے جاگتے رہنے کی وجہ سے سو نہ سکتے تھے لیکن آج جب بچوں اور بڑوں کو دودھ وافر میسر ہوا تو سبھی کو نیند کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ سیدہ کے شوہر اِن سے کہنے لگے:واللَّهِ يا حَلِيمَةُ، لَقَدْ أخَذْتِ نَسَمَةً مُبَارَكَةً ’’خدا کی قسم اے حلیمہ تم نے ایک مبارک روح پائی ہے‘‘۔ اگلے دن بنو سعد بن بکر کا یہ قافلہ اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوا تو سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کی سواری سب سے آگے آگے تھی۔ ان کی ساتھی عورتیں کہنے لگیں: اری ذرا رکو تو سہی، کیا یہ وہی لاغر سواری نہیں ہے جس پر تم آئی تھیں؟ حلیمہ کہتیں:ہا ں ہاں یہ وہی سواری ہے۔ اب عورتیں کہنے لگیں: خدا کی قسم اب تو اس کی شان ہی نرالی ہے۔ یہ خواتین اپنے علاقے میں پہنچ گئیں۔ اس وقت وہاں سبزے کی قلت تھی لیکن سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے جانور سیر ہو کر بھرے پرے آتے اور تھن ان کے دودھ سے بھرے رہتے۔باقی لوگوں کو چارہ نہ ملتا اور ان کے جانوروں کے تھن سوکھے سوکھے رہتے لیکن حلیمہ اور ان کے گھر والے جانوروں کا دودھ نکالتے اور سیر ہو کر پیتے۔ لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کہ اپنی بکریوں کو وہاں چرایا کرو جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی ہیں۔ انھیں کیا اندازہ کہ یہ تو سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے ہوئے ننھے مہمان کی برکتیں ہیں۔ سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہمیں اللہ تعالی آپ کی برکتیں دکھاتا رہا اور ان کی پہچان کرواتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہﷺدوسال کی عمر کو پہنچ گئے اور آپ کا دودھ چھڑا دیا گیا۔ آپ کی پرورش دوسرے بچوں سے زیادہ تیزی سے ہوتی تھی۔ 

مدت ِرضاعت کے اختتام پر سیدہ حلیمہ رسول اللہﷺکی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب کے پاس مکہ میں حاضر ہوئیں۔ان دنوں مکہ میں بیماری پھیلی ہوئی تھی۔ سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا نے تجویز دی کہ وبا سے تحفظ کے لیے بہتر ہو گا کہ بچے کو ہم واپس لے جائیں۔ حضرت آمنہ اس پر راضی ہو جاتی ہیں۔ سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا اپنی اس کوشش کے بارے میں بیان کرتی ہیں:نَحْنُ أحْرَصُ شَيْءٍ عَلَى مُكْثِهِ فِينَا، لِمَا كُنَّا نَرَى مِنْ بَرَكَتِهِ’’ہم یہ حرص رکھتے تھے کہ محمد مزید ہمارے پاس رہیں کیونکہ ہم نے ان کی برکتیں دیکھ رکھی تھیں‘‘۔اب کے واپسی کے کچھ عرصے بعد حضور کریمﷺکے ساتھ شقِّ صدر کا واقعہ پیش آیا جس سے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو خوف ہوا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ چنانچہ وہ آپﷺکو لے کر ان کی والدہ کے پاس پہنچ گئیں جبکہ آپ کی عمر شریف پانچ سال ہو چکی تھی۔ حضرت آمنہ نے واپس آنے کی وجہ دریافت کی تو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا لیکن پھر شقِّ صدر کا واقعہ بیان کر کے عرض کر کے اپنے خوف کا اظہار کیا تو حضرت آمنہ نےکہاکہ میرا بچہ عظیم الشان ہے اور شیطان کو اس پر غلبہ نہ دیا جائے گا۔ بہر حال رسول کریمﷺاپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے۔( اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون موسى بن راشد العازمي الكويت)

دستِ رسولﷺکی برکت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺكَانَ إِذَا اشْتَكَى نَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، طَفِقْتُ أَنْفِثُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّﷺعَنْهُ(صحیح بخاری)’’جب رسول اللہﷺبیمار ہوتے تو خود پر معوذات پڑھ کر دم فرماتے اور اپنے ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے۔ جب آپﷺمرضِ وفات میں مبتلا ہوئے تو میں بھی آپ ہی کی طرح معوذات پڑھ کر آپﷺپر دم کیا کرتی البتہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرا کرتی‘‘۔ یہ ایک خاص بات ہے کہ جب رسول اللہﷺبیمار ہو گئے اور آیاتِ قرآنی ان سے نہ پڑھی جاتیں تب آیات تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تلاوت کرتیں لیکن اپنا ہاتھ پھیرنے کے بجائے رسول اللہﷺکا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول اللہﷺکے ہاتھ کی برکت و تاثیر سیدہ کے ہاتھ سے کہیں زیادہ تھی۔ اسی برکت کی امید پر سیدہ دم تو خود کرتیں لیکن ہاتھ رسول اللہﷺکا استعمال کرتیں۔ ایک روایت میں آپ اپنے اس عمل کی وجہ خود بیان کرتی ہیں:كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا)صحیح بخاری)’’میں آپ پر آیات پڑھ کر دم کرتی اور آپﷺکے ہاتھ کی برکت کی امید پر آپ کے جسد پر آپ کا ہاتھ پھیرتی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ الفاظِ قرآنی کی برکت و تاثیر اپنی جگہ لیکن رسول اللہﷺکے ہاتھ کی ایک اپنی خاص برکت بھی تھی۔

حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:لَمَّا فَتَحَ نَبِيُّ اللَّهِﷺمَكَّةَ، جَعَلَ أَهْلُ مَكَّةَ يَأْتُونَهُ بِصِبْيَانِهِمْ فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ وَيَمْسَحُ رُءُوسَهُمْ(سنن ابی داؤد) ’’جب نبی اکرمﷺنے مکہ فتح کیا تو اہلِ مکہ اپنے بچے آپﷺکے پاس لے کر آنے لگے۔ آپ ان کے لیے دعا فرماتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے‘‘۔

رسول اللہﷺکے دستِ مبارک کی روحانی تاثیر

حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ایک شخص کو قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ مجھے اس کا پڑھنا برا لگا کہ میری سیکھی ہوئی قراءت کے برعکس پڑھ رہا تھا۔ اتنے میں ایک اور شخص داخل ہوا اور اس نے بھی تلاوت شروع کر دی اور اس کا طریقہ بھی الگ ہی تھا۔ پس جب وہ فارغ ہوئے تو میں انھیں لے کر رسول للہﷺکے پاس حاضر ہوا اور پوری بات آپ کے سامنے رکھی۔ آپﷺنے باری باری دونوں سے تلاوت سنی اور دونوں کی تحسین فرمائی۔فَسُقِطَ فِي نَفْسِي مِنَ التَّكْذِيبِ وَلاَ إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ’’پس میرے دل میں تکذیب نے گھر بنانا شروع کیا اور ایسی تکذیب کہ جتنی ایام ِجاہلیت میں بھی نہ محسوس کی تھی‘‘۔ایک روایت کے مطابق ابی ابن کعب فرماتے ہیں: فَمَا تَخَلَّجَ فِي نَفْسِي مِنَ الْإِسْلَامِ مَا تَخَلَّجَ يَوْمَئِذٍ’’اسلام سے جتنی بے رغبتی میرے دل میں اس دن پیدا ہوئی تھی اتنی کبھی پیدا نہ ہوئی تھی‘‘۔رسول اللہﷺنے میری حالت کو پہچان لیا۔ فَضَرَبَ فِي صَدْرِي فَفِضْتُ عَرَقًا وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَرَقًا ’’ تو آپﷺنے میری سینے پر ایک ضرب لگائی تو میرا پسینہ پھوٹ نکلا اور یوں محسوس ہوا کہ گویا میں اللہ کی طرف ڈرتے ڈرتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں:فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي، فَذَهَبَ ذَاكَ، فَمَا وَجَدْتُ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدُ’’پس آپﷺنے اپنے دست ِمبارک کی ضرب میرے سینے پر لگائی تو میری وہ کیفیت دور ہو گئی اور اس کے بعد میں نے ویسی کیفیت کبھی نہیں پائی‘‘۔ (صحیح مسلم، مسند احمد)علامہ طیبی شرح مشکاۃ میں لکھتے ہیں:وَكَانَ أُبَيٌّ مِنْ أَكَابِرِ الصَّحَابَةِ، وَكَانَ مَا وَقَعَ لَهُ نَزْغَةٌ مِنْ نَزَغَاتِ الشَّيْطَانِ، فَلَمَّا نَالَهُ بَرَكَةُ يَدِ النَّبِيِّﷺزَالَ عِنْدَ الْغَفْلَةِ وَالْإِنْكَارِ وَصَارَ فِي مَقَامِ الْحُضُورِ وَالْمُشَاهَدَةِ ’’باوجود یہ کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اکابر صحابہ میں سے ہیں، انھیں شیطان کی وسوسہ اندازی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جب انھیں نبی اکرمﷺکے ہاتھ کی برکت حاصل ہوئی تو (وقتی پائی جانے والی) غفلت و انکار ان سے دور ہو گیا اور وہ مقامِ حضوری اور مشاہدۂ حق میں مشغول ہو گئے‘‘۔

فتحِ مکہ کے موقعے پر نبی کریمﷺفضالہ بن عمیر اللیثی کے پاس سے گزرے جو رسول اللہﷺکو شہید کرنے کی فکر میں غلطاں تھے۔ رسولِ پاکﷺنے ان سے پوچھا: ’’تم دل میں کیا سوچ رہے ہو؟‘‘انھوں نے جواب دیا: کچھ نہیں، بلکہ میں اللہ کو یاد کر رہا ہوں۔ نبی کریمﷺمسکرائے اور فرمایا:«أستغفر اللَّه لك»’’میں اللہ کی جناب میں تیرے لیے بخشش کی دعا مانگتا ہوں‘‘۔ پھر آپﷺنے اپنا دستِ مبارک ان کے سینے پر رکھ دیا جس سے فضالہ کے قلب کی کایا پلٹ گئی، کہتے ہیں:واللَّهِ ما رَفَعَ يَدَهٗ عَنْ صَدْرِي حَتّى ما أَجِدُ عَلى ظَهْرِ الْأرْضِ أَحَبَّ إليّ مِنْه’’خدا کی قسم رسولِ خدانے اپنا ہاتھ نہیں اٹھایا یہاں تک کہ میرے دل نے محسوس کیا کہ روے ارضی پر آپﷺسے زیادہ محبوب مجھے کوئی نہیں ہے‘‘۔(الإصابة في تمييز الصحابة)

حضرت شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہ جنگِ حنین میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو گئے تھے لیکن ابھی سچے دل سے ایمان نہیں لائے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں تو ہوازن کے ہاتھوں مسلمانوں کی شکست کا تماشا دیکھنے گیا تھا۔ نبی کریمﷺنے ان کے کفر کو پہچان لیا۔آپﷺنے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا فرمائی«اللهُمَّ اهْدِ شَيْبَةَ»’’اے اللہ! شیبہ کو ہدایت دے‘‘۔آپ نے تین بار یہ عمل کیا کہ شیبہ کو سچ مچ کے ایمان کی توفیق ہوئی اور وہ صحابیت کے مقام پر فائز ہو گئے۔آپ رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت کو یوں بیان کرتے تھے:فَوَاللهِ مَا رَفَعَ يَدَهُ مِنْ صَدْرِي مِنَ الثَّالِثَةِ حَتَّى مَا كَانَ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللهِ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْهُ(المعجم الکبیر)’’خدا کی قسم تیسری بار ہاتھ مار کر ابھی رسول اللہﷺنے اٹھایا نہیں تھا کہ آپ کی محبت میرے دل میں داخل ہو گئی اور میں نے جانا کہ اللہ کی مخلوق میں کوئی مجھے آپﷺسے بڑھ کر محبوب نہیں ہے‘‘۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنی قوم کو امامت کرایا کروں۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنے اندر کچھ کمزوری پاتا ہوں۔ آپﷺنے مجھےنزدیک آنے کا حکم دیا اور اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پھر آپﷺنے میرے پستانوں کے درمیان سینے پر ہاتھ رکھا اور پھر مجھے دوسری طرف منھ کرنے کا حکم دیا اور میرے کندھوں کے درمیان پشت پر ہاتھ رکھا فرمایا: «أُمَّ قَوْمَكَ…»’’اپنی قوم کو امامت کراؤ‘‘(صحیح مسلم) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:أَنَّهُ أَرَادَ الْخَوْفَ مِنْ حُصُولِ شَيْءٍ مِنَ الْكِبْرِ وَالْإِعْجَابِ لَهُ بِتَقَدُّمِهِ عَلَى النَّاسِ فَأَذْهَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِبَرَكَةِ كَفِّ رسول اللَّهِﷺوَدُعَائِهِ وَيَحْتَمِلُ أَنَّهُ أَرَادَ الْوَسْوَسَةَ فِي الصَّلَاةِ…’’صحابی کو تکبر اور عجب کا خطرہ محسوس ہوا۔رسول اللہﷺکے ہاتھ کی برکت اور دعا کے سبب اس خوف کا ازالہ ہو گیا اور ممکن ہے کہ ان کو نماز میں وسوسے کا اندیشہ لاحق ہوا ہو… ‘‘۔علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: أَرَى فِي نَفْسِي مَا لَا أَسْتَطِيعُ عَلَى شَرَائِطِ الْإِمَامَةِ وَإِيفَاءِ حَقِّهَا لِمَا فِي صَدْرِي مِنَ الْوَسَاوِسِ، وَقِلَّةِ تَحَمُّلِي الْقُرْآنَ وَالْفِقْهَ، فَيَكُونُ وَضْعُ الْيَدِ عَلَى ظَهْرِهِ وَصَدْرِهِ لِإِزَالَةِ مَا يَمْنَعُهُ مِنْهَا وَإِثْبَاتِ مَا يُقَوِّيهِ عَلَى احْتِمَالِ مَا يَصْلُحُ لَهَا مِنَ الْقُرْآنِ وَالْفِقْهِ(مرقاۃ) ’’صحابی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنے اندر امامت کی شرائط اور اس کے حق ادا کرنے کی صلاحیت نہیں پاتا کیونکہ میرے دل میں وساوس پیدا ہوتے ہیں یا میرے پاس قرآن اور فقہ کا اتنا علم نہیں ہے۔ پس آپﷺکے ہاتھ رکھنے کے سبب ان کے اس وسوسے کا ازالہ ہو گیا بلکہ انھیں ایک ایسی صلاحیت اور اہلیت حاصل ہو گئی جو قرآن اور فقہ سیکھنے کے لائق تھی‘‘۔

دستِ مبارک کی طبعی تاثیر

حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھے ایک مہم پر روانہ ہونے کا حکم دیا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا ۔رسول اللہﷺنے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا کی:«اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا»’’اے اللہ! اسے ثابت رکھ اور اسے ہدایت والا اور ہدایت سکھانے والا بنا دے‘‘۔آپﷺکے دستِ مبارک کی تاثیر بیان کرتے ہوئے صحابی کہتے ہیں:رَأَيْتُ أَثَرَ يَدِهِ فِي صَدْرِي’’میں نے آپﷺکے ہاتھ کی تاثیر اپنے سینے میں محسوس کی‘‘ اور اس کا نتیجہ بتاتے ہیں:فَمَا وَقَعْتُ عَنْ فَرَسِي بَعْدُ’’اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا‘‘۔(صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ جب گستاخِ رسول ابو رافع یہودی کو قتل کرکے واپس آئے تو ایک اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے پر آپ کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جب انھوں نے اپنی کامیابی کی خبر کے ساتھ اپنی ٹانگ ٹوٹنے کی خبر سنائی تو آپﷺنے انھیں ٹانگ سیدھی کرنے کا حکم دیا پھر آپ نے ان کی ٹانگ پر ہاتھ پھیرا ۔صحابی کہتے ہیں: فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ ’’میری ٹانگ ایسے ہو گئی گویا کبھی اس میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں‘‘۔(صحیح بخاری باب قتل ابی رافع)

آپکے دھوون سے تبرک

 جن اعضاے شریفہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت دی گئی ہے،ان سے مس کرنے والا پانی بھی مبارِک بن جاتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہﷺاپنے اعضاے مبارکہ کو دھونے والا پانی لوگوں کو دیا کرتے تھے:

نبی کریمﷺنے ایک برتن میں ہاتھ مبارک اور چہرہ انور دھویا اور اسی میں کلی فرمائی اور ابو موسی اشعری اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کو وہ برتن عطا کیا اور فرمایا: «اشْرَبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا وَأَبْشِرَا»’’اس میں سے تم دونوں پی لو اور کچھ اپنے چہرے اور گردنوں پہ ڈال لو اور خوش ہو جاؤ‘‘۔ان دونوں نےایسا ہی کیا۔ پردے کے پیچھے سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہادیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے آواز لگائی أَفْضِلاَ لأُمِّكُمَا ’’کچھ اپنی والدہ کے لیے بھی بچا لو‘‘۔چنانچہ انھوں نے کچھ ان کے لیے بچا لیا۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب غزوة الطائف)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اس حدیث میں حضرت ابو موسی اشعری حضرت بلال اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ہے اور اس سے دوسروں کو بشارت دینے کا استحباب اور متبرک چیزوں پر جمع ہونا ان کی طلب کرنا اور ان میں دوسروں کو شریک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے‘‘۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: كَانَ رَسُولُ اللَّهِﷺإِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِينَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيهَا فَيَغْمِسُ الْمَاءُ فَمَا يُؤْتَى بِإِنَاءٍ إِلاَّ غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا فَرُبَّمَا جَاءُوهُ فِى الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ يَدَهُ فِيهَاجب رسول اللہﷺفجر کی نماز پڑھ لیتے تو اہلِ مدینہ کے خادم ہاتھوں میں پانی کے برتن لیےحاضر ہوتے اور نبی کریمﷺ(برکت کے لیے) اپنے ہاتھ اس پانی میں ڈبو دیتے اور بعض اوقات وہ سردی والی صبح میں آتے تو پھر بھی آپﷺاپنا ہاتھ ڈال دیتے۔ (صحیح مسلم)

جاری ہے

لرننگ پورٹل