لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024
ہفتہ 11 شوال 1445 بہ مطابق 20 اپریل 2024

قواعدِ فقهیه پر ہمارا سلسلہ وار کلام جاری ہے۔ پچھلے ماہ ہم نے القواعدالفقهیة کا تعارف حاصل کیا تھا۔ اب ہم پہلے قاعدے الأمور بمقاصدها کو سمجھیں گے۔

امور ، امر کی جمع ہے۔ اس کے لُغوی مفاہیم تین ہیں:

(۱) حال اور شان ﴿وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ﴾ (ہود:۹۷) (۲)اقوال وافعال ﴿وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ﴾ (ہود:۱۲۳)

(۳) کسی سے کسی کام کا مطالبہ کرنا ﴿سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ﴾ (محمد :۲۶)

مقاصد ، مقصد کی جمع ہے ،اس کا لُغوی مفہوم:

(۱) التوسط، مثلاً ﴿سَفَرًا قَاصِدًا ﴾ (توبہ:۴۲)

(۲) استقامة الطریق سیدھا راستہ: ﴿وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ﴾ (نحل :۹)

’مقاصد‘ کا اصطلاحی مفہوم

(۱) النیات ، ارادے(۲) مقاصد الشریعة أي الغايات التي وضعت الشريعة لأجل تحقيقها لمصلحة العباد ’’مقاصدِشریعت یعنی شریعتِ مطہرہ کی طرف سے بندوں کے مصالح کے حصول کے لیے مقرر کردہ اہداف ومقاصد‘‘۔

مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں الأمور بمقاصدها کی وضاحت یوں سامنے آتی ہے: إن أحوال المكلفين وتصرفاتهم مرتبطة بمقاصدهم ونياتهم…فباختلاف المقاصد مختلف الأحكام المرتبة على الأعمال ’’مکلفین کے احوال اور تصرفات ان کے مقاصد اور نیتوں سے جڑے ہوتے ہیں،پس مقاصد اور نیّات کے بدلنے سے اعمال پر لگنے والے حکم بھی بدلتے ہیں ‘‘۔شریعت اسلامیہ کے قواعد عظیمہ میں سے اس قاعدہ کی اصل اور بنیاد بے شمار دلائل ہیں۔

قرآنی دلائل

(الف) ﴿وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾ (البقرۃ:۲۲۰) اس آیت کریمہ کو علامہ سیوطی رحمۃ الله علیہ قاعدہ ’’ الأمور بمقاصدها ‘‘ کے لیے اصل قرار دیا ہے۔ (الإكليل في استنباط التنزيل، ص: ۲۲۶) آیتِ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ یتیموں کے اموال کو اپنے مال کے ساتھ بقصد اِضرار ملانا حرام ہے اور بقصد اصلاح باعثِ اجر ہے۔ یعنی یہ اختلاط بقصد اضرار ہے تو حرام اور بقصد اصلاح ہے تو باعثِ اجر ہے۔اس مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی فعل ہے لیکن وہ نیت کے بدلنے سے کبھی حرام ہو تا ہے اور کبھی جائز بلکہ باعث اجر!

(ب) ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ (بقرہ :۲۸۶)

(ج) ﴿وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ﴾(احزاب:۵)

ان دونوں آیات کریمہ میں ناسی اور خاطی پر عدم مؤاخذہ کی صراحت کی گئی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ گناہ کا ترتب نیت اور ارادے پر ہوتا ہے اور ناسی وخاطی عدیم الارادہ ہوتے ہیں۔

(د) ﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَه﴾ (بقرہ:۲۳۱): ’’اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو تو ان کی عدت پوری ہوجائے تو انھیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریقِ شائستہ رخصت کردو اور انھیں تکلیف دینے کی نیت سے نکاح میں نہ رکھو کہ ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے گا، وہ اپنا نقصان کرے گا‘‘۔

(ہ) ﴿الْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا﴾ (بقرہ:۲۲۸):’’اور طلاق شدہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور اگر وہ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اللہ نے ان کے شکم میں پیدا کیا ہے، اس کو چھپائیں اور ان کے خاوند اس مدت میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں،اگر ان کا اصلاح کا ارادہ ہو تو‘‘۔

مندرجہ بالا دونوں آیات بینات میں اللہ عزوجل نے رجوع کرنے کا حق اس شخص کو دیا ہے، جس کا ارادہ اصلاح کا ہوتا ہے نہ کہ ضرر کا۔

دلائل از سنتِ رسولﷺ

(الف)سب سے بڑی اور عظیم الشان دلیل حدیثِ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سنا، آپ فرماتے تھے: ((إِنَّما الأَعمال بالنيَّاتِ وإِنما لكلِّ امرئ ما نوَى فمنْ كانتْ هجرتُه إِلى اللهِ ورسولهِ، فهجْرتُه إلى الله ورسولهِ، ومن كانتْ هِجرتُهُ إِلى دُنيا يصيبُها ، أَوْ إلى امرأَةٍ يَنكِحُها ، فهِجرته إلى ما هاجرَ إليهِ))(متفق علیہ)’’ بے شک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر وسزا ملے گی۔ تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف شمار ہوگی(یعنی اس کو جزا ملے گی) اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول کی خاطر ہو یا کسی خاتون کے ساتھ نکاح کرنے کی غرض سے ہو تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کی طرف شمار ہوگی(یعنی اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا)‘‘۔

(ب)حدیثِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ : (( إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ))(بخاری) ’’جو شخص اپنے اہل وعیال پر ثواب کی نیت سے خرچہ کرتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے‘‘۔علامہ قرطبی رحمۃ الله علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل وعیال پر انفاق میں اجر بقصد قربت حاصل ہوتا ہے، چاہے وہ نفقہ واجبہ ہو یا مباحہ۔ اور مفہوم مخالف سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ نفقہ بقصد قربت نہ ہو تو اس کا اجر میں تو کوئی حصہ نہیں ہوگا البتہ نفقہ واجبہ سے بری ہوجائے گا۔ (فتح الباري، ۱ /۱۸۰ )

(ج) حدیث ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ بھی ایک اہم دلیل ہے جس کے مطابق ایک شخص رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتا ہے کہ ایک آدمی مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے ایک آدمی شہرت کے لیے لڑتا ہے اور ایک آدمی اپنے مرتبے کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے مجاہد فی سبیل اللہ کون ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ((مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ))(متفق علیہ)’’آپﷺ نے فرمایا جس نے قتال کیا تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے تو وہی فی سبیل اللہ مجاہد کہلائے گا‘‘۔ حافظ ابن حجر رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں ’’کلمۃ اللہ‘‘سے مراد دعوت اسلام، اللہ کی رضا کی طلب، ثواب کا حصول اور اعداےدین اسلام کی سرکوبی ہے۔ ( فتح الباري، ۶ / ۳۶ ) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی بھی کام کے پیچھے متعدد مقاصد اور نیّات ہوسکتی ہیں، اور وہ کام اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی صورت معتبر ہو سکتا ہے جب اس کے پیچھے پایا جانے والا مقصد بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر ہو پس وہی قتال اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول و معتبر اور باعث اجر و ثواب ہو گا جس کا مقصد اللہ کے کلمہ کا بول بالا کرنا ہو۔

اس قاعدے کی تفریعات

(۱)اگر کسی شخص کو راستے میں کوئی چیز ملی اور اس نے وہ چیز بر سبیل تملُّک اٹھائی تو وہ غاصب کہلائے گا، او ر اس پر غصب کے احکام لاگو ہوں گے۔ مثلاً اگر وہ چیزاس کے پاس ہلاک یا ضائع ہوجائے، چاہے اس میں اس کی کوتاہی کا عمل دخل بھی نہ ہو تو بھی وہ ضامن ہوگا۔لیکن اگر مالک کو واپس کرنے کی نیت سے اٹھائی تو اس صورت میں اگر مالک معلوم ہو تو وہ چیز اس کے پاس امانت ہوگی(یعنی ہلاک ہونے کی صورت میں اس پر ضمان نہیں ہوگا، استہلاک کی صورت میں ضمان ہوگا) اور اس چیز کو مالک کے حوالے کرنا لازمی ہے۔اور مالک کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں وہ چیز لُقطہ شمار ہوگی۔ یعنی اٹھانے والے پر حسب حال اس کا اعلان واجب ہوگا اور جب مالک نہ ملنے کا یقین ہوجائے تو اگر وہ خود ضرورت مند ہے، تو استعمال کرسکتا ہے، ورنہ کسی حاجت مند کو دینا لازمی ہوگا۔دونوں صورتوں میں مالک کے آنے کی صورت میں اس کا ضمان دینا مُلتَقِط (اٹھانے والے)پر لازمی ہوگا۔

(۲)اگر کسی شخص نے بارش کا پانی حاصل کرنے کی خاطر کسی جگہ کوئی برتن رکھا، تو اس برتن میں جمع ہونے والا بارش کا پانی اس کی ملک ہوگا۔ اسی طرح بر زمین یا زیر زمین بننے والے حوض میں جمع ہونے والا پانی بھی حوض کے مالک کا ہوگا۔ لیکن اگر کسی نے کوئی برتن بغیر کسی قصد ونیت کے کسی جگہ رکھا، تو اس میں جمع ہونے والا پانی اس کی ملک نہیں ہوگا، لہذا کسی غیر شخص کو اس پانی کے لینے کی اجازت ہوگی۔

(۳)اگر کسی شخص نے شکار کرنے کی خاطر اپنا جال پھیلایا تو اس میں پھنسنے والا شکار اسی شخص کا ہوگا، لیکن اگر اس نے اپنا جال خشک کرنے کی نیت سے پھیلایا تو اس میں پھنسنے والا شکار اس کی ملک نہیں ہوگا۔ اسی طرح کسی شخص کی زمین کی کھائی میں کوئی شکار پھنس گیا تو دوسرا شخص اس کو پکڑنے پر اس کا مالک ہوجائے گا، لیکن اگر کسی نے اپنی زمین میں شکار پکڑنے کی خاطر کوئی گڑھا کھودا تو اس میں پھنسنے والا شکار کا مالک وہ خود ہوگا۔

(۴)اگر کسی شخص کے باغ میں جنگلی جانور نے گھونسلا بناکر انڈے دیے تو وہ انڈے اس باغ کے مالک کی ملکیت نہیں ہوں گے، لہذا اگر کوئی دوسرا شخص آکر وہ انڈے یا چوزے اٹھاکر لے جائے تو مالک کو اس سے واپس لینے کا حق نہیں ہے۔ لیکن اگر باغ کے مالک نے اسی مقصد کے لیے باغ لگایا تھا کہ جنگلی جانور اس میں انڈے یا بچے دیں تو اب اگرکسی جنگلی جانور نے ا س باغ میں انڈے یا بچے دیے، تو وہ انڈے اور چوزے باغ کے مالک کے ہوں گے۔

(۵) کسی مسلمان سے تین دن سے زائد کی قطع تعلقی اگر اس مسلمان کو چھوڑنے کی نیت سے ہو، تو حرام ہے۔ اور اگر اُس کے کسی جرم کی وجہ سے ہو تو حرام نہیں۔

(عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ، قَالَ: «لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ»صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب الهجرة وقول رسول الله ﷺ لا يحل لرجل أن يهجر أخاه. وصحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب تحريم الهجرة فوق ثلاث. ومؤطا إمام مالك، كتاب حسن الخلق، باب ما جاء في المهاجرة.)

(۶)اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسری میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا نیت پر موقوف ہے۔ اگر ترکِ زینت وخوشبو میت کی خاطر ہے تو حرام ہے، ورنہ نہیں۔

(عن زينب بنت جحش، قالت سمعنا رسول الله ﷺ «لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا» (صحيح البخاري، كتاب الطلاق، باب تحد المتوفى عنها زوجها أربعة أشهر وعشرا. وصحيح مسلم، كتاب الطلاق، باب وجوب الإحداد في عدة الوفاة. ومؤطا إمام مالك، كتاب الطلاق، باب وجوب الأحداد. وابن ماجة، وأبو داود، والترمذي، وقال الترمذي حديث حسن صحيح.)

(۷) اگر نمازی کسی بات کے جواب میں قرآن مجید کی آیت پڑھ لے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی یا کسی خوش کن خبر کے جواب میں بطور شکر الحمد للہ کہہ دے یا کسی اندوہناک خبر کے جواب میں لاحول ولا قوۃ کہہ دے یا کسی کے مرنے کی خبر پر ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کہہ دیا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔

(۸) اگر كوئی کپڑا فروخت کرنے والا ، گاہگ کے سامنے کپڑا کھولتے وقت ’’سبحان اللہ‘‘ یا ’’ اللهم صل علی محمد ‘‘ کپڑے کی اچھائی اور عمدگی بتانے کے لیے کہے تو گناہ گار ہوگا۔

(9)اگر ایک مسلمان ذمی سے ’’ أطال الله بقاؤك ‘‘ اس نیت سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ اس کی زندگی طویل کردے، شاید وہ اسلام قبول کرلے، یا لمبے عرصے تک ذلت اور کمزوری کے ساتھ جزیہ ادا کرتا رہے تو اس کہنے میں کوئی گناہ نہیں، کیوں کہ یہ دعا اس کے لیے اسلام کی دعا ہے یا مسلمانوں کے نفع کی۔

(۱۰)اگر کسی نے اپنے گھر میں قرآن پاک برکت کی نیت سے رکھا ہے، اس کی تلاوت نہیں کرتا تو اس کے لیے ثواب کی امید ہے۔

(۱۱)فسق بھری محفل میں کوئی شخص اس نیت سے اللہ کاذکر کرتا ہے کہ لوگ تو فسق میں مشغول ہیں اور میں ذکر میں تو یہ افضل واحسن عمل ہے۔ اور اگر کوئی بازار میں تسبیح کرتا ہے، اس نیت کے ساتھ کہ لوگ دنیوی امور میں مشغول ہیں اور میں اللہ کی تسبیح کرتا رہوں گا، تو یہ افضل ہے اس سے کہ وہ کسی اور جگہ میں اکیلا تسبیح کرے۔

(۱۲)ودیعت کے مسئلے میں مودَع اگر ودیعت کے لباس کو استعمال کرنے کی نیت سے نکالے اور استعمال سےقبل لباس ضائع ہوجائے تو ضامن ہوگا، لیکن استعمال کی نیت نہ ہونے کی صورت میں ضامن نہیں ہوگا۔صورت اول میں استعمال کرنے بعد محفوظ مقام پر رکھنے کے بعد ضائع ہوگیا، تب بھی ضامن ہوگا۔ کیوں کہ سابقہ نیت سے وہ لباس اس کے ضمان میں داخل ہوچکا تھا(اس کے اظہار کے بعد) حفظ کی نیت کا دعویٰ پوشیدہ امر ہونے کی بناء پر قابل قبول نہ ہوگا۔

(۱۳)اگر شوہر نے اپنی زوجہ سے اس طرح کہا ’’تو میرے لیے میری ماں کی طرح ہے‘‘ اگر اس کی نیت ظہار کی تھی تو ظہار ہوجائےگا، اگر عظمت وتکریم کی نیت تھی تو یہی سمجھا جائے گا، طلاق کی نیت کی صورت میں طلاق اور ایلاء کی صورت میں ایلاء ہوجائے گاکیوں کہ لفظ تمام معانی کا احتمال رکھتا ہے۔

(۱۴)مباحات کے ارتکاب میں اگر تقرب اور اطاعتِ خداوندی کی نیت ہو تو مستحق ثواب ہوگا۔ اسی طرح اگر چور نے چوری کا مال لیتے وقت اپنے قرض کی وصولی کی نیت کی تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

(۱۵)اگر کوئی اپنی زوجہ کو اجنبی عورت خیال کرکے مجامعت کرے گا یا پانی کو شراب خیال کرکے پیے گا یا وارث اپنے مورث کو معصوم خیال کرتے ہوئے قتل کرے گا تو زنا ، شراب نوشی اور قتل کی نیت وقصد کی بناء پر فاسق ہوجائے گا۔

(۱۶)حفاظت کی خاطر کتاب کو ٹیک لگانا مکروہ نہیں، ورنہ مکروہ ہے۔

(۱۷)سائے کے حصول کی خاطر مسجد میں درخت لگانا مکروہ نہیں، دیگر مقاصد کے پیش نظر درخت لگانا مکروہ ہے۔

(۱۸)فعل مضارع کے استعمال میں زمانہ حال مراد لینے کی صورت میں بیع منعقد ہوجاتی ہے، استقبال کا معنی مراد لینے کی صورت میں نہیں،مثلاً بائع مشتری سے کہے’’ أبيعك فرسي هذا بكذا مبلغ ‘‘۔

(۱۹)نکاح مستحب اور سنت ہے، لیکن اگر مقصد ہونے والی بیوی کو ضرر اور ظلم پہنچانا ہو تو حرام ہے۔ اسی طرح اثنائے عدت میں نکاح کو باقی رکھنے اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے ارادے سے رجوع کرنا اللہ کواس کے چھوڑنے سے زیادہ محبوب ہے۔لیکن عدت کی طوالت کی صورت میں بیوی کو ضرر پہنچانے کی نیت سے رجوع کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّلَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَه﴾ (بقرہ:۲۳۱)اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم بیویوں کو طلاق دو اور ان کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوجائے تو استمرار زوجیت اور بیویو ں کے حقوق کی ادائیگی کو پس پشت ڈال کر ان کو ضرر دینے کی نیت سے رجوع نہ کیا کرو۔ بلکہ دو کاموں میں سے ایک کام کرو یا تو بغیر ارادۂ ضرر کے اچھے طریقے سے ان کو (رجوع کر کے ) روک لو،یا پھر اچھے طریقے سے ان کو آزاد کردو، یعنی بغیر رجوع کیے ان کی عدت پوری ہونے دو: ﴿وَّلَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاوَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَه﴾ ’’یعنی جس نے اپنی بیوی کو ضرر دینے کی خاطر روکے رکھا تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کے لیے پیش کیا، کیوں کہ اس نے ظلم کا ارتکاب کیا‘‘۔

(۲۰)کسی کام کی عدمِ مشروعیت کے باوجود اچھی نیت سے کرنے پر ثواب ملتا ہے۔ مثلاً کسی نے کوئی کام جائز اور باعثِ ثواب سمجھ کرکیا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کام شرع کے خلاف اور ناجائز تھا، تو اس کو اس ارادے اور نیت پر ثواب ملے گا، اگرچہ وہ کام جائز نہیں ہوگا اور اس کام پر اس کو ثواب نہیں ملے گا۔مثلاًکسی نے خود کو باوضو سمجھ کر نماز پڑھی جبکہ وہ با وضو نہیں تھا، تو اس کو اس کے ارادہ نماز پر ثواب ملے گا، فعل نماز پر ثواب نہیں ملے گا۔ یابھول سے قریب المرگ آدمی کو کسی نے احسان کرتے ہوئے لاعلمی میں زہریلا کھانا کھلایا ،کھلانے والے کو پہلے سے کھانے کا زہریلا ہونا معلوم نہیں تھا۔ اور کھانے والا مرگیا تو کھانا کھلانے والے کو اس کی نیت کا ثواب ملے گا اور قتل خطا ہونے کی وجہ سے کھلانے والے کے عاقلہ پردیت واجب ہوگی۔

اس میں قریب المرگ کی قید کیوں ہے ؟ یوں نہیں لکھ سکتے کہ ایک شخص نے کسی پر احسان کی غرض سے زہریلا کھانا کھلا دیا جبکہ اس کا زہریلا ہونا اسے معلوم نہ تھا تو کھلانے والے کو اس کی نیت کا اجر ملے گا البتہ قتل خطا کی وجہ سے کھلانے والے عاقلہ پر دیت واجب ہو گی۔(نوٹ) خالی نیت پر ، دنیا کی زندگی میں قانونی یا انتظامی احکام جاری نہ ہوں گے۔ مثلاً کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی محض نیت کی تو نیت سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ یعنی جب تک نیت کے ساتھ کوئی فعل ظاہری اور خارجی انجام نہ دیا جائے۔

لرننگ پورٹل