لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

اب ہم دوبارہ حدیث حذیفہ کی طرف آتے ہیں جس میں جماعت المسلمین کی غیر موجودگی کی صورت میں فرمایا گیاتھا : ((فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا)) ’’ان تمام فرقوں سے الگ ہو جاؤ۔۔۔‘‘

پہلی بات یہ ہے کہ مختلف مذہبی مسالک اور فقہی مذاہب اور اصلاحی و دعوتی تحریکوں اور جماعتوں کو ان ، قابلِ ہجران فرقوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ وہ شخصیات ، ادارے یا جماعتیں جو امت کے اجماعی مواقف سے ہٹ کر بدعت اعتقادی کے مرتکب ہیں یا تاویل و تعبیر باطل کے تحت ، اصلاح وانقلاب کے نام پر مسلمانوں کے مابین خون خرابے کے قائل یا فاعل ہوں وہ ان قابل ہجران فرقوں میں ضرور شامل ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں ایک ایسی صورت حال کو فرض کر کے سوال کیا گیا تھا کہ افراتفری کے حالات ہیں اور حق واضح نہیں ہے لیکن اگر حق واضح ہے تو پھر اعتزال آسان ہے پھر صرف گمراہ فرقوں سے الگ ہو کر علمائے اہل سنت کی جماعتوں و تحریکوں سے منسلک رہنا ہے۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ حق واضح نہ ہو ، اور ہر طرف گمراہ کن یا متحارب گروہوں کا زور ہو تو پھر اعتزال کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں پہلی تو یہ کہ اگر انسان کو اپنے مبتلائے فتن و آزار ہونے کا گمان ہو تو کسی پہاڑ یا وادی یا کسی بَن میں بھی جا بسرام کیا جاسکتا ہے ، حدیث کےالفاظ کے مطابق چاہے درختوں کی جڑیں چبا کر ہی گزارا کرنا پڑے۔ اوراگر صورت حال اتنی خراب نہ ہو تو ان متحارب گروہوں سے الگ ہو کر انسان عام مسلمانوں میں گھل مل کر رھے اور (يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ) ’’ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے‘‘ تو حدیث کے مطابق یہ بھی ایک اعلی صورت ہے۔ ایسی صورت حال میں درج ذیل احادیث سے بھی راہنمائی لی جا سکتی ہے : 

فَإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ وَالْمَسْجِدِ (مسند احمد ) ’’پس گھاٹیوں میں پڑنے سے بچواور الجماعہ اور عامۃ المسلمین اور مسجد کو لازم پکڑو ‘‘۔فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلاَفًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الأَعْظَمِ (سنن ابن ماجه)’’پس جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کو لازم پکڑو‘‘۔

اب تک کی ہماری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ الجماعہ کا اولین مصداق ، امت مسلمہ ہے جس سے علاحدگی ارتداد کی صورت میں ہوتی ہے۔ الجماعہ کا دوسرا مصداق ، وہ مسلمان قوم ہے جو مسلمان حکمران کے ماتحت منظم ہو۔ اس سے علاحدگی ارتداد و کفر تو نہیں لیکن گناہ ضرور ہے۔اب الجماعہ کے تیسرے مصداق کی طرف آتے ہیں۔

اہلِ سنت والجماعہ

الجماعہ کا تیسرا ، اطلاق امت مسلمہ میں سے ایک گروہ خاص ہے جس کا لقب اہل السنہ والجماعہ ہے۔ اگرچہ ایک مرفوع روایت میں بھی أهل السنة والجماعة کے الفاظ وارد ہوئے ہیں لیکن محققین کے مطابق اس روایت کی اسناد نامعلوم ہیں (تخریج احیاء علوم الدین) اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ أهل السنة والجماعة کالقب ،علماے اہل سنت نے اپنے لیے اختیار کیا اور یہ الفاظ نبوی نہیں ہیں البتہ آپﷺ کے الفاظ سے ماخوذ ضرور ہیں۔

حدیث افتراق امت ،جس میں رسول اللہ ﷺ نے یہ خبر دی کہ بنی اسرائیل کی طرح امت مسلمہ بھی کثیر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ، تمام فرقے دوزخی ہوں گے سوائے ایک کے کہ یہ فرقہ ناجیہ ہو گا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا : ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي)) ’’وہ گروہ جو میرے طریق پر ہو گا اور میرے اصحاب کے طریق پر ہو گا ‘‘ اس گروہ کے لیے ایک دوسری روایت میں الجماعہ کے الفاظ بھی آئے ہیں :((وَهِيَ الْجَمَاعَةُ)) (سنن ابن ماجہ ) جس کی روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ الجماعہ کا دوسرا مصداق ، اہل سنت والجماعہ ہے۔

اب یہ سوال ہے کہ اہل سنت کون ہیں؟ تو اس کا اصولی جواب تو ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي))میں ہے لیکن یہ جواب قابل تشریح ہے۔امام ملا علی القاری رحمہ اللہ ان الفاظ کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’فرقہ ناجیہ وہ لوگ ہیں جو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کی سنت کو تھامے ہوئے ہیں اور بلا شبہہ یہ اہل سنت ہی ہیں‘‘۔ 

علامہ مُظہری الحنفی رحمہ اللہ نے المفاتیح شرح المصابیح میں ان الفاظ کی تشریح پر بہت لطیف کلا م فرمایا ہے۔ سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا کہ نبی کریم ﷺ کس شے پر تھے۔۔۔ تو آ پ ﷺ ’وحی ‘پر تھے۔اللہ تعالی نے آپﷺ کو وحی ربانی کی پیروی کا حکم دیا تھا : ﴿اتَّبِعْ ما أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾ (يونس: 109) ﴿وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾ (الأحزاب:2) نبی کریم ﷺ کا طرز عمل بھی یہی تھا کہ آپ ﷺ وحی الہی کے مکمل متبع تھے۔ اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنا یہ طرز عمل واشگاف انداز میں بتا بھی دیں تاکہ کسی کو غلط فہمی یا خوش فہمی نہ رہے: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي﴾ (الأعراف :203)

اب یہ جو وحی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک کو ہم وحی جلی کہتے ہیں اور یہ قرآن پاک ہے اور دوسرے کو ہم وحی خفی کہتے ہیں اور یہ سنتِ رسول پاک ہے۔ پس وحی میں کتاب و سنت دونوں شامل ہیں۔ اسی لیے آپ ﷺ نےفرمایا:((أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ))(سنن أبي داؤد)’’ آگاہ رہو کہ بے شک مجھےقرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز دی گئی ہے‘‘۔تو ((ما أنا علیه))سے دو اصول بر آمد ہوئے قرآن مجید اور سنت رسولﷺ، ان دونوں اصولوں پر کما حقہ عمل پیرا ہونے والی، نبی کریمﷺ کی کامل پیروی کر کے آپ ﷺکے قول و فعل کو اپنی ذات میں محفوظ کرنے والی جماعت ، صحابہ کرام ﷺکی ہے جن کی مدح و توصیف قرآن پاک میں بیان ہوئی ہے اور جن کے ایمان کو معیار ایمان قرار دیا گیا ،پس جو گروہ قرآن پاک اور سنت رسول ﷺ پر ، منہج صحابہ کے مطابق عمل کرے گا وہ ((ما أنا علیه و أصحابي)) کا مصداق بنے گا۔

امام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ نے ’ عقیدۂ واسطیہ ‘ میں اہل سنت و الجماعت کے اصول پر بات کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل سنت کا پہلا اصول کتاب اللہ ہے جسے وہ تمام علوم پر ترجیح دیتے ہیں۔ان کا دوسرا ، اصول اتباع ہے اور اتباع سے مراد ہے آثارِ رسول ﷺ اور آثارِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سبیل السابقین کی پیروی کرنا ہے۔اہل سنت کا ایک اصول اجماع ہے یعنی جو مومنین کا متفقہ راستہ ہے پس اہل سنت علم و دین کے معاملے میں تمام اقوال و اعمالِ باطنی و ظاہری کو اجماع کے پیمانے پر ماپتے ہیں۔اصولی طور پر، اجمالی انداز میں ((ما أنا علیه و أصحابي)) کی وضاحت ہو چکی لیکن ، تاریخی طور پر اور تفصیلی انداز میں اس کی معرفت و ثبوت کہ پیغمبر علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام کن اصول و فروع پر تھے ، ایک ضروری امر ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ معرفت کیسے حاصل ہو ؟مولانا انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :وطريق معرفة ما أنا عليه وأصحابي توارث السلف وتعاملهم ’’ما انا علیہ و اصحابی کی معرفت کا ذریعہ سلف کا توارث اور ان کا تعامل ہے‘‘۔ امام ابن قیم علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة‘‘میں فرماتےہیں :يُرْجَعُ فِي مَعْرِفَةِ مَا كَانَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ إِلَى أَهْلِ الرِّوَايَةِ وَالنَّقْلِ’’جس طریقے اور منہج پر آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب تھے اس کی معرفت کے لیے ضروری ہے کہ اہل روایت اور اہل نقل کی طرف رجوع کیا جائے‘‘۔ علامہ مبارکپوری علیہ الرحمہ نے شرح مشکاہ میں ، علامہ ابن حزم علیہ الرحمہ کا قول نقل کیا ہے : وأهل السنة الذين نذكرهم أهل الحق، ومن عداهم فأهل البدعة، فإنهم الصحابة، وكل من سلك نهجهم من خيار التابعين، ثم أصحاب الحديث، ومن تبعهم من الفقهاء جيلاً فجيلاً إلى يومنا هذا، ومن اقتدى بهم من العوام في شرق الأرض وغربها ’’اہلِ سنت کو ہم اہلِ حق کہتے ہیں اور ان کے سوا جو بھی گروہ ہیں وہ اہلِ باطل ہیں اہلِ سنت والجماعہ میں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے نہج پر چلنے والے تابعین اور پھر محدثین و فقہاے کرام اور ان کے بعد نسل در نسل ، ان کی پیروی کرنے والے علماے کرام اور شرق و غرب میں ان کی پیروی کرنے والے عوام الناس ، اہل سنت میں شامل ہیں‘‘۔

یہ توجیہات ایک اہم چیز ہے کہ اہل سنت کا مسلک و مشرب راسخ العقیدہ علما کی سندِ متواتر و متوارث سے منتقل ہوا ہے۔ نقل کا مطلب یہ نہیں کہ محض روایتوں کو آگے منتقل کر دیا گیا بلکہ لامحالہ ، نقلِ روایت اپنے معنی و مفہوم کے ساتھ ہوا ہے۔ اسی لیے امام ابن حجر عسقلانی ، علمِ معتبر کی تعریف میں فرماتے ہیں :الْمَأْخُوذَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَوَرَثَتِهِمْ عَلَى سَبِيلِ التَّعَلُّمِ یعنی وہ علم جو انبیاے کرام یا ان کے وارثان یعنی علما سے برسبیل تعلم ماخوذ ہو (فتح الباری )تو بطر ز تعلم میں ، شاگرد کے اپنے استاد سے علم سیکھنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔اس بات کو ایک حدیث میں یوں بھی کہا گیا :يَرِثُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ ۔۔۔(السنن الكبرى للبیهقي)’’اس علم کی وارث پائیں گے ہر پچھلی نسل کے عادل لوگ (اپنے اگلے لوگوں سے) ‘‘ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ منہج رسولﷺ اور نہج صحابہ ، کا علم ا یک مستند و معتبر ، روایت سے ہم تک منتقل ہوا ہے۔

تعینِ اہل سنت

اہلِ سنت والجماعت کے اصولی تعارف کے بعد ، اس جماعت کا تعین بھی ایک اہم امر ہے۔اگرچہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ تعین کرنا ضروری نہیں ہے اور اہل سنت کے اصول کو واضح کر دینا ہی کافی ہے۔ لیکن درست بات یہی ہےکہ تعین کی اپنی اہمیت ہے کیوں کہ عام لوگ محض اصولوں سے جماعت حق کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے جب تک انھیں متعین طور پر بتا نہ دیا جائے۔ اسی ضرورت کے تحت علماے کرام نےاس پر کلام کیا ہے :علامہ عبد القاہر البغدادی کی کتاب (الفرق بين الفرق وبيان الفرقة الناجية) اس موضوع کی ایک بہترین کتاب ہے۔جس میں انھوں نے فرقۂ ناجیہ اور فرق باطلہ ، دونوں کا ، ان کے اصول سمیت تعارف کرایا ہے۔علامہ صاحب اہلِ سنت کے تعین پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اہلِ سنت کے دو بڑے گروہ ہیں ، ایک اہل الرائے اور ایک اصحاب الحدیث، ان دونوں گروہوں میں فقہا ، قرا ، محدثین و متکلمین پائے جاتے ہیں جو اصول دین اور عقیدے میں باہم متفق ہیں۔البتہ فروعات میں ان کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان کے یہ اختلاف ، ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق کا ذریعہ نہیں ہیں۔ یہی فرقۂ ناجیہ ہے اور امت کا سواد ِ اعظم بھی یہی ہے۔ یہ لوگ کون ہیں یہ امام مالک ،امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری، ابو ثور بغدادی صاحبُ الشافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ اجمعین، اہل ظاہر (اور ان کے متعلقین )ہیں۔(طبع دارالافاق الجدید صفحہ ۲۰، ۳۰۱)

مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے مزید تعین کرتے ہوئے لکھا :وبالجملة الآن مصداق الحديث اتباع المذاهب الأربعة والظاهري، وطريق معرفة ما أنا عليه وأصحابي توارث السلف وتعاملهم وإذا اختلفوا في شيء فالحق إلى الطرفين’’بہرحال اب اس حدیث کا مصداق مذاہب ائمہ اربعہ کے پیروکار اور ظاہریہ ہیں۔ ما انا علیہ و اصحابی کی معرفت کا طریق سلف کا توراث اور تعامل ہےاورجب ان (یعنی مذاہب ِ اہلِ سنت) میں اختلاف ہو گا تو دونوں طرف حق ہی پایا جائے گا ‘‘۔ علامہ کاشمیری رحمہ اللہ کی اختلاف والی بات کا مطلب یہ ہے کہ مذاہب ِاہلِ سنت کے مابین اختلاف فروعی اور اجتہادی نوعیت ہو تا ہے۔جن میں مصیب و مخطی دونوں ہی اجر پاتے ہیں اور اپنے دلائل کے مطابق دونوں فریق حق پر ہی شمار کیے جائیں گے۔[حضرت علامہ نے اس مقام پر ظاہریہ کے بارے میں کچھ اشکالات کا جواب بھی دیا ہے لیکن وہ ابھی ہمارے دائرہ بحث سے باہر ہے۔]

اصنافِ اہلِ سنت

 جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اہل سنت و ہ گروہ ہے جو دین کی تشریح و تعبیر کے صحیح منہج پرہے اور اس منہج کا معیار ، جماعت صحابہ کرام ہیں اور یہ منہج تواتر امت سےمنتقل ہوا ہے۔ اہلِ سنت نے علمِ دین کے ہر شعبے کی خدمت کی ہے۔علامہ محمد البکی الکومی (۹۶۰ ) نے اہل سنت کے تین بڑے گروہ بیان کیے ہیں :

السمعيّة:جو سمعی یعنی علوم نقلی کے ماہر ہیں ان میں کتاب و سنت اوراجماع کے جاننے والے یعنی محدثین و فقہاے کرام شامل ہیں۔ 

الفكرية : یہ اہل نظر و استدلال ہیں جو علم الکلام کے ماہر ہوتے ہیں۔ ان کے دو بڑے گروہ ہیں ماتریدیہ اور اشعریہ۔

الصوفية: یہ اصحاب وجد و کشف ہیں۔ جو روحانیات اور اخلاقیات کے ماہر ہوتے ہیں۔

 امام عبد القاہر البغدادی نے ،الفرَق بین الفِرق ، باب پنجم، فصل اول میں علوم و فنون کے اعتبار سے، اہل سنت و الجماعت کی آٹھ اصناف بیان کی ہیں:

علم توحید یعنی علم العقیدہ یا علم کلام کے ماہرین : اس اعتبار سے اہل سنت کے دو بڑے امام پائے جاتے ہیں۔ ایک ابو منصور ماتریدی یہ چند واسطوں سے امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں۔ دوسرے امام ابو الحسن الاشعری ہیں۔ انھوں نے شافعی مسلک کے مختلف شیوخ مثلا شیخ الاسلام سریج البغدادی اور ابو اسحاق المروزی وغیرہم سے علم حاصل کیا۔جب باطل فرقوں کی طرف سے اسلام کے عقائد پر حملے ہونے لگے تو زیادہ تر انہی دو حضرات نے، عقل اور نقل کے استعمال سے باطل فرقوں کا رد اور اہل سنت کے عقائد کا دفاع کیا۔ جن لوگوں نے عقائد کے ضمن میں امام ابو منصور ماتریدی کی پیروی کی وہ ماتریدیہ کہلائے اور جن لوگوں نے امام ابو الحسن الاشعری کی متابعت اختیار کی وہ اشعری کہلائے[ سید سلمان ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اہل السنہ والجماعہ میں حنابلہ کے نام سے ایک تیسرے ، اعتقادی مسلک کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے عقائد کے اثبات میں علم کلام کے استعمال کو درست نہ سمجھتے تھے۔ موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کو ان کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے]

علم فقہ ؛ کے حاملین یعنی فقہاے کرام ، جو فروعات ، استنباط و اجتہاد کے ماہرین ہوئے ہیں ان کے چار امام مشہور ہوئے اور ائمہ اربعہ کہلاتے ہیں اس اعتبار سے مسلمانوں میں چار مسلک پائے جاتے ہیں حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ اور حنبلیہ [ دور حاضر کے اہل حدیث کو حنبلیہ ہی کی توسیعی شاخ سمجھناچاہیے۔اس لیے کہ زیادہ تر یہ امام ابن تیمیہ کے مسلک کا اتباع کرتے ہیں جو حنبلی المسلک تھے۔ کسی قدر انھیں ظاہریہ کے نزدیک بھی سمجھا جا سکتا ہے بہ ہر حال یہ اہل سنت کا ایک حصہ ہیں ]

محدثین کرام : یہ وہ گروہ ہے جس نے احادیث و آثار اور اخبار کی روایت اور سند کی محافظت کا بِیڑا ، اٹھایا ، امام احمد بن حنبل، امام بخاری امام ترمذی وغیر ہم اس میدان کے امام ہیں۔ 

ادبا: یہ وہ گروہ ہے جس نے عربی لغت اور صرف و نحو کی خدمت کی ذمے داری قبول کی سیبویہ اور خلیل وغیرہ اس فن کے ائمہ ہیں۔

جماعت قراء : یہ وہ جماعت ہے جس قرآن مجید کی خدمت انجام دی۔ ان میں سے بعض قراءات اور روایت قرآنی کے ماہرین تھے اور بعض قرآن کے معانی کے بھی ماہر تھے جو مفسرین کہلاتے تھے۔امام نافع المدنی ، عاصم الکوفی ،علی بن حمزہ الکسائی، امام بن کثیر ، ابن طبری ، قرطبی وغیرہ اس میدان کے امام گزرے ہیں۔

جماعت زہاد : یہ وہ گروہ تھا جو مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے ماہرین تھے انھیں صوفیاے کرام کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ابو القاسم القشیری ، امام غزالی، شاہ عبد القادر جیلانی وغیرہ اس فن کے امام گزرے ہیں۔ مسالک فقہا کی طرح صوفیا کے بھی چار سلسلے ہوئے ہیں۔ایک نقشبدی سلسلہ ہے جو امام بہاؤ الدین نقشبد کی طرف منسوب ہے۔ چشتی سلسلہ ہے جو معین الدین چشتی اجمیری کی طرف منسوب ہے۔ سہروردی سلسلہ شہاب الدین سہروردی کی طرف منسوب ہیں۔ قادری سلسلہ ہے جو شاہ عبد القادر جیلانی کی طرف منسوب ہے۔ اس فن کے ماہرین اور عوام ، فقہ اور عقیدے کے ضمن میں مختلف ائمہ فقہ کی پیروی کرتے ہیں۔

 مرابطون : یہ وہ لوگ ہیں جو بنیادی طور پر اسلام کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ا ن میں عوام الناس بھی ہوتے ہیں اور دیگر اصناف کے لوگ بھی شامل ہوتے رہتے ہیں۔[مختلف علاقوں میں مصروف پیکار،غیر تکفیری مجاہدین اسی صنف سے متعلق ہیں۔]

عامۃ الناس: یہ مندرجہ بالا ، اصناف کے ائمہ سے محبت و عقیدت رکھنے والے اور ان کا اتباع کرنے والے اسلامی عقائد و شعائر کو ماننے والے عام لوگ ہیں۔[ برصغیر میں فقہ حنفی کے پیروکار زیادہ ہیں جو ، دیو بند مکتب فکر اور بریلوی مکتب فکر میں منقسم ہیں۔ اسی طرح یہاں اہل حدیث مسلک کے لوگ بھی آباد ہیں۔ جو اپنے ائمہ و علما کا اتباع کرتے ہیں۔] 

امام ابن تیمیہ اہل سنت کی صفت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :وَفِيهِمُ: الصِّدِّيقُونَ، وَالشُّهَدَاءُ، وَالصَّالِحُونَ. وَمِنْهُمْ: أَعْلَامُ الْهُدَى، وَمَصَابِيحُ الدُّجَى أُولُوا الْمَنَاقِبِ الْمَأْثُورَةِ، وَالْفَضَائِلِ الْمَذْكُورَةِ وَفِيهِمُ: الْأَبْدَالُ وَمِنْهُمُ: الْأَئِمَّةُ؛ الَّذِينَ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى هِدَايَتِهِمْ وَدِرَايَتِهِمْ (العقيدة الواسطية)’’ان میں صدیقین اور شہدا، اور عام نیک لوگ ہیں ، یہ ہدایت کے نشان ، روشن چراغ اور اصحاب مناقب و فضائل ہیں ان میں ابدال بھی ہیں اور ائمہ بھی مسلمان ان کی ہدایت اور سمجھ پر متفق ہیں ‘‘۔علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے امام نووی کا قول نقل کرتے ہوئے اس طائفہ منصورہ کو اس طرح بیان کیا ہے:يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ الطَّائِفَةُ جَمَاعَةً مُتَعَدِّدَةً مِنْ أَنْوَاعِ الْمُؤْمِنِينَ مَا بَيْنَ شُجَاعٍ وَبَصِيرٍ بِالْحَرْبِ وَفَقِيهٍ وَمُحَدِّثٍ وَمُفَسِّرٍ وَقَائِمٍ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَزَاهِدٍ وَعَابِدٍ وَلَا يَلْزَمُ أَنْ يَكُونُوا مُجْتَمَعِينَ فِي بَلَدٍ وَاحِدٍ بَلْ يَجُوزُ اجْتِمَاعُهُمْ فِي قُطْرٍ وَاحِدٍ وَافْتِرَاقُهُمْ فِي أَقْطَارِ الْأَرْضِ(فتح الباري)’’یہ کہنا جائز ہے کہ یہ گروہ مبارک مختلف صفاتِ رکھنے والے مومنین پر مشتمل ہے ان میں سے بعض بہادر لوگ جنگی امور کے ماہرہوں بعض فقیہ و محدث و مفسر، اور بعض زاہد و عابد ہوں۔ بعض امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہتمام کرنے والے ہوں ، اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ وہ ایک ہی علاقے میں جمع ہوں بلکہ وہ کسی ایک جگہ جمع بھی ہو سکتے ہیں اور مختلف علاقوں میں الگ الگ بھی پائے جا سکتے ہیں‘‘۔

جاری ہے۔۔۔

لرننگ پورٹل