لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

وارثانِ بیت المقدس اور اسلام

حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع سماوی سے فترۃ وحی کا ایک طویل دور شروع ہوا۔ جب دنیا میں کہیں کسی نبی و رسول کا بابرکت وجود نہیں پایا جاتا تھا۔ بیت المقدس کی دونوں متولی قومیں خستہ حالی کا شکار تھیں۔ عیسائی ، یہودیوں اور مشرکوں ، ہر دو کے ظلم کا شکار تھے۔ ستر عیسوی کے لگ بھگ قوم یہود ، مخالفتِ انبیا، بالخصوص حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کے اقدام کی سزا میں اللہ تعالی کے غیظ و غضب کی حقدار ٹھہر کر بیت المقدس سے بے دخل کی جا چکی تھی۔ بیت المقدس پر سلطنت روم کی براہ راست حکومت قائم تھی۔ ابتدائی عرصے میں تو اہل روم اپنے پرانے مشرکانہ مذہب پر قائم رہے لیکن چوتھی صدی عیسوی میں قیصر ِ روم کے عیسائیت قبول کرنے سے پوری قوم نے عیسائیت کو اختیار کر لیا اگرچہ یہ تحریف شدہ عیسائیت تھی جسے پال ازم کہنا مناسب ہے۔ اسی خطے میں فارس کی بت پرست سلطنت بھی قائم تھی۔ ان دونوں طاقتوں کی باہمی آویزش وقفوں وقفوں سے جاری رہتی تھی۔ ا ب نبی کریمﷺ کا دور شروع ہوتا ہے۔ آپ اولاد ِ ابراہیمی کی مکی شاخ سے تھے۔آپ کی پیدائش عام الفیل ، ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔ عیسوی تقویم کے مطابق یہ ۵۷۱ بعد ِمسیح کا سال اور اپریل کا مہینا تھا۔ آپ کی پیدائش کے موقعے پر ایک روشنی ظاہر ہوئی جس سےروم کےمحلات روشن ہو گئے۔ اسی موقعے پر شاہ فارس کے محل کے چودہ کنگرے کر گئے۔ یہ گویا اشارہ تھا کہ ان دونوں حکومتوں کو نبی کریمﷺ کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا۔

نبی کریمﷺ کے ساتھ بنی اسرائیل کا معاملہ کیا رہا ہم اسے دو صورتوں میں پیش کریں گے۔واقعاتی اندازِ بیان کی طرف ہم بعد میں آئیں گے پہلے اجمالی اور اصولی انداز میں اس ا ہم مسئلے پر بات کرتے ہیں ، ہمارے اس کلام سے یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ بیت المقدس پر حق تولیت کس کا ہے۔اشوریوں ، بابلیوں اور رومیوں کی ترکتازیوں کے مواقع پر اکا دکا بنی اسرائیلی قبائل ، جزیرۃ العرب میں وارد ہوتے رہے۔یہ مقامی لوگوں میں بھی اپنے دین کے نفوذ کا ذریعہ بنتے۔ ان میں سے کچھ افراد کا آنا جانا اور ربط و ضبط مکے کے لوگوں سے بھی تھا یہاں تک کہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے عیسائیت قبول بھی کر لی جیسے ورقہ بن نوفل وغیرہ۔ لیکن اہل کتاب کی کوئی باقاعدہ بستی مکہ میں آباد نہ تھی۔ اس لیے مکے میں آپﷺ کا ان سے براہ راست مخاطبہ نہیں ہوا۔ البتہ مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے چنانچہ جب نبی کریمﷺ یہاں تشریف لائے تو آپ کا اس قوم سے سابقہ پڑا۔رسول اللہﷺ کی بعثت بنی اسرائیل کے لیے ایک نعمت مترقبہ ثابت ہو سکتی تھی۔ان کے لیے یہ ایک نادر موقع تھا کہ آپﷺ کے دامن رحمت میں پناہ لے کر اپنے دامن ِ دریدہ کے بد نما داغ دھو لیتے۔ چنانچہ مکی قرآن ہی میں ان سے خطاب کر کے فرما دیا گیا تھا:﴿عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا﴾(بنی اسرائیل:۸)’’قریب ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم نے وہی کچھ کیا تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے‘‘۔جب نبی کریمﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اب بنی اسرائیل سے آپﷺ کا اور قرآن کریم کا مخاطبہ شروع ہوا۔ چنانچہ اہل کتا ب کو دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا:﴿وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ﴾(البقرہ:۴۱)’’اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی جو تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے اور تم پہلے پہل اس کا کفر کرنے والے نہ بنو اور نہ ہی میری آیات کا تھوڑا مول لو اور مجھ ہی سے ڈرو‘‘بنی اسرائیل کے آخری نبی سیدنا عیسی علیہ السلام یہ خبر دے گئے تھے کہ آخری رسول ’’احمد‘‘دنیا میں تشریف لائیں گے۔ انجیل میں آپﷺ کی کئی ایک نشانیاں مذکور تھیں۔لیکن یہ لوگ قرآن اور صاحب قرآن کو پہچاننے کے باوجود ایمان نہ لائے:﴿الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾(الانعام:۲۰) ’’وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے اس (آخری رسول) کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ان لوگوں نے خود کو نقصان میں ڈالا پس یہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘۔

 بنی اسرائیل نے نہ صرف رسولوں پر ایمان اور ان کی نصرت کے وعدے کو توڑا بلکہ آسمانی کتابوں میں تحریف کر کے نبی آخر الزمانﷺکی خبریں و علامتیں چھپانے کی کوشش بھی کی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور’’لعنتِ مزید‘‘ کے مستحق ہو گئے:﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ﴾(المائدة:۱۳)’’پس بسبب اپنے میثاق کو توڑنے کے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو اور سخت کر دیا اور وہ کلام کو اس کی جگہوں سے آگے پیچھے کرنے لگے اور جو نصیحتیں انھیں کی گئی تھیں ان کے بڑے حصے کو بھی وہ بھلا بیٹھے‘‘اسلام کی حقانیت اور اہل کتاب کے اعراض کو ایک جگہ یوں بیان کیا گیا:﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾(آل عمران:۱۹)’’بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے اور جنھیں کتاب دی گئی تھی انھوں نے ، اس میں اختلاف کیا مگر دلیل آ جانے کے بعد اور وہ بھی اپنی ضد کی وجہ سے ،پس جو کوئی اللہ کی آیات کا کفر کرے گا پس اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔در اصل اہل کتاب کو مسلمانوں سے حسد تھا کہ آخری نبی اور آخری کتاب ، بنو اسحاق کے بجائے بنو اسماعیل کو کیوں دے دی گئی:﴿وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ﴾(البقرة:۱۰۹) ’’بہت سارے اہل کتاب چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمھیں کافر بنا دیں۔ اس حسد کے سبب جو انھیں لاحق ہے بعد اس کےکہ ان پر حق واضح ہو بھی چکا‘‘ ان کے کفر اور اس کی وجہ،ضد و حسد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:﴿وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ * بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ﴾ (البقرہ:۸۹، ۹۰) ’’اور جب آگئی ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک کتاب جو سچ بتلاتی ہے اس کتاب کو جو ان کے پاس تھی اور وہ اس سے پہلے کافروں پرفتح طلب کیا کرتے تھےلیکن جب وہ آ گئی ان کے پاس جس کو انھوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا کفر کر دیا پس ان کافروں پرلعنت ہے بہت برا ہے وہ سودا جس میں انھوں نے اپنے آپ کو بیچا کہ انھوں نے کفر کیا اس کا جو نازل کیا تھا اللہ نے ، اس ضد کی وجہ سے کہ اللہ اپنے فضل سے (کتاب) نازل کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پرچاہتاہے پس وہ غضب پر غضب لے کے لوٹےاور کافروں کے لیے تو ذلت آمیز عذاب ہے‘‘اہل کتاب بالخصوص یہود کی ڈھٹائی کا عالم یہ تھا کہ وہ حق سے منھ موڑنے کو اپنی ایک خوبی کے طور پر بیان کرتے تھے:﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا﴾’’پس بسبب ان کے میثاق کو توڑنے کے اور اللہ کی آیتوں کا کفر کرنے سے ناحق طورپر انبیا کو قتل کرنے کے اور ان کے یہ کہنے کے سبب کہ ہمارے دل تو غلافوں میں ہیں بلکہ اصل میں تو اللہ نے مہر کر دی ان کے دلوں پر پس وہ ایمان نہیں لائیں مگر بہت تھوڑا‘‘۔﴿وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ﴾(البقرہ:۸۸)’’اور انھوں نے کہا کہ ہمارے دل پردوں میں ہیں، بلکہ اللہ نےلعنت کی ان کے دلوں پر، پس تھوڑا ہی یہ ایمان لاتے ہیں‘‘۔

اگر بنی اسرائیل رسول آخریﷺ پر ایمان لے آتے تو بیت المقدس کا تنازع کھڑا ہی نہ ہوتا بلکہ جس طرح کلید بردارِ کعبہ،عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے بعد کعبے کی کلید برداری قیامت تک ان کے خاندان میں جاری فرما دی اسی طرح اگر بنی اسرائیل اسلام قبول کر لیتے تو شاید وہ بیت المقدس کی تولیت سے محروم نہ کیے جاتے۔ بنی اسرائیل کے گروہ یہود کی شرارتوں کا تو ذکر آگے آئے گا لیکن ان میں سے زیادہ عدل و انصاف کے قریب سمجھے گئے گروہ نصاری کا حال دیکھیے کہ ان کے بادشاہ ،قیصرِ ہِرَقل تک جب رسول اللہﷺ کا خط پہنچا تو اس نادان نے آپﷺ کے پاؤں دھونے کی ’حسرت‘ کا اظہار تو کیا:وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ(صحیح بخاری)’’اگر میں ان کے پاس جا سکتا تو ان کے پاؤں دھو کر پی لیتا‘‘،حالانکہ پاؤں دھو کر پینے کا اس سے تقاضا کیا ہی نہیں گیا تھا اور جس کام کا اس سے تقاضا تھا، جس کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس جانے کی بھی ضرورت نہ تھی ، یعنی قبولِ اسلام اس سے پہلو بچا گیا۔چنانچہ جس طرح کسی دور میں رومی بادشاہ کے عیسائیت قبول کرنے کی وجہ سے عام رومیوں نے عیسایت قبول کر لی تھی اس طرح کی قبولیت ، عیسائت میں اسلام کو نہ مل سکی۔ قیصر اسلام نہ قبول کر سکا اور عوام کا گناہ بھی اس کے سر رہا۔

بیت المقدس کی تولیت کس کا حق ہے

بنی اسرائیل کے کفر کے بیان کے بعد ہم اس بیت المقدس کے حق تولیت پر کچھ عرض کرتے ہیں۔پیچھے ہم نے ذکر کیا کہ دنیا میں توحید کے دو قدیم و کبیر مرکزتھے۔ ایک بیت اللہ شریف اور دوسرا بیت المقدس ،ہم نے یہ بھی جانا تھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قریبی تعلق ان دونوں مراکز سے تھا۔ مکی مرکز کی آپ علیہ السلام نے بنفس نفیس تعمیر نو کی اور اپنے بڑے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو یہاں آباد کیا۔ شامی مرکز میں آپ علیہ السلام نے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو آباد کیا۔ تو جب ابراہیم علیہ السلام ان دونوں مراکز کے متولی تھے تو یقینی طور پر آپ کی اولاد ہی ان دونوں مراکز کی وراثت پانے کی حق دار تھی۔لیکن اس ضمن میں ایک اہم بات ، یاد رکھنے کی یہ ہے کہ وراثت کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ خاندانی وراثت جس کے ذریعے سے باپ دادا کی زمین و جائیداد ، ان کی اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی ہے۔ ا گرچہ خاندانی وراثت پر عقیدےو ملت کا فرق اثر انداز ہوتا ہے لیکن یہ خاندانی وراثت چلتی ، خاندانی ، خونی اور رحمی رشتوں ہی میں ہے۔ دوسری وراثت کو ہم اصولی وراثت کہتے ہیں کہ جس کا تعلق نسلی رشتے پر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق نظریاتی وابستگی سے ہے۔تو اب پہلی بات یہ ہے کہ مسجد الحرام ہو یا بیت المقدس ، یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام کی میراث تو بلاشبہ ہیں ہی لیکن یہ خاندانی وراثت میں شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام کو یہ خاندانی طور پر ملے تھے۔ نہ تو مکے کی زمین ، حضرت ابراہیم کے والد’آزر‘ کی ملکیت تھی اور نہ ہی بیت المقدس کی زمین اس کی ملکیت تھی۔بلکہ یہ تو اللہ تعالی کی عبادت کے عالمگیر مراکز تھے جو ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کی تولیت میں اللہ کے پیغمبر ہونے کے ناطے دیے گئے تاکہ وہ انھیں نمازیں پڑھنے والوں اور حج و عمرہ اور اعتکاف کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔تو ان مراکز و مساجد کی وراثت ایک اصولی و معنوی وراثت تھی۔جس کے انتقال کا بالکلیہ اور سراسر ، انحصار اشتراک مذہب و ملت پر ہے۔یہاں کا مرکزی اصول ہی یہ ہے کہ:

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر نہ ہو
پھر پسرقابلِ میراث ِ پدر کیوں کر ہو

جب ابراہیم علیہ السلام اور اسمعیل علیہ السلام نے بیت الحرام کی بنیادیں اٹھاتے وقت اپنے اور اپنی اولاد کے لیے مسلمانی کی دعا مانگی تھی: ﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ﴾(البقرہ:۱۲۸)’’اے ہمارے رب!  ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا دے اور ہمیں اولاد کو بھی فرمانبردار امت بنا دے‘‘ لیکن اہل کتاب نے اپنے باپ دادا کے مسلک مسلمانی کو ترک کیا اور نادانی کا راستہ اختیار کیا﴿وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ﴾ (البقرہ:۱۳۰)’’اور وہی ملت ابراہیمی سے بے رغبتی کرے گا جو سرے سے احمق بن گیا ہو‘‘اہلِ کتاب نے اسلام کے سایۂ عاطفت میں آنے اور اسلام کو اپنی شناخت بنانے کے بجائے اپنے ازکارِ رفتہ مذاہب سے وابستہ رہنے کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ اس کا اعلان بھی کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے ان کی نفی کرتے ہوئے انھیں ملت ابراہیم اختیار کرنے کا حکم دیا: ﴿وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾(البقرہ:۱۳۵)’’اور یہ (یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ:تم یہودی یا عیسائی ہوجاؤ راہ راست  پر آجاؤ گے۔ کہہ دو کہ:نہیں بلکہ (ہم تو) ابراہیم کے دین کی پیروی کریں گے جو ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ پر تھے، اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں‘‘۔ لیکن ان عاقبت نا اندیشوں نے ملت ابراہیمی سے اعراض کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کی مبارک شخصیت پر اجارا داری قائم کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالی نےفرمایا:﴿مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾(آل عمران:۶۷) ’’نہ تھے ابراہیم یہودی اور نہ نصرانی، بلکہ وہ تو اللہ کی طرف یکسو مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہیں تھے‘‘اس جامع نفی نے دنیا کی ہر گمراہ قوم کو نسبت ابراہیمی سے محروم کر دیا۔ اب یہ بتانا ضروری تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کا سچا نام لیوا ، اور جائز وارث کون ہے تو فرمایا گیا:﴿إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ﴾(آل عمران:۶۸) ’’بے شک تمام لوگوں میں ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ حقدار وہ تھے جنھوں نے آپ کا اتباع کیا اور یہ نبی (محمدﷺ)اور وہ لوگ (جو آپﷺ پر) ایمان لائے‘‘، اب نبی کریمﷺ اور آپ کی امت ہی ملت ابراہیم کے نگہبان اور وارث ہیں۔ دیگر کسی قوم کا منھ نہیں ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کا نام لے سکے۔ چنانچہ اب دونوں ابراہیمی مراکز کوآپ کی تحویل میں دیا جانا ضروری ہوا۔بیت الحرام تو حسی اور انتظامی طور پر، آپﷺکی زندگی ہی میں آپ کودے دیا گیا۔ جب کہ دوسرا مرکز ، بیت المقدس اصولی طور پر آپﷺکو دے دیا گیا۔ البتہ انتظامی طور پر بیت المقدس کو مسلمانوں کے ہاتھ آنے میں کچھ وقت لگا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ 

اہل کتابِ کی تولیتِ قدس سے محرومی کے کچھ مزید دلائل

اس بابت اصولی بات تو عرض کر دی گئی لیکن چند مزید چیزیں بھی سامنے لائی جا رہی ہیں تاکہ ’’کوئی فتنہ گر‘‘ مسلمانوں کو اس مسئلے میں گمراہ نہ کر سکے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ نے امام الناس کے رتبے پر فائز کیا اور فرمایا:﴿إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا﴾ ’’بے شک میں آپ کو تمام لوگوں کا امام بنانے والا ہو‘‘ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب باری تعالی میں عرض کی کہ کیا یہ وعدہ میری اولاد کے ساتھ بھی ہے؟ تو اللہ نے فرمایا:﴿لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ﴾(البقرہ:۱۲۴) ’’میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا‘‘ اللہ تعالی کے احکام کو توڑنا بھی ظلم ہے اور اس باب میں اہل کتاب کے جرائم کی فہرست طویل ہے لیکن اللہ تعالی کی توحید کو شرک سے آلودہ کرنا ظلم کی وہ قسم ہے جس میں کسی قسم کی معافی کی گنجائش نہیں ہے اور اس حوالے سے اہلِ کتاب بدترین ظلم کے مرتکب ہوئے:﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾(التوبہ:۳۰)’’اور یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ تو ان کے مونھوں کی باتیں ہیں، یہ تو اپنے سے پہلے والے کافروں جیسی باتیں کرنے لگے ہیں ، اللہ ان کی گردن مارے کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں‘‘ کفر و شرک کے مرتکب ہو کر اہل کتاب ظالموں میں شامل ہو ئے تو اب ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیے گئے خدائی وعدے میں سے خارج ہو گئے۔

اگرچہ بعض جدید مسلمان اہل کتاب کو کافر کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے سورۂ بینہ میں اُن کے کفر کا پول کھولا ہے:﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ﴾(البینہ:۱) ’’نہ تھے باز آنے والے جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور مشرکوں میں سے یہاں تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آجاتی‘‘ لیکن ظاہر ہے وہ اپنے کفر سے باز نہ آئےتو اسی سورت میں ان کی اوقات دکھلا دی گئی: ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ﴾ (البینہ:۶)’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور مشرکوں میں سے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بد ترین خلائق ہیں‘‘ تو یہ بدترین خلائق کافر ، اسلام کےمرکز اور نبیوں کی وراثت بیت المقدس پر متمکن کیسے رہ سکتے ہیں ؟ 

اہلِ کتاب کی تولیتِ بیت المقدس سے محرومی پر درج ذیل آیت مبارکہ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے:﴿مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ * إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾(التوبہ:۱۶ تا ۱۸)’’مشرکین کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں ، خود پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے، ان کے تو اعمال اکارت چلے گئے اور وہ ہمیشہ کے دوزخی ہیں۔ بے شک مساجد کو تو وہ آباد کر سکتے ہیں جوایمان لائیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور وہ نماز قائم کرے اور زکاۃ ادا کرے اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتوں میں ہو جائیں‘‘۔امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ الواحدی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول نقل کیا ہے:دلت عَلَى أَنَّ الْكُفَّارَ مَمْنُوعُونَ مِنْ عِمَارَةِ مَسْجِدٍ مِنْ مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِينَ ’’آیت دلالت کرتی ہے کہ کفار کے لیے مسلمانوں کی کسی بھی مسجد کی تولیت جائز نہیں ہے‘‘،تو جب اہلِ کتاب ایمان نہ لائے بلکہ کافر ہوئے تو وہ بیت المقدس کی تولیت سے محروم ہو گئے اس لیے کہ کفر پر رہتے ہوئے کوئی کسی عام مسجد کا متولی بھی نہیں بن سکتا کجا یہ کہ وہ حرم مقدس کا رکھوالا ہونے کا دعوی کرے!ایک گناہ اور بھی ہے جس کا مرتکب نہ صرف کہ مساجد کی تولیت بلکہ ان میں آزادانہ نقل و حرکت سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے اور وہ جرم ہے مساجد میں اللہ کے ذکرِ و عبادتِ صحیح میں رخنہ اندازی کرنا:﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (البقرة:۱۴) ’’اس سے بڑھ کرظالم کون ہے جو اللہ کی مساجد سے روکے کہ وہاں اللہ کا ذکر کیا جائے اور وہ کوشش کرے ان مساجد کے اجاڑنے کی ان لوگوں کے لیے جائز ہی نہیں کہ وہ ان مساجد میں داخل ہوں مگر یہ کہ خائف ہو کر‘‘ان آیات کے شان نزول میں مفسرینِ صحابہ و تابعین کے ہاں مختلف آراپائی جاتی ہیں۔ بعض کے نزدیک مساجد میں ذکر اللہ سے روکنے والوں سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود و نصاری ہیں۔علامہ وہبۃ الزحیلی رحمۃ اللہ علیہ ایک اصولی بات لکھتے ہیں:العِبْرَةُ بِعُمُومِ اللّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ، فتَشْمُلُ أَهْلَ الْكِتَابِ ومَنْ عَلى شَاكِلَتِهِم(التفسیر المنیر)’’چوں کہ خصوصی سببِ نزول کے بجائے عمومی الفاظ سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے پس اس آیت کا اطلاق اہل کتاب پر بھی ہوتا ہے اور تمام ان لوگوں پر بھی کہ جو ان کے راستے پہ چلے‘‘علامہ محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:وَظَاهِرُ الآيَةِ الْعُمُوْمُ في كُلِّ مَانِعٍ وفي كُلِّ مَسْجِدٍ وخُصُوْصُ السَّبَبِ لا يَمْنَعُه(روح المعانی) ’’ظاہر آیت میں عموم پایا جاتا ہے ، ہر مانع ذکر ، اور ہر مسجد اس حکم میں داخل ہے اور شان نزول یہ معنی مراد لینے میں مانع نہیں ہے‘‘پس مندرجہ بالا اصول کے تحت مشرکین مکہ ، یہود اور نصاری تینوں گروہ اس آیت کے حکم میں داخل ہیں۔اور یہ ساری قومیں اپنے اپنے وقت میں اس جرم عظیم کی مرتکب رہ بھی چکی ہیں۔ نیز بیت اللہ شریف اور بیت المقدس سمیت تمام مساجد اس حکم میں شامل ہیں۔ اسی لیے علامہ وہبۃ الزحیلی رحمۃ اللہ علیہ نے صلیبی جنگ جوؤں اور یہود عصر حاضر کو بھی آیات مذکورہ کے تحت داخل کیا ہے۔ 

مساجد کی آباد کاری سے کیا مراد ہے تو علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:وَلَيْسَ الْمُرَادُ مِنْ عِمَارَتِهَا زَخْرَفَتَهَا وَإِقَامَةَ صُورَتِهَا فَقَطْ، إِنَّمَا عِمَارَتُهَا بِذِكْرِ اللَّهِ فِيهَا وَإِقَامَةِ شَرْعِهِ فيها، وَرَفْعِها عَنِ الدَّنَسِ والشِّرْكِ(تفسیر ابن کثیر) ’’اس سے مراد عمارتوں کی بناوٹ نہیں ہے بلکہ آباد کاری سے مراد ہے کہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ تعالی کی شریعت پر عمل کیا جائے اور ظاہری نجاست اور (باطنی نجاست) شرک سے اسے پاک رکھا جائے‘‘اس اصول کی روشنی میں اللہ کی مسجدوں کی ویرانی سے مراد ہو گا کہ یہاں اللہ تعالی کے ذکر و عبادت سے روکا جائے۔چونکہ آباد کاری میں شریعت کے مطابق عبادت کرنا بھی داخل ہے تو حاملین شریعت کو یہاں داخل ہونے سے روکنا بھی مسجد کی ویرانی میں داخل ہے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے اللہ کی عبادت علی وجہ الصحیح موقوف ہو جاتی ہے۔

اللہ کے ذکر سے روکنے کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اہلِ ایمان کی عبادتِ صحیح کے ساتھ ساتھ ، اہلِ کفر کی عبادت ِ غیر صحیح کو بھی جاری کیا جائے جوکہ جائز نہیں ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے مشرکینِ مکہ کے داخلہّ حرم اور حج پر پابندی لگا دی تھی۔ حالانکہ وہ اللہ کا نام لیا کرتے اور اللہ کی عبادت مثلا طواف وغیرہ بھی کرتے تھے۔بہرحال ، مندرجہ بالا تمام صورتوں کے اعتبار سے ، اہلِ کتاب ، بیت المقدس کی ویرانی اور اللہ کے ذکر سے روکنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ اس کی تولیت کے لیے نا اہل ثابت ہوتے ہیں، مندرجہ بالا آیت کے آخری الفاظ﴿ أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلا خَائِفِين﴾سے بھی یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ کے ذیل میں لکھتے ہیں:هَذَا خَبَرٌ مَعْنَاهُ الطَّلَبُ، أَيْ لَا تُمَكِّنوا هَؤُلَاءِ إِذَا قَدَرُتم عَلَيْهِمْ مِنْ دُخُولِهَا إِلَّا تَحْتَ الْهُدْنَةِ وَالْجِزْيَةِ(تفسیر ابن کثیر)’’یہ حکم ہے جو کہ جملۂ خبریہ کے انداز میں دیا جا رہا ہے مطلب یہ کہ مسجدوں کو ویران کرنے والوں کو مسجدوں پر اختیار نہ دواگر تم اس کی قدرت رکھتے ہو تو ، البتہ صلح اور جزیہ کے تحت داخل ہو سکتے ہیں’’حضرت کعب الاخباراور سُدی رحمہما اللہ کی رائے یہ تھی کہ آیت ہذا میں مساجد کو ویران کرنے والوں سے مراد نصاری ہیں اور مسجد سے مراد بیت المقدس ہے۔ان دونوں کے اقوال کا حاصل بھی یہی ہے کہ نصاری بیت المقدس کی تولیت بلکہ آزادانہ آمدو رفت کے بھی حقدار نہیں ہیں سوائے یہ کہ جزیہ ادا کر کے داخل ہوں‘‘(تفسیر ابن کثیر)موجودہ وقت میں بیت المقدس اور مسجد اقصی سے مسلمانوں کو روکنے یا غیر اہل لوگوں کےداخلےاور ان کی غیر مشروع طریقے پر عبادت کو جاری کرنے کی کوشش کرنے والوں میں تینوں گروہ شامل ہیں۔ یہود تو عملاً اس کوشش میں ہیں جب کہ عیسائی حکومتیں ان کی سرپرست اور مشرکین ان کے حمایتی ہیں۔تو اس جرم کی وجہ سے اہل کتاب کا کوئی بھی گروہ مسجد الاقصی کا متولی نہیں ہو سکتا۔

بیت المقدس کے جائز متولی صرف مسلمان ہیں

یہود و نصاری کے حقِ تولیتِ بیت المقدس سے محرومی کے لیے بیان کیے گئے دلائل سے مسلمانوں کی تولیت کا ثبوت از خود ہو جاتا ہے۔مساجد کی تولیت کے حقدار لوگوں کی جو صفات مثلا ، صاحب ایمان ہونا ، نماز اور زکاۃ کی ادائی کا اہتمام کرنا،  اللہ کی شریعت کے مطابق عبادت بجا لانا وغیرہ، بیان کی گئیں ان صفات کی حامل صرف امتِ مسلمہ ہی ہے۔ مسجدِ اقصی پر مسلمانوں کی تولیت کا ایک ثبوت تحویلِ قبلہ کے واقعے میں ہے۔نبی کریمﷺ مدینہ میں آکر سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، اس کے بعد اللہ کے حکم سے بیت المقدس کی جگہ بیت الحرام کو قبلہ مقرر کر دیا گیا ۔ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے میں اشارہ یہ ہے کہ یہ قبلہ بھی اب مسلمانوں کا ہے اور پھر بیت الحرام کو قبلہ بنانے میں اشارہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی جگہ اب آل اسمعیل ، اللہ کی نمائندگی پر سرفراز ہورہی ہے اور سابقہ امتِ مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کو اب اس منصب سے محروم کیا جا رہا ہے:﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً﴾(البقرہ :۴۳)’’ اور اسی طرح ہم نے تم کو بنایا بہترین امت تاکہ تم گواہ ہو جاؤ لوگوں پر اور ، رسول گواہ ہو جائیں تم پر ‘‘ ،تو اللہ کی نمائندہ امت کے منصب سے محرومی کی وجہ سے اہل کتاب ، بیت المقدس کی تولیت سے محروم کر دیے گئے اور اسی منصب نمائندگی پر فائز ہونے کی وجہ سے مسلمان امت ، بیت الحرام اور بیت المقدس یعنی دونوں قبلوں کی تولیت کی حقدار قرار پائی۔

معراجِ رسول ﷺاور بیت المقدس

معراج کے واقعے سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ بیت المقدس کی تولیت مسلمانوں کے پاس آنے والی ہے ۔اسی کی تمہید کے طور پر رسول اللہ ﷺ کو معراج کا سفر براستہ بیت المقدس کرایا گیا :﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الاسراء :۱) ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجدِ اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے‘‘۔علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :’’نبی کریمﷺکو وہاں لے جانے میں یہ بھی اشارہ ہوگا کہ جو کمالات انبیاے بنی اسرائیل وغیرہ پر تقسیم ہوئے تھے آپ کی ذاتِ مقدس میں وہ سب جمع کردیے گئے، جو نعمتیں بنی اسرائیل پر مبذول ہوئی تھیں، ان پر اب بنی اسماعیل کو قبضہ دلایا جانے والا ہے۔’’ کعبہ‘‘ اور’’بیت المقدس‘‘دونوں کے انوار و برکات کی حامل ایک ہی امت ہونے والی ہے‘‘۔

جب آپ ﷺ بیت المقدس میں اپنی سواری سے اترتے ہیں تو اس کے بارے میں بیان فرماتے ہیں: ((فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ))’’میں نے اپنی سواری اسی کڑے سے باندھی جس سے انبیاے کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے‘‘۔مسندِ احمد کی روایت کے مطابق صحابہ کرام بیان کرتے ہیں:((فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّﷺ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ))(مسند احمد )’’پس جب نبی کریم ﷺ مسجدِ اقصی میں داخل ہوئے تو آپ نماز پڑھنے لگے پھر جب آپ نے نماز ختم کر کے مڑے تو دیکھا کہ تمام انبیاے کرام آپ ﷺکے ساتھ شریک نماز ہیں‘‘،نبی اکرم ﷺ کے اپنے الفاظ میں امامت کا ذکر موجود ہے اور یہ امت کی متفقہ رائے ہے کہ آپ ﷺ نے انبیاےکرام کو جماعت کرائی تھی:((فَحَانَتِ الصَّلاةُ فَأمَمْتُهُمْ)) (صحیح مسلم) ’’ نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان کی امامت کی‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے : لَقِيَهُمْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَّهُمْ نَبِيُّنَاﷺ(فتح الباری) ’’ آپ ﷺ ان سے بیت المقدس میں ملے اور نماز کا وقت ہو گیا تو آپ ﷺ نے ان کی امامت کا شرف حاصل کیا‘‘علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی امامت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ حضور ﷺ کو جو سیادت و امامتِ انبیا کا منصب دیا گیا تھا اس کا حسی نمونہ آپ کو اور مقربین بارگاہ کو دکھلایا گیا‘‘۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوعطا کی جانے والی امامت ان کی پوری امت میں چلتی لیکن جب آپ اولاد کے ایک حصے یعنی یہود و نصاری نے اپنے جدِ امجد کے مذہب و مسلک کو ترک کر دیا تو اپنی اس بے وفائی کے سبب وہ اس وراثت عظمی سے محروم کر دیے گئے ۔ اب وراثتِ ابراہیمی اور امامتِ قبلتین کا منصب، اولاد ِ ابراہیمی کے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوا ، اور نبی کریم ﷺ اس حصے کے رسول کی حیثیت میں امام ِقبلتین کہلائے اور آپ کے بعد یہ منصبِ امامت صحیح طور پر آپ کی امت کو منتقل ہوا ، اور آپ کے وسیلے سے اب امتِ محمدیہ ہی قبلۂ اول اور مرکزِ توحید بیت المقدس کی جائز متولی ہے ۔بیت المقدس سے امتِ محمدی کے خصوصی تعلق کو مختلف احادیث میں بیان کیا گیا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :((لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ:مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي هَذَا))(متفق علیہ) ’’شدِ رحال ( بہ غرض خصوصی عبادت سفر ) نہ کیا جائے گا مگر تین مسجدوں کی طرف مسجد الحرام ،مسجد الاقصی اورمیری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی ) کی طرف ‘‘۔ اس حدیث میں ، ایک اعتبار سے مسجدِ اقصیٰ کو حرمین شریفین کے برابر کیا گیا کہ عبادت سمجھ کر اس کی طرف سفر اختیار کرنے کی اجازت دی گئی حالانکہ یہ حیثیت کہ سفر ہی عبادت بن جائے ان تین کے علاوہ کسی مقام کو حاصل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بعض علماے کرام مسجدِ اقصیٰ کو تیسرا حرم قرار دیتے ہیں ۔ ایک حدیث میں مسجدِ اقصیٰ کی طرف سفر کرنے کو مغفرت کا ذریعہ بتایا گیا ۔عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جب سلمان علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیرِ(مکرر ) سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالی سے تین چیزوں کی دعا مانگی: ((حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ وَمُلْكًا لاَ يَنْبَغِى لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ وَأَلاَّ يَأْتِىَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لاَ يُرِيدُ إِلاَّ الصَّلاَةَ فِيهِ إِلاَّ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ))(سنن نسائی)’’فیصلہ و اجتہاد کی ایسی صلاحیت جو اللہ کے حکم کے موافق فیصلہ کرے، ایسی بادشاہی جو میرے بعد کسی کو نصیب نہ ہو اور یہ کہ جو شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کی نیت سے آئے تو وہ گناہوں سے اس دن کی طرح صاف ہو جائے جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا‘‘ نبی کریم ﷺ نے یہ بیان کرنے کے بعد فرمایا : ((أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ)) ’’پہلی دو چیزیں تو آپ کودے دی گئیں (جوعالمِ واقع میں نظر آتی رہیں ) جہاں تک تیسری کی بات ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ بھی اللہ نے قبول کر لی ہو گی‘‘اس حدیث میں نماز کی نیت سے مسجدِ اقصی کا سفر کرنے کی مشروعیت بلکہ استحباب اور اس امر کا اسبابِ مغفرت میں سے ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اسبابِ مغفرت کو حاصل و اختیار کرنا چونکہ شریعت کے پسندیدہ امور میں سے ہے ۔ لہذا ، اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا اختیار ہونا چاہیے تاکہ مسلمان آسانی سے اس کی زیارت و عادت کا اہتمام کر سکیں۔

مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنےکاخصوصی اجر بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((اَلصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ وَالصَّلَاةُ فِي مَسْجِدِي بِأَلْفِ صَلَاةٍ وَالصَّلَاةُ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ بِخَمْسِمِائَةِ صَلَاةٍ))(فتح الباری بحوالہ مسند البزار) ’’ مسجد ِحرام کی نماز(عام مساجد کی ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اور میری اس مسجد ( یعنی مسجد نبوی ) میں ایک نماز ادا کرنا عام مساجد کی ایک ہزار نماز کے برابر ہے اور مسجدِ اقصیٰ کی ایک نماز عام مساجد کی پانچ سو نماز کے برابر ہے‘‘۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، نماز کی نیت سے مسجدِ اقصیٰ کا سفر کیا کرتےتھے۔عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مسجدِ اقصی کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اس میں نماز ادا کریں بہت سارے لوگ بھی آپ کے پیچھے چلے تو آپ نے پوچھا تم کاہے کو میرے ساتھ چلتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: چونکہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت پائی ہے لہذا ہم پسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ چلیں اور آپ پرسلام پیش کریں (اور جواب میں آپ کا سلام ملے )،جب وہ مسجدِ اقصی پہنچ گئےتو انھوں نے حکم دیا کہ’’اترو اور نماز ادا کرو‘‘ چنانچہ سب اترے اور حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز اداکی (مسند احمد)

حج کےضمن میں بھی بیت المقدس کا خصوصی ذکر ملتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ أَوْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ)) (ابو داود)’’ جس نے مسجدِ اقصی سے حج یا عمرے کا احرام باندھ کر لبیک کہا تو اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے یا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی‘‘۔

اس حدیث پاک میں بیت المقدس سے جا کر حج اور عمرے کا احرام بااندھنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اسلاف میں سے کئی بزرگوں کا یہ عمل رہا ہے کہ وہ پہلے بیت المقدس جاتے اور وہاں سے پھر حج یا عمرے کے لیے روانہ ہوتے ۔ لیکن افسوس کفار کے قبضے کی وجہ سے اب مسلمان اس سعادت سے محروم ہیں ۔ اس حدیث سے اشارت ہوتی ہے کہ اگر قوت جمع کر کے اسی طرح بیت المقدس کو پنجۂ یہود سے آزاد کرا نا چاہیے جس طرح کبھی بیت اللہ شریف کو کافروں کے چنگل سے چھڑایا گیا تھا ۔ تاکہ مسلمان اپنا سفر حج تینوں حرمِین تک پھیلا سکیں۔

جاری ہے

لرننگ پورٹل