لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024

جنگِ موتہ اور اس کے بعد غزوۂ تبوک کی مہمات نے ہر طرف مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ عرب کے وہ قبائل جو رومی سلطنت کے باج گزار تھے ان سے رومی رعب و دبدبہ ختم ہو ا تو ان میں سے بعض نے رسول اللہﷺکے ساتھ صلح کی۔ مُعان کے علاقے میں فَروہ بن عَمرو الجُذامی روم کی طرف سے والی تھے۔انھوں نے اسلام قبول کیا۔رومیوں کوپتا چلا تو انھوں نے فروہ سے جواب طلبی کی اور انھیں روم بلا کر پہلے تو قید کیا اور پھر شہید کر دیا۔ مسلمانوں نے بجا طور پر محسوس کیا کہ رومی اس اقدام سے لوگوں کو خوفزدہ کر کے اسلام سے روکنا چاہتے ہیں۔اس صورتِ حال کا ازالہ ضروری تھا ورنہ جنگِ موتہ اور غزوۂ تبوک سے پڑنے والا رعب و دبدبہ ختم ہونے کا اندیشہ تھا۔ ۱۰ ہجری میں نبی کریمﷺحج الوداع کے لیے تشریف لے گئے۔ حجۃ الوداع سے واپسی کے بعد ۱۱ ہجری ماہِ صفر کے آخر میں نبی کریمﷺنے فوجی مہم شام کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔

جنگ موتہ ’بلقاء‘ کے رومی گورنر کے ہاتھوں شہید ہونے والے سفیر سیدناحارث بن عمیر الازدی رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے لڑی گئی تھی۔ اس میں شہید ہونے والے تین کمانڈروں میں زید بن حارثہ رضی اللہ بھی شامل تھے۔ انھی کے صاحبزادے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو حضور کریمﷺنے اس آخری فوجی مہم کی سربراہی کے لیے منتخب کیا۔اس تعیناتی میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کے ساتھ گویا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے انتقام کی طرف اشارہ بھی پایا جاتا تھا۔ آپﷺنے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس مہم کی امارت سونپتے ہوئے ارشاد فرمایا: ((سِرْ إِلَى مَوْضِعِ مَقْتَلِ أَبِيكَ فَأَوْطِئْهُمُ الْخَيْلَ فَقَدْ وَلَّيْتُكَ هَذَا الْجَيْشَ فَأَغِرْ صَبَاحًا عَلَى أَهْلِ أُبْنَى وَحَرِّقْ عَلَيْهِمْ وَأَسْرَعِ السَّيْرَ تَسْبِقُ الْأَخْبَارَ، فَإِنْ ظَفَّرَكَ اللَّهُ فَأَقْلِلِ اللُّبْثَ فِيهِمْ وَخُذْ مَعَكَ الْأَدِلَّاءَ وَقَدِّمِ الْعُيُونَ وَالطَّلَائِعَ أَمَامَكَ)) ’’اپنے باپ کی قتل گاہ کی طرف چلو اور اپنے گھوڑوں سے ان کی سرزمین کو روند ڈالو۔میں تمھیں اس لشکر کا سالار بناتا ہوں، پس علی الصبح اُبنٰی پر یلغار کرو اور ان پر آگ جلا دو، تم تیزی سے سفر طے کرو تاکہ خبر پہنچنے سے پہلے پہنچ جاؤ اور اگر اللہ تمھیں ان پر فتح دے تو وہاں تھوڑی دیر رکنا، اپنے ساتھ رہبر لے لو اور اپنے جاسوس اور سراغسانوں کو آگے روانہ کردو‘‘۔

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی امارت کے بارے میں بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو نبی کریمﷺنے فرمایا: ((أَيُّهَا النَّاسُ فَمَا مَقَالَةٌ بَلَغَتْنِي عَنْ بَعْضِكُمْ فِي تَأْمِيرِي أُسَامَةَ وَلَئِنْ طَعَنْتُمْ فِي إِمَارَتِي أُسَامَةَ، لَقَدْ طَعَنْتُمْ فِي إِمَارَتِي أَبَاهُ مِنْ قَبْلِهِ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لِلْإِمَارَةِ لَخَلِيقًا وَإِنَّ ابْنَهُ مِنْ بَعْدِهِ لَخَلِيقٌ لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّهُمَا لَمَخِيلَانِ لِكُلِّ خَيْرٍ وَاسْتَوْصُوا بِهِ خَيْرًا فَإِنَّهُ مِنْ خِيَارِكُمْ)) ’’ اے لوگو !اسامہ کو امیر بنانے کے بارے میں تم میں سے بعض لوگوں کی باتیں مجھ تک پہنچی ہیں، اگر تم اس کی امارت میں طعن کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت کے بارے میں بھی باتیں بنا چکے ہو، خدا کی قسم وہ بھی امارت کے لائق تھا اور اس کا بیٹا اسامہ بھی منصب امارت کا اہل ہے، اور وہ عام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور بے شک وہ دونوں اس لائق ہیں کہ ان سے ہر قسم کی نیک توقعات وابستہ کی جائیں۔ پس اے لوگو! تم اسامہ کے بارے میں مجھ سے اچھائی کی وصیت قبول کرو‘‘۔ اپنی رحلت سےچند دن قبل رسول اللہﷺنے اپنے ہاتھ سے جھنڈا باندھ کر اسامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا اور فرمایا: ((اُغْزُ بِسْمِ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَاتِلْ مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ)) ’’اللہ کے نام کے ساتھ،اس کے راستے میں جہاد پر نکلو اور ان سے لڑو جو اللہ کا کفر کرتے ہوں‘‘۔سیدنااسامہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا بريدة بْن الحصيب الأسلمي کے حوالے کیا اور اپنی فوج کو لے جا کر جرف میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ کی فوج میں مہاجرین و انصار کے اکابر مثلا ً سیدناابو بكْر صديق، سیدناعمربن الخطاب، سیدناابو عبیدہ بن الجراح،سیدناسعد بن ابی وقاص اور سیدناسعيد بن زيد رضی اللہ عنہم تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں بھی حضرت اسامہ کو یا ایھا الامیر کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔

جن لوگوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی مہم میں جانا تھاوہ رسول اللہ ﷺسے مل کر الوداع ہونے لگے۔ جرف کے مقام پر آپ کا معسکر تھا لوگ وہاں جمع ہونے لگے جب آپ کو حضورﷺکی طبیعت کی خرابی کا علم ہوا تو وہیں رک گئے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مدینہ واپس ہو لیے۔ اتوار کے دن سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکے پاس تشریف لائے اور آپ کا بوسہ لیا۔ حضور کریمﷺبات نہ کر سکے لیکن ہاتھ اٹھائے۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے یقین ہے وہ میرے لیے دعا کر رہے تھے۔اس کے بعد اسامہ اپنے معسکر میں آ گئے۔ پھر پیر والے دن سیدنااسامہ رضی اللہ عنہ دوبارہ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو رسول اللہﷺنے آپ کو روانگی کا حکم دیا: ((اُغْدُ عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ)) ’’اللہ کی برکت کی امید پر چلو‘‘۔آپ رضی اللہ عنہ اپنے معسکر میں تشریف لے گئے اور لشکر کو روانگی کا حکم دیا۔ جب روانگی کے لیے بالکل تیار ہو چکے تو رسول اللہ ﷺکی رحلت کی خبر ملی۔ سیدنا اسامہ بن زید، سیدناعمر فاروق اور سیدناابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہم مدینہ پہنچ آئے، جبکہ بعد میں اہلِ لشکر بھی مدینہ لوٹ آئے اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے اپنا جھنڈا حضور کریمﷺکے دروازے کے باہر ہی لگا دیا۔

رسول اللہﷺکی تدفین کے بعد جب سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت ہو چکی توا نھوں نے حکم دیا کہ جیشِ اسامہ کو روانہ کر دیا جائے۔ لوگوں نے بہ اصرار رائے دی کہ جیشِ اسامہ کو روک لیں، اس لیے کہ مدینے کے اردگرد ارتداد کا فتنہ پھوٹ پڑا ہے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی یہی رائے تھی۔ لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس مہم کے جاری رکھنے کا عزم مصمم ظاہر کیا اورفرمایا: ’’خدا کی قسم میں اس جھنڈے کی گرہ نہ کھولوں گا جو اللہ کے رسولﷺنے لگائی ہو۔ کیا تم لوگ مجھے رسول اللہﷺکے فیصلے کے برعکس رائے دیتے ہو… ‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ جو لوگ رسول اللہ کی زندگی میں اس لشکر میں شامل تھے وہ سب کے سب نکلیں سوائے اس کے کہ آپ خود خلافت کی ذمے داری کی وجہ سے لشکر میں شامل نہ ہوئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنےپاس رکھنے کی اجازت انھوں نے امیر لشکر سے لے لی۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی باگ پکڑے دور تک گئے اور لشکر کو الوداع کیا۔

مشکل حالات میں جیشِ اسامہ کو روانہ کرنا ایک بہترین فیصلہ تھا۔مسلمانوں کا لشکر جہاں سے گزرتا لوگ مرعوب ہوتے جاتے اور کہتے اگر مسلمان مضبوط و متحد نہ ہوتے اور ان کے پاس طاقت نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی روم کے مقابلے میں نہ نکلتے۔آپ کا لشکر بیس دنوں میں اُبنٰی پہنچا۔ یہاں جن لوگوں نے آپ کا مقابلہ کیا انھیں قتل کیا گیا اور ایک گروہ کو قیدی بنایا۔ آپ نے رسول اللہﷺکے حکم کے مطابق ان کے گھروں اور فصلوں کو جلا دیا۔ آپ کو بہت سارا مالِ غنیمت ملا جو آپ نے شرعی ضابطے کے مطابق تقسیم کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ وہاں ایک دن مقیم رہے اور پھر واپسی کی راہ لی اور راستے ہی سے مدینہ کی طرف اپنی فتح کی اطلاع روانہ کی۔ آپ کے لشکر کو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ مالِ غنیمت خوب حاصل ہوا۔ آپ مدینہ واپس آئے تو آپ کا شاندار استقبال ہوا۔ہِرَقْل ان دنوں حِمص میں مقیم تھا۔ جب اسے جیشِ اسامہ کی کاروائی کی اطلاع ملی تو وہ تلملا کر رہ گیا۔اس نے بلقا ء کے علاقے کے آس پاس فوجی پہرے کا انتظام کر دیا۔ (الطبقات الکبری)

نبی کریمﷺکی رحلت کے بعد بہت سارے قبائل اسلام سے منحرف ہو گئے ،ان میں سے کچھ تو اسلام کے بعض احکام کے منکر تھے اور بعض تو بالکل اسلام ہی سے مرتد ہو کر جھوٹے مدعیان نبوت کے پیروکار بن گئے۔ ان میں بنو اسد ،بنو غطفان ، بنو تمیم ،ہوازن ،بنو قضاعہ ، بنو حنیفہ ، بنو سلیم وغیرہ شامل تھے۔ ان میں بعض قبائل بہت طاقتور ہو گئے تھے۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان تمام کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا۔ سنہ ۱۱ ہجری میں آپ انھی مرتدین و مانعین کی طرف متوجہ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام محاذووں پر مسلمانوں کو کامیابی دی اور ہر طرح کی شورشوں اور بغاوتوں کا قلق قمع ہو گیا۔ ان جنگوں کے اہم کمانڈر حضرت خالد بن الوليد، حضرت عِكرمہ بن ابی جہل، حضرت عمرو بن العاص، حضرت خالد بن سعيد بن العاص، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہم اجمعین تھے۔ جزیرۃ العرب سے فراغت کے بعد ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شام کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس کے لیے آپ نے مکہ اور یمن وغیرہ کی طرف خط روانہ کیے، ان سب کا مضمون ایک ہی تھا:

بسم الله الرحمن الرحيم

سلامٌ عَلَيْكُمْ

أمّا بَعْدُ! فَإِنّي أحْمَدُ اللهَ الّذي لا إلهَ إلّا هُوَ وَأُصَلّي عَلى نَبِيِّه مُحَمَّدٍﷺوقَدْ عَزَمْتُ أَنْ أُوَجِّهَكُم إلى بِلادِ الشّامِ لِتَأخُذُوهَا مِنْ أيْدي الْكُفَّارِ والطُّغَاةِ فَمَنْ عَوّلَ مِنْكُم عَلى الْجِهَادِ والصِّدَامِ فَلْيُبَادِرْ إلى طاعَةِ الْمَلِكِ الْعَلّام ﴿اِنْفِرُوا خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ ’’اللہ کے نام سےجو رحمن اور رحیم ہے۔ تم سب پر سلامتی ہو۔ اس کے بعد میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں درود وسلام بھیجتا ہوں نبی کریمﷺپر، اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ تم لوگوں کو شام کی طرف روانہ کروں تاکہ اسے کافروں اور سرکشوں سے چھین لو۔ پس تم میں سے جس کا جہاد اور کفار کے ساتھ تصادم کا ارادہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بادشاہِ حقیقی کی اطاعت کرے (کہ وہ فرماتا ہے): نکلو چاہے ہلکے ہویا بوجھل اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو‘‘۔

اللہ تعالی کی طرف سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس دعوت کے لیے لوگوں کے دلوں میں قبولِ عام رکھ دیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو یمن کی طرف خط لے کر گئے تھے واپسی پر اپنی کارگزاری سناتے ہوئے کہتے ہیں: يَا خليفةَ رسولِ اللهِ وحَقُّكَ علَى اللهِ مَا قَرَأْتُ كِتَابَكَ عَلى أَحَدٍ إلّا و بَادَرَ إلى طاعةِ اللهِ و رسولِه وأَجابَ دَعْوَتَكَ و قَدْ تَجَهَّزُوا ’’اے جانشینِ رسول! اور اللہ کے ہاں آپ کا یہی مقام تھا کہ میں نے جس پر بھی آپ کا خط پڑھا وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کی طرف کی طرف دوڑ پڑا اور اس نے آپ کی دعوت قبول کی اور انھوں نے نکلنے کی تیاری شروع کر دی‘‘۔

چند ہی دنوں میں یمن اور اطراف کے مختلف قبائل کے دستے مدینہ پہنچنے لگے جنھیں مضافاتِ مدینہ میں ٹھہرایا گیا۔ جب ایک معقول تعداد جمع ہو گئی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ معسکر کی طرف نکلے جب کہ حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان، حضرت علی اور دیگر اصحاب رضی اللہ عنہم آپ کے ہمراہ تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو دیکھا تو خوشی سے آپ کا چہرہ کھلکھلا اٹھا اور آپ نے دعا کی: اَللّهم أَنْزِلْ عَليهِمُ الصّبْرَ وأَيّدَهُمْ ولا تَسْلِمْهُمْ إلى عَدُوِّهِمْ إنَّكَ على كُلِّ شَيْءٍ قَديرٌ(فتوح الشام) ’’اے اللہ ان پر صبر نازل فرما اور ان کی مدد فرما اور انھیں دشمنوں کے حوالے مت فرما،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے متعدد لشکر روانہ کیے۔(باختلاف روایات) آپ نے سب سے پہلے حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو بلایا، جب وہ سامنے آ گئے تو آپ نے اپنے ہاتھ سے جھنڈا باندھ کر ان کے ہاتھ میں تھمایا اور حکم جاری کیا کہ میں ایک ہزار کے لشکر کا امیر آ پ کو بناتا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت ربیعہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انھیں ایک ہزار مجاہدین کے لشکر پر امیر بنایا۔ پھر آپ نے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں دیتے ہوئے تاکید کی کہ ان سے مشاورت کا اہتمام کیا جائے اور انھیں لشکر کے مقدمے میں رکھا جائے۔ حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو آپ نے حکم دیا کہ وہ تبوک کے راستے سے شام میں داخل ہو کر وسط شام دمشق تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ لشکر کو الوداع کرنے پاپیادہ ثَنِيَّةُالْوَدَاعِ تک گئے اور انھیں نصیحتیں فرمائیں۔ ایک لشکر آپ نے سیدنا شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں تشکیل دیا جو پہلی فوج کے بعد شام کے لیے روانہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے بھی تبوک ہی کا راستہ تجویز فرمایا اور انھیں اردن تک پہنچنے کا حکم دیا۔ایک لشکر کے امیر حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ بنائے گئے۔اس لشکر میں مکہ اور طائف کے سارے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ آپ نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ایک طویل نصیحت کی اور انھیں اَیلہ کے راستے فلسطین پہنچنے کا حکم دیا اور انھیں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں دیا۔ ایک لشکر کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بنائے گئے۔اس لشکر میں مہاجرین و انصار کی بڑی تعداد تھی۔حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدناابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو کماندارِ اعلی کی ذمے داری بھی دی کہ ویسے تو ہر امیر اپنے لشکر کی سربراہی کرے گا لیکن اگر کوئی فوج آپ کے ساتھ جمع ہو گی توامیر حضرت ابو عبیدہ ہوں گے۔ خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ نے آپ کو جابیہ کی طرف سے حمص اور شمالی شام میں دا خل ہونے کا حکم دیا اور ان سے کہا: اے امینِ امت! میں نے جو باتیں عمر و بن العاص سے کی ہیں وہ آپ بھی سن رہے تھے، ان باتوں کا خیال کیجیے۔

جیشِ سیدنایزید بن سفیان رضی اللہ عنہ

حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے فوج کو حکم دیا کہ وہ تیزی سے سفر کریں۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہنے عرض کیا کہ خلیفہ نے آپ کو فوجیوں پر نرمی کرنے کا کہا ہے اور فوجی سازو سامان کے ساتھ اتنا تیز سفر افواج کے لیے باعثِ مشقت ہے۔ حضرت یزید رضی اللہ عنہنے کہا کہ دیکھو خلیفہ ہمارے پیچھے مزید افواج روانہ کر رہے ہیں، میری خواہش ہے کہ شام میں سب سے پہلامیرا لشکر داخل ہو اور سب سے پہلے فتح بھی وہی حاصل کرے۔اس پر دونوں کی رائے متفق ہوئی اور مسلمانوں کا لشکر تیزی سے سفر کرتے ہوئے تبوک جا پہنچا۔ یہاں پہنچ کر انھوں نے کچھ دن آرام کیا۔

قیصر کی سرگرمیاں

ظاہرہے قیصر مسلمانوں پر ہر طرح سے نظر رکھے ہوئے تھا۔اسے اطلاع مل گئی کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے شام کی طرف لشکر بھیجے ہیں تو اس نے اپنے درباریوں، لاٹ پادریوں اور سپہ سالاروں کو جمع کر کے مشاورت کا اہتمام کیا۔ ا س دوران اس نے مخبر سے مسلمانوں کے خلیفہ کا حلیہ معلوم کیا۔ یہ مخبر کپڑے کا تاجر بن کر مدینہ گیا تھا اور سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سے اپنے لیےکپڑا بھی خریدا تھا۔ جب حلیۂ مبارک قیصر کے سامنے آ چکا تو اس نے اپنے مصاحبین سے کہا: ’’خدا کی قسم یہ محمد کا وہی ساتھی ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں پایا جاتا ہے۔اور محمد وہی نبیٔ موعود ہیں جن کا وعدہ ہماری کتابوں میں پایا جاتا تھا، اور میں چاہتا تھا کہ تم سب اسلام قبول کر لو،وہ تو تم نے کیا نہیں، اب اس نبی کے جانشین تمہاری مملکت کو تباہ کرنے آ پہنچے ہیں۔ میں تمھیں اسی دن سے ڈراتا تھا اور مسلمان ہو جانے کا نیک راستہ دکھاتا تھا لیکن تم نے میری نہیں مانی، اب بتاؤتم کیا کرو گے؟‘‘۔اس کے پادریوں اور دیگر لوگوں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کیا اور مسلمانوں کا قلع قمع ، مکہ ومدینہ کو تاراج بلکہ خانۂ کعبہ کو منہدم کرنے کے دعوے کرنا شروع کیے۔ قیصر نے کہا کہ اچھا اگر ایسا ہے تو پھر اپنے دین اور اپنے وطن کے لیے لڑو۔قیصر نے بھی متعدد لشکر روانہ کیے۔ اس نے اپنے ایک جرنیل کو لشکر دے کر فلسطین کی طرف جانے کا حکم دیا اور کہا: ’’فلسطین ہمارے سر کا تاج اور ہماری جاہ ومنزلت ہے، پس جاؤ اوراس کا دفاع کرو‘‘۔قیصر نے آٹھ ہزار سورماؤں کا انتخاب کیا اور ان پر پانچ لاٹ پادری امیر بنائے اور لشکر کو تبوک کی طرف روانہ کر دیا۔

روم کی ہزیمت

مسلمان تین دن پہلے تبوک پہنچ کر آرام فرما تھے۔ چوتھے دن مسلمان شام کی طرف چلنے کے لیے روانہ ہوئے تو کسی لشکر کے آثار نظر آنے لگے اور روم کا ایک لشکر جرار مسلمانوں کے مقابل آن اترا۔ حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو ان کے لشکر کے ساتھ پیچھے بھیج کر چھپا دیا اور اپنی فوج کو لے کر قدرے آ گئے اور اپنی فوج سے وعظ کیا: ’’کتنی ہی بار یہ ہوا کہ قلیل تعداد، اللہ کے حکم سے کثیر پر غالب آ گئی اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور دیکھو تمھارے نبی نے فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے اور تم پہلی فوج ہو جو شام میں داخل ہوئی ہو، تاکہ بنی اصفر کے خلاف جہاد کر سکو، تم یوں سمجھو کہ تم گویا شام ہی کی فوج ہو، اور دیکھو لالچ سے بچو ورنہ دشمن تمھارا لالچ کر لے گا (یعنی فتح پا لے گا) اور اللہ کی مدد (کا ارادہ) کرو اللہ تمھاری مدد کرے گا‘‘۔ ان کے وعظ کے دوران ہی رومیوں کا لشکر نزدیک آ گیا۔ انھوں نے جب مسلمانوں کی قلت کو دیکھا تو حملہ کرنے میں جلدی کی۔ مسلمانوں نے بہت ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب مقابلہ جم گیا تو اچانک سیدناربیعہ بن عامر رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ کمین گاہوں سے کلمۂ طیبہ ، تکبیر اور درود شریف کا ورد کر تے ہوئے نکلے اور ایسا زور دار حملہ کیا کہ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پیچھے بھاگنے لگے۔ رومیوں کا سپہ سالار اپنے فوجیوں کو جنگ پر ابھار رہا تھا، اتنے میں حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہنے پہچان کر ایسا کاری وار کیا کہ کھیت رہا۔ رومیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو ان کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ بھاگنے لگے، اس طرح اس لڑائی کا انجام مسلمانو ں کی فتح پر ہوا۔ اس جنگ میں بارہ سو رومی واصلِ جہنم ہوئے جبکہ ایک سو بیس مسلمانوں نے جنت کی راہ پائی۔ کچھ دور جا کر رومی دوبارہ جمع ہوئے۔ اب انھوں نے قدرے عقل مندی کی اور مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ اپنے کسی سمجھدار آدمی کو بھیجیں تاکہ ہم اس سے بات کریں۔ ادھر سے حضرت ربیعہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہی گئے۔ رومیوں نے اپنے ایک پادری سے کہا کہ اس عربی سے اس کے نبی کے بارے میں بات کرو۔ پادری نے آخری نبی کی وہ نشانیاں اور اہم امور بتائے جو ان کی کتابوں میں منقول تھے۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہان نشانیوں کی تصدیق میں آیاتِ قرآنی پڑھتے جاتے یہاں تک کہ اس پادری نے اپنے سالار کو بتایا کہ ان لوگوں کا نبی ہی وہ آخری نبی ہے جس کی نشانیاں ہمارے ہاں مذکور ہیں۔ اب رومی سالار نے کچھ مال وغیرہ کے عوض یہ صلح کرنا چاہی کہ نہ تم ہم پرحملہ کرو اور نہ ہم تم پر حملہ کریں۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہنے اس سے انکار کیا اور مسلمانوں کا تین نکاتی لائحۂ عمل پیش کیا کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا پھر جنگ کی تیاری کرو۔ رومی سالار نے کہا کہ پہلے دو کا تو کوئی امکان نہیں تیسرے کے لیے ہم تیار ہیں۔ چنانچہ دونوں لشکروں میں ایک اور زبردست ٹکراؤ ہوا۔ خدا کی شان دیکھیے کہ عین معرکے کے دوران حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لیے آن پہنچے اور معرکے میں شامل ہو گئے۔ رومی اس تازہ حملے کی تاب نہ لا سکے اور بھاری نقصان اٹھا کر بھاگ نکلے اورمسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہنے حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کو مالِ غنیمت دے کر مدینہ روانہ کیا۔ جب فتح کی خبر مدینہ پہنچی تو یہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے درو دیوار، نعرۂ تکبیرو تہلیل اور درود و سلام سے گونج اٹھے۔(فتوح الشام للواقدی)

مسلمانوں کی شکست

تَیماء و ادی القری اور شام کے درمیان ایک علاقہ ہے جو سات ہجری میں مسلمانوں کے زیرِ تسلط آ چکا تھا۔ یہاں پر یہودیوں کی اکثریت تھی اور وہ مسلمانوں کے ذمی بن کر رہ رہے تھے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ نے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ کو ایک فوج دے کر یہاں متعین کیا اور کہا کہ جب تک میرا اگلا حکم نہیں آتا آپ یہیں رکے رہیں اور ارد گرد کے عرب لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہیں سوائے مرتدین کے، اور لڑائی نہ کریں جب تک کوئی آپ سے لڑائی نہ کرے۔ رومیوں نے لشکر ان کے مقابلے پر روانہ کیا۔ اس میں اکثریت ان عرب قبائل کے لوگوں کی تھی جو کسی وقت عیسائی ہو چکے تھے۔ رومیوں نے عرب عیسائی قبائل کو جمع کر کے ایک لشکر تیار کیا اور تیما کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہنے خلیفۃ المسلمین کو خط لکھ کر راہنمائی طلب کی تو حکم دیا گیا کہ آپ اپنی فوج کو آگے لے کر آئیں لیکن لڑائی میں پہل نہ کریں۔آپ نے مزید آگے سفر کیا تو رومیوں کا ایک جرنیل ’ہامان‘ یا ’باہان‘ اپنے لشکر کے ساتھ آپ کا منتظر تھا، اس نے مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کیا اور خوفناک لڑائی ہوئی جس میں مسلمانوں کو شکست اور بھاری جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور باقی کچھ لوگ بمشکل جان بچا کر نکلے۔ ان کی یہ پسپائی الگ الگ ہوئی تھی۔ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہمدینہ کی طرف آ رہے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہنے انھیں ذی المروہ نامی جگہ پر ہی رکنے کا حکم دیا۔آپ کے لشکر میں سے جو لوگ جان بچا کر نکلے تھے وہ مسلمانوں کے دوسرے لشکروں سے مل گئے۔

قیصر کی طرف سے صلح کی خواہش

جن دنوں مسلمانوں کے متعدد لشکر شام میں داخل ہو ئے ان دنوں قیصر فلسطین میں تھا۔ اس نے اپنے درباریوں سے مشاورت کی۔ ہِرَقْل مسلمانوں کا برحق ہونا جان چکا تھا اور اسے خدشہ تھا کہ مسلمان اس پر غالب آ جائیں گے۔ اس نے اپنے مصاحبین سے کہا کہ پورا شام گنوا دینے سے بہتر ہے کہ شام کی آدھی آمدن پر مسلمانوں سے صلح کر لی جائے لیکن اس کے جرنیلوں اور پادریوں نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم مسلمانوں سے مقابلہ کرکے انھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔

مزید رومی لشکر میدان میں

اب قیصر نے متعدد لشکر تشکیل دیے۔ اپنے سگے بھائی تذارق کو اس نے نوے ہزار کا لشکر دے کر سیدناعمروبن العاص رضی اللہ عنہکا راستہ روکنے کے لیے روانہ کیا۔جَرجہ کو اس نے ایک لشکر دے کر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہکی طرف بھیجا۔قَیقار کو ساٹھ ہزار کا لشکر دے کر سیدناابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہکی طرف بھیجا۔ ایک لشکر اس نے دَراقِص نامی جرنیل کو دے کر حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہکی طرف روانہ کیا۔ مسلمانوں نے باہمی مشاورت اور خلیفہ سے راہنمائی کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اپنی فوجوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چونکہ شام سے اچھی طرح واقف تھے اس لیے انھوں نے یرموک کے مقام کا انتخاب کر کے مسلمانوں کو وہاں جمع ہونے کا حکم دیا۔ قیصر کو جب مسلمانوں کی نئی نقل و حرکت کی خبر ملی تو اس نے بھی اپنے لشکروں کو یرموک کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا۔رومی لشکرکی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ کم از کم تعداد والی روایت دو لاکھ چالیس ہزار کی ہے۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل