لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

مولانا محمد اقبال
رکن شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

عبادت اور تقویٰ کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
سورۃ البقرہ ، آیت :۲۱


﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾


’’اے لوگو !اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔

آیتِ مبارکہ کی تفسیر

مؤمنین،کفار اور منافقین کے اوصاف بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نےتمام بنی نوعِ انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں اپنے خالق کی عبادت کا حکم دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ متقی پرہیزگار بن جائیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پائیں۔ 

آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کواپنے پروردگار کی عبادت کا حکم دیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی ’’عبادت‘‘ سے کیامراد ہے۔ حضراتِ مفسرین اور اصحابِ فن کے ارشادات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے گا:

حضرت امام رازی رحمہ اللہ عبادت کی شرح اس طرح فرماتے ہیں: فَاعْلَمْ! أَنَّ الْعِبَادَةَ عِبَارَةٌ عَنِ الْإِتْيَانِ بِالْفِعْلِ الْمَأْمُورِ بِهِ عَلَى سَبِيلِ التَّعْظِيمِ لِلْآمِرِ(مفاتيح الغيب، التفسير الكبير،ج:۱،ص:۲۶)’’جان لیجیے!امر کرنے والےکی تعظیم کے طور پر فعل مأمور بہ کی بجا آوری کو عبادت کہا جاتا ہے‘‘۔

شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ عبادت کے متعلق فرماتے ہیں:  العبادة: هِي اسْمٌ جَامِعٌ لِكُلِّ ما يُحِبُّه اللهُ ويَرْضاهُ مِنَ الْأَقْوالِ وَالأَعْمالِ الظّاهِرَةِ وَالْباطِنَةِ (فتح المجيد شرح كتاب التوحيد، ص:۲۰)’’اقوال اور اعمالِ ظاہرہ و باطنہ میں سے ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کا باعث بنے اسے عبادت کہتے ہیں ‘‘۔

علامہ شریف جرجانی رحمہ اللہ عبادت کی تعریف یوں فرماتے ہیں: العبادة: هُوَ فِعْلُ الْمُكَلَّفِ عَلى خِلافِ هَوى نَفْسِهٖ؛ تَعْظِيمًا لِرَبّه(كتاب التعريفات، علي بن محمد بن علي الزين الشريف الجرجاني ،ص:۱۴۶،)اپنے رب کی تعظیم کے طور پرمکلف کےاپنے نفس کی خواہشات کے خلاف’’ فعل‘‘ کو عبادت کہتے ہیں‘‘۔

چنانچہ ان تعریفات کی روشنی میں ’’ عبادت‘‘ کا مفہوم بالکل واضح ہے،اس میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ لہذا عبادت نام ہے غایتِ تعظیم کے ساتھ اپنےخالق و مالک کے احکام کی بجا آوری اور اس کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنا خواہ وہ اعتقادات کے باب میں ہوں یا اقوال و اعمال ظاہرہ وباطنہ سے متعلق ہوں۔ وہ جس کام سے روک دیں اس سے رکنا اور جس کا حکم کریں اسے نہایت عاجزی کے ساتھ بجالانا عبادت ہے۔ارکانِ اسلام؛ نماز، روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی نہ صرف عبادت میں شامل ہے بلکہ نہایت اہم اورضروری عبادات میں سے ہیں۔  

عبادت کی ایک خود ساختہ تفسیر

عصرِ حاضر کےایک داعیٔ قرآن ’’عبادت اور عبادات میں فرق‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:’’اصل میں ہمارے ہاں تصورات کے اندر جو خرابی اور کجی پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ہم نے ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ نماز، روزہ، زکو ٰۃ اور حج عبادات ہیں لیکن عبادت فی الاصل کوئی اور شے ہے، جبکہ ہمارا تصورِ عبادت صرف انھی چند مراسمِ عبودیت تک محدودہو کر رہ گیا ہے۔ یہ ہمارے دینی فکر کی سب سے بڑی اور سب سے بنیادی کجی ہے‘‘۔

اس اقتباس میں ’’عبادت‘‘اور ’’عبادات‘‘ کو ایک دوسرےسے الگ تصورکیا گیا ہے۔نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو چند مراسم عبودیت قرار دے کر اصل’’عبادت‘‘ سے خارج کردیا گیا ہے اور ’’عبادت کو فی الاصل کوئی اور شے‘‘ سمجھ لیاگیا ہے۔ پتا نہیں یہ تقسیم کن بنیادوں پر کی گئی ہے، حالانکہ اہلِ علم کے نزدیک عبادت نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے پروردگار کے اوامر و احکام کی تعمیل ہے اور مذکورہ احکام ؛نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج نہ صرف عبادت بلکہ ارکانِ اسلام اور  رأس الطاعات ہیں ۔ لہذا یہ مزعومہ تقسیم اکابر اہلِ علم کے تصورِ عبادت سے بالکل مختلف اورسمجھ سے بالاتر ہے۔ اس نقطۂ نظر سے پیدا ہونے والے ایک غلط طرزِ عمل کا ذکر بھی ناگزیر ہے:جب ارکانِ اسلام یا عبادات کو مراسمِ عبودیت قرار دیا جاتا ہے تو کم فہم لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ عبادات مقصودِ اصلی نہیں، بلکہ کسی عظیم مقصد کی تیاری اور اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ وہ عظیم مقصد مختلف تحریکوں اور جماعتوں کا متعین کردہ ہوتا ہے۔ مثلا کہیں انقلاب اور کہیں اقامتِ دین اور کہیں حکومتِ الہیہ کا قیام وغیرہ۔ اب انقلاب یا حکومت کا قیام اہم ترین اور عظیم ترین مقصد قرار پاتا ہے چنانچہ نماز اس مقصد کےلیے قائم کی گئی تحریک کے امیر کی اطاعت سکھاتی ہے، نظم و ضبط کا خوگر بناتی ہے، زکوٰۃ اس تحریک کے لیے مال خرچ کرنے کی تربیت کا ذریعہ ہے، حج انقلابی سرگرمیوں کے لیے گھر بار چھوڑنے کی مشق ہے علی ہذا القیاس۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باجماعت نماز ترک کی جاسکتی ہے اگر کوئی مشاورت، جلسہ یا خصوصی خطاب ہو۔ تراویح ترک کردی جاتی ہے اگرکسی ترجمۂ قرآن کی محفل کا انتظام سنبھالنا ہو، ستم یہ کہ بہت سے نادان لوگ ترجمۂ قرآن کی محافل میں تراویح کے وقفے میں آرام فرمانے لگے تاکہ ایک عظیم مقصد کے حصول کے لیے منعقد کیے گیے خطبات کو توجہ سے سن سکیں۔ بہت سی مذہبی تنظیموں کے کارکن ’ہینڈ بل‘ تقسیم کرنے کے لیے سنن و نوافل ترک کرنے میں کوئی عار نہیں پاتے اور نمازِ عید کے بعد خطبہ سننا ضروری نہیں سمجھتے کہ مقصودِ اصلی تو انقلاب یا حکومت ہے۔ اسی طرح بہت سے شرعی امور شرائط و ارکان کی حساسیت سے محروم ہوجاتے ہیں مثلاً زکوٰۃ سے کسی بستی میں کنواں کھدوا دیا، اور مالِ زکوٰۃ کسی مستحق کی ملکیت بنانا ایک اضافی بات قرار پاتی ہے وغیرہ۔ اس تصور کی اصلاح ناگزیر ہے کہ یہ عبادات ہی مقصود ہیں اور اس پر بہت سی احادیث شاہد ہیں۔ سیرت کے بے شمارواقعات اس تصور کی نفی کرتے ہیں۔

تقویٰ اور عبادت کی شرح میں اکابر مفسرین کے چند اقوال

﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہے تو اس کا نتیجہ تمھارے حق میں یہ نکلے گا کہ متقی اور پر ہیزگار بن جاؤگے اور باری سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی تمھیں حاصل ہو جائے گی ۔کیونکہ ’’تقویٰ‘‘ قربِ باری تعالیٰ کاوہ مقام ہے جہاں بندہ اپنے رب کے ماسویٰ سے یکسر لاتعلق ہوکر رہ جاتا ہے۔

مشہور مفسرِ قرآن امام طبری رحمہ اللہ ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ کی تشریح میں فرماتے ہیں:  وتَأْوِيلُ ذَلِكَ: ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقونَ بِعِبَادَتِكُم رَبَّكُم الَّذِي خَلَقَكُمْ، وَطَاعَتِكُمْ إِيّاهُ فِيما أَمَرَكُمْ بِه وَنَهَاكُمْ عَنْهُ، وإِفْرَادِكُمْ لَهٗ الْعِبَادَةَ لِتَتَّقُوا سَخَطَهٗ وَغضَبَهٗ أَن يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ، وَتَكُونُوا مِنَ الْمُتَّقَينَ الّذِينَ رَضِيَ عَنْهُمْ رَبُّهُمْ(جامع البيان في تأويل القرآن،محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري،ج:۱،ص:۳۶۸)’’اس کی تفسیر یہ ہے : تاکہ تم اپنے اس پروردگارکی جس نے تمھیں پیدا کیا ہے عبادت کے ذریعے،یعنی اوامر کو بجالانے اور منہیات سے اجتناب کے ذریعے متقی بن جاؤ،عبادت اُسی کےلیے خالص کرنے کی وجہ سے اس کی ناراضی اور غضب سے بچ جاؤ اورتم ان متقی بندوں میں سے ہو جاؤ جن سے ان کا رب راضی ہواہے‘‘۔

اسی طرح علامہ قاضی بیضاوی رحمہ اللہ اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں: لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ حَالٌ مِن الضَّميرِ في اعْبُدُوا كَأَنه قال:اُعْبُدوا رَبَّكُم راجِينَ أن تَنْخَرِطوا في سِلْكِ الْمُتقينَ الْفائِزينَ بِالْهدى وَالْفَلاحِ، اَلْمُسْتَوجِبِينَ جَوارَ اللهِ تَعالىٰ، نَبَّهَ بِه على أَنّ التَّقْوى مُنْتَهَى دَرَجَاتِ السّالِكِينَ وهُوَ التَّبَرِي مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سِوَى اللهِ تعالى إلى اللهِ(أنوار التنزيل وأسرار التأويل ،ناصر الدين أبو سعيد عبد الله بن عمر بن محمد الشيرازي البيضاوي)’’یہ:  لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ اعْبُدُوا کی ضمیر مخاطب سے حال واقع ہے ،گویا اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم اپنے پروردگار کی اس امید پر عبادت کرو کہ تم متقین کی لڑی میں پروئے جاؤ گے وہ متقین جو قرب الٰہی کے اسباب یعنی ہدایت و فلاح کے مقام پر فائز ہیں جن کواللہ تعالیٰ نے اس آیت سے اس بات پر متنبہ فرمایا کہ تقویٰ مدارج سلوک کا آخری درجہ ہے اوریہ کہ تقویٰ ماسوائے اللہ تعالیٰ سے بے زار ہو کر خدا کا ہولینا ہے‘‘۔

﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ کے ترجمے پر اعتراض

بعض حضرات نے آیتِ مبارکہ کےاس حصے ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ کا اُردو میں یہ ترجمہ کیا ہے’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘ یہ درست ترجمہ ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، مگرمذکورہ داعیٔ قرآن اس اردوترجمے کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ کا ترجمہ عام طو رپر کر دیا جاتا ہے: ’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘ یہ صحیح نہیں ہے‘‘۔ان کا یہ اعتراض بھی درست معلوم نہیں ہوتا، اس لیے کہ ہم نے اوپر اکابر مفسرین کی اس آیت کی تفسیر کے تحت مفاہیم کا جائزہ لیا ہے اورانھوں نے جو معنیٰ بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں درج بالا ترجمہ’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘ درست معلوم ہوتاہے،اس میں بظاہرکوئی اشکال نہیں ہے،اسے غلط قراردینا محلِ نظر ہے۔ واللہ اعلم

لرننگ پورٹل