لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024
ہفتہ 18 شوال 1445 بہ مطابق 27 اپریل 2024

محمد قمر الزماں ندوی

حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:’’ایک تو میں علماء سے کہتا ہوں کہ وہ مہربانی کریں کہ اب کوئی دارالعلوم کےنام پر ہرگز   دار العلوم نہ بنائیں، البتہ ایک ضروری کام یہ کریں ، کہ جہاں حکومت کوئی یونیورسٹی یا کالج بنائے، وہیں تم لوگ طلبہ کی رہائش کے لیے ہاسٹل  بناؤ، مدرسہ نہ ہو دارالعلوم نہ ہو، ہاسٹل ہو اور اس میں بس مسجد ہو ،اس ہاسٹل میں طلبہ کو مفت رہائش دی جائے، لیکن کھانے کے پیسے ان سے لیے جائیں، ان سے کہا جائے کہ بھائی کھانے کے پیسے جمع کراؤ اور رہائش  فری ہو،بس ان سے یہ شرط طے کر لی جائےکہ بیٹا جب تک تم اس ہاسٹل میں رہو گے تو نماز باجماعت پڑھو گے ، جب تم کالج میں جاؤ، کہیں جاؤ تو ہم تمھیں کچھ نہیں کہیں گے تم جانو تمہارا خدا جانے اور صبح کی نماز کے بعد تین آیات درسِ قرآن اور عشا کے بعد تین احادیث کا درس دیا جائے۔ پھر یہی لوگ کل کو حکومت کے اعلی عہدوں پر پہنچیں گے، یہ مولوی تو نہیں بنیں گے لیکن مولوی بیزار نہیں ہوں گے،  مولویوں سے نفرت نہیں ہوگی، یہ تمہارے قریب رہ چکے ہوں گے اور انھوں نے تم سے استفادہ کیا ہوگا‘‘۔ 

یہی تجویز حضرت مولانا گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی، جو اپنے وقت کے بڑے عالم، محقق اور مصنف تھے، جن کی وسعتِ نظر اور وسعتِ مطالعہ کی نظیر و مثال آسانی سے نہیں ملے گی۔ رسوخ فی العلم ان کا امتیاز تھا، خدا نے انھیں ملت کا درد دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے لیے کالج اور تعلیم گاہوں کے قائم کرنے سے زیادہ ضروری اسلامی ہوسٹل یا اسلامی اقامت خانے قائم کرنا ہے، جہاں ان کی پوری علمی، دینی، اخلاقی اور فکری تربیت کی جاسکے، جہاں ان کی نقل و حرکت پر نظر ہو اور ان کی صحیح نگرانی ہوسکے، اور ان کی زندگی کوملت کے لیے مفید اور آئیڈیل بنایا جاسکے۔ ان اقامت خانوں میں وہ طلبہ قیام کریں جو سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوں۔ ان کے قیام و طعام کا قیمتاً نظم ہو اور ہر طرح کا عمدہ ماحول اور علمی و عملی فراوانیاں ہوں، تاکہ ان کی ذہنی نشو و نما اسلامی طرز سے ہوسکے۔ مقدمۂ مکاتیبِ گیلانی میں مولانا عبد الباری ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی پوری تفصیل تحریر فرمائی ہے، مولانا گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اخبار و رسائل کے ذریعے ملک بھر کے سرکردہ اہلِ علم حضرات اور علماء  کو اپنی تجویز سے باخبر کیا، سب نے اس کی پذیرائی کی اور خوب سراہا، اور اس تجویز کو خوش آئند قدم قرار دیا، مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہاں تک کہا کہ مولانا گیلانی کی یہ تجویز بڑی دینی بصیرت تھی کہ انھوں نے اسلامی اقامت خانوں کی تجویز پیش کی، جو کم از کم ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس مسئلے کا ایک علمی اور معقول حل ہے۔ 

یقیناً اس تجویز کا فائدہ تعلیم گاہوں کے قیام سے زیادہ تھا اور کم خرچ بالا نشیں کا مصداق تھا۔ ہر شہر میں ایسے ہوسٹل اور اقامت خانوں کی شدید ضرورت ہے، لیکن اب تک مولانا سند ھی اور مولانا گیلانی رحمۃ اللہ علیہما کی اس بے مثال تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی گئی، اور امت نے ان دو اکابر کے اس قیمتی مشورے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ تعلیمی ادارے بہت قائم ہوئے جن میں پڑھ کر تعلیم یافتہ لیکن نا تربیت نسل تیار ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی تمام تر تنظیمی اور مالی صلاحیتیں صرف ان تعلیمی اداروں کے قائم کرنے پر خرچ ہو رہی ہیں۔ یہ کام بھی بہت ضروری ہے لیکن اسلامی ہوسٹل اور اقامت خانوں کے بغیر ان کی افادیت کم ہے۔ 

مولانا گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے امت کی اصلاح کی فکر اور بطورِ خاص نئی نسل کے زاویۂ فکر و نظر کو دینی سانچے میں ڈھالنے کی بے پناہ استعداد سے نوازا تھا۔ تقدیر کا فیصلہ دیکھیے! وہ عثمانیہ یونیورسٹی پہنچ گئے، وہاں ان کا سابقہ جدید تعلیم یافتہ طبقے سے پڑا، ان کے افکار و خیالات سے واقفیت ہوئی، ان کے اعترضات و اشکالات سامنے آئے۔ ان تمام چیزوں سے انھیں بے شمار تجربات حاصل ہوئے، مولانا کے اندر یہ تڑپ تھی کہ اگر آج قومِ مسلم کی نوجوان نسل خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن و افکار میں اسلامیات، دینی مزاج اور سیرت سازی کا کام کیا جائے تو عالمِ اسلام کی کایا پلٹ سکتی ہے،اور بگڑی تقدیر سنور سکتی ہے، اسی طرح عام مسلمانوں کے اندر جذبۂ ایمانی کو پیدا کرکے اسلام کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے وہ اسلامی اقامت خانے کو سب سے زیادہ مفید و مؤثر خیال کرتے تھے۔  دوسری طرف انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں رہ کر جدید عصری تعلیم یافتہ نسل کی جو دینی و فکری تربیت کی، جس طرح انھوں نے افراد تیار کیے، طلبہ کی زندگی میں جو تبدیلیاں آئیں اور اسلامی ذہن و فکر اور اس مزاج و مذاق رکھنے والوں کی جو ایک کھیپ تیار ہوئی، جس نے اطرافِ عالم میں پھیل کر اپنے استاد کے تیار کردہ عظیم خاکوں میں جو رنگ و آہن بھرا اور جس سے آج بھی ایک خلقت سیراب اور فیض یاب ہو رہی ہے،یہ مولانا گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ کارنامہ ہے جن میں بہت کم لوگ ان کے سہیم و شریک ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی شہادت سنیے، لکھتے ہیں:’’ان (مولانا) کا سب سے بڑا کارنامہ جس میں ان کا کوئی حریف نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ انھوں نے اپنے فیضانِ تعلیم و تربیت سے انگریزی تعلیم یافتہ طبقے میں ایک دو نہیں کثرت سے ایسے افراد پیدا کر دیے جو مغربی علوم و فنون کی اعلی اسناد رکھنے کے باوجود آج اسلامی علوم و فنون کی بڑی قابل قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، اور جن کی اسلامی تحقیقات کی گونج یورپ و امریکہ تک کے علمی حلقوں میں ہے۔( مناظر گیلانی ۵۷) 

کاش مولانا گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا اسلامی ہوسٹل کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجاتا، خلف؛سلف کے اس قیمتی مشورے کو قبول کرلیتی تو آج امت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ آج مخصوص افراد ، اصحابِِ ثروت اور دینی تنظیمیں جمعیت علماے ہند، مجلس مشاورت، ملی کونسل پاپولر فرنٹ، امارتِ شرعیہ اور دیگر ذیلی اور علاقائی  تنظیمیں اس کے لیے کوشش کرلیں تو یہ کوئی محال اور ناممکن کام نہیں ہے۔ کاش اللہ انھیں یہ توفیق مرحمت فرما دے۔ آمین

( الحمد للہ! فقہ اکیڈمی کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی ہےجس کے لیےایسے دارالاقامے کے قیام کے لیے سعی جاری ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے فضل و کرم سے اس   منصوبےکی تکمیل فرمائیں اور اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائیں، آمین۔از: مدیر)

لرننگ پورٹل