لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ہر سو اپنی نعمتیں بکھیر رکھی ہیں۔ جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے ۔یہ نعمتیں ہر طرح کی ہیں حسی بھی اورمعنوی بھی،اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً﴾’’اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں‘‘ ظاہری نعمتوں سے حسی نعمتیں مثلا باغ وبہار اور مال واولاد وغیرہ مراد ہیں جبکہ باطنی نعمتوں سے مراد ، امور ِدین و شریعت ہیں ۔ ویسے تو نعمت کی یہ دونوں قسمیں اللہ تعالی کی رحمت کا مَظہر ہیں لیکن ان نعمتوں میں سب سے بڑی کامل اور مکمل نعمت دین ہے ۔قرآن مجید میں فرمایا گیا: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا ‘‘۔(مائدہ:۳) تو آج ہمیں اس بات کا استحضار ہونا چاہیے کہ یہ دین ہمارے لیے دنیا و آخرت کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جتنی نعمتیں آپ کو اور مجھے حاصل ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت دین کی نعمت ہے اور اس میں کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے ۔بلکہ اس میں شک ہو سکتا ہی نہیں ہے ۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہر نعمت کو نعمت یہ دین ہی بنا رہا ہے اور اگر یہ نعمتِ ہدایت میسر نہیں ہے تو کوئی نعمت ،نعمت نہیں ہے ۔مثال کے طور پر مال و دولت بہر حال اللہ کی ایک نعمت ہے اب اگر یہ مال کسی دیندار بندے کے ہاتھ میں ہے تو یہ اس کے لیے بہترین چیز اور نعمت ہے اس لیے کہ وہ اس مال سے اپنے لیے آخرت کمائے گا:جیسے ایک حدیث میں آتا ہے :((نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ ))(مسند احمد)اور اگر یہی مال کسی ایسے انسان کے ہاتھ میں ہو جو دیندا ر نہ ہو اور تقوی سے محروم ہوتو یہ اس مال کو غلط سلط بلکہ گناہ کے کاموں میں خرچ کر کے خود کو اللہ کی ناراضی بلکہ عذاب کا مستحق بنا لے گا جیسا کہ بعض لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا :﴿فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا﴾(المنافقون:۵۵)’’ اے نبی آپ ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کیجیے بےشک اللہ چاہتاہے کہ ان کو مبتلائے عذاب کرے ان کے ذریعے سے ‘‘۔ اب یہ مال ویسے تو نعمت ہے لیکن تقوی اوردینداری سے محروم شخص کے لیے یہ نعمت نہیں بلکہ زحمت ہے تو معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نعمت دین ہے اور دوسری تمام نعمتیں دین کے ساتھ ہی نعمت کہلانے کی حقدار ہیں ۔نعمتوں کے بارے میں اللہ تعالی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا شکر ادا کیا جائے اسی لیے کئی مقامات پر اللہ تعالی نے نعمتوں کے ذکر کے بعد فرمایا :﴿لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾’’تاکہ تم شکر ادا کیا کرو‘‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ شکر ادا کرنا ، عبادت کا لازمی حصہ ہے اس لیے فرمایا :﴿وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾ (النحل :۱۱۴)’’اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اگر تم اس کی عبادت کرتے ہوتو‘‘۔اللہ تعالی کی نعمتوں کا تعلق شکر سے بھی ہے کہ شکر کرنے سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نعمتوں کی ناشکری سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں:﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾(ابراہیم:۷ )اگر تم شکر کرو گے تو ہم تمھیں نعمتوں میں بڑھا دیں گے اور اگر تم نا شکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بہت شدید ہے‘‘۔تو اللہ تعالی کی تمام ہی نعمتوں پر شکر گزاری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔اچھی صحت بھی نعمت ہے،تونگری بھی نعمت ہے اور دیگر جتنی بھی سہولیات ہمیں میسر ہیں، ان پر ہمیں شکر کرنا چاہیے، مگر سب سے بڑھ کر جس نعمت پر شکر کرنا چاہیے وہ دین کی نعمت ہے۔ہمارے دیندار لوگ جو شکر گزاروں کا رویہ رکھتے ہیں وہ دنیا کی نعمتوں پر شکر تو کر لیتے ہیں مثلا کہا جاتا ہے کہ الحمد اللہ! صحت اچھی ہے ۔عافیت کے ساتھ دن گزر، رہے ہیں وغیرہ۔ مگردین کے بارے میں شکر گزاری کہ اے اللہ تیرا شکرہے تو نے دیندار بنایا ۔ الحمد للہ کہ اس نے قرآن مجید کی تلاوت اور نمازوں کی ادائی کی توفیق عطا فرمائی ، اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے علم دین سیکھنے یا سکھانے کا موقع عطا فرمایا ۔ اسی طرح علم دین اور دعوت دین کے لیے وسائل اور نیک صحبتوں کا دستیاب ہونا بھی اللہ تعالی کی نعمت ہے ۔ اگر اس کا احساس و اعتراف نہ ہو تو اس طرز عمل سے ناقدری و ناسپاسی کا اظہار ہوتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ دین کی بابت ناقدری بہت بڑی شے ہے اور بڑے سنگین نتائج کی حامل ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ گزشتہ صدی کا جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ اسی روے ارضی پر ممالک اسلامی میں سےبعض علاقے ایسے تھے جو کہ عرصے سے دین کے مراکز چلے آرہے تھے۔ مثال کے طور پر وسط ایشیائی علاقےآذربائیجان ،ترکمانستان وغیرہ یہ علاقے اسلام کا صدر اور علومِ اسلامی کا مرکز ہوا کرتے تھے۔یہاں تک کہ ہندوستان، پاکستان میں جو اسلام آیا وہ اسی علاقے سے آیا۔ یعنی جو مغلیہ حکمران آئے ہیں اور ان کے ساتھ جو علماے کرام اور صوفیاے عظام تشریف لائے وہ انھی وسط ایشیائی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ہماری کتبِ دینیہ میں اسے ماوراءالنہر کا علاقہ کہا جاتاہے۔ان میں سمرقندوبخارا مشہور ہیں۔ آج بھی ہماری کتابوں میں اکثر جن محدثین اور متاخرینِ حنفیہ کا ذکر آتا ہے وہ سمرقندوبخارا سے آئےہیں۔بہرحال یہ وہ علاقے ہیں جو اسلام اور علم کا مرکز تھے مگر کہیں ۷۰ سال پہلے، کہیں ۸۰ سال پہلے، کہیں ۹۰سال پہلے ان علاقوں پر یہ افتاد آ پڑی کہ دین کی نعمت ان سے روٹھ گئی۔ یہاں تک کہ علوم نبوت کے اہم مراکز مسجد، مدرسہ اور خانقاہ ان تین اداروں کو بڑے اہتمام کے ساتھ بند کیا گیا۔

ہمارے ایک دوست جن کا تعلق ازبکستان سے ہے اور آج کل ترکی کے ایک مدرسے میں تدریس کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے محلے میں فوجی ٹرک آتا تھا اور اعلان ہوتا تھا کہ گھروں میں جس کتاب میں عربی لکھی ہوئی ہے خواہ وہ قرآن مجید ہو یا اس کے علاوہ جتنی بھی کتابیں ہیں ساری لاؤ اور جمع کروا دو ۔تو سب لوگ ایسی کتابیں جمع کروا دیتے اور روسی فوجی اسے لے جا کر چوک میں جمع کرتے اور آگ لگا دیتے۔ کہتے ہیں کہ میری والدہ نے قرآن مجیدکا ایک نسخہ چھپالیا اور رات کی تاریکی میں ہمیں پڑھایا کرتیں یہاں تک کہ ہم چار بھائیوں نے حفظِ قرآن مکمل کیا ۔

یہی صاحب جب پہلی مرتبہ تبلیغ کے سلسلے میں پاکستان آئے اور ایک مکتب میں بہت سے قرآن مجید کے نسخے ایک ساتھ دیکھے اور انھیں معلوم ہوا کہ یہاں ہر بچے کا اپنا ایک نسخہ ہوتاہے تو کہتے ہیں کہ مجھ سے خوشی کے مارے ضبط نہیں ہوا ،اور میں وہیں بیہوش ہوگیا۔ لوگ مجھے ہوش میں لا کر پوچھتے آپ کو کیا ہوا ؟ تو میں انھیں کیسے بتاتا کہ میں زندگی میں پہلی مرتبہ قرآن کریم کے نسخے بڑی تعداد میں دیکھنے کی خوشی کا تحمل نہیں کر پایا ۔

اسی طرح ہمارے ایک دوست اسلام بخاری صاحب ہیں ۔ یہ ازبکستان کے مفتی اعظم کے پوتے ہیں ۔آپ بڑی سختیوں سے گزر کر ترکی پہنچے اور وہاں استادِ محترم مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب دامت برکاتہم سے ہدایہ شریف کا سبق پڑھتے ہیں، وہ بھی روداد سناتے ہیں کہ ہم کن سختیوں سے گزرے ہیں ۔تو یہ کیا ہوا کہ وہ جگہ جہاں سے اسلام دنیا میں پھیلا،جہاں سے علم و ہدایت کے راستے عام ہوئے، وہیں سے اسلام روٹھ گیا۔ مساجد کو اصطبل میں تبدیل کر دیا گیا۔خانقاہوں کو قید خانوں میں بدل دیا گیا اور مدرسے کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا۔تو یہ سب یونہی نہیں ہوا بلکہ ان لوگوں کی ناقدری کا یہ شاخسانہ تھا ۔ تولمحہ فکریہ ہے! آج جو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی بہاریں جتنی عام ہیں یہ بس یونہی چلتی رہیں گی تو ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ یہ بہاریں شکر گزاری کے قاعدے پر دائر ہیں کہ اگر ہم نے شکرگزاری کی تو ان شاء اللہ یہ نعمت حاصل رہے گی اور اگر خدا نخواستہ ناشکری کی تو یہ نعمت روٹھ جائے گی۔

خلافت ِ عثمانیہ کا مرکز ترکی، وہاں آج کل جو اسلام پسندی عام ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ پچھلے تیس سالوں سے جاری ہے بہت کچھ بہتری اور تبدیلی آنے کے باوجود بھی آپ کو نظر آئے گا کہ بہت سی مساجد ایسی ہیں جہاں مکمل تراویح میں قرآن مجید ختم نہیں کیا جاتا بلکہ آخری بیس سورتوں سے پڑھایا جا رہا ہوتا ہے۔دس میں سے ایک مسجد ہے جس میں شایدقرآن مجید مکمل پڑھا جا رہا ہو۔ ہاں اب ان کے حفاظ تیار ہو رہے ہیں۔جبکہ آپ دیکھیں کہ الحمداللہ پاکستان میں یہ نعمت کس قدر وافر ہے کہ یہاں جگہ نہیں ملتی کہ کہاں سنائیں، یعنی حفاظ کی تعداد اس قدر ہے۔نیز دین سیکھنے کے اتنے امکانات ہیں کہ خواہ آپ زندگی کے جس مقام پر ہیں اور جس بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، جو وقت آپ کو دستیاب ہے، آپ کے لیے دین سیکھنے کے مستند ذرائع موجود ہیں ۔چاہے آپ جس علاقے میں بھی ہیں اور جس طرح دین سیکھنا چاہتے ہیں ویسی سہولیات دستیاب ہیں اورکوئی آپ سے پیسے بھی نہیں مانگے گا بلکہ مفت میں یہ نعمت دستیاب ہے۔

جن وسط ایشیائی علاقوں میں سے نعمت دین اٹھا لی گئی ،وہاں کے لوگوں سے ہم نے ایک عبرت ناک اور عجیب بات سنی ہے ۔ یہ لوگ جو اب جوان ہیں بتاتے ہیں کہ ہمارے آباو اجداد ، والد دادا ،پردادا ،رورو کر اللہ سے معافی مانگتے تھےکہ اے اللہ !ہم سے کیا گناہ ہوا ،ایسی کیا ناشکری ہوئی کہ یہ دین داری اور اس کے اسباب و ذرائع کی یہ نعمت ہم سے چھن گئی۔ موجودہ مثبت تبدیلی اور دین کی طرف رجوع دیکھ کر وہ لوگ کہتے ہیں :’’ الحمدللہ! لگتا ہے کہ ہماری توبہ قبول ہو رہی ہے‘‘۔ بہرحال ہم یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ نعمت کی دستیابی اس قاعدے اور قانون پر منحصر ہے کہ اگر نعمت پرشکر گزاری کی جائے تو اللہ نعمتوں کوبڑھاتا ہے اور اگر نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کی جائے تو نعمتیں چھن جایا کرتی ہیں۔

اب یہ سمجھنا چاہیئے کہ دین کی ناقدری اور نا شکری سے کیا مراد ہے۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ دین کے تقاضےنہ کیے جائیں ۔ دین پر عمل پیرا ہونے اور دین سیکھنے سکھانے کے مواقع ہمیں حاصل رہے لیکن ہم نے ان سے فائدہ نہ اٹھایا بلکہ ہم دنیا داری میں مگن رہے اور غفلت میں پڑے رہے اور زندگی کا وقت گزرتا چلا گیا اور یہ تھوڑا سا جو سرمایہ حاصل ہے جس کو خرچ کرکے کچھ آخرت کما سکتے تھے وہ سرمایہ ضائع کر دیا تو یہ اس نعمت کی ناقدری ہے اور اگر ایسا کیا جائے تو جاننا چاہیے کہ یہ تو اللہ رب العزت نعمت کے قاعدے کے مطابق نعمت ِ دین چھین لے گا۔قرآن مجید میں فرمایا: ﴿وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم﴾’’ اور اگر تم منھ موڑو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کردے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے‘‘۔(محمد:۳۸) وہ محتاج نہیں ہے اس بات کا کہ مسلمانوں کو یہ نعمت حاصل رہی تو دین باقی رہے گا۔ بلکہ وہ دین کا جھندا ،اوروں کو تھما دے گا اور وہ تم جیسے نہیں ہوں گے یعنی وہ دین کی قدر اور شکر گزاری کرنے والے ہوں گے۔ تو آج بس تقاضا یہی ہے کہ پہلے ہم دین کی نعمت کو نعمت جانیں۔اور اس بات کا واضح ہونا بھی اشد ضروری ہے کہ یہ ایک کامل نعمت ہے۔جاننا چاہیے کہ کسی شے کے نعمت ہونے کے کئی اسباب ہوا کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مفید ہو تو وہ نعمت ہو جاتی ہے ،اب یہ کہ اگر وہ نعمت صرف دنیا میں ہی مفید ہے تو وہ دنیا کی نعمت کہلائے گی اور اگر دنیا میں بھی کام آئے اور آخرت میں بھی کام آئے تو یہ ہر اعتبار سے کامل نعمت ہے کہ دو جہاں میں کام آنے والی ہے۔ پیچھے ہم نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی دو قسمیں دیکھیں ، ظاہری یعنی حسی نعمتیں اور باطنی یعنی معنوی نعمتیں ، اب یہ جو معنوی نعمتیں ہیں یعنی دین و شریعت تو اس نعمت دین و شریعت کو بھی دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک ظاہری احکام یا اعمال اور دوسرے باطنی احکام یا اعمال ۔ اس کی مثال یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ نماز کے رکوع وسجود اچھی طرح کرنا کہ پورا جھکا جائے تو یہ ظاہری عمل ہے اور رکوع و سجود اور نماز کے تمام ارکان خشوع و خضوع سے ادا کرنا تو یہ ایک باطنی عمل ہے ۔ تو یہ ہمارے دین کی جامعیت کا مظہر ہے کہ اس نے ہمیں ظاہری احکامات بھی سکھائے اور باطنی اعمال کی تعلیم بھی دی لہذا ہم سب کو چاہیے کہ ہم دین کے ظاہری و باطنی ہر دو پہلو پرعمل کرنے کی کوشش کریں۔

جس طرح نیکی کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اورایک باطنی تو اسی طرح گناہوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ کچھ ظاہری گناہ ہیں مثلا کسی کو گالی دینا اور کچھ باطنی گناہ ہیں مثلا کسی سے حسد یعنی اس کی نعمتوں کے چھن جانے کی خواہش کرنا۔ ﴿وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ﴾’ اور تم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے گناہ چھوڑ دو ‘‘۔(انعام:۱۲۰)تو ظاہری و باطنی نیکیوں کی تعلیم دینا اور ظاہری و باطنی گناہوں سے روکنا ،یہ دین اسلام کی وہ خوبی ہے جو اس دین کو جامع اور کامل و اکمل بناتی ہے ۔ اور اسی سے دنیا و آخرت کی سیادت و سعادت نصیب ہوتی ہے۔

سورۃ الفاتحہ میں تین قسم کے لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ایک وہ قسم جو صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں۔ دوسرے وہ جو انکار کرنے والے ہیں۔ پھر ان انکار کرنے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا: ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾اور دوسرے وہ جو گمراہ ہوئے ﴿الضّالّیْن﴾ ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ نے اس نعمت کی ناقدری کی۔ان کی ناقدری کی نوعیت کیا تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے دین کے صرف ایک پہلو کو لیا اور باقی کو ضائع کر دیا۔ یہود نے صرف ظاہر کو لے لیا اور اس میں غلو کیا اور ان کے ہاں تکبرواستکبار اس قدر تھا کہ انبیا علیہم السلام کو قتل کر دیا گویا اللہ کے مقابل ضد اور عناد پال لیا ایسے گمراہ ہوئے کہ اللہ نے ان کو دھتکار دیا اور ان پر غضب نازل کیا۔ انھوں نے ظاہری پہلو لے لیا اور دین کے باطن کو چھوڑ دیا۔احکامات کی روح کو فوت کر دیا اور احکامات کے ظاہر میں تاویلِ باطل کرتے رہے۔اللہ نے ان پر اپنا غضب نازل کیا۔

دوسرا گروہ نصاریٰ کا تھا۔انھوں نے ظاہر کو چھوڑ دیا اور باطن کو لے لیا ۔محبت میں غلو اور دین میں غلو اس قدر کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔حالانکہ دین توحید کا تھا مگر عینِ توحید میں شرک پیدا کردیا ،پس گمراہ ہوئے۔ ایک نے دین کا صرف ظاہر جب کہ دوسرے نے دین کا صرف باطن لیا اور بقیہ دین سے صرف ِ نظر کیا ، اس طرح وہ اس نعمت عظمی کے کفران کے مرتکب ہوئے۔

اللہ تعالی نے جب اپنے آخری نبی کو کامل و اکمل دین دے کر بھیجا تو مذکورہ بالا تمام پہلوبھی اس دین میں شامل کیے ۔ قرآن مجید میں کم از کم چار مرتبہ یہ تفصیل آئی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے آخری نبی کو دین دے کر بھیجا اس کے ساتھ کچھ ذمےداریاں بھی تفو یض کیں، یہ فرائض نبوت تھے:﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا ، احسان کیا کہ ان کے درمیان انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انھیں پاک صاف بنائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ‘‘۔(آلِ عمران:۱۶۴)اس آیت مبارکہ میں نبی کریم ﷺ کےتین فرائض منصبی بیان کیے ہیں ۔ان میں پہلا کام تلاوتِ آیات ہے ، دوسرا کام تزکیۂ نفوس ، اور تیسرا کام کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے ۔ نبی کریمﷺ نے بہترین انداز اور اعلی ترین سطح پر یہ فرائض نہ صرف خود انجام دیے بلکہ اپنے صحابہ میں سے ایسے شاگرد تیار کیے جو انھی کاموں کے ماہر بنے ۔ یہ وارثین علوم نبوت تھے ۔ ان میں سب سے پہلے صحابہ کرام ﷺ تھے جو آپﷺکے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپ کے سیاسی اور علمی خلفا اور جانشین بنے۔اس کے بعد تابعین پھراتباع تابعین اور اس کے بعد ہر دور اور ہر نسل میں یہ وارثینِ علوم نبوت پیدا ہوتے رہے جو اپنے پچھلوں سے دین حاصل کرتے اور اگلوں کو منتقل کرتے رہے اور آپ ﷺ کی نیابت کرتے ہوئے،آپ ﷺ کی طرف سے فرائض نبوت کو ادا کرتے رہے۔ پھر فرائض نبوت کے تین اساسی کاموں کو تین بنیادی شعبوں میں تقسیم کیا گیااور ان تین کاموں کی حفاظت کے لیے ایک،ایک عنوان تجویز کیا تاکہ اس کے علم کی حفاظت کے جا سکے ۔ پھر ان شعبوں کے مراکز بھی وجود میں آ گئے تاکہ یہ تین کام منظم انداز میں ہوتے رہیں اور امت صراط مستقیم پر قائم رہے۔

ان اداروں اور ان کے مراکز کاقیام اصل میں نعمت دین کی حفاظت کا ایک خدائی انتظام ہے ۔ لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے اس کی ضرورت کو سمجھ لیں۔مثال کے طور پر گھر کا سودا سلف لینا ہے تو لسٹ بنانے سے بھی اہم تر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ میں نے سودا لینا کہاں سے ہے کس دکان سے سودا، ااچھا ملتاہے۔

چنانچہ ضرورت ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان کو بتایا جائے کہ دین کہاں سے ملے گا۔ اگر آج قوم کے نوجواں کو اجمالی طور پر صحیح شے کے حصول کا پتا سمجھا دیا جائے تو ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہو گا۔ بڑے ظلم اور خسارے کی بات ہے کہ ہمارے ان نوجوانوں کو غلط راستہ بتایا جا رہا ہے ۔ دین کا ماخذ غلط بتایا جا رہا ہے۔ آج دین کے صحیح ماخذات کی طرف رہنمائی کرنا بہت ضروری ہے اور ایسا کہنےمیں کسی حجاب اور پردے کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ اگر خدانخواستہ یہ نہ کہا جائے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس وقت جتنے فکری اور عملی فتنے ہیں یہ آگے بڑھ کر ہمارے معاشروں سے حقیقی دین کو نابود نہ کر دیں۔ دیکھیے دین تواللہ کا ہے، باقی رہے گا۔مگر ڈر اس بات کا ہےکہ کہیں یہ نعمت ہم سے نہ چھن جائے۔

ہم کہہ یہ رہے تھے کہ نبی کریم ﷺکے بنیادی فرائض تھے اور ان سے تین شعبے وجود میں آئے ۔ان تین کاموں کے لیے، تین ادارے وجود میں آئے ۔ ان کاموں میں پہلا کام تلاوتِ آیات ہے ، اس کے لیے مسجد کا مقام اور ادارہ ہے۔مسجد میں کیا ہوتا ہے؟ صبح و شام اور اطرافِ نہار میں قرآن حکیم پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ دوسرا کام تزکیۂ نفس کا ہے ،اس کے لیے خانقاہ کا ادارہ وجود میں آیا اور صدرِ اول سے آیا یعنی ان سب کا وجود قرون اولی میں بھی پایا جاتا تھا۔ سیرت اس بات پر شاہد ہے ۔ تلاوت آیات کا مقام تو مسجد نبوی ہے اور ان کاموں سے پہلے ایک کام شروع ہو چکا تھا جس کام کو آپﷺ غارِحرا میں جا کر کیا کرتے تھے۔ غار حرا میں جناب نبی کریمﷺ کو باطن کی طرف متوجہ کیا گیا۔اسی طرح دارِ راقم کا معاملہ ہے، یہ خانقاہ کی اصل ہے۔پھر اس کےبعد حلال و حرام کے فرق اور کتاب و حکمت کی تعلیم کے لیے مدرسے کا مقام ہے۔

ایک اور بات جس کا پیش نظر رہنا فائدے سے خالی نہیں ہے کہ مجرد تلاوت( بغیر سمجھے تلاوت) اس کی بھی ایک تاثیر ہے۔ یہ گویا ہل چلانے والا کام ہے۔اس سے دل کی زمین ہموار ہو جائے گی اور اب کہہ لیجیے کہ مفید عناصر کو برقرار رکھنا ہے اور مضر عناصر کو نکالنا ہے، یہ تزکیہ نفس ہے۔ پھر اس کے بعد حلال و حرام کے احکام کے ذریعے سے بیج بونا ہے، اس بیج سے فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے۔ بندہ ٔمومن تیار ہوتا ہے۔بہرحال مسجد، خانقاہ،اور مدرسہ یہ وہ تین مقامات ہیں جہاں مذکورہ بالا تین کام(فرائض نبوت) شروع وقت اسلام سے سر انجام دئیے جا رہے ہیں اور ان شاء اللہ تا قیامِ قیامت انھی جگہوں سے صحیح دین پھیلتا رہے گا۔

میں عرض کر رہا تھا کہ پتا درست ہونا چاہیے کہ کہاں سے دین لینا ہے ،تو آج خدا کے لیے خود بھی ہم اپنا قبلہ درست کریں اور اپنی اولاد کے لیے ،اپنے متعلقین کے لیے اور اپنی آنے والی نسل کے لیے اس کا اہتمام کریں اور یہ بتائیں کہ دین کہاں سے ملتا ہے؟ چنانچہ مسجد سے، خانقاہ سے،اور مدرسے سے تعلق مضبوط کریں تاکہ اللہ کی معرفت اور ولایت حاصل ہو نیز احکاماتِ شریعت سیکھے جا سکیں اور حلال و حرام کا علم حاصل ہو ۔اپنی اولاد کے لیے اس تربیت کا انتظام ہو کہ اسے بتایا جائے کہ امام مسجد کا ایک مقام و مرتبہ ہے ۔چاہیے کہ اولاد کو لے کر جائیں اور اس کا ایک تعارف کروائیں۔چونکہ ہماری نظر میں دنیا کی اہمیت زیادہ ہے لہذا دنیا داری کی چیزیں تو ہم سکھاتے ہیں کہ آج آنکھ بند ہوگئی تو اولاد کویہ پتا ہونا چاہیے کہ فلاں بینک میں ابا جی کا اکاؤنٹ ہے۔ ہر تفصیل سے آگاہ کیا جاتا ہے، یہ تک بتاتے ہیں کہ اچھا سوداسلف کہاں سے ملتا ہے اور فلاں دکان دارکم تولتا ہے اور فلاں جگہ دودھ خالص دستیاب ہے۔دنیا کے سارے معاملات تو سکھا دیے مگر کیا یہ بھی بتایا ہے کہ دین کہاں سے سیکھا جاتا ہے ؟ کیا یہ سکھایا کہ کسی عالم سے سوال کیسے کیا جاتا ہے؟ استفتا کا ادب کیا ہے ؟ اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ آج تو مسئلہ یہ ہے کہ خود سے ریسرچ کے نام پر لگے ہوئے ہیں ۔دین پر ریسرچ کی جا رہی ہے۔جو کچھ ٹیڑھی میڑھی کتابیں، اور جو کاٹھ کباڑ مل گیااس کو ایک آدمی پڑھے جا رہا ہےاور سمجھ رہا ہے کہ میں دین پر ریسرچ کر رہا ہوں ۔(نعوذ بااللہ) انٹرنیٹ ، موبائل اورکمپیوٹر ایپس اور سوشل میڈیا سے دین اخذ کر رہے ہیں۔حالانکہ ان چیزوں کو ذریعہ اور آلہ بنانا تھا۔ لیکن اس سے پہلے یہ تو معلوم ہو کہ سامنے کون ہے ؟کوئی واقعی ایسی شخصیت یا ادارہ ہے جس سے دین اخذ کیا جا سکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف اسکرین پر ہی پایا جاتا ہے،اس سے پیچھے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔اس پہلو سے بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یو ٹیوب،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی چیزیں صرف ذرائع ابلاغ عامہ ہیں اور انھیں ذریعہ ہی بننا چاہیے یہ اپنی اصل میں دین کاماخذ نہیں ہیں۔ آج کی جدید ٹیکنالوجی کو محض ذریعہ ہونا چاہیے ۔آدمی کو معلوم ہو کہ اس آلات کی دوسری طرف جو بیٹھا ہوا ہے وہ کون ہے؟ ان صاحب کی علمی اسناد کیا ہیں؟ کیا بات کرنے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں۔ میں کہاں سے کیا بات لے رہا ہوں؟کون سی کتاب پڑھ رہا ہوں؟ کس کی بات سن رہا ہوں؟ یہ واضح ہونا چاہیے ۔ تو پہلی بات یہ کہ ماخذ تو صحیح ہو۔ اللہ نے تو بتایاہے قرآن حکیم میں کہ دین کہاں سے حاصل ہوگا؟ ﴿بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾’’حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قرآن ایسی نشانیوں کا مجموعہ ہے جو ان لوگوں کے سینوں میں بالکل واضح ہیں جنھیں علم عطا کیا گیا ہے‘‘۔(عنکبوت:۵۰)یہ نشانیاں ، کتابوں میں نہیں ہیں۔ یہ اسکرین پر نہیں بلکہ یہ اہل علم کے سینوں میں ہے۔چنانچہ پہلے اس سینے سے ربط پیدا ہو اور پھر دوری کی مجبوری کو ختم کرنے کے لیے کسی میڈیا کا سہارا لیا جائے تو ٹھیک ہے۔

دین کے خالص ماخذات کا صحیح علم ہو گا تو حقیقی دین حاصل ہوگا۔ورنہ دین کے نام پر گمراہی سمیٹے جائے گا۔لہذا ہمیں پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد سے جڑنا ہے۔ مسجد سے محبت ہونا ضروری ہے اور اس بات کا واضح ہونا بھی اشد ضروری ہے کہ ان شاء اللہ صحیح دین منبر و محراب سے تا قیام قیامت بیان ہوتا رہے گا اس کی حفاظت اللہ نے کردی ہے۔

جسم کے امراض میں تو اتنا معلوم ہے کہ فلاں مرض کے لیے فلاں اسپیشلسٹ کے پاس جانا ہے مگر روحانی امراض سے متعلق علم ہی نہیں ہے۔ جاننا چاہیے کہ روح کو بھی امراض لاحق ہوتے ہیں، باطن بھی بیمار ہو جایا کرتا ہے جس کے بعد یہ چلتا پھرتا انسان، انسان نہیں رہتا بلکہ یہ اس روح کا مقبرہ بن جاتا جو اللہ نے اس کے اندر اپنی امانت رکھی تھی۔ گویا روح مٹی کے اس جسم میں دفن ہو چکی ہے۔

بہت بد قسمتی کی بات ہے کہ معلوم ہی نہیں کہ اللہ کی محبت کیا چیز ہے؟ اور باطن کوگندگی اور آلائش سے کیسے پاک کیا جاتا ہے؟اس کے ماہرین کون ہوتے ہیں؟ضرورت اس بات کی ہےکہ ان امور کے ماہرین تلاش کیے جائیں اور ان سے جا کر اللہ کا نام سیکھا جائے۔دیکھیے اس دل کو اللہ نے اپنی یاد کے لیے پیدا کیا ہے۔اب اس دل کو غذا فراہم کرنا ہماری ذمےداری ہے۔ اس کی کچھ محنت ہے جو سیکھنی چاہیے۔ صحیح محنت سیکھنے کے لیے درست مقام کی تلاش کرنا ہو گی یہ نہیں کہ بس تصوف کے نام پر جو کچھ دو نمبر کام اس معاشرے میں ہو رہے ہیں جو بگاڑ رائج ہیں انھی میں مگن ہو جائیں اور یہ بھی مناسب نہیں کہ جعلسازوں کو دیکھ کر اصلاح باطن اور اس کے ماہرین و مراکز ہی سے دور بھاگ جائیں۔ جب دنیا کی ضرورت کے لیے کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں تو دینی ضرورت کا جب احساس ہو جائے تو اس کے لیے بھی بھاگ دوڑ کرتے ہوئے اس میدان کے کھرے اور کھوٹے کا فرق اور مراکز و ماہرین تلاش کرنے چاہییں۔

آج بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ان مسلمات کے خلاف جو امت میں اجماعی چلے آرہے ہیں ان سے متعلق بحث ہو رہی ہے کہ یہ درست نہیں۔ یہ کیسے ہوا؟ صد افسوس کیسی ناقدری ہے! یہ ہے وہ ناشکری جس پر نعمت چھن جاتی ہے۔ ایک اور بات جس کا معلوم ہونا ہمارے لیے بہت ضروری ہے وہ یہ کہ اگرچہ اس بات کا احساس ہمیں نہ ہو کہ ان مذکورہ اداروں کی کیا اہمیت ہے مگر ہمارے دشمنوں کو معلوم ہے۔اس کی ایک تاریخی مثال خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت ہونے والے معاہدے کی ہے۔ اس معاہدے کے تحت باقاعدہ ترکی سے ایک مطالبہ کیا گیا کہ اگر تم باقی رہنا چاہتے ہو تو ان تین اداروں مسجد ،مدرسہ، اور خانقاہ کو ختم کرو ۔چنا نچہ عملاً اتاترک کو یہ کرنا پڑا کہ بعض مساجد کو اس نے ویران کیا اور کھرچ کر ان سے ساری علامات ہٹائیں اور بینچ لگا کر چرچ کی مانند اسے ایک آڈیٹوریم کی صورت دینے کی کوشش کی۔ آج بھی اس کی باقیات وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔اگرچہ اتا ترک بڑے پیمانے پر ایسا نہ کر سکا مگر کچھ نہ کچھ چھیڑ چھاڑکرتا رہا تاکہ بات بن جائے ۔ اسی سلسلے میں وہاں خانقاہوں کو ویران کیا گیا اور انھیں قید خانوں میں تبدیل کیا گیا ۔مدر سوں کو اصطبل بنایا گیا گیا تاکہ اتحادی فوجیوں سے جان چھوٹے۔ اب الحمدللہ یہ ادارے تبدیل ہو کر واپس اپنی اصل پر جا رہے ہیں ۔بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہمارے دشمن کو ہماری جڑ،بنیاد کا علم ہے اگرچہ ہمیں نہیں پتا۔اور دیکھیے کہ پھر جب یہ تین کام منظم ہوتے ہیں جب مسجد سے مسلمان کا تعلق مستحکم ہوجائے تو یہ بہت سی خیر کا سبب ہوا کرتا ہے۔ ایک بستی پر جب اللہ کی رحمت اترتی ہے تو مسجد پر اترتی ہے اور وہاں سے پھر تقسیم ہو کر نیک لوگوں کے دلوں پر برستی ہے۔لہذا پہلا تقاضا یہ کہ مسجد سے مضبوط تعلق قائم کیا جائے۔اسی طرح مدرسہ ہے یہاں سے علم سیکھیں اور خانقاہ سےحلم سیکھیں۔پھر جب ان تین مقامات سے تعلق مضبوط ہو گا اور نتیجے کے طور پہ ان تین کاموں میں مہارت حاصل ہو گی جو کہ فرائض نبوت ہیں تو پھر ایک قوت پیدا ہو گی جس کو جہاد کہتے ہیں۔خالص اللہ کے راستے کا جہاد ان تینوں کے مستحکم ہونے سے پیدا ہونے والی قوت کا نام ہے۔ اور جب یہ قوت پیدا ہوتی ہے تو اللہ سبحانہ و تعالی اپنی نصرت خلافت کی چھتری کے طور پر اور ایک گنبد کے طور پر ان تین ستونوں (مسجد،مدرسہ،اور خانقاہ) پر رکھ دیتے ہیں۔ یہ اللہ کی نعمت،انعام ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو مرکزی حیثیت ان تین مقامات اور ان سے ہونے والے کاموں کی نظر آئے گی۔آپﷺکی پوری سیرت ان تین کاموں کے گرد گھوم رہی ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیم و تربیت انھی مراکز سے ہوئی اور جب صحابہ کرام کے اندر یہ تین چیزیں جاگزیں ہو گئیں تو وہ قوت پیدا ہوئی جو اللہ کے راستے کا مجاہدہ تھا ،جہاد فی سبیل اللہ۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالی کی نصرت آئی اور اللہ نے غلبہ عطا فرما یا جس سےدنیا میں بھی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔

مسلمانان پاکستان سے بھی تقاضا ہے اس بات کا کہ شکرگذاری کریں کہ اللہ نے جتنی نعمتیں آج پاکستان کودے رکھی ہیں اور جتنی مذہبی آزادی اس وطن عزیز کو حاصل ہے دنیا میں کہیں نہیں ہے۔بڑے تجربہ کار لوگوں سے سن لیجیے۔شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے سن لیجیے آپ نےدنیا کا شرق، غرب دیکھ رکھا ہے۔ شمال و جنوب سے واقف ہیں اور اسلام کی تاریخ اور حالات اور علوم ِ قرآن و سنت سے واقفیت اور اسلام کے حالات سے واقفیت اور قرآن و سنت کے علوم سے جتنی واقفیت رکھتے ہیں یہ انھیں وقت کے علماے کرام میں ممتاز بناتی ہے۔ وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جتنی مذہبی آزادی پاکستان کے مدارس کو ،اور علماے کرام کو حاصل ہے دنیا میں کہیں حاصل نہیں ہے۔ تو یہ ایک نعمت ہے جس پر شکر کرنا ہے۔آج گالیاں دینے اور نعرے لگانے اور مخالفانہ باتیں کرنے اور مختلف قسم کی جماعتوں میں جماعت در جماعت تقسیم ہونے کا رواج ہے حالانکہ اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ،آج اس نعمت پر جو ہمیں حاصل ہے شکر کریں اور محنت کریں اس کے تقاضے ادا کریں تو پھر وہ بھی حاصل ہو جائے گا جو آج حاصل نہیں ہے۔

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’شکر؛موجود کو باقی رکھنے اور جو موجود نہیں ہے اس کو شکار کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘‘۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر گزاری کی روش اختیار کرو گے اللہ تعالی تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دیں گے ۔آج ہم چاہتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان واقعتاً اسلام کا قلعہ بن جائے اور یہاں دین کی بہاریں عام ہوجائیں، ہر شعبۂ زندگی میں ،ہر گوشے میں اسلام کی عمل داری ہو جائے تو پھر اس کا تقاضا یہ ہے کہ جتنی نعمت حاصل ہے اس پر شکر کریں اور محنت کرتے رہیں نتیجہ میں وہ بھی ملے گا جو موجود نہیں ہے۔

محنت کا سارا مدار وہی ہے کہ مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ سے تعلق مضبوط کر لیں اس سے اولاً افراد اسلام کے دائرے میں ڈھل جائیں گے اور پھر ان افراد سے بننے والے معاشرے بھی اسلام کا قلعہ بن جائیں گے۔ جو دوسرے علاقوں کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کی داد رسی کر سکیں گے ۔( ان شاء اللہ)۔ آج جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے، ہمارے دل دکھتے ہیں اس سےاس وقت ہر مسلمان کا دل زخمی ہے ،خون کے آنسو رو رہا ہے اس قدر دل دکھی ہے کہ بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ شاید یوں زمین کے اوپر رہنے سے زمین کے اندر چلے جانا بہتر ہوتا ۔ کیا زمانہ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں! کس قدر بے بسی ہے۔ پھر وہی دو راستے پیدا ہو جاتے ہیں، ایک جانب تشدد اور دوسری جانب غلو، یہ وہی گمراہی کے دو طریق ہیں جو سورۃ الفاتحہ میں ذکر کیے گئے تھے۔جبکہ ہمیں اس افراط و تفریط سے بچتے ہوئے نبی کریمﷺ ، صحابہ کرام اور صالحین امت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے تین سنگ ہائے میل اوپر بیان ہو چکے ۔

لہذا چاہیے کہ شکر کریں ان شاء اللہ اس سے ہمارے احوال بدلیں گے تو امت کے احوال بدلیں گے۔ ہمارے اعمال درست ہوجائیں تو ہمارے حکمران بھی درست ہو جائیں گے یہ نبوی حکمت ہے ۔اللہ ہمیں اس کے موافق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ جو تین ادارے جن کا ذکر ہوَ، خود اپنے لیے بھی اور اپنے بچوں کے لیے بھی ان سے واقفیت حاصل کریں کہ آج آنکھ بند ہو جائے تو اولاد کو پتا ہو کہ میں اس مسجد میں والد صاحب کے ساتھ جاتا تھا ،یہ صحیح لوگ ہیں یہاں سے مجھے نمازوں میں جڑنا ہے، یہاں سے پوچھ سکتا ہوں حلال کیا ہے حرام کیا ہے؟اورجو بتایا جائے گا عمل کروں گا ۔ آپ یقین جانیں کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور کوئی گھڑی گمراہی کا راستہ کھل گیا۔تو لوگ قادیانیت بھی قبول کر لیتے ہیں۔ اسلام کے دائرے سے نکل جاتے ہیں کیونکہ گمراہی کا راستہ نیچے ہی کی طرف جاتا ہےاس لیے اپنے ماحول کو مضبوط کریں خالص ماخذ کو پکڑیں ان شاء اللہ حفاظت ہو جائے گی۔

لرننگ پورٹل