لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

صوفی جمیل الرحمٰن عباسی
مدیر ماہنامہ مفاہیم و ناظمِ شعبۂ تحقیق و تصنیف،فقہ اکیڈمی


بنی اسرائیل اور مسلمان آمنے سامنے

مکہ میں اگرچہ اہلِ کتاب سے آپﷺکا براہ راست آمنا سامنا نہیں ہوا لیکن اہلِ کتاب آپﷺسے واقف ہو چکے تھے اور مشرکین ِمکہ کو، ان کی فرمائش پر مختلف سوالات سکھایا کرتے تھے۔ مشہور روایت ہے کہ انھوں نے مشرکین کو تجویز کیا کہ محمد(ﷺ) سے ذوالقرنین، اصحابِ کہف اور روح کے بارے میں سوال پوچھیں، چنانچہ ان سوالوں کے جواب سورۂ بنی اسرائیل اورسورۂ کہف میں دیے گئے۔

نبی کریمﷺجب مکہ میں تھے تو اس طرح نماز پڑھا کرتے کہ دونوں قبلوں کا سامنا کر لیا کرتے، جب آپﷺمدینہ میں تشریف لائے تو سولہ سترہ مہینے آپ بیت المقدس کی طرف رخ فرما کرنماز ادا کرتے ۔سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں: كَانَ رَسُولُ اللهِﷺ يُصَلِّي وَهُوَ بِمَكَّةَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ َالْكَعْبَةُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَبَعْدَ مَا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ صُرِفَ إِلَى الْكَعْبَةِ (مسند احمد)’’مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے نبی کریمﷺ بیت المقدس کی طرف چہرہ کر کے اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے کہ خانہ کعبہ بھی آپ کے سامنے رہا کرتا تھا، پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے،پھر آپ کو کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا‘‘۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّﷺإِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ:﴿وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ﴾ (صحیح مسلم)’’میں نبی کریمﷺکے ساتھ سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا رہا، یہاں تک کہ آیتِ مبارکہ ﴿ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ﴾ ’’اور جہاں کہیں بھی تم ہو اپنا چہرے پھیر لو اسی (کعبے) کی طرف ‘‘ ۔

ہجرت کے موقے پر جب آپﷺقبا کے مقام پر پہنچے تو سب سے پہلے ایک یہودی نے ہی آپﷺکو دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہی وہ رسول ہیں جن کا انتظار کیا جا رہاتھا ۔ اس سے رہا نہ گیا اور وہ اونچی آواز میں چلا اٹھا :یا معشر العرب هذا صاحبكم الذي تنتظرون (سبل الہدى والرشاد فی سیرۃ خیر العباد) ’’اے گروہِ عرب! یہ تمھارے وہی صاحب ہیں جن کا تم انتطار کیا کرتے تھے‘‘۔ ایک یہودی عالِم، حصن بن سلام کو آپﷺکے تشریف لانے کی اطلاع ملی، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کرتے ہیں اور کچھ سوال وجواب کے بعد مسلمان ہو جاتے ہیں ۔حضور کریمﷺنے ان کا نام عبد اللہ تجویز فرمایا۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے اہلِ خانہ بھی مسلمان ہو گئے لیکن انھوں نے اپنا اسلام چھپائے رکھا ۔ آپ نے یہود کی اصلیت سامنے لانے کے لیے رسول اللہﷺسے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! مجھے کسی کمرے میں جانے دیجیے اور اِدھر آپ یہود کو بلوا کر ان سے میرے بارے میں سوال کیجیے، لیکن ابتدائی طور میرے قبولِ اسلام کا ذکر نہ فرمائیے۔ جب یہود آ گئے تو آپﷺنے ان سے کہا: (( يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ وَيْلَكُمُ اتَّقُوا اللَّهَ فَوَاللَّهِ الَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّى رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا وَأَنِّى جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ فَأَسْلِمُوا)) انھوں نے کہا: ہم تو اس بات کو جانتے ہی نہیں، آپ نے ان سے کہا: ’’یہ حصین بن سلام تم میں سے کیسا آدمی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: وہ ہمارے بہترین شخص ہیں اور ہمارے بہترین شخص کے بیٹے ہیں، وہ ہمارے سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں، وہ ہم سے بڑے عالم ہیں، سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’تمھارا کیا خیال ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے؟‘‘، توانھوں نے کہا: اس سے اللہ کی پناہ، اس پر حضور کریمﷺنے فرمایا: ’’اے ابن سلام! باہر آ جاؤ‘‘، وہ باہر تشریف لائے اور آتے ہی کہا: (أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ يَامَعْشَرَ الْيَهُودِ اتَّقُوا اللَّه وَاقْبَلُوا مَا جَاءَكُمْ بِهِ فَوَاللَّهِ الَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا ، تَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَكُمْ فِي التَّوْرَاةِ اسْمَهُ وَ صِفَتُهُ فَإِنِّى أَشْهَدُ إَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَ أُومِنُ بِهِ وَأُصَدِّقُهُ وَأَعْرِفُهُ) ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاللہ کے رسول ہیں، اے قوم یہود! اللہ سے ڈرو اور جو دعوت تمھارے پاس آئی ہے اسے قبول کرو،اللہ کی قسم تم جانتے ہو یہ سچے رسول ہیں جن کا نام اور جن کی صفات تم تورات میں لکھی ہوئی پاتے ہو، بے شک میں تو گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں میں آپ پر ایمان لاتا ہوں ،آپ کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کو پہچانتا ہوں‘‘یہودیوں نے جواب دیا: تم جھوٹ کہتے تم ہم میں سے بدترین آدمی ہو ۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اسی بات کا ڈر تھا، میں نے تو پہلے ہی آپ کوبتایا تھا کہ یہ بہتان تراش، غدار، جھوٹی اور فاجر قوم ہے‘‘۔ (سبل الہدى والرشاد فی سیرۃ خیر العباد)اسی طرح میمون بن یامین،یہود کے ایک سردار تھے ۔ انھوں نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی لیکن ان کی قوم نے ایمان سے انکار کر دیا۔اسی طرح ابو یاسر بن اخطب، رسول اللہﷺکے پاس آئے اور پہچان گئے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، انھوں نے جاکر اپنی قوم سے کہا: أَطِيعُونِي فَإِنَّ هَذَا هُوَ النَّبِيُّ الَّذِي كُنَّا نَنتَظِرُهُ ’’میری بات مانو (اور اسلام لے آؤ) یہ وہی نبی ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے‘‘، ان کے بھائی حیی بن اخطب نے ان کی مخالفت کی، نتیجتاً ان کا کوئی شخص اسلام نہ لایا۔(سبل الہدى والرشاد، فی سیرۃ خیر العباد)۔ یہود کا تعصب دیکھیے کہ وہ اپنے اہل علم کی بات بھی مانتے نہ تھے۔

میثاقِ مدینہ

بہرحال نبی کریمﷺنے مدینہ آمد کے بعد ان کی عزت افزائی کرتے ہوئے انھیں میثاقِ مدینہ میں شامل کیا، جس کے نتیجے میں انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے اور آپس کے تنازعات اپنے مذہبی قانون کے مطابق حل کرنے کی اجازت دی گئی اور اختلاف کی صورت میں نبی کریمﷺکو حَکم قرار دیا گیا ۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینے کا دفاع کریں گے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد نہ کریں گے۔

یہود کی غداری اور جزیرۂ عرب سے ان کی بے دخلی

عہد شکنی یہود کی سرشت میں داخل ہو چکی تھی ۔ وہ بارہا اللہ اور اس کے رسولوں کے عہد توڑ چکے تھے ۔انھوں نے میثاقِ مدینہ کی پابندی نہیں کی اور یہ وعدہ خلاف قوم جلد ہی خیانت پر آمادہ ہو گئی : ﴿وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ﴾ (مائدہ:۱۳)’’آپ ہمیشہ ان کی طرف سے خیانت پر مطلع ہوتے رہیں گے سوائے تھوڑوں کے‘‘۔بنو قینقاع کے یہودیوں نے اوس اور خزرج کے درمیان افتراق پیدا کرنے کے لیے سازشیں شروع کیں، مسلمانوں کی توہین کرنا عام وتیرہ بنا لیا، یہاں تک کہ مسلمان عورتوں کو چھیڑنے سے بھی باز نہ آتے اور پھر مسلمانوں کو جنگ کی دھمکیاں تک دینے لگے۔ ان کی شرارتوں سے تنگ آکر آپﷺنے ان کامحاصرہ کر لیا اور ہتھیار پھینکنے پرانھیں شام کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔اسی طرح یہود کے سردار کعب بن اشرف نے مکےکاسفر کرکے انھیں جنگ پر ابھارا،اس کی سازشوں کے سبب اسے قتل کیا گیا۔

بنو نضیر بھی آپﷺکے ساتھ میثاقِ مدینہ میں شامل تھے ۔جس کے مطابق ایک دِیَت کی ادائی کے سلسلے میں مذاکرات کرنے آپﷺان کے علاقے میں تشریف لے گئے ۔ جہاں ان لوگوں نے آپﷺکو شہید کرنے کی سازش تیار کر رکھی تھی۔ نبی کریمﷺکو وحی سے آگاہ کیا گیا تو آپ فورا مدینہ تشریف لائے اور مسلمانوں کو جمع کر کے بنو نضیر کا محاصرہ کر لیا ۔ جب یہود کو شکست کا خوف لاحق ہوا تو انھوں نے پیشکش کی کہ اگرہماری جان بخشی کی جائے تو ہم مدینہ چھوڑ کر خیبر میں جا آباد ہوتے ہیں۔ حضورﷺنے اس کو قبول فرمایا اور یہ اپنی جان،مال و اولاد بچا کر خیبر جا آباد ہوئے۔

پانچ ہجری میں ہونے والے غزوۂ خندق کا بڑا سبب، خیبر میں جا کر آباد ہونے والا یہودی قبیلہ بنو نضیر بنا تھا ۔ اس کے سرداروں پر مشتمل وفد نے،جنگوں سے نڈھال مشرکین مکہ کو آمادۂ پیکار کیا اور پھر ارد گرد کے قبائل کے دورے کر کے انھیں شریکِ جنگ کیا اور دس ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھا لائے۔مسلمانوں کو شہر کے گرد خندق کھود کر دفاع کرنا پڑا اور پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے اور شدید ترین آزمائش سے دوچار ہوئے۔

جب کفار کے مشترکہ لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا تو حُيَی بن اَخطَب،سردار بنی نضیر کی کوشش پر، مدینہ میں رہائش پذیر واحد یہودی قبیلےبنو قریظہ کے لوگ نبی کریمﷺسے کیاہوا معاہدہ توڑ کر، محاصرین کو رسد فراہم کرنے لگے، بلکہ گھٹیا پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان عورتوں اور بچوں کی پناہ گاہوں کے چکر کاٹنے لگے۔ اللہ کی خصوصی نصرت کے سبب جب حملہ آور ناکام و نامرادواپس ہوئے تو اللہ تعالی کے خصوصی حکم کے تحت نبی کریمﷺنے آستین کے ان سانپوں کو باہر نکالنے کے لیے ان کامحاصرہ کر لیا ۔جب ان کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ ہتھیار ڈالنے کے لیے آمادہ ہو گئے تب ان کے سردار کعب بن اسد نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور یہ بھی کہا کہ اے یہود! تم خوب جانتے ہو محمد (ﷺ) وہی سچے رسول ہیں جن کا ذکر تم اپنی کتاب میں پاتے ہو ۔لیکن ان دشمنان خدا کی شقاوت دیکھیے کہ اسلام قبول نہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے اس شرط پر کہ رسول اللہﷺہمارے بارے میں جو چاہے فیصلہ کریں ہتھیارپھینک دیے۔ مسلمانوں کا قبیلہ اوس، چونکہ اسلام سے قبل بنو قریظہ کا حلیف رہ چکا تھا اس لیے ان کے کچھ لوگ بنو قریظہ کے بارے میں رحم کی سفارش کرنے لگے تو آپﷺنے ان سے فرمایا: ’’ کیا تم اس پر راضی ہو کہ بنو قریظہ کا فیصلہ تمھارا سردار سعد بن معاذ کرے‘‘۔ چنانچہ انھیں بلوایا گیا ۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام جنگ کے قابل مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’سعد تم نے وہی فیصلہ کیا جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالی کا فیصلہ ہے، چنانچہ اسی فیصلے پر عمل ہوا۔ بنو نضیر کا سردار، حُیی بن اخطب بھی لڑائی کی غرض سے بنو قریظہ کے قلعے میں موجود تھا سو وہ بھی گرفتا ر ہو کر قتل ہوا۔ بوقت قتل اس نے رسول اللہﷺکو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے آپ کی مخالفت پر کوئی ملامت نہیں ہے لیکن جو اللہ سے لڑتا ہے وہ مغلوب ہو جاتا ہے‘‘۔ پھر اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا:’’لوگو اللہ کے فیصلے میں کوئی حرج نہیں، یہ وہ تقدیر اور وہ قتل ہے جو بنی اسرائیل پر اللہ نے لکھ رکھا تھا‘‘۔ قتل کی اس سزا سے بچنے والاایک ہی بالغ مرد تھا ۔اس کا نام عَمر وبن سُعدی تھا ۔ یہ اپنے قبیلے کی غداری میں شامل نہ ہوا بلکہ اپنے معاہدے پر قائم رہا۔ گرفتاری پر مامور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے کوئی تعرض نہ کیا اور یہ اپنی بستی سے نکل کر کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا، جیسے اپنے بھائی بندوں کی غداری پر شرمندہ ہو۔ بہرحال ہنگامۂ عام میں اکیلے وفا شناس کو آزاد چھوڑ دینا مسلمانوں کے عدل و انصاف کا ایک روشن ثبوت ہے۔ ہم ایک روایت پیش کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گاکہ ایامِ جنگ میں بھی نبی کریمﷺیہود کو ہدایت کی طرف دعوت دیتے بلکہ ان کے دنیاوی فائدے کا بھی حتی الامکان خیال رکھتے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہﷺہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا: ’’چلو یہود کی طرف‘‘ ہم آپﷺکے ساتھ نکلے یہاں تک کہ بیت المِدراس میں پہنچے ۔ نبی کریمﷺنے کھڑے کھڑے یہود کو مخاطب کیا : ((يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا)) ’’اے گروہِ یہود! اسلام قبول کر لو محفوظ رہو گے‘‘۔اس پر اس ناہنجار قوم کا جواب دیکھیے: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ ’’اے ابو القاسم! آپ نے بات پہنچا دی‘‘، آپﷺنے فرمایا: ’’میں یہی چاہتا تھا‘‘۔ آپﷺنے ان کو دوبارہ دعوت دی انھوں نے یہی جواب دیا قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ ’’اے ابو القاسم! آپ نے بات پہنچا دی‘‘،پھر آپﷺنے انھیں تیسری بار دعوت دی اور پھر فرمایا: ((اعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلاَّ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ))’’جان لو بے شک زمین تو اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے اور میں نے تمھاری جلاوطنی کا ارادہ کیا ہے، پس تم میں سے جس کے پاس کوئی مال ہے تو وہ اسے بیچ سکتا ہے ورنہ جان لو زمین (اور اس کی چیزیں) اللہ اور رسول کے لیے ہیں‘‘۔ اس روایت میں مذکور گروہِ یہود سے کون سا قبیلہ مراد ہے، روایت میں اس کی تصریح نہیں ہے اور شارحین حدیث کی اس بارے میں آرا مختلف ہیں لیکن اس سے نبی کریمﷺکا عدل و انصاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو ان کی بدعہدی اور غداری کی سزا دیتے وقت بھی انھیں اسلام دعوت دی جس کا جواب انھوں نے ڈھٹائی سے دیا، اس پر آپﷺنے انھیں اپنے اموال بیچ کر رقم کھری کرنےکی اجازت بھی دے دی۔

غزوۂ خندق برپاکرنے میں چونکہ یہودیانِ خیبر کا بہت حصہ تھا ۔ اس لیے صلحِ حدیبیہ کی فرصت ملتے ہی آپ نے خیبر پرحملہ کیا اور کئی بار انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جسے انھوں نے قبول نہ کیا ۔یکے بعد دیگرے یہاں کے اکثر قلعے فتح ہو گئے تو یہود نے صلح کی درخواست کی جو آپﷺنے کمال مہربانی سے قبول فرما لی۔ صلح کی شرط بھی یہود ہی نے پیش کی کہ ہمارے مال و اولاد سے تعرض نہ کیا جائے توہم خیبر چھوڑ کر کہیں چلے جاتے ہیں، آپﷺنے یہ قبول فرما لیا۔ بعد میں یہود نے خود درخواست کی کہ اگرچہ خیبر اور اس کی زمینیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں لیکن بطور کاشت کار ہمیں خیبر میں رہنے دیا جائے تو ہم نصف پیداوارپیش کرتے رہیں گے۔ حضور کریمﷺنے یہ بات بھی منظور فرما لی البتہ شرط یہ رکھی کہ جلاوطنی والا فیصلہ بدستور برقراررہے گا اورمسلمانوں نے کبھی مناسب سمجھا تو جلاوطنی کے اس فیصلے کونافذ کیا جائے گا۔ معاہدے کی اس شق پر عمل در آمد، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت میں ہوا جس کا تذکرہ آگے آئے گا۔

مسلمان شام میں

پچھلی بحث سے واضح ہو چکا کہ بیت المقدس کی تولیت امت محمدی کو سونپ دی گئی تھی۔ رومی ناجائز طور پر یہاں قابض تھے ۔ جلد یا بدیر مسلمانوں نے بیت المقدس آزاد کرانا ہی تھا ۔ لیکن کچھ ایسے قدرتی عوامل پیش آئے کہ مسلمانوں کی شام میں مداخلت جلدی ہی ہو گئی ۔اس کی تفصیل یوں ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد نبی کریمﷺنے حجاز کی ہمسایہ ریاستوں کو دعوتی خطوط ارسال کیے،ان میں سلطنتِ روم بھی شامل تھی ۔ان دنوں روم کی حکومت شام اور ملحق علاقوں یہاں تک کہ حدودِ حجاز تک پھیلی ہوئی تھی ۔ حجاز کے متصل علاقوں میں عرب قبائل آباد تھے جو ابتدائی طور پر رومیوں کے باج گزار تھے، لیکن بعد میں انھوں نے عیسائیت بھی قبول کر لی۔

نبی کریمﷺنے حضرت دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ کو اپنا نامۂ مبارک دے کر ہِرَقْل، قیصر ِ روم کی طرف بھیجا۔ آپ کی ذمے داری یہ تھی کہ خط حاکم بصریٰ کو اس پیغام کے ساتھ دے دیں کہ وہ یہ خط قیصر تک پہنچا دے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب قیصرِ روم نے سلطنتِ فارس کو شکست دے کر بیت المقدس سمیت اپنے علاقے اس کے قبضے سے چھڑائے تھے ۔اظہارِ تشکر کے طور پر وہ ان دنوں بیت المقدس کی حاضری اور عبادت کے لیے آیا ہوا تھا ۔ ایک دن قیصر نے صبح کی تو وہ خاصا پریشان تھا ۔ اس کے پادری نے وجہ پوچھی تو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ غالب آ گیا ہے ۔ پادری نے کہا ختنہ کرنے والے تو یہودی ہیں جو آپ کی رعایا ہیں ۔ اگر ان سے کوئی خطرہ ہے تو آپ ان کے قتلِ عام کا حکم دے دیں ۔ لیکن قیصر اس بات سے مطمئن نہ تھا ۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہودیوں کے علاوہ اورکون سی قوم مختون ہے ۔ انھی دنوں ایک غسّانی عرب ہرکارہ کسی کام سے اس کے پاس آیا تو اسے خیال آیا اورتحقیق کی توپتا چلا کہ عرب ختنہ کرنے والی قوم ہے۔ اسے یہ اطلاع تو مل چکی تھی کہ عرب میں ایک شخصیت نے نبوت کا دعوی کیا ہے البتہ وہ ان کی حقانیت سے واقف نہ تھا، اب اسے یقین ہونے لگا کہ یہ سچے نبی ہیں اور ان کی قیادت میں عرب غالب ہونے والے ہیں۔

وہ نبی کریمﷺکے بارے میں تفصیل سےجاننا چاہتا تھا ۔اس نے اپنے ہرکاروں سے کہا کہ اگر ہمارے ملک میں عرب کا کوئی تاجر موجود ہو تو اس کو پیش کیا جائے ۔ ابو سفیان (رضی اللہ عنہ )جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ شام میں موجود تھے۔ قیصر کے سپاہیوں نے انھیں قافلے سمیت دربار میں پیش کیا ۔ قیصر نے پوچھا کہ تمھارے ہاں جس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے تم میں سے اس کا قریب ترین کون ہے ۔ ابو سفیان نے خود کو پیش کیا ۔ قیصر نے بقیہ قافلے والوں سے کہا کہ میں اس سے سوال کروں گا، اگر یہ جواب میں جھوٹ کہے تو تم لوگ مجھے بتا دینا ۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں جانتا تھا کہ میرے ساتھی مجھے کبھی نہ جھٹلائیں گے لیکن میں ایک سردار تھا لہذا مجھے جھوٹ بولتے ہوئے شرم آئی۔ بہت سارے سوال جواب ہوئے، ہر جواب پر ہرقل کہتا کہ ہاں نبی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب گفتگو ختم ہوئی تو ہرقل نے کہا: وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ لَمْ أَكُنْ أَظُنُّ أَنَّهُ مِنْكُمْ فَلَئِنْ كُنْتَ صَدَقْتَنِي لَيَغْلِبَنَّ عَلَى مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي عِنْدَهُ فَأَغْسِلُ عَنْ قَدَمَيْهِ ’’میں جانتا تھا کہ ایک نبی ظاہر ہو گا لیکن میرا یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔اگر جو تو نے بیان کیا وہ سچ ہے تو میرے پاؤں تلے والی زمین پر بھی اس کا قبضہ ہو جائے گا، اور میری خواہش ہے کہ میں اس تک جا سکتا تو اس کے قدم دھو کر پی لیتا ‘‘ ۔

انھی دنوں رسول اللہﷺکا خط اس تک پہنچ چکا تھا، اس نے خط کی تعظیم کی اور بڑے ادب سے خط پڑھا اور اپنی گود میں رکھا ۔ پھر اس نے روم میں موجوداپنے دوست کو، جو عیسائیت کا عالِم اور عبرانی کا ماہر تھا؛ خط لکھا ۔ہرقل نے خط میں لکھا: إنَّهُ النَّبِيُّ الَّذِي يُنْتَظَرُ لَا شكَّ فِيهِ فَاتَّبِعْهُ ’’یہ وہی نبی ہیں جن کا انتظار کیا جا رہا تھا، اس میں کوئی شک نہیں، پس تم بھی ان کا اتباع کرو‘‘۔ ادھر شام کے بڑے پادری سے بھی قیصر نے مشاورت کی اور اس نے بھی نبی کریمﷺکے نبی برحق ہونےکی گواہی دی ۔اب ہرقل نے اپنے سرکردہ درباریوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے نبی کریمﷺکی حقانیت کا اقرار کرتے ہوئے انھیں اسلام کی دعوت دی : يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، إِنَّهُ قَدْ جَاءَنِي كِتَابُ أَحْمَدَ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ النَّبِيُّ الَّذِي كُنَّا نَنْتَظِرُ وَنَجِدُ ذِكْرَهُ فِي كِتَابِنَا، نَعْرِفُهُ بِعَلَامَاتِهِ وَزَمَانِهِ، فَأَسْلِمُوا وَاتَّبِعُوهُ تَسْلَمْ لَكُمْ دُنْيَاكُمْ وَآخِرَتُكُمْ ’’اے اہلِ روم! میرے پاس احمد (علیہ السلام) کا خط آیا، خدا کی قسم یہ وہی نبی ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے، جن کا ذکر ہم اپنی کتاب میں پاتے ہیں، جن کو ہم ان کی علامات اور ان کے وقتِ بعثت سے پہچانتے ہیں، پس اسلام لے آؤ اور ان کا اتباع کرو، تمھاری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی‘‘۔اس کے درباریوں کا تعصب دیکھیں کہ یہ سنتے ہی محفل کے آداب کے برخلاف باہر کو بھاگے، لیکن شاہِ روم نے پہلے ہی دروازے بند کرا رکھے تھے، اِس نے اُنھیں واپس بلایا اور سلطنت کو خطرے میں دیکھ کر کہنے لگا کہ میں تو تمھاری اپنے دین کے ساتھ لگاوٹ کو جانچ رہا تھا ۔ اس پر اس کے درباریوں نے اس کو سجدہ کیا اور خوش ہو گئے۔اگرچہ قیصر روم کا بادشاہ تھا لیکن اہل روم کے تعصب سے واقف تھا جس کے ڈر کی وجہ سے وہ اسلام نہ لایا ۔اس نے اپنی بے چارگی ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک پادری سے کہا إِنْ فَعَلْتُ ذَهَبَ مُلْكِي وَقَتَلَنِي الرُّومُ ’’ اگر میں یہ قبول اسلام کروں تو میری بادشاہی چلی جائے اور رومی مجھے قتل کر دیں ‘‘(تاریخِ ابنِ کثیر)قیصرِ روم حق کو پہچاننے کے باوجود ایمان نہ لایا، جس کے نتیجے میں عیسائی سلطنت میں اسلام کی دعوت کو پذیرائی نہ مل سکی۔ اگرچہ قیصرِ روم کے سفارتی آداب کا خیال کرنے کے سبب فوری طور پر جنگ و جدل کا موقع نہیں آیا لیکن آگے چل کر اس کا ایک سلسلہ جاری ہوا۔محسوس ہوتا ہےکہ قیصر جب شام سے روم کی طرف روانہ ہوا تو اس کو خدشہ تھا کہ شام اس کے ہاتھوں سے جلد یا بدیر نکلنے والا ہے ۔ چنانچہ اس نے شام کو یوں الوداع کہا : السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا أَرْضَ سُورِيَةَ تَسْلِيمَ الْوَدَاع ’’اے ارض شام تجھ پر سلام، الوداعی سلام‘‘۔(واللہ اعلم)

سلطنتِ روم سے تصادم

شام کا اک شہر بُصری (یہ عراق کے شہر بَصرہ سے الگ، ایک شامی شہر ہے) ہے ۔ یہ قیصر کی عملداری میں تھا اور اس کی طرف سے حارث بن ابی شمر الغسانی یہاں کا حاکم تھا ۔ نبی کریمﷺنے اس کی طرف حارث بن عمير الازدی رضی اللہ عنہ کوخط دے کر بھیجا ۔ جب وہ موتہ کے مقام پر پہنچے تو قیصر کی طرف سے ’’بلقاء‘‘ کے حاکم شُرَحبیل بن عمرو الغسانی نے آپ کو گرفتار کر کے شہید کر دیا ۔ رسول اللہﷺکے یہ واحد سفیر تھےجو کہ شہید کیے گئے ۔ غسانیوں کی طرف سے یہ اعلانِ جنگ تھا ۔ آپﷺنے اپنے سفیر کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے ایک لشکر موتہ کی طرف روانہ کیا ۔ آپﷺنےزید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار مقرر کیا اور فرمایا اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہوں گے اور اگر یہ شہید ہوئے تو عبد اللہ بن ابی رواحہ امیر ہوں گے اور اگر یہ بھی شہید ہو گئے تو پھر مسلمان خود کسی کو امیر بنا لیں ۔آپ نے انھیں حکم دیا کہ پہلے انھیں اسلام کی دعوت دیں، اگر وہ نہ مانیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور ان سے قتال کریں ۔

رومیوں نے ایک لاکھ اور بعض روایات کےمطابق دو لاکھ کا لشکر جمع کیا جبکہ مسلمان تین ہزار تھے۔ مسلمانوں نے دشمن کی کثرت کو دیکھ مشاورت کی، بعض کی رائے تھی کہ حضورﷺکو خط لکھ کر صورتِ حال سے آگاہ کیا جائے، لیکن اس موقعے پر حضرت عبد اللہ ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے ایک جوشیلی تقریر کی :

يَا قَوْمِ وَاللَّهِ إِنَّ الَّتِي تَكْرَهُونَ لَلَّتِي خَرَجْتُمْ تَطْلُبُونَ الشَّهَادَةُ وَمَا نُقَاتِلُ النَّاسَ بِعَدَدٍ وَلَا قُوَّةٍ وَلَا كَثْرَةٍ مَا نُقَاتِلُهُمْ إِلَّا بِهَذَا الدِّينِ الَّذِي أَكْرَمَنَا اللَّهُ بِهِ فَانْطَلِقُوا فَإِنَّمَا هِيَ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْن إِمَّا ظُهُورٌ وَإِمَّا شَهَادَةٌ ’’اے لوگو! خدا کی قسم، تم جس شہادت کے لیے نکلے تھے اسی کو ناپسند کرنے لگے ہو ۔ ہم لوگ تعداد اور قوت و کثرت کی بنیاد پر نہیں لڑتے ہم تو اس دین کی برکت سے لڑتے ہیں جس کے ذریعے اللہ نے ہمیں عزت دی۔ آگے بڑھو اور یاد رکھو! دو اچھی چیزوں میں سے ایک تمھاری منتظر ہے،یا تو تمھارے لیے فتح و غلبہ ہے یا تمھارے لیے شہادت کا رتبہ ہے‘‘۔ اس پر تمام مجمع کی رائے آپ کے موافق ہو گئی اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا: ’’خدا کی قسم! ابنِ رواحہ سچ کہتے ہیں‘‘۔یہ تاریخ کی عجیب لڑائی ہے ۔ تین ہزار کا ایک دستہ، لاکھوں کے لشکر کے سامنے کھڑا ہے، صف بندی کے بعد مسلمانوں نے تندو تیز حملے سے ابتدا کر کے پہلے تو دشمن کو حیران اور پھر پریشان کر دیا ۔ مسلمان اس خوبی سے لڑے کہ پورا دن رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا ۔ رات کو لڑائی موقوف ہوئی ۔ دوسرے دن بھی یہی حال رہا کہ مسلمان رومیوں کو میدانوں میں دوڑاتے اور گراتے رہے۔ تیسرے دن حملے میں پہل رومیوں نے کی اور اس دن، نبی کریمﷺکی خبر کے عین مطابق مسلمانوں کے تینوں امراشہید ہوئے اور یہ دن بھی بغیر فیصلے کے ختم ہوا ۔ چوتھے دن مسلمانوں کی قیادت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی ۔ انھوں نے ایک توفوج کو نئی ترتیب سے کھڑا کیا اور دوسرے ان کے جھنڈے بدل ڈالے، تیسرا کام یہ کیا کہ کچھ ٹولیاں تشکیل دیں جو دھول اڑاتیں، نعرہ تکبیر لگاتیں، وقفوں وقفوں سے میدانِ جنگ میں شامل ہوتی رہیں جس سے مخالفین نے سمجھا کہ مسلمانوں کی کمک آ گئی ہے ۔ا ب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور آپ کی فوج نےزوردار حملہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ایسے لڑے کہ آپ کے ہاتھوں سے اس دن نو تلواریں ٹوٹیں ۔ آپ نے اپنی فوج کو پسپا کرتے ہوئے آہستہ آہستہ میدان جنگ سے دور کر دیا ۔ رومیوں نے اس کو ایک چال سمجھا اور آگے بڑھنے سے احتراز کیا ۔ شام تک تمام مسلمان فوج میدانِ جنگ سے ہٹ گئی ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے واپسی کا فیصلہ کیا، رومیوں نے بھی آپ کا تعاقب کرنے سے گریز کیا ۔چنانچہ مسلمان خیریت سے مدینہ واپس ہوئے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چار دن کی اس جنگ میں مسلمانوں کے بارہ افراد شہید ہوئے جبکہ مخالف فوج کے ہزاروں سپاہی ہلاک ہوئے۔ مسلمان فوج کا قیصرِ روم کی دو لاکھ فوج کا مقابلہ کرنا اور چار دن سخت قتال کرنا اور انھیں سخت جانی نقصان سے دو چار کرکے خیریت سے واپس آ جانا ایک عظیم فتح تھی ۔ عرب قبائل اور آس پاس کی ریاستوں اور خود سلطنت روم پر مسلمانوں کی ہیبت طاری ہو گئی جس نے آئندہ فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ (شرح الزرقاني على المواهب اللدنيه)

غزوۂ تبوک

نبی کریمﷺکی حقانیت کے ثبوت اور قیصر کے عرب کے غلبے کے خواب کی سچائی کے سبب قیصرِ روم نبیﷺکے مقابلے پر دل و جان سے آمادہ نہیں تھا ۔غزوۂ موتہ کی ہزیمت کے سبب بھی اہلِ روم مسلمانوں سے خوفزدہ تھے۔ لگتا نہیں تھا کہ رومی مسلمانوں پر حملہ آور ہوں گے ۔ لیکن سنہ ۹ ہجری میں یہ واقعہ پیش آیا کہ عرب کے عیسائیوں نے ہرقل کو یہ اطلاع دی (معاذ اللہ) عرب کے نبی انتقال کر گئے ہیں اور مسلمانوں کے حالات دگرگوں ہیں ۔ اب روم شاہی لالچ میں عرب کی نو زائیدہ ریاست کی جانب متوجہ ہوا، قیصر نے عرب پر فوج کشی کی تیاری شروع کر دی ۔ قیصر کی تیاری کی خبرشامی تیل کے تاجروں کے ذریعے مدینہ پہنچ گئی ۔ان دنوں کھجور کی فصل اترنے والی تھی اورمسلمان کسی سفر کے متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ ایک تو فصل اتارنے کے لیے مردوں کا موجود رہنا ضروری تھا اور دوسری طرف فصل اترنے سے پہلے معاشی حالات اچھے نہیں ہوتے، لہذا سازوسامان کی قلت تھی اور پھر موسم بھی بہت سخت تھا۔ لیکن نبی کریمﷺنے پیغمبرانہ فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ رومی فوجیں ہماری سرحدوں میں داخل ہوں، ہمیں ان کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ یہ ایک عظیم فیصلہ تھا ۔ سلطنتِ روم کو نہ صرف یہ معلوم ہوا کہ پیغمبرِ اسلام علیہ السلام کا بابرکت وجود ریاستِ مدینہ پر بدستور سایہ فگن ہے بلکہ ان پر یہ بھی واضح ہو گیا کہ مسلمان متحد و منظم ہیں اور ان کے حوصلے جوان ہیں۔

تبوک کے موقعے پر ڈھکےچھپے منافقین سامنے آ گئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دل کھول کر انفاق کیا ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے پاس سواریوں کی کمی تھی ۔ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو جہاد پہ نکلنا چاہتے تھے وہ حضورﷺکے پاس آ کر خود کو پیش کرتے، لیکن آپﷺفرماتے: ’’میرے پاس سواری نہیں کہ تمھیں سوار کروں‘‘ اور وہ صحابہ روتے ہوئے واپس جاتے۔خوراک کی بھی قلت تھی اور بسا اوقات چند کھجوروں پہ گزارا ہوتا ۔البتہ راستے میں نبی کریمﷺکی برکت سے بعض دفعہ معجزانہ طور پر ایسا بھی ہوا کہ تھوڑا سا کھانا یا پانی تمام لوگوں کو کافی ہو جاتا، لیکن اس کے باجود یہ تنگی اور سختی والا سفر تھا، اس لیے اس لشکر کو جیش العسرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیس ہزار تھی ۔جب مسلمان تبوک کے چشمے پر پہنچے تو اس میں بہت ہی تھوڑا پانی تھا ۔ کافی دیر بعد تھوڑا سا پانی جمع ہوا جو ایک برتن میں ڈالا گیا ۔ نبی کریمﷺنے اس برتن میں اپنے ہاتھ اور چہرۂ اقدس دھویا اور پانی دوبارہ کنویں میں ڈال دیا ۔ آپﷺکےاستعمال شدہ پانی کی برکت سے چشمے سے بڑی مقدار میں پانی جاری ہو گیا جو تمام لوگوں کے لیے کافی ہو ا۔

نبی کریمﷺدس دن سے اوپر اور بعض روایات کے مطاق بیس دن تبوک میں قیام پذیر رہے لیکن قیصر نے آپﷺکے مقابلے میں آنے کی ہمت نہ کی ۔ ایک قریبی علاقے اَیلہ کا عیسائی حاکم آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپﷺکو ایک خچر تحفے میں پیش کیا بدلے میں حضور کریمﷺنے ایک چادر اس کو عطا کی ۔ عیسائی حاکم نے اطاعت گزاری کا وعدہ کیا جو آپﷺنے قبول فرمایا اور اس پر جزیہ عائد کیا۔

حدودِ شام میں واقع دو چھوٹے شہروں، جرباء اور اذرح کے حاکموں نے بھی حاضر ہو کر اطاعت گزاری اختیار کی اور جزیہ دینا منظور کیا۔ دومۃ الجندل نسبتاً ایک بڑا شہر تھا۔اکیدر وہاں کا حکمران تھا۔آپﷺنے خالد بن ولید اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک فوج ادھر روانہ کی ۔ آپﷺنے انھیں تاکید کی تھی کہ اکیدر کو قتل نہ کرنا بلکہ گرفتار کر کے لے آنا۔ یہ حضرات رات کے وقت وہاں پہنچے تو وہ چند لوگوں کے ساتھ قلعے سے باہر ’’چودہ کے چاند اور شراب کے جام‘‘ سے لطف اندوز ہو رہا تھا، مسلمانوں نے حملہ کیا تو اس کے ساتھیوں نےمزاحمت کی ۔ جس پر حاکم کا بھائی مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور حاکم ’’ اُكَيدر‘‘ گرفتار ہوا۔ اس نے دوہزار اونٹ، آٹھ سو گھوڑے، چار سو زرہیں اور چار سو نیزے دے کر صلح کی درخواست کی جومنظور ہوئی اور آپﷺنے اس پر بھی جزیہ عائد کیا اور اس کی اطاعت قبول فرمائی ۔(بعض سیرت نگاروں کے مطابق اکیدر نے اسلام قبول کیا تھا لیکن اکثر کے نزدیک وہ عیسائی ہی رہا ۔امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےالاصابہ میں لکھا ہے: ’’یہ احتمال ہے کہ پہلے تو اس نے جزیے پر صلح کی ہو اور بعد میں مسلمان ہو گیا ہو، لیکن اس نے بعد میں ارتداد اختیار کیا اور اس کا خاتمہ کفر پر ہی ہوا‘‘)۔

آپﷺجب تک تبوک میں رہے، ہرقل؛ حِمص میں قیام پذیر رہا ۔ آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو اس کی طرف خط دے کر روانہ کیا جو پہلے بھی اسے خط پہنچا چکے تھے۔ آپﷺنے اسے قبولِ اسلام کی دعوت دی اور فرمایا کہ انکار کی صورت میں جزیہ ادا کرو یا پھر جنگ کے لیے تیار رہو ۔ ہرقل نے اپنے عمائدین اور پادریوں سے مشورہ کیا۔ اس کی کوشش تھی کہ عمائدین اسلام پر راضی ہو جائیں تو اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا جائے، تاکہ مجھے حکومت نہ چھوڑنی پڑے، لیکن اس کے ساتھی راضی نہ ہوئے ۔ تب اس نے ایک منافقانہ چال چلی کہ آپﷺکی طرف تحفے تحائف ارسال کیے اور ایک خط لکھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں ۔ آپﷺنے خط پڑھتے ہی فرمایا: ’’وہ دشمنِ خدا جھوٹ کہتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہوا بلکہ نصرانیت ہی پر ہے‘‘۔ بہر حال آپﷺنے اس کے تحفے قبول کر کے مجاہدین میں تقسیم کر دیے ۔ اب آپﷺنےاصحابِ کرام سےمشورہ کیا کہ’’کیا پیش قدمی جاری رکھی جائے یا واپسی کا سفر شروع کیا جائے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یا رسول اللہ! روم کی آبادی بہت زیادہ ہے اور ان کے ملک میں کوئی مسلمان بھی نہیں ہے، ہم نے قریب آ کر انھیں خوفزدہ کر دیا ہے۔اس سال ہمیں واپس چلنا چاہیے، ہو سکتا ہے آئندہ اللہ کوئی اور صورت پیدا فرما دے‘‘۔ آپﷺنے حضرت عمر رضی اللہ کی رائے کو تسلیم کیا اور واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ (المواہب اللدنیہ)

(جاری ہے)

لرننگ پورٹل