لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024
جمعہ 17 شوال 1445 بہ مطابق 26 اپریل 2024

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان و نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی

اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ اس میں غم اور خوشی، راحت اور تکلیف دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نہ یہاں خوشی خالص ہے نہ غم خالص، اس لیے یہاں غموں اور صدموں کا پیش آنا نہ کوئی اچنبھے کی بات ہے نہ کوئی غیر معمولی چیز، لیکن بعض صدمے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا اثر پوری امت پر پڑتاہے او ر ان کے عالمگیر اثرات کی وجہ سے ان کازخم مندمل ہونا آسان نہیں ہو تا۔پچھلے مہینے (رمضان المبارک ۱۴۶۰ھ میں ) ایک ایسا ہی عظیم صدمہ مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا پیش آیا جس نے ہر اس شخص کو ہلا کر رکھ دیا جو حضرت مولانا، ان کی شخصیت اور ان کی خدمات سے واقف ہے۔

إنا لله و إنا إلیه راجعون

حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی قد س سر ہ ہمارے دور کی ان عظیم شخصیات میں سے تھے جن کے محض تصور سے دل کو ڈھارس اور روح کو یہ اطمینا ن نصیب ہو تاتھا کہ قحط الر جال کے اس زمانے میں بفضلہ تعالیٰ ان کا سایۂ رحمت پوری امت کے لیے ایک سائبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ علم و فضل کے شناوروں کی تعداد اب بھی شاید اتنی کم نہ ہو، عبادت و زہد کے پیکر بھی اتنے نایاب نہیں، لیکن ایسی شخصیات جو علم وفضل، سلامت فکر، روع وتقویٰ اور اعتدال و توازن کی خصوصیات جمع کرلینے کے ساتھ ساتھ امت کی فکر میں گھلتی ہوں اور جن کے دلِ درد مند میں عالم اسلام کے ہر گوشے کے لیے یکساں تڑپ موجود ہو، خال خال ہی پیدا ہوتی ہیں اور ان کی وفات کا خلا پر ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کی انھی خصوصیات سے نوازا تھا،اور اب ان صفات کا جامع دور دور کوئی نظر نہیں آتا۔

حضرت مولانااصلًا دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے تعلیم و تربیت یافتہ تھے، لیکن اس کے بعد انھیں اللہ تعالیٰ نےدار العلوم دیوبند سے بھی اکتساب فیض کی تو فیق عطا فرمائی تھی اور اس طرح ان کی ذات میں برصغیرکے ان دونوں عظیم اداروں کے محاسن جمع فر مادیے تھے پھر علم ظا ہر کے اس مجمع البحرین کو اللہ تعالیٰ نےعلمِ باطن کا بھی حصۂ وافر عطا فرمایا۔ انھوں نے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت وصحبت سے فیض حاصل کیا۔ اور طریقت کے میدان میں بھی حضرت رائے پوری قدس سرہ کے خلیفۂ مجاز کی حیثیت سے آپ کا فیض دور دور تک پھیلا۔

آپ کی اردو اور عربی تصانیف اتنی ایمان افروز، فکر انگیز اور معلومات آفریں ہیں کہ وہ دل کو ایمان ویقین سے سر شار کرنے کے علاوہ دین کا صحیح مزاج ومذاق انسان پر واضح کرتی ہیں اور اسے افراط و تفریط سے ہٹا کر اعتدال کے اس (جادہ ) مستقیم پر لے آتی ہیں جو ہمارے دین کا طر ہ ٔامتیاز ہے۔ ان کی تحریروں میں علم وفکر کی فراوانی کے ساتھ بلاکا سوز و گداز ہے جو انسان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ خاص طور پر مغربی افکار کی یورش نے ہمارے دور میں جوفکر ی گمراہیاں پیدا کی ہیں اور عالمِ اسلام کے مختلف حصوں میں جو فتنے جگائے ہیں، ان پر حضرت مولانا کی نظر بڑی وسیع وعمیق تھی اور انھوں نے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعے ان فتنوں کی تشخیص اور ا ن کے علاج کی نشاندہی اتنی سلامت فکر کے ساتھ اتنے دلنشین انداز میں فر مائی ہے کہ عہد ِ حاضر کے مولفین میں شاید ہی کوئی دوسرا ان کی ہمسری کرسکے۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں عربی زبان کی تحریر وتقریر پر وہ قدرت عطا فرمائی تھی جو بہت سے عرب اہلِ قلم کے لیے بھی باعث رشک تھی، اس منفرد صلاحیت سے انھوں نے خدمتِ اسلام کا وہ عظیم الشان کام لیا جو عربی زبان وادب کے معاصر ماہرین میں سے شاید کسی نے نہ لیا ہو۔ ان کی فصیح و بلیغ عربی تحریروں نے عربوں کو دین کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ اور مغرب کی فکری یلغار سے سہمے ہوئےعرب ممالک میں دین کا پیغام اتنی خود اعتمادی، اتنے یقین اور اتنے پر جوش انداز میں پہنچایا کہ آج بے شمار عرب مسلمان اپنی اسلامی بیداری کو ان کی تحریروں کا مرہونِ منت سمجھتے ہیں۔ ان کی تحریرو تقریر میں جو اخلاص و دردمندی اور دلسوزی کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ ان کی سخت سے سخت بات کو بھی مخاطب کے لیے قابل قبول بنادیتی تھی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ عربوں پر کھر ی کھری تنقید کے باوجود عرب ممالک میں ان کی مقبولیت کسی بھی غیر عرب کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ عرب ملکوں کے متعدد حلقوں سے بھی ان کے مراسم تھے اور وہ اپنے مراسم کو خدمت دین کے لیے استعمال فرماتے تھے اور ان کی بدولت بہت سے منکرات کا سد ِّباب ہوا۔ دارالعلوم ندوۃ العلما ء کے بارے میں اگر یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ حضرت مولانا کی قیادت نے اس ادارے کو نئی زندگی بخشی۔ یہ ادارہ درحقیقت حضرت مولانا محمدعلی صاحب مونگیری نے مسلمانوں کی اہم وقتی ضرورت کا احساس کرتےہوئے قائم فرمایا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ یہاں سے ایسے اہلِ علم پیدا ہوں جودینی علوم سےآراستہ ہونےکے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی اتنی واقفیت رکھتے ہوں جو ان کی دعوت کا معاصر تعلم یافتہ حضرات میں زیادہ مؤ ثر بنا سکے۔ یہ ایک عظم الشان مقصد تھا، لیکن رفتہ رفتہ اس ادارےمیں تاریخ وادب اتنا غالب آتاگیا کہ اس کی دینی چھاپ ماند پڑنے لگی۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نےدار العلوم ندوۃ العلما، کو دوبارہ اپنے اصل مقاصد کی طرف اس حکمت اور بصیرت کے ساتھ لوٹایا کہ اس کی نمایاں خصو صیت بھی بر قرار رہی۔ اس کے ساتھ اس میں ٹھیٹھ اسلامی علوم کا معیار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہو ا۔ اس کی مجموعی فضا پر تدین، تقوی اور انا بت الی اللہ کا رنگ بھی نمایاں ہو اور تاریخ وادب کو دین کی دعوت اور مقاصدِشریعت کا خادم بناکر اس طرح استعمال کیاگیا کہ یہ ادارہ دعوت وخدمت دین کا ایک اہم مرکز بن گیاجس کی خدمات سےپورے عالم اسلام نے استفادہ کیا۔ حضرت مولانا نے اپنی انتھک جدوجہد سے اس ادارےمیں اپنے ہم رنگ علما کی ایک بڑی کھیپ تیار فر مائی جو بفضل تعالیٰ حضرت مولانا کے انداز ِ فکر و عمل کی امین ہے اور انھی کے طرز وانداز پر دین کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔

یوں تو حضرت مولانا کی تمام ہی تصانیف ہمارے ادب کا بہترین سرمایہ ہیں لیکن ”تاریخِ دعوت و عزیمت “اور ”دنیا پر مسلمانوں کےعروج وزوال کا اثر “ اور عالمِ اسلام میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش “ یہ تین کتابیں ایسی ہیں کہ راقم الحروف نے ان سے خاص طورپر بہت استفادہ کیا اور ان کے ذریعے بہت سی زندگیوں میں فکری اور عملی انقلاب رونما ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے بہت سے چھوٹے چھوٹے مقا لے جو الگ کتابچوں کی شکل میں شائع ہوئے ہیں،بلا کی تاثیر رکھتےہیں۔خاص طور پر ”اسمعوها مني صريحة أيها العرب“اور” ترشید الصحوة الإسلاميه“اور آخر میں وہ مقالے ہیں جنھوں نےدلوں کو جھنجوڑ کر انھیں فکروعمل کی سیدھی راہ دکھائی۔

عصری ضرورتوں کا احساس ہمارے دور میں بہت سے علما،رہنماؤں اور اہلِ قلم کو ہوا او رانھوں نے اخلاص کے ساتھ دین کی عصری حاجتوں کی تکمیل میں اپنی توانائیاں صرف کیں لیکن بسا اوقات عصری حاجتوں کی فکر نے ان کو دین کی سکہ بنداور ٹھیٹھ تعبیر سے ڈگمگا کر اسی راہ اختیار کرنے پر آمادہ کر دیا جو جمہورِ امت اور سلفِ صالحین کے جاوہ مستقیم سے ہٹی ہوئی تھی۔ لیکن حضرت مولانا علی میاں قدس سرہ کا معاملہ ان سے کہیں مختلف تھا۔ اس دور کا کوئی بھی حقیقت پسند انسان اس بات سے انکارنہیں کر سکتا کہ وہ امت مسلمہ کی عصری ضروریات کا مکمل احساس و ادراک رکھتے تھے۔ لیکن ان ضروریات کی تکمیل انھوں نےہمیشہ جمہورامت کے مسلمہ عقائد ونظر یات کے دائرے میں رہتے ہوئے کی اور کسی قسم کی مرعوبیت اور معذرت خواہی کی پر چھائیں بھی ان کی تحریروں پر نہیں پڑسکیں۔

جب مولانا سید ابو الاعلی مودودی صاحب مرحوم نے جماعتِ اسلامی کی بنیا د ڈالی تو وقت کی ایک اہم ضرورت سمجھ کر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ لیکن جب ان کے طرزِ فکر وعمل سے اختلاف سامنے آیا تو حضرت مولانا ان سے الگ تو ہوگئے لیکن جماعت اسلامی اور مولانا مودودی صاحب کی مخالفت کو اپنا ہدف نہیں بنایا، بلکہ مغربی افکار کی تردید میں انھوں نے جو قابل قدر کام کیا تھا، اس کی تعریف وتو صیف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ اور با لآخر ان کے طرزِ فکر وعمل پر جو عالمانہ تنقید حضرت مولانا نے ” اسلام کی سیا سی تعبیر “ میں سپر دِ قلم فرمائی وہ انھی کاحق تھا۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے مولانا مودودی اوران کے طرزِ فکر کے حامل دوسرے اہلِ علم سے اپنے اختلاف کو انتہائی متانت کے ساتھ مدلل اور مستحکم انداز میں بیان فرما کر ان بنیادی نکات کی نشاندہی فرمائی جن میں ان حضرات کی سوچ قرآن وسنت کے جادۂ اعتدال سے ہٹ گئی تھی۔

حضرت مولانا کی پوری زندگی ایک جُہدِ مسلسل سے عبارت تھی، دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں کی کوئی تکلیف یاخرابی ان کے دل میں کانٹا بن کر چبھ جاتی تھی اور وہ مقدور بھر اس کے ازالے کے لیے بے چین ہوجاتے تھے۔ ان کی خودنوشت سوانحِ حیات ” کاروانِ زندگی“ کے نام سے چھے جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور اس کے مطالعے سے ان کی ہمہ جہتی خدمات کا تھوڑا بہت اندازہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ مجھے تو اس بات پر حیرت ہے کہ اتنی مصروف زندگی میں انھوں نے اپنی یہ سوانح کس طرح تا لیف فرمائی جس میں ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات اتنی جُز رَسی کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ سچ ہےکہ جب اللہ تعالیٰ کسی سے کام لیتے ہیں تو اس کے اوقات میں بھی برکت عطافر مادیتے ہیں۔ اس سوانح کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ محض واقعات ِ زندگی کی داستان نہیں ہے بلکہ اس میں قدم قدم پر قاری کےلیے فکر و بصیرت کےنئے نئے پہلوا جاگر ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انھیں جن ہمہ جہتی خدمات کے لیے چنا تھا ان کے پیش نظر وہ کسی ایک ملک کی نہیں پورے عالم اسلام کی شخصیت تھی۔ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قد س سرہ کے سامنے جب کبھی حضرت مولانا کا ذکر آتا تو اکثر وہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ ”موفق من اللہ “ ہیں اور جوں جوں حضرت مولانا کی خدمات سامنے آ تی گئیں حضرت والد صاحب قدس سرہ کے اس جملے کی حقانیت واضح ہوتی گئی۔ لیکن ان ہمہ جہتی خدمات اور عالمگیر مقبولیت کے باو جود حضرت مولانا تواضع کے پیکر تھے۔ ان کے کسی انداز و ادا میں عجب و پندار کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ قبول حق کے لیے ان کا ذہن ہمیشہ کھلا ہوا تھا اور وہ اپنے چھوٹوں سے بھی ایسا معاملہ فر ماتے تھے جیسے ان سے استفادہ کررہے ہوں۔

مجھ نا چیز کے ساتھ حضرت مولاناکی شفقت و محبت اور عنایت کا جو معاملہ تھا اسے تعبیر کرنے کے لیے الفاظ ملنے مشکل ہیں۔ اگر چہ پاکستان اور ہندوستان کے بُعد کی بنا پر مجھے حضرت مولانا سے شرف ملاقات اور حضرت کی صحبت سے مستفید ہونے کےمواقع کم ملے۔ لیکن الحمداللہ خط و کتابت کے ذریعے ان سے تعلق قائم رہا۔ میں نےاپنے بہت سے ذاتی اور اجتماعی مسائل میں حضرت مولانا سے رہنمائی طلب کی اور انھوں نےہمیشہ بڑی شفقت ومحبت کےساتھ اپنے ارشادات سے نوازا۔ میں ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا تھا جب حضرت مولانا کی زیارت ملاقات کا شرف حاصل ہو میرا یہ اشتیاق سوفیصد فطری تھاکہ میرے لیے ان کی حیثیت ایک رہنماکی تھی میں اس بات کاحاجت مندتھا کہ ان کی صحبت جتنی ہو سکے میسر آئے لیکن یہ حضرت مولانا کی شفقت کی انتہاتھی کہ وہ بھی محض اپنے الطاف کریمانہ کی بنا پر مجھے اس سعادت سے بہر ہ ور کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ایک مرتبہ مجمع الفقہ الاسلامی ہند کا اجلاس بنگلور میں ہوتا تھا۔ احقر نے حاضری کا فی الجملہ وعدہ کر لیا تھا۔ حضرت مولانا کا گرامی نامہ آیا کہ میں نے تم سے ملنے کی خاطر اس سفر کا ارادہ کیا ہے۔ بعد میں اتفاق سے مجھے ایسی مجبوری پیش آگئی کہ میں وہاں نہ پہنچ سکا اور اس وقت ان کی زیارت سے محروم رہا۔ میں اپنی نادانی سےیہ سمجھاتھا کہ حضرت نے احقر کی خاطر داری کے لیے مذکورہ بالافقرہ لکھ دیا ہو گیا لیکن بعد میں انھوں نے اپنے خطوط میں جس طرح اس پر افسوس کا اظہار فرمایا اور صرف خطوط ہی میں نہیں، اپنی خود نوشت سوانح میں بھی اس واقعے کا جس ذکر فرمایا ہے وہ احقر کو غرقِ ندامت کرنے کے لیے کافی ہے۔ حضرت تحریر فر ماتے ہیں:’’۱۵،۱۴ ذو القعدۃ۱۴۱۰ھ ۱۱،۱۰،۹،۸ جون ۱۹۹۰ء کی تاریخوں میں مجمع الفقہ الاسلامی، ہند کا تیسرا عالمی مذاکرہ علمی (سیمینار) بنگلور میں دار العلوم سبیل الرشاد کے احاطے میں منعقد ہونے والا تھا۔ میں نے رائے بریلی کےقیام میں احتیاطا ً مجلس کے لیے مقالہ عربی میں تیار کر لیاتھا۔ مقالہ اگر چہ تیار تھا اور بنگلور کا موسم بمبئی سے کہیں زیادہ خوشگوار و خشک بھی ہوتاہے۔ اس کے باوجود اس موقعے پر سفر کے بارے میں بڑا ترد دتھا۔ اس کی وجہ یہ احساس تھا کہ فقہ پر راقم کو حد درجہ اختصاص اور مطالعے کی وسعت وعمق حاصل نہیں جو اس اہم مذاکرۂ علمی میں شرکت کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے شرکت سے معذرت کارجحان غالب تھا پھر صحت وافتادِ طبع کی بنا پر جن علمی مجالس میں بہت ”دھوم دھام“ ہوتی ہے۔ ان میں شرکت کرنے سے بھی طبیعت گریز کرتی ہے لیکن کچھ تو مولانا مجاہد الاسلام صاحب جیسے قابلِ احترام، قدیم اہلِ تعلق اور فاضل داعی سے شرم دامن گیر تھی۔ پھر اس سب پر مستزاد یہ تو قع تھی کہ فاضل گرامی قدر اور محبِ محترم مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی صاحب بھی اس مذاکر ے میں شرکت کے لیے خصوصی طورپر کراچی سے تشریف لانے والے ہیں۔ بمبئی میں بھی مجھے ان کا خط ملا تھا جس میں اس سفر کی آماد گی، تیاری اور ملاقات کے شوق کا ذکر تھا۔ ان کے برادر محترم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے بمبئی میں ملاقات بھی ہوئی تھی جو حیدر آباد کی ایک دعوت پر تشریف لائے تھے۔ اور مولانا تقی عثمانی کی آمد وشرکت کے متوقع تھے۔ بہر حال ان اسباب کی بناپر بنگلور کے سفر کا فیصلہ کر لیا گیا۔ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب غالباً سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے تشریف نہیں لاسکے جس کی ذاتی طورپر مجھے بے حد کمی محسوس ہوئی۔ غالباً ان کی عدم شرکت کی بناپر مجھ ہی کو اس موقر مجلسِ مذاکرہ کا صدر فرض کرلیا گیا۔

(کاروانِ زندگی ص:۲۲۲تا ۳۱۸)

اللہ اکبر ! تو اضع وانکسار اور چھوٹوں پر شفقت وعنایت اور ان کی قدر افزائی کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے؟پھر بنگلور کے اس سفر میں ملاقات نہ ہوسکنے کا تاثر حضرت پر اس وقت تک رہا جب تک تین ماہ بعد ان سے مکہ مکرمہ میں ملاقات نہ ہوگئی۔ اس ملاقات کا تذکرہ بھی حضرت نے کاروانِ زندگی میں اس طرح فرمایاہے:

”راقم کی نگا ہیں اس موتمر میں پاکستان کے ان مانوس ومحبوب چہروں کو ڈھونڈرہی تھیں جس سے خصوصی دینی وفکری رابطہ اور انس ومحبت کارشتہ ہے۔ اچانک جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی، حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب اور جسٹس افضل چیمہ صاحب پرنظر پڑی۔ یہ حضرات بھی غالباً اسی شوق و جستجو میں تھے۔ یہ حضرات مغرب کے بعد ڈاکٹر مولوی عبداللہ عباس ندوی صاحب کے مکان پرتشریف لے آئے۔ وہیں عشا کی نماز پڑھی، کھانا نوش فرمایا اور دیر تک مجلس رہی۔ اس طرح بنگلور میں فقہی سیمینار کے موقعے پر جو ۸تا۱۱ جون ۱۹۹۰ء کو منعقد ہوا تھا، مولانا محمد تقی صاحب عثمانی سے (جوایک مجبوری سے تشریف نہیں لاسکے تھے) نہ ملنے کی حسرت پوری ہوگئی۔ دیر تک مجلس رہی جس میں پاکستان کے حالات پر بھی تبصرہ ہوا۔ آخری دن مولانا سمیع الحق صاحب مہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے اچانک ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی راقم کاخاص رابطہ ہے۔ اسی مجموعے میں اگر محترمی مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کو شامل کر لیا جائے تو جہاں تک راقم کا تعلق ہے یہ پاکستان کے وہ معتمد ترین اور منتخب ترین افراد ہیں جن سے راقم کو خصوصی رابطہ و تعلق ہے۔اور وہ بھی اس عاجز پر خصوصی کرم فر ما تے ہیں۔ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی راقم کے دل میں جو قدرومنزلت ہے اس سے ان کے احباب بخوبی واقف ہیں اور ان کو بھی غالباً اس کا احساس ہے‘‘۔

(کاروانِ زندگی،ص:۳۰۴)

حضرت کی خصوصی شفقت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی ان کی کوئی نئی تالیف آتی اس کا ایک نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ مجھ نا کارہ کو ضرور بھجواتے۔ اس معاملے میں ڈاک پر اعتماد نہ تھا۔ اس لیے کوشش یہ فرماتے کہ کسی آنےوالے کے ذریعے دستی پہنچ جائے۔ اور بعض اوقات احتیا طاً کئی آدمیوں کے ذریعے ایک ہی کتاب کے کئی نسخے بھجوا دیتے تھے۔ جب حضرت کی معر کہ آ را تالیف ” المر تضیٰ“ منظرِ عام پر آئی تو اس کے کئی نسخے احقر کے پاس بھیجے اور حکم فرمایا کہ اس پر البلاغ میں بے لاگ تبصرہ لکھوں۔ احقر نے حکم کی تعمیل کی اور کتاب کی نمایاں خصوصیات ذکر کرنے کے ساتھ چند طالب علما نہ گزارشات بھی پیش کیں۔ حضرت نے ان گزار شات کی ایسی قدر افزائی فرمائی کہ میں پانی پانی ہوگیا۔

اس واقعے کا ذکر بھی حضرت نے ” کاروانِ زندگی “ میں کیا ہے۔ ” المرتضیٰ “ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”بعض حلقوں میں کتاب کا استقبال اور ردعمل مصنف کی توقع اور کتاب کی قدرو قیمت کے خلاف ہوا۔ مؤ لف کتاب کو ایسے خطوط اور تنقید تبصرے بھی ملے جن میں سخت و تیز و تند لہجہ استعمال کیا گیا اور چبھتی ہوئی طنز یہ زبانوں میں کتاب اور مؤلف کتاب کو نشانۂ تنقید و تضحیک بنایا گیا، رسائل کے تبصرے بھی عام طورپر پھیکے اور خانہ پُری کا نمونہ تھے(اس کلیے میں البلاغ کراچی کا وہ منصفانہ، حقیقت پسندانہ اور فراخ دلانہ تبصرہ ایک ممتاز و مستثنیٰ حیثیت رکھتاہے۔ جو فاضل گرامی جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی کے قلم سے نکلا اور رسالہ ”البلاغ “ رمضان المبارک ۱۴۰۹ھ کے شمارے میں شائع ہوا)

(کاروانِ زندگی، ۳۴)

حضرت مولانا کے جو مکاتیب میرے پاس محفوظ ہیں ان کی تعداد بھی خاصی ہے۔ چونکہ ان مکاتیب میں پڑھنے والے کے لیے کوئی نہ کوئی سبق ضرور موجود ہے اس لیے میں ان میں سے چند مکاتیب البلاغ ہی میں الگ سے اشاعت کے لیے دے رہاہوں ان میں راقم الحروف کے بارےمیں شفقت آمیز کلمات ہیں وہ احقر کے لیے سعادت او ر فال نیک ضرور ہیں اور دعا کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کااہل بننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ لیکن انھیں پڑھ کر کوئی صاحب احقر کی حقیقی حالت کے بارے میں کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار نہ ہوں البتہ یہ مکتوب نگار کی عظمت کی دلیل ضرور ہیں کہ وہ ا پنے چھوٹوں سے بھی کس عزت افزائی کا معاملہ فرماتے تھے۔ حضرت مولانا نے میری کتاب ”عیسائیت کیا ہے؟ “ بہت پسند فر مائی اور اس کے عربی اور انگریزی ترجمے پر بھی زور دیا جو الحمد اللہ ان کی دعاؤں سے شائع ہوا اور عربی تر جمے کے لیے مترجم کی خدمت میں ہدیہ بھی پیش فرمایا اور اس پر مفصل مقدمہ بھی لکھا۔ آخری دور میں حضرت نے میری کتاب ”تکملہ فتح الملہم“ پر بھی اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود مبسوط مقدمہ تحریر فر مایا۔

امسال دارالعلوم کراچی کی طرف سے شوا ل کے آخر میں فضلاے دارالعلوم کی دستار بندی کے لیے سالہا سال کے بعد ایک جلسہ منعقد کرنےکا خیال ہے۔ مقصدیہ تھا کہ اس موقعے پر اکابر علما کا ایک اجتماع بھی ہو جائے۔ اس موقعے پر جن اکا بر علما کو دعوت دینے کا خیال تھا ان میں حضرت مولاناکااسم گرامی سر فہرست تھا۔ چنانچہ احقر نےجمعرات ۲۱ رمضان المبارک کو ندوۃ العلماء میں فون کیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت رائے بریلی میں تشریف فر ما ہیں۔ وہاں فون کیا تو حضرت اس وقت فون کے پاس نہیں تھے۔ فاضل گرامی جناب مولانا محمد رابع ندوی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایاکہ الحمداللہ حضرت کی صحت بہتر ہے۔ فالج کا جوا ثر پچھلے دنوں ہواتھا۔ بفضلہ تعالیٰ وہ اب زائل ہو چکا ہے اور حضرت کمزوری کے باوجود رو زے بھی رکھ رہے ہیں۔ یہ سن کر الحمد اللہ بہت اطمینان ہوا۔ جناب مولانا رابع صاحب نے میرا پیغام حضرت تک پہنچا نے کا وعدہ کیا اور فر مایا کہ آپ سے حضرت کو جو محبت ہے اس کے پیشِ نظر وہ اس دعوت کو ضرور اہمیت دیں گے۔ تاہم میں نے ان سے وہ مناسب وقت معلوم کیا جس میں ان سے براہ راست بات ہوسکے۔ مولانا نے فرمایا کہ صبح دس بجے کے قریب حضرت فون کے پاس ہوتے ہیں۔ میں نے ارداہ کیا کہ ان شاء اللہ ہفتے کی صبح کو حضرت سے ہمکلامی کا شرف حاصل کروں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جمعہ کی رات کو میرے بھتیجے عزیز خلیل اشرف عثمانی صاحب سلمہ نے فون پر بتایا کہ ریڈیو ٹیلیویژن سے حضرت کی وفات کی خبر نشر ہو چکی ہے۔ دل پر بجلی سی گری، مگر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے پاس بلانےکے لیے رمضان کا مبارک مہینا، جمعہ کا مقدس دن اور وہ وقت منتخب فرمایا جس میں وہ تلاوت قرآن کریم میں مشغول تھے۔ ان کی زندگی جتنی پاکیزہ تھی اللہ تعالیٰ نے موت بھی ایسی ہی پا کیزہ عطافرمائی۔

(إنا لله وإنا إلیه راجعون)

اس واقعے پر یوں تو ہر مسلمان تعزیت کا مستحق ہے۔لیکن خاص طورپر حضرت کے اہل خانہ، دار العلوم ندوۃ العلماء کے منتظمین اور اساتذہ، نیز حضرت کے تمام متوسلین کی خدمت میں البلاغ کی طرف سے پیغام تعزیت پہنچ سکے۔

حضرت مولانا اب دنیا میں نہیں ہیں لیکن انھوں نےجو گرا ں قدر مآثِر چھوڑے ہیں۔ وہ ان شاء اللہ رہتی دنیا تک امت کی رہنمائی کریں گے۔

اللهم لاتحرمنا أجره ولا تفتنا بعده، اللهم أکرم نزله ووسع مدخله و أبدله دارا خیراً من داره وأهلا خیراً من أهله وأغسله بماء الثلج والبرد ونقه من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس آمین یا أرحم الراحمین

(ماہانہ ”البلاغ “ ذی قعد ہ ۱۴۶۰ھ/فروری ۲۰۰۰ء)

لرننگ پورٹل