لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ
نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی

ہمارے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہ(اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) ایک دن ہمیں وصیت کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ دیکھو بھائی یہ میں نے مدرسہ کھولا ہے کوئی دوکان نہیں کھولی ہے، اور میں اس کوہر قیمت پر چلانے کا مکلف بھی نہیں ہوں، میں اس کا مکلف ہوں کہ اپنی حد تک اس کو چلانے کی جتنی کوشش ہو سکتی ہے وہ کروں اور اس کو ہمیشہ چلاتے رہنے کا بھی مکلف نہیں ہوں، لہذا جب تک اصولِ صحیحہ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کو چلا سکو تو چلاؤ، لیکن جس دن اس کو چلانے کے لیے اصولِ صحیحہ کو قربان کرنا پڑے اس دن اس کو تالا ڈال کر بند کردینا کیونکہ مدرسہ بذاتِ خود مقصد نہیں بلکہ (مقصد) اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور وہ اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب مدرسہ اصولِ صحیحہ پر چلایا جائے، یہ کوئی دوکان نہیں ہے کہ اس کا ہر حال میں چلتے رہنا ضروری ہو، اس کو بند کر کے کوئی اور دھندا دیکھ لو، کوئی اور کام کرلو۔

یہ ایسی کانٹے کی بات فرمائی تھی کہ عام طور سے جب مدرسے قائم کیے جاتے ہیں تو دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ اس کو ہر حال میں چلانا ہی ہے، اگر صحیح راستہ اختیار کیے ہوئے نہیں چلتا تو غلط راستہ اختیار کو، لیکن وہ کہتے تھے کہ غلط راستے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تو جب صحیح راستے سے نہیں چل رہا ہے تو بند کرو، آخرت میں سوال نہیں ہوگا کہ تم نے بند کیوں کر دیا، ساری عمر اسی اصول پر عمل فرمایا، مدرسوں کے اندر جو جذبات ہوتے ہیں ان کی کبھی رعایت نہیں کی۔

جب دارالعلوم نانکواڑہ سے یہاں منتقل ہو رہا تھا توآپ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ یہ جگہ کیا تھی، ایسا ویرانہ اور ریگستان، اور صحرا تھا کہ جس میں دور دور تک نہ پانی، نہ بجلی، نہ فون، نہ پنکھا، نہ بس اور (نہ ہی)کوئی اور آمد و رفت کا ذریعہ، بس ڈیڑھ میل دور جا کر ملتی تھی وہ بھی سدا جنگل تھا۔ پانی شرافی گوٹھ کے کنویں سے بھر کر لاتے تھے، یہاں پانی نہیں تھا، ایسی جگہ مدرسہ قائم کیا تھا۔

اس وقت بہت سے ایسے اساتذہ جو بڑے مشہور تھے اور ہمارے ہاں پڑھا رہے تھے وہ یہاں آنے پر تیار نہیں تھے، اس لیے کہ یہاں کی زندگی بڑی پُر مشقت تھی، بہت سے حضرات اور بڑے بڑے اساتذہ جن میں چند ایسے اساتذہ بھی تھے جو دارالعلوم کی بنیاد سمجھے جاتے تھے وہ چلے گئے، ان کے جانے سے ظاہر ہے مدرسے کے اوپر اثر پڑنا تھا، تو لوگوں نے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا کر کہنا شروع کر دیا کہ جب اتنے بڑے بڑے اساتذہ چلے گئے ہیں تو مدرسہ کیسے چلے گا؟ لہذا کسی مشہور استاذ کو خط لکھ دیں کہ آپ ان کو بلانا چاہتے ہیں، لیکن والد صاحب نے کہا کہ یہ میرے اصول کے خلاف ہے، میں یہ نہیں کر سکتا کہ ایک مدرسے کو اجاڑ کر دوسرا مدرسہ آباد کروں، لہذا اگر کوئی کہیں کام کر رہا ہے، تو میں اس کو بیع علی بیع أخيه نہیں کروں گا، ہاں اگر خود سے اللہ تعالیٰ عطا فرما دیں تو یہ دوسری بات ہے۔

ایک سال ایسا ہوا کہ دورۂ حدیث شریف کی جماعت میں میں بارہ یا تیرہ طالب علم تھے، لوگوں نے کہا کہ دورۂ حدیث کی جو جماعت ہے اور بارہ تیرہ طالب علم ہیں، کہا کوئی ضروری تھوڑا ہی ہے کہ طلبہ کی بھیڑ جمع کریں، ہمارے جو صحیح طریقے ہیں ان سے ہم جتنا کر پا رہے ہیں اسی کے مکلف ہیں، چاہے وہ بارہ ہوں یا دس ہوں یا پانچ ہوں، ایک بھی نہ ہو نہ سہی، لیکن اصولِ صحیحہ کو قربان کر کے طلبہ کی جماعت بڑھا دوں یہ نہیں کروں گا، سالہا سال یہ صورت حال رہی، کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ بھائی دیکھو، فلاں مدرسے میں اتنے طالب علم ہیں اور اس میں بارہ چودہ طالب علم ہیں، فرماتے: وہ ہوا کرے، ہمیں کوئی جماعت بڑھانا تھوڑا ہی مقصود ہے، ہمارا مقصد دین کی خدمت ہے چاہے وہ جس طرح بھی ہو جائے، کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹائیں گے، ایک استاذ کافی ہے، کسی نے کہا کہ حضرت یہ تو حالتِ ضرورت اور اضطرار ہے، انھوں نے جواب دیا کہ صاحب! یہ مولویانہ تاویلات چھوڑو، میں یہ کام نہیں کروں گا، جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ خود کہیں سے چھوڑنا چاہتے ہیں ان کو بلا لوں گا، ساری عمر یہی کام کیا۔ یہ پلے باندھنے کی باتیں ہیں، جب مقصود دین ہی ہے پھر ہر معاملے میں دین کی تعلیم کو مدنظر رکھنا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے، یہ نہیں کہ مدرسے کے لیے اور معیار ہے اور دوسروں کے لیے اور معیار ہے۔

(پندرہ روزہ تعمیرِ حیات لکھنو، ۱۰ فروری ۲۰۱۶ء)

لرننگ پورٹل