لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024
جمعرات 18 رمضان 1445 بہ مطابق 28 مارچ 2024

اگست ایک مرتبہ پھر آیا ہے، اور جن حالات میں آیا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ دیکھیں! اصول، ضابطہ، قانون، طریقۂ کار، اور رواج و دستور یہی چلا آ رہا ہے کہ کوئی بھی ملک، شہر، ادارہ ،گھر، کمپنی وغیرہ بنانا بڑوں کا کام ہوتا ہے، لیکن اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا ان کے بعد آنے والی نسلوں کا کام ہوتا ہے۔ پاکستان ہمارے آبا و اجداد نے خون کی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔ ہمارے باپ دادا نے ۱۹۶۵ ءاور ۱۹۷۱ء میں دشمنوں کے ٹینکوں تلے اپنی جانیں دے کر پاکستان بچایا۔ میرے بھائیو! پاکستان صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہم سب پاکستانیوں کا گھر ہے۔ جب پاکستان ہم سب کا گھر ہے تو پھر اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں سمیت ہر قسم کی حفاظت بھی ہمارے ذمےداری ہے۔ اگر بنظر غائر جائزہ لیں تو اس وقت پاکستان پر ہر طرف سے اور ہر لحاظ سے دشمن کی یلغار ہے۔ استعماری طاقتیں پاک وطن کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ اسی وجہ سے ملک میں قومیت، عصبیت، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کو فروغ دلوایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں انتشار، انارکی، بدامنی، خوف، بے یقینی اور افراتفری کی فضاہے۔ ایسے حالات میں مدارس، علماے کرام، صوفیاے عظام، محراب ومنبر سے وابستہ افراد، جج صاحبان، وکلا برادری، صحافیوں، دانشوروں، اسکالروں، کالج اوریونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ، قانون نافذ کرنیوالے اداروں، صنعت کاروں، سیاستدانوں، مزدوروں، سول سوسائٹی کے لوگوں … گویا ہر محب وطن پر لازم ہے کہ وہ پاک وطن کے خلاف ہر قسم کی سازش کو باہم متحد ہوکر ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس کی حفاظت کرے۔ اس کی قدر کرے۔ اس کے بکھرے ہوئے گیسو سنوارے۔ ریاستِ مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔یہی قوم کی اپنے وطن کے ساتھ وفاداری ہے اور ہمارا دین بھی یہی درس دیتا ہے۔ ملک و ملت کے ساتھ یہی وفاداری کا تقاضا ہے۔ پاک وطن کے گھمبیر اور مشکل ترین حالات کا حل بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اس ۱۴ ؍اگست کا اصل پیغام یہی ہے۔قارئین! بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ’’تحریکِ آزادی میں علما کا کوئی کردار نہیں ہے‘‘۔یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ علماے کرام نے آزادی کی تحریک میں بڑھ کر حصہ لیا تھا، چند ایک کے نام پیش کیے دیتا ہوں تاکہ سند رہے۔ یادش بخیر!۱۶۰۰ء کے بعد انگریز برصغیر میں داخل ہوا اور یہاں کی آزادی پر ڈاکہ ڈالا گیا، چنانچہ۱۸۰۳ء میں شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ تحریک کی کمان سید احمد رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ نے کی اور بے شمار علاقوں میں انگریز کو شکست دی۔ ۱۸۳۱ء میں سید احمداور شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہما بالاکوٹ کے مقام پر بے شمار رفقا کے ہمراہ شہید ہوگئے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کا اہم ترین معرکہ ’’شاملی‘‘ کے میدان میں ہوا، جہاں انگریز کو سخت جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معرکے کے سپہ سالار حاجی امداد مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ ان کے خاص کمانڈروں میں حافظ محمد ضامن، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہم جیسے جلیل القدر علما تھے۔ اس معرکے میں بے شمار علما و طلبہ شہید ہوئے۔ مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مولانا فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علما کو فتویٰ جہاد کے جرم میں کالے پانی کی سزا دی گئی۔ مفتی کفایت علی کافی بدایونی کو جنگ آزادی کی پاداش میں تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔ ۱۸۵۷ ءکی شکست کے بعد مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اکابر نے اسلامی روایت کے تحفظ اور ملک کی آزادی کی خاطر۱۸۶۶ ءمیں قصبۂ دیوبند میں ’’دارالعلوم‘‘ نامی علمی درس گاہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر آزادی کی تحریکوں کا مرکز و سرچشمہ ثابت ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ نے آزادی کے لیے ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ شروع کی۔۱۹۱۷ ءمیں غداری کی وجہ سے حجازِ مقدس سے شیخ الہند کو گرفتار کرکے مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عزیر گل، مولانا حکیم نصرت حسین، مولانا وحید احمد  رحمۃ اللہ علیہم کے ہمراہ بحیرہ روم میں واقع جزیرۂ مالٹا کی جیل میں جلاوطن کردیا گیا۔۱۹۱۹ءمیں مولانا محمد علی جوہر نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ خلافت شروع کی۔ مولانا شوکت علی اور ابوالکلام آزاد جیسے عظیم قائدین بھی ساتھ تھے۔ مفتی محمد شفیع اور سید ابومحمد دیدار علی شاہ الوری نے ’’مطالبۂ پاکستان‘‘ کو مدلل فتاویٰ کی صورت میں پیش کرکے تحریک آزادیٔ پاکستان میں فیصلہ کن اور موثر ترین کردار ادا کیا۔ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی نے مطالبہ پاکستان کی پرزور حمایت کا اعلان کیا۔ شاہ احمد نورانی کے والد ماجد عبدالعلیم صدیقی قادری نے قیامِ پاکستان کے مطالبے کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مفتی محمد شفیع ، مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا عبدالستار خان نیازی نے مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے نتیجہ خیز کاوشیں سرانجام دیں۔ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ ءکو کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ نے جبکہ مشرقی پاکستان مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تلاوتِ قرآن اور دعا کے بعد پاکستان کی پہلی پرچم کشائی کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء میں جب بانیٔ پاکستان قائداعظم کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔تدفین کے سارے مراحل سرانجام دیے۔ مارچ ۱۹۴۹ء میں دستور ساز اسمبلی نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے عنوان سے قرارداد منظور کی تو اسلام کی بنیادی تعلیمات، اساسی احکامات اورا ہم جزئیات کو آئین کا حصہ بنانے میں مولانا شبیر احمد عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاے کار نے بھرپور کردار ادا کیا، اور آج بھی علماے کرام ملک کی تعمیر و ترقی اور قوم کی فلاح و بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

لرننگ پورٹل