لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

مفتی نذیر احمد ہاشمی
رئیسِ شعبۂ تحقیق و تصنیف، فقہ اکیڈمی

(۲)شرعی رخصتیں:جو عوارض کے پیش نظر دی جاتی ہیں۔ عوارض کبھی سماوی ہوتے ہیں، جیسے بچپن، دیوانگی، پاگل پن، بھول، نیند، مرگی، بے ہوشی، غلامی، مرض، موت وغیرہ۔

بچپن(صغر سنی) سے وہ امور جو ایک بالغ سے ساقط ہونے کا احتمال رکھتے ہیں، ساقط ہوجاتے ہیں۔ جس طرح کہ بالغ کی دیوانگی سے روزہ نماز وغیرہ ساقط ہوجاتے ہیں، اگر بچہ عبادات کی ادائیگی کرے تو ادائیگی صحیح ہوجائے گی، یعنی اخروی ثواب اس کو مل جائے گا۔ لیکن ایمان کا فریضہ ایسا ہے جو بچے سے ساقط نہیں ہوسکتا، یعنی اگر اس کو اختیا رکیا گیا تو صحیح تصور کیا جائے گا، لہذا وہ فرض جو قابل سقوط ہے، اگر اس کو بچہ ادا کرے گا تو یہ اس کے حق میں نفل کا درجہ رکھے گا،فرض کا نہ رکھے گا۔ جس طرح کہ نماز پڑھے یا روزہ رکھے۔غور کیجیے اگر بچہ عدم بلوغ کی حالت میں ایمان لے آئے تو فریضہ ایمان کے تمام توابع اس کے لیے ثابت متصور ہوں گے۔ باقی رہا یہ امر کہ کیا ان ایمانی توابع کی ادائیگی بھی اس کے ذمےلازم کی جائے گی یا نہیں؟ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس عمل سے اس پر کوئی ذمے داری ہوتی ہو وہ عمل قابل معافی ہوگا۔ لیکن ایسا عمل جس کے کرنے سے اس کا ذمہ مشغول نہ ہوتا ہو وہ عمل صحیح ہوگا۔ چناں چہ اگر بچے نے اپنے کسی مورث کو قتل کردیا، ہمارے نزدیک میراث سے محروم نہ ہوگا۔ لیکن کفر کیا یا کسی کی غلامی میں داخل ہوگیا تو اب میراث سے محروم ہوجائےگا۔

جنون(دیوانگی)سے تمام عبادات ساقط ہوجاتی ہیں۔ لیکن خبط الحواسی یا کم عقلی احکام میں اس کا حکم وہ ہے جو بچے کا ہے۔ چناں چہ اس کے قول وفعل صحت پر مبنی ہوں گے۔ مثلاً اگر کسی کا مال ضائع کردے گا ضمان عائد ہوگا۔ اگر کسی نے وکیل بنایا تو وکالت صحیح ہوگی، بیع اور اجارہ ولی کی اجازت پر موقوف ہوں گے لیکن مشغول بذمہ نہیں سمجھا جائے گا۔

نسیان(بھول)اللہ تعالیٰ کے حقوق میں اس معنی کے لحاظ سے معاف ہے کہ گناہ گار نہ ہوگا اور حقوق العباد میں معاف نہیں۔روزے دار کا بھول کرکھانا پینا اس کے روزے کو باطل نہیں کرتا۔ انسان اگر مذَکِّر کی موجودگی میں ہو تو عذر نہیں۔ مثلاً نماز میں بھول کر بات کرنے سے نماز باطل ہوجائے گی، کیوں کہ حالت صلاۃ مذکِر موجود ہے۔ اور مذکِر کی عدم موجودگی میں عذر شمار ہوگا، مثلاً روزے کی حالت میں بھول کر کھانا پینا روزہ باطل نہیں کرتا، کیوں کہ روز ہ فعل نہیں جو مذکِر شمار ہو بلکہ ترک ہے، لہذا یہ نسیان عذر شمار ہوگا اور روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

نوم(نیند):کی حالت میں انسان چوں کہ قدرت کے استعمال سے عاجز ہوتا ہے اس لیے خطابِ شرع اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیکن وجوب اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ چوں کہ نیند کی حالت غیر اختیاری قرار دی گئی ہے، اس لیے اس حالت کی طلاق یا غلام کی آزادی باطل ہوگی۔

غشی: بے ہوشی کے دورے کا بھی یہی حکم ہے کیوں کہ اس دورے میں عقل معطل ہوجاتی ہے، فہم خطاب کی اہلیت ختم ہوجاتی ہے، قوی بے کار ہوجاتے ہیں جس طرح نیند میں۔ اب اگر یہ حالت طویل ہوگئی تو پھر ادا بھی ساقط ہوجائے گی۔ مثلاً ایک دن اور رات سے زائد بےہوش رہا یا مرگی میں مبتلا رہا تو نماز ساقط ہوجائے گی۔

غلامی: کے وصف کو شریعت نے عجز قرار دیا ہے۔ گو یہ حقیقی نہیں حکمی عجز ہے۔ چناں چہ حج اور نماز جمعہ اس سے معاف ہوں گے، نماز اور روزہ نہیں۔ زنا، چوری، قتل میں غلامی مؤثر نہیں، ان جرائم کے ارتکاب پر شرعی سزا ملے گی۔

مریض: اپنی قدرت کے مطابق عبادات ادا کرے گا(خارج از قدرت طریقہ ادائیگی معاف ہوگا) لہذا اگر قیام پر قدرت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کرے گا اور اگر بیٹھنے کی قدرت بھی نہ ہو تو چت لیٹ کر نماز ادا کرے گا۔ نیز جان، عضو کے تلف ہونے کا یا مرض کی زیادتی یا دیر سے تندرست ہونے کا خوف ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح رمضان کا روزہ چھوڑنا(بعد میں قضاء کرے گا)، رمی جمرات میں نائب بنانا، محظورات احرام کی اباحت مع الفدیہ، (حکیم حاذق کے مشورے پر) علاج بالنجاسات کی اباحت، طبیب کا عورت اور ستر کا علاج کی نظر سے دیکھنا۔

حیض ونفاس:حیض ونفاس سے اہلیت ساقط نہیں ہوتی، لیکن چوں کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے، اور وہ اس زمانے میں ممکن نہیں، اس لیے نماز کی ادائیگی نہیں رہتی۔ اب اگر اس پر نمازوں کی قضاء واجب کردی جائے تو یہ عورت کے لیے شدید تکلیف کا سبب ہوگا، لیکن روزے کے حق میں ایسا نہیں۔وہ ایک سال میں ایک ہی مرتبہ واجب ہوتے ہیں) لہذا ، مخصوص ایام کی نمازوں کی قضا عورت پر سے ہٹا دی گئی لیکن روزوں کی قضا لازم قرار دی گئی۔

موت:حنفیہ کے نزدیک میت کے لیے اہلیت وجوب ثابت ہے، لیکن اس اہلیت وجوب سے اس کے ذمے نئے حقوق اور التزامات مرنے کے بعد ثابت نہیں ہوں گے۔ البتہ دوران حیات(جو حقوق تھے ان میں سے) بعض حقوق ثابت اور بعض التزامات(جو زندگی میں اس پر عائد ہوتے تھے) مرنے کے بعد بھی اس پر عائد ہوں گے۔اگرچہ دنیوی احکام کی اہلیت ختم ہوجاتی ہے لیکن میت کی کچھ ضروریات کی ادائیگی کا حکم باقی رہتا ہے۔ چناں چہ اولاد اس کی تجہیز وتکفین، بعدہ ادائیگی دیون پھر بقیہ مال کی ایک تہائی سے تکمیل وصیت۔

جہل (لاعلمی)یہ عوارض مکتسبہ میں سے ہے۔ درج ذیل مواقع میں جہل عذر بن سکتا ہے:

(۱)شفعہ کرنے والے کی بیع سے لاعلمی تاخیر طلب شفعہ کے لیے عذر بن سکتی ہے۔

(۲)وکیل اور قاضی کی اپنی معزولی اور محجور کی اپنے حجر سے لاعلمی ان کے تصرفات صحیح ہونے کے لیے عذر شمار ہوگی، حتی کہ ان کو علم ہوجائے۔

(۳)کسی نے غیر کا مال لاعلمی میں کھالیا تو اس کو عذر شمار کیا جائے گا، گناہ گار نہ ہوگا۔ لیکن ضمان لازم ہوگا۔

(۴)عمداً قتل کرنے والے کو اولیاء مقتول میں سے بعض نے معاف کردیا، جبکہ بعض دیگر نے اس کو قتل کردیا اور قتل کرنے والے اس بات سے لاعلم رہے کہ بعض اولیاء کی معافی سے قصاص معاف ہوتا ہے۔ اس لاعلمی کی بنیاد پر ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا اور علم ہونے کی صورت میں قصاص لیا جائےگا۔

(۵)اگر بیع میں کوئی ایسا وصف ہو کہ جس کا عیب ہونا لوگوں پر مشتبہ ہو خریدنے والے نے اس وصف کو جانتے ہوئے وہ مبیع خریدلی، بعد میں اس کو اس وصف کے عیب ہونے کا علم ہوا تو مشتری کو مبیع کے رد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا اور اس کے اس علم بالوصف کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

(۶)لونڈی کا آزادی کے خیار سے لاعلم رہنا اس کے حق میں عذر ہے۔

(۷)دارالکفر میں مقیم نومسلم کا احکام شریعت سے لاعلمی عذر شمار ہوگا، اور احکام شرعیہ کا مکلف نہیں گردانا جائے گا۔ چناں چہ اگر اس نے محرمات کا ارتکاب کرلیا، ان کی حرمت سے لاعلم رہتے ہوئے تو اس کو معذور شمار کیا جائے گا۔

نشہ:اگر نشہ سبب مباح سے ہے، مثلاً کسی نے لاعلمی میں شراب پی لی یا حالت اضطرار میں شراب پی لی اور اس کو نشہ چڑھ گیا تو اس کا حکم وہی ہے جو بے ہوشی کا ہے۔

کم عقلی وسفہ:یہ ایک ایسا عذر ہے، جس کی وجہ سے ایسے شخص کے آزادانہ تصرفات پر پابندی عائد کی جاسکے گی۔

خطا:یہ بھی ایک ایسا عذر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حق میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو اس کی بیوی کے علاوہ کوئی دوسر ی عورت حوالے کی گئی اور اس نے اس کے ساتھ وطی کرلی تو اس کو حد نہیں لگائی جائے گی، اور نہ ہی وہ زنا کے گناہ کا مرتکب ہوگا، اگرچہ اس کو مجرم شمار کرکے تعزیر لگائی جائے گی۔

اسی طرح کسی نے شکار سمجھ کر تیر مارا اور اس کو قتل کردیا، بعد میں اسے علم ہوا کہ وہ شکار نہیں، ایک انسان تھا جو قتل ہوگیا، تو اس پر قتل عمد کا قصاص نہیں ہوگا۔ اگرچہ سوچ وبچار میں کمی کوتاہی کا مرتکب ہونے کی بنا پر اس کو تعزیر لگائی جائے گی اور محل معصوم ہونے کی بنا پر دیت لازم ہوگی۔ یہ نہیں کہ یہ دیت فعل حرام کا بدلہ ہوگا۔

عسر وعموم بلویٰ: اسباب مشقت میں سے ہونے کی وجہ سے یہ سبب بھی باعث تخفیف وتیسیر ہے۔ عسر سے مراد کسی چیز سے بچنے میں مشکلات ہیں اور عموم بلویٰ سے مراد وہ امر جس سے انسان کو اکثر واسطہ پڑتا ہے۔اور اس سے بچنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس سبب سے انسان کو جو تخفیفات ملتی ہیں، ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

(۱)جس نجاست کا اثر دھونے سے زائل کرنا مشکل ہو، اس کے ہوتے ہوئے نماز کا جواز۔

(۲)بچھو اور کھٹمل کا خون جو کپڑے کو لگا ہو، چاہے وہ کثیر بھی ہو، نماز کا جواز۔

(۳)سوئی کے سروں کی طرح کے پیشاب کے ذرات/قطرے جو کپڑے کو لگے ہوں، یا گلی محلے کا کیچڑ اور چڑیا وکبوتر کی بیٹ جو کپڑے کو لگی ہو، چاہے کثیر ہو، ان سب کی موجودگی میں جواز نماز۔

(۴)قلیل نجس دھواں، گیلی شلوار کو گُوز (ریاح ) کی گندی ہوا کا لگنا معاف ہے۔

(۵)پتھر سے استنجا کا جواز، باوجود اس کے؛ کہ پتھر نجاست کو زائل کرنے والا نہیں ہے۔

(۶)بے وضو ہونے کی حالت میں تعلیم وتعلم کی خاطر بچوں کا قرآن مجید کو ہاتھ لگانا۔

(۷)ہر وضو کے وقت موزوں کو اتارنے کی مشقت کی وجہ سے حالتِ حضر میں بھی موزوں پر مسح کرنے کا جواز، لیکن غسل کے وقت مشقت نہ ہونے کی وجہ سے موزوں کا اتارنا ہے، کیوں کہ غسل کی نوبت کبھی کبھار آتی ہے۔

(۸)پانی میں، زیادہ کھڑے رہنے یا مٹی کے ہونے یا وہ شے جس سے پانی کو بچانا مشکل ہو کی وجہ سے، تغیر آجائے تو اس پانی کو باوجود تغیر کے پاک سمجھا جائے گا۔

(۹)امام اعظم رحمۃ الله علیہ کے نزدیک اندھے نابینا آدمی پر جمعہ اور حج واجب نہیں، اگر چہ اس کے پاس قائد بھی موجود ہو دفعاً للمشقة۔

(۱۰)جب تک پانی انسان کے اعضا پر نہ گرا ہو، تو اس کو ماے مستعمل نہیں بلکہ ماے طاہر سمجھا جائے گا۔

(۱۱)حائضہ عورت پر نمازوں کی قضا کا نہ ہونا تکرار کی وجہ سے ، جبکہ روزے کی قضا کا واجب ہونا عدمِ تکرار کی وجہ سے۔

(۱۲)مکلف صاحب استطاعت پر تخفیف کی غرض سے حج کا عمر میں ایک دفعہ فرض ہونا۔ اسی طرح مکلفین پر تخفیف اور تیسیر کی غرض سے زکوٰۃ کا ڈھائی فیصد صاحب نصاب پر مقرر کرنا۔

(۱۳)اضطراری حالت میں مال غیر کے کھانے کی اجازت(جبکہ بغیر اضطرار کے غیر کا مال کھانا جائز نہیں) ضمان کے وجوب کے ساتھ۔

(۱۴)ریشمی لباس کو خارش اور جنگ(دشمنان دین کے ساتھ) کے موقعے پر پہننا۔

(۱۵)ندامت کے دفع کے لیے مبیع میں خیار شرط کی مشروعیت۔

(۱۶)اسی طرح مشتری کے لیے مبیع کا لوٹانا خیار عیب کی وجہ سے۔

(۱۷)شریعت مطہرہ اگر یہ پابندی لگادیتی کہ ہر شخص اپنے معاملات خود انجام دے اور اپنے مال کو خود ہی دوسرے کو دیے بغیر ثمر آور اور منافع بخش بنائے تو اس کی وجہ سے لوگ عظیم مشقت سےدوچار ہوجاتے، اس لیے کہ بعض لوگوں کے پاس سرمایہ تو ہوتا ہے لیکن ان کو تجارت کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی اور بعض لوگوں کے پاس تجارت کی مہارت ہوتی ہے، لیکن تجارت کے لیے درکار سرمایہ نہیں ہوتا۔ اس عظیم مشقت سے بچانے کی خاطر شریعت مطہرہ نے مضاربت کو جائز قرار دیا ہے کہ سرمایہ دار اپنا سرمایہ دوسرے (تجارت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے) کے حوالے کردے اور حاصل شدہ منافع فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرلیں۔

(۱۸)حرج کے دفع کے لیے وکیل اور قاضی کی معزولی کو ان کے علم پر محصور کیا گیا ہے۔

(۱۹)علاج کی غرض سے حکیم/ڈاکٹر کو مریض کا ستر دیکھنا حرج کے دفع کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔

(۲۰)منگنی کے وقت لڑکی(غیر محرمہ) کادیکھنا جائز قرار دیا گیا ہے، یہ نہیں کہ نکاح کی صحت کے لیے منگیتر کا دیکھنا شرط ہے، اگر ایسا ہوتا تو بغیر دیکھے نکاح صحیح نہ ہوتا، حالاں کہ منگیتر کو دیکھے بغیر بھی نکاح صحیح ہے، کیوں کہ بہت سارے لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو منگنی کا پیغام دینے والے کی نظر سے اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر بچانا چاہتے ہیں۔ چناں چہ آسانی اور تخفیف اس میں ہے کہ بیع کی طرح نکاح میں خیار رؤیت کا ثبوت نہ مانا جائے۔

(۲۱)اسی طرح بیک وقت چار شادیوں کی اجازت مرد کے لیے مشقت سے بچنے کی خاطر دی گئی ہے۔

(۲۲)زوجین کو باہم نفرت کرنے سے بچانے اور شادی کے مقاصد پورے نہ ہونے کی خاطر طلاق کو مباح کیا گیا ہے۔ حالاں کہ طلاق کو ابغض الحلال فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح تیسری طلاق سے پہلے خلع، افتدا اور دوران عدت رجوع کرنا بھی تخفیف اور تیسیر کی خاطر ہے۔

(۲۳)اجتہاد کے غلط ہونے کی صورت میں مجتہدین سے گناہ کو ساقط کرنا اور اکتفاء بالظن میں ان پر آسانی کرنا۔ اگر ان کو یقین پر عمل کا مکلف کیا جاتا تو ایک تو یقین تک رسائی مشکل ہوتی ہے، دوسرا اس طرح ان کو مشقت میں مبتلا کرنا ہوتا، لہذا مشقت سے بچانے کی خاطر ان کو ظن پر عمل کرکے یقین کی حد تک پہنچنے سے ان کو معاف کردیا گیا۔

(۲۴)تخفیفات کی فہرست میں موت کے وقت وصیت کی مشروعیت بھی ہے کہ میت سے زندگی میں جو کمی کوتاہیاں ہوئی ہیں، ان کی تلافی ہوسکے۔ زندگی میں کمی کوتاہیاں کثیر الوقوع ہوتی ہیں، اگر موت کے وقت انسان کو وصیت کرنےسے روک دیا جائے تو یہ اس پر تنگی اور مشقت ہوگی۔ وصیت کی مشروعیت سے انسان کو ایک موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ ان کاموں کی تلافی کا سامان کرسکے، جن کا کرنا اس پر زندگی میں واجب تھا اور وہ نہ کرسکا۔لیکن ثلث سے زیادہ کی وصیت کی اجازت نہیں دی گئی، کیوں کہ اس میں وَرَثہ کو ضرر پہنچتا ہے اور ضرر ایک امر شاق اور باعثِ تنگی ہے۔ لہذا ثلث مال سے زائد کی وصیت کا جواز وَرَثہ کی اجازت پر موقوف رکھا گیا ہے۔

اکراہ:عوارضِ مکتسبہ میں سے ہے۔ بعض علما نے اس کی مندرجہ ذیل تعریف کی ہے:

حمل الغير على أن يفعل مالايرضاه ولا يختار مباشرته لوخلى ونفسه. کسی کو ایسے کام پر مجبو کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہے اور اگر اس کو مجبور نہ کیا جائے تو وہ اس کام کو کرنا پسند نہ کرے۔بعض دیگر علما نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: حمل الغير على أمر يمتنع عنه بتخويف يقدر الحامل على ايقاعه ويصير الغير خائفا به (كشف الاسرار، ۶/۱۵۰۳ ) کسی آدمی کو دھمکی دے کر کسی ایسے کام کرنے پر مجبور کرنا، جسے وہ نہیں کرنا چاہتا اور دھمکی دینے والا اپنی دھمکی کو عملی شکل دینے پر قادر ہو اور دوسرا آدمی اس سے خوفزدہ ہو۔

اکراہ کی اقسام:

اکراہ کی دو قسمیں ہیں: (۱)جان یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی۔ اس کو اکراہِ ملجی اور اکراہِ تام کہا جاتا ہے۔ یہ اکراہ؛ رضا کو معدوم اور اختیار کو فاسد کردیتا ہے۔

(۲)قید طویل یا ایسی مارپیٹ کی دھمکی جس سے جان یا کوئی عضو ضائع نہ ہو اس کو اکراہِ غیر ملجی یا غیر تام کہا جاتا ہے۔ یہ اکراہ؛رضا کو معدوم اور اختیار کو فاسد نہیں کرتا۔ بالفاظ دیگراکراہ کی دونوں قسموں میں اختیار معدوم نہیں بلکہ موجود رہتا ہے۔ البتہ اکراہِ ملجی میں اختیار فاسد اور اکراہِ غیر ملجی میں تام اور مکمل رہتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک انسان کے مکلف ہونے کی شرط صرف وجود اختیار ہے صحت اختیار نہیں، فاسد اختیار مکلف رہنے کے لیے کافی ہے۔

اکراہ کےذریعے انسان کو جس کام پر مجبور کیا جائے وہ کام مکرہ علیہ کہلاتا ہے۔

انسانی اعمال کی تین قسمیں ہیں(۱)تصرفات، (۲)اقرارات، (۳)افعال، اس اعتبار سے اکراہ اور مکرہ علیہ کی بھی تین قسمیں ہیں:

مکرہ علیہ کی پہلی قسم:

تصرفات، تصرفات کی دو قسمیں ہیں: (۱)جو فسخ کو قبول نہیں کرتے اور نہ وہ رضامندی پر موقوف ہوتے ہیں،ان پر اکراہ اثر انداز نہیں ہوتا، مثلاً طلاق، عتاق، نکاح، رجعت، نذر، ظہار، ایلاء،، دم عمد کی معافی اوریمین وغیرہ۔ ان پر اکراہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اکراہ کی صورت میں بھی یہ صحیح اور نافذ ہوتے ہیں۔

(۲)وہ تصرفات جو فسخ کو قبول کرتے ہیں اور رضا پر موقوف رہتے ہیں۔ مثلاً بیع، رہن، اجارہ وغیرہ عقود وتصرفات

اكراه كی صورت میں یہ تصرفات شرط انعقاد (قصد) کی وجہ سے منعقد تو ہوجاتے ہیں،لیکن شرط صحت(رضا) کے فقدان کی وجہ سے فاسد رہتے ہیں۔ عندالاحناف انعقاد عقد کے لیے اختیار کافی ہے اور انفاذ عقد کے لیے رضا شرط ہے۔ چناں چہ بعد زوال الاکراہ اگر مکرہ نے ان تصرفات کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت دے دی تو یہ تصرفات صحیح ہوجائیں گے۔

مکرہ علیہ کی دوسری قسم:

اقرارات ہیں۔ اکراہ کی صورت میں مکرہ کے تمام اقرارات اور اسباب عقوبات باطل ہوں گے۔ ان پر اکراہ اثر انداز ہوتا ہے۔

مکرہ علیہ کی تیسری قسم:

مکرہ علیہ کی تیسری قسم افعال ہیں۔ پھر افعال کی دو قسمیں ہیں۔ (۱)وہ جس میں مکرَہ مکرِہ کے لیے آلہ بن سکتا ہو، مثلاً قتل، ضرب اور اتلاف مال۔ ان افعال کی نسبت (اکراہ میں) مکرِہ(حامل)کی طرف جائے گی۔ چناں چہ قتل عمد پر اکراہ کی صورت میں قصاص حامل مکرِہ پر اور قتل خطا میں مکرِہ کے عاقلہ پر دیت واجب ہوگی۔ اور اکراہ کی صورت میں مال تلف کرنے کا ضمان حامل(مکرِہ) پر ہوگا۔

(۲)افعال کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن میں فاعل حامل کے لیے آلہ نہیں بن سکتا۔ مثلاً وطی اور کھانا پینا وغیرہ۔ کیوں کہ وطی اور کھانے پینے میں انسان دوسرے کے لیے آلہ نہیں بن سکتا بلکہ اپنے منہ سے کھاتا پیتا ہے، اپنے ذکر سے وطی کرتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا افعال زبردستی جبر واکراہ سے دوسرے سے کروائے گئے تو ان کی نسبت فاعل کی طرف ہوگی نہ کہ حامل(زبردستی کرنے والے) کی طرف۔ یہی وطی کا معاملہ ہے کہ حد یا رجم کی سزا زنا کرنے والے کو ملے گی، نہ کہ جبر واکراہ کرنے والے کو۔ اور اس طرح اکراہ مکرَہ کے لیے سبب تخفیف شمار نہ ہوگا۔

وہ افعال کہ جن کا کرنا ضرورت کے وقت شریعت اسلامیہ نے مباح قرار دیا ہے، مثلاً شراب نوشی، خون اور مردار کا کھانا۔ اکراہ کی صورت میں شراب نوشی اور مردار کھانا نہ صرف حلال بلکہ واجب ہے، اور نہ کرنا باعث گناہ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت ان اشیا کو مباح قرار دیا ہے اور حفاظت جان کی خاطر مباح کا کھانا واجب ہوتا ہے، جیسا کہ عام حالات میں تحفظ جان کی خاطر روٹی کھانا واجب ہے۔ اس صورت میں اکراہ سببِ تخفیف ہوگا۔

وہ افعال کہ جن کی حرمت سقوط کا احتمال نہیں رکھتی، لیکن رخصت کا احتمال رکھتی ہے، مثلاً کلمۂ کفر کا کہنا، کہ حالتِ اکراہ میں بھی اس کی حرمت قائم رہتی ہے اور اس کا کہنا حرام ہوتا ہے، لیکن اکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر کہنے پر گناہ اور عذاب نہ ہوگا، بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ یہ بھی سبب تخفیف ہے۔

اکراہ کی صورت میں مال غیر کوتلف کرنے کی اجازت ہے، البتہ اس کا ضمان مکرِہ پر ہوگا، مکرَہ پر نہیں۔ تخفیف ؛مالِ غیر کے کھانے اور تلف کرنے کی صورت میں ہے۔

خلاصہ کلام: افعال مکرَہ علیہ کی چار قسمیں ہیں:

(۱)اکراہ کی صورت میں مردار کھانا فرض ہے، اگر اکراہ ملجی ہو۔(اکراہ سببِ تخفیف ہے)۔

(۲)اکراہ کی صورت میں زنا اور قتل کسی صورت میں جائز نہیں۔(اکراہ ان دونوں میں سببِ تخفیف نہیں)۔

(۳)اکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر زبان سے کہنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ دل ایمان پر مطمئن ہو۔ اس صورت میں صرف زبان سےکلمۂ کفر کہنے کی حد تک تخفیف ہے۔

(۴)اکراہ کی صورت میں رمضان کا روزہ کھولنا مباح ہے (یہ بھی سبب تخفیف ہے)۔

تخفیفات شرع کی اقسام:

شریعت کی تخفیفات کئی قسم پر ہیں:

(۱)تخفیفِ اسقاط:یعنی ساقط کرنے کی صورت میں۔ مثلاً اعذار کی موجودگی میں عبادات کا ساقط ہونا۔

(۲)تخفیفِ تنقیص:مثلاً سفر میں قصر پڑھنا، اس قول کے مطابق جو پوری (اتمام) کو اصل سمجھتا ہے جن(یعنی حنفیہ ) کے نزدیک قصر اصل ہے اور پوری کرنا اس کے بعد فرض ہوا ہے تو ان کے نزدیک سفر میں قصر نماز ادا کرنا صرف صورۃً تخفیف ہے۔

(۳)تخفیفِ ابدال:مثلاً غسل اور وضو کی تبدیلی تیمم کے ساتھ اور نماز میں قیام کی تبدیلی بیٹھنے اور اضطجاع (پہلو کے بل لیٹنے) کے ساتھ اور رکوع وسجدہ کی تبدیلی اشارے کے ساتھ اور روزے کی تبدیلی اطعام کے ساتھ۔

(۴)تخفیفِ تقدیم: مثلاً مقام عرفات میں دونوں نمازوں کو جمع کرنا اور سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنا اور صدقہ ٔفطر رمضان میں ادا کرنا، سال پوراہونے سے پہلے صحیح قول کے مطابق نصاب کے مالک ہونے کے بعد زکوٰۃ میں اور شخص کی موجودگی ذمے داری اور ولایت کی صفت کے ساتھ صدقۂ فطر میں۔

(۵)تخفیف تاخیر:مثلاً مزدلفہ میں دو نمازوں (مغرب اور عشاء) کا جمع کرنا، بیمار اور مسافر کے لیے رمضان کے روزے مؤخر کرنا، اور اس شخص کے لیے نماز کو مؤخر کرنا جو کسی ڈوبنے والےکونکالنے میں مصروف ہو اور یا اس جیسے کسی اور کام میں مصروف ہو۔

(۶)تخفیفِ ترخیص: رخصت دینے کی صورت میں۔ مثلاپتھر کے ساتھ استنجا کرنے والی کی نماز بقیہ ناپاکی کے ساتھ۔ اور گلے میں اٹکی ہوئی چیز لقمہ وغیرہ نگلنے کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں شراب پینا ( جب کہ جان جانے کا خطرہ ہو )۔

(۷)تخفیفِ تغییر:مثلاً خوف کی وجہ سے نماز کے نظم میں تبدیلی وتغیر۔

فائدہ:مشقت اور حرج کا اعتبار وہاں کیا جاتا ہے، جہاں نص نہ ہو اور اگر نص کے خلاف ہو تو پھر اعتبار نہیں کیا جائے گا۔اسی وجہ سے طرفین(امام اعظم اور امام محمد رحمۃ الله علیہما) فرماتے ہیں حرم کی گھاس پر جانوروں کا چرانا حرام ہے اور اس کا کاٹنا بھی مگر اذخر کو۔ اور امام ابویوسف رحمۃ الله علیہ نے حرج کی بنیاد پر چرانے کو جائز قرار دیا ہے۔ اور اس پر رد ہوتا ہے اس سے جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ نص کے مقابلے میں حرج کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ علامہ زیلعی رحمۃ الله علیہ نے اس کو جنایات الاحرام میں ذکر کیا ہے۔ اور باب الانجاس میں فرمایا ہے کہ امام اعظم رحمۃ الله علیہ کے نزدیک نص کی موجودگی میں ابتلاے عام کا اعتبار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ انسان کے پیشاب میں ابتلاے عام ہے، پھر بھی اس کا اعتبار نہیں کیا گیا ہے۔اور منیۃ المصلی کی شرح میں ہے: متاخرین میں سے بعض نے غلیظہ کی تفسیر میں امام اعظم رحمۃ الله علیہ کے قول پر زیادتی کی ہے اور وہ یہ کہ ’’اس سے اجتناب میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ اور صاحبین کے قول پر ’’غلیظہ‘‘ کی تفسیر میں’’ ولابلوی في إصابته‘‘ اور کوئی ابتلاء نہیں ہے، جیسا کہ یہ بھی الاختیار میں ہے۔اور محیط میں ہےکہ یہ زیادتی(اضافہ) اچھی ہے۔ اس کی گواہی باب کے چند فروعی مسائل دیتے ہیں اور یہ کہ ’’ ولا حرج في اجتنابه ولا بلوى في إصابته‘‘ دو عبارتوں کے اختلاف کی بنا پر، وہ جنس مکلفین کی طرف نسبت کی بنا پر ہے(ان کی کثرت اور قلت کی بنا پر نہیں) پس اس مشہور قضیے کے صادق ہونے پر اتفاق ہے: إن ما عمّت بليته خفت قضيته’’ جس میں ابتلاے عام ہوجاتا ہے اس کے معاملے میں تخفیف پیدا ہوتی ہے‘‘۔

نوٹ:ایک سببِ تخفیف نوٹ ہونے سے رہ گیا تھا، چلتے چلتے اس کا بھی ذکر کردوں، جس کا ذکر ابن نجیم نے الاشباہ والنظائر میں ’’النقص‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ بھی مشقت کی ایک قسم ہے، پس اس کی وجہ سے تخفیف مناسب ہے۔ النقص(کمی) کی وجہ سے جو تخفیف ملتی ہے، وہ درج ذیل ہے:

(۱)بچہ اور مجنون کو مکلف نہیں بنایا گیاہے اور دونوں کے مالوں کو ولی کے حوالے کیا گیا ہے، اور ان کی تربیت وپرورش کو عورتوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ لیکن عورتوں پر آسانی کی خاطر اس بارے میں جبر نہیں کیا گیا۔

(۲)عورتوں کو بہت سارے ان کاموں کا مکلف نہیں بنایا گیا ہے جن کا مردوں کو مکلف بنایا گیا ہے۔ مثلاً نماز باجماعت، جمعہ، جہاد (نفیر عام نہ ہونے کی صورت میں، ورنہ عورتوں پر بھی فرض ہوگا) اور جزیہ۔

(۳)ریشم کے کپڑے اور سونے کے زیور کا ان کے لیے مباح ہونا۔

(۴)غلام کو ان بہت ساری چیزوں کا مکلف نہیں بنایا گیا ہے، جن کے آزاد لوگ مکلف ہیں۔ مثلاً حدود اور عدت میں۔ غلام پر حد زنا کے پچاس کوڑے اور باندی کی عدت دو حیض ہے۔

لرننگ پورٹل