لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024
جمعہ 10 شوال 1445 بہ مطابق 19 اپریل 2024

قلبِ حزیں

ابنِ عباس

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ:((إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ كُلَّ قَلْبٍ حَزِينٍ))(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد و قال الهيثمي رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَإِسْنَادُهُمَا حَسَنٌ)’’سیدنا ابوالدراء رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر دل غمگین کو پسند کرتا ہے‘‘۔

تشریح

حزن یعنی غم سے  وہ غم مراد نہیں ہے جو دنیا کے نہ ملنے   یا   کم ملنے  پر ہوتا ہے۔اس لیے کہ دنیا پر غم کرنے سے روکا گیا ہے ۔اگرچہ انسان کبھی   کسی کمزور لمحے میں  اس کا شکار ہو جائے تو اس کی گنجائش تو ہے لیکن یہ قابل تعریف نہیں ہے۔ وہ حزن و ملال جو  حدیث    میں بر مقام مدح بیان کیا گیا  وہ دوسری نوعیت کا ہے ۔ قلب حزیں کی اصطلاح قلب القاسی، یعنی گناہوں کے سبب سخت ہو جانے والے دل  کے مقابلے میں آئی ہے ۔ لہذا قلب حزیں  سے مراد وہ دل ہے جو اللہ تعالیٰ  کی خشیت سے معمور ہو  اور اس خشیت کے زیر اثر وہ اپنے گناہوں اور تقصیرات  پر نادم رہتا ہو، آخرت کے احوال سے لرزاں و ترساں ہو کر  آخر ت  کی تیاری میں مگن رہتا ہو۔قلب حزیں سے  مراد وہ دل بھی ہے  جو نرم ہو   اور مخلوق پر  رحمت و شفقت کا مظاہرہ کرنے والا ہو۔ وہ دل جو  اخلاقِ کریمہ  یعنی خوف ، رقت ، محبت ، اللہ کی رحمت  کی امید   اور اس کے  غضب سے ڈرتا ہو۔ایک نیک  اور اخلاقِ کریمہ سے معمور دل  کے لیے قلبِ حزیں کی اصطلاح استعمال کرنے میں کیا حکمت ہے؟تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ   حزن و ملال ، دل میں رقت پیدا کر کے ، دل کی زمیں کو نرم کر کے   اسے اعلی اخلاق کی تخم ریزی کے لیے تیار کرتا ہے۔تو چونکہ  حزن؛ دل کی اصلاح کے لیے سبب بنتا ہے تو اس کے سبب بننے کی صلاحیت کی طرف اشارہ کرنے  کے لیے اعلیٰ صفات کے حامل دل کے لیے  قلبِ حزیں کی اصطلاح استعمال  کی گئی ۔

حزن و ملال کے بارے میں چند اصولی باتیں

پہلی بات وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ غموں کا آنا انسان کے لیے فائدہ مند ہے۔ شمائل میں آتا  ہے کہ نبی کریمﷺ متواصل الاحزان تھے یعنی آپ پر دکھ پے در پے آیا کرتے تھے۔احادیث کے مطابق   دنیاوی دکھ بعض اوقات بعض گناہوں   کے کفارے کے طور پر پہنچائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ درجات کی بلندی کے لیے ۔ بعض اوقات مصیبتوں میں مبتلا کر کے انسان کو توبہ کی توفیق دی جاتی ہے۔  اب اگر کسی انسان پر مصیبت آ جائے تو اگرچہ اسے تکلیف  محسوس ہو گی اور وہ اسے ناپسند کرے گا  لیکن  انجام کار کے اعتبار سے  مصیبت کا آنا   اس کے لیے بہتر ہے۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ : ((يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ)) (سنن ترمذی) ’’ قیامت والے دن جب  دنیا میں مصیبتیں برداشت کرنے والوں کو ثواب دیا جائے گا  تو دنیا میں عافیت سے رہنے والے لوگ خواہش کریں گے  کاش  دنیا میں ہماری  کھالیں قینچیوں سے کاٹ  دی گئی ہوتیں‘‘۔  یہ تو خیر اہلِ عافیت  کی  وہ خواہش ہے جو وہ آخرت میں ظاہر کریں گے   لیکن  اس دنیا میں رہتے ہوئے کسی کے لیے آزمائش کی خواہش کرنا درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اگرچہ مصیبت پر ڈھیروں اجر ملنے والا ہے  لیکن وہ مشروط ہے صبر کے ساتھ ۔ اگر انسان مصیبت میں  صبر نہ کرے بلکہ جزع فزع اور شکوے شکایت شروع کر دے تو ان مصیبتوں سے اسے فائدہ تو کیا الٹا نقصان ہو گا ۔ اب چوں کہ یہ معلوم نہیں ہے آنے والی مصیبت پر میں صبر کر سکوں گا یا نہیں تو اس لیے مصیبت کے آنے کی دعا یا تمنا نہیں کرنی چاہیے۔ایک صحابی یہ دعا  مانگ رہے تھے :(اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ)’’ اے اللہ میں تجھ سے صبر کی توفیق مانگتا ہوں‘‘ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((سَأَلْتَ اللَّهَ الْبَلَاءَ فَاسْأَلْهُ الْعَافِيَةَ )) (سن ترمذی )’’تم نے تو  آزمائش مانگ لی، اللہ سے عافیت کا سوال کرو‘‘۔ ایک حدیث میں فرمایا:((يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فَإِذَا لَقِيتُمْ فَاصْبِرُوا))( متفق علیه) ’’اے لوگو! دشمن سےمڈبھیڑکی تمنا نہ کرو،   بلکہ اللہ سےعافیت طلب کرو، لیکن اگر آمنا سامنا  ہو جائے تو  پھر صبر کا مظاہرہ کرو‘‘۔ بہر حال ہم نے یہ سمجھا کہ  دکھ درد انسان ، کی مغفرت   اور درجات کی بلندی ،  کا باعث بنتے ہیں ۔اور مصیبتوں سے انسان کا دل نرم  ہو جاتا ہے اور پھر توبہ و اصلاح کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اسی لیے بعض  بزرگوں کا قول ہے عمارة القلب بالأحزان ’’دل کی آبادی  دکھوں کے ساتھ ہے‘‘۔

لرننگ پورٹل