لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024
جمعہ 19 رمضان 1445 بہ مطابق 29 مارچ 2024

آج کل یہ بات نہایت شدّومد کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات اجتماعی زندگی میں قابل عمل نہیں رہیں، یہ ترقی کا دور ہے، دنیا بہت آگے جا چکی ہے ، اسلامی تعلیمات پرانے زمانے سے متعلق تھیں، ماڈرن دور کے تقاضے بدل گئے ہیں ، اسلا می تعلیمات تیز رفتار ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔اس طرح کی باتیں عموماً دین بےزار لبرل حلقوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ دوہرائی جارہی ہیں۔جب دین سے محبت کرنے والے حضرات یہ باتیں سنتے ہیں تو پریشان ہوجاتے ہیں۔وہ سو چتے ہیں کہ اسلام تو قیامت تک باقی رہنے والا دین ہے، ہر دور میں اس سے رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔اب کیا وجہ ہے کہ اسلام جدید ذہن کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ اس پرو پیگنڈے کے نتیجے میں بد اعتمادی کی ایک فضا بن جا تی ہے۔اس بد اعتمادی کی فضا سے فا ئدہ اٹھا تے ہوئے مغربی جامعات (یونیورسٹیوں )میں اسلامیات پڑھنے والے بعض ماڈرن ، جدت پسند میدا ن میں آجاتے ہیں اور کہنا شر وع کر دیتے ہیں کہ غلطی اسلام کی نہیں علماء کی ہے۔ علماء کی پس ماندگی ، جدید دنیا اور اس کی ضروریات سے ناواقفیت نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے۔اسلام کا ماڈرن لائف کا ساتھ نہ دینے کی وجہ علماء کا جمود اور اجتہاد سے انکار ہے۔اب وہ اجتہاد شروع کر دیتے ہیں تاکہ اسلامی احکام کو ماڈرن دور کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکے۔یہ لوگ علماء سے عوام کو بدظن کر کے اجتہاد کے نام پر کھلم کھلا دینی احکام میں تحریف کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ دین کی بالا دستی اوراس پر عمل کے بجائے اسے مغربی فکر کے تابع کرنا ان حضرات کا مقصد بن جا تا ہے۔ ان کی سا ری تگ ودو کی بدولت اسلامی طرززندگی کے بجائے مغربی فکر پر مبنی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اور اس کے برعکس ایک دوسرا طبقہ بھی پا یا جا تا ہے جو علماء کو مورد الزام ٹھہرا تا ہے۔ وہ یہ کہ علماء جب موجودہ زمانے کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے عصر حاضر کے عملی تقاضوں کے مطابق دین کی تشریح و تفہیم کرتے ہیں، تو اس طبقے کی طرف سے توہین آمیز رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔یہ لوگ کہنا شروع کر د یتے ہیں کہ مولوی مغرب زدہ ہوگیا ہے ، وہ مولوی کو اسلا مسٹ کا لقب د یتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ صرف تنقید میں ما ہر ہو تے ہیں ، عملی طور پر ان کا کردار تقریبا ًصفر ہے۔ 

ایک سادہ لوح مسلمان کے لیے یہ بات باعث حیرت ہے،وہ سوچتا ہےآخراس مولوی بے چارے نے کونسا ایسا ناقابل معافی جرم کیا ہے، جس کی بنیاد پر اس کے خلاف ایک محاذ کھڑاکیا گیا ہے؟درحقیقت مولوی کا جرم یہ ہے کہ اس نےدوانتہاؤں کےدرمیان اعتدال کاراستہ دکھایا ہےاور افراط وتفریط سےبچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ بس مولوی کی یہ ادا بعض حضرات کوناپسندہے،کیوں کہ یہ اداان کی خواہشات نفسانی کی تسکین میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ان مذکورہ دونوں طبقوں میں سے اوّل الذکر طبقہ خواہشات نفسانی کا اسیر ہے۔وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلانا پسند کرتا ہے اور نفس کی تسکین بھی چاہتا ہے۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسے مناسب اورآسان راستہ یہ معلوم ہو تا ہے کہ اجتہاد کے نام پر اسلاف کے متعین کردہ اصولوں (جو اس کی خواہشات کی تسکین میں رکاوٹ ہیں)سے راہ فرار اختیار کی جائے، کیوں کہ بات درحقیقت اسلام کی نہیں اپنے نفس کی ہی ماننی ہے، اس لیے ان جدت پسندوں کے لیے ایسا کرنا ناگزیر بن جاتا ہے۔ جبکہ مولوی حرام کو حلا ل کرنے کی جرات نہیں کرسکتا، اس لیے اس مخصوص طبقے کا ہدف تنقید بن جاتا ہے۔ہر مباح کو زبر دستی حرام بنانے کو کار ثواب سمجھنے والاثانی الذّکر طبقہ بھی اپنے جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے،اس کے نزدیک مُلّا اس لیے مجرم ہے کہ وہ ضرورت کے وقت دین میں موجود رخصتوں کا فائدہ عام لو گو ں کو کیوں دیتا ہے۔وہ متبادل کیوں بتاتا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ اپنے مزاج کو دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ اب ان کے مزاج کے خلاف جو بھی ہو گا،ان کے نزدیک ناجائز ٹھہرے گا۔

علماکے متعلق یہ دو سطحی آرا اس لیے قائم ہوئیں کہ یہ دونوں طرح کے لوگ درحقیقت علم سے تہی دامن ہیں۔مغربی فکر کے حاملین اسی علمِ دین سے استدلال کریں گے جو ان کو مستشرقین نے مغربی یو نیورسٹیوں میں سکھایا پڑھا یاہے۔ ان کے ائمہ ٔ دین ان کے اساتذہ ٔ مغرب ہیں اور دین اسلام کے متعلق ان کے اساتذہ کی سوچ یہی ہے۔اسی کی بنیاد پر یہ حضرات اجتہاد کرتے ہیں۔جہاں تک دوسرے طبقے کے لوگ ہیں ،وہ بظاہر بہت مخلص ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ ان میں سے اکثر حضرات کا علم ِدین اُ ردو کتابوں اورترجموں سے ماخوذ ہے۔ ظاہر ہے ان کا ما ٔ خذدین ہی ناقص ہے، جب کسی کی علمی سطح اتنی ناقص ہو تو لا محالہ اس کا استدلال بھی کمزور اور ناقص ہوگا، اس کے نتائجِ فکربھی بداہتاً غلط نکلیں گے۔البتہ ان دونوں طبقوں کے برعکس مولوی پوری زندگی علوم ِدینیہ کے سمجھنے میں لگاتا ہے۔اور اسلاف،ائمۂ مجتہدین کے اصولوں اور روایت کی روشنی میں دین کی تعبیر وتشریح کرنا صائب سمجھتا ہے۔وہ جادۂ سلف سے ذرّہ برابر بھی انحراف گناہ تصور کرتا ہے۔اس کے نزدیک وہی دین معتبر ہے جو اسلاف نے سمجھا ہے اور جو ان سے ہمیں ملا ہے۔یہ وہی اصول سامنے رکھ کر پیش آمدہ مسا ئل کا حل تلاش کرتا ہے، جو ائمہ ٔ مجتہدین نے مقرر کیے ہیں۔اب ظاہر بات ہے کہ اس میں اس کی اپنی مرضی،خواہش اور جذبے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کیو ں کہ دین کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کو اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم اورمرضیات کے تابع کیا جائے۔ چونکہ یہ طریقہ ٔ کار ان دونوں طبقوں کے مزاج کے خلاف ہے، اس لیے ان کا مولوی سے ناراض ہونا اور مولوی کو ہدف تنقید بنانا ،قابل فہم ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اسلام موجودہ زمانے کا ساتھ دے سکتا ہے یا نہیں،تو یہ سوال بذات خود لغو اور فضول ہے، کیوں کہ اسلام صرف ساتھ د ینے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اسلام تو آگے بڑھ کر قافلہ ٔ حیات کی قیادت وسیادت کا دعویٰ رکھتا ہے۔چونکہ لبرل حلقوں نے میڈیا کے زور پر بڑی شدت کے ساتھ یہ پرو پیگنڈاکیا ،تو عام لوگوں کا اس سے متا ٔثر ہونا قدرتی بات تھی۔اجتماعی زندگی کے متعلق خواہ وہ حکومت وسیاست ہو یا معیشت واقتصاد کا میدان ، اسلامی تعلیمات بے غبار ہیں۔ علماے کرام نے اس سلسلے میں جو جدوجہد کی ہے، وہ الحمد للہ ہر سمت میں واضح ہے۔ صرف وطن عزیز پاکستان کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو زندگی کے ہر اجتماعی کام میں علماے کرام کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ آزادی کے فوراً بعد دستوری مسائل ہوں یا تعلیمی مسائل ،علماے کرام نے بخوبی اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ہزاروں سفارشات، عدالتوں کے ذریعہ خلافِ اسلام قوانین کی تبدیلی اور معاشی میدان کی مشکلات کا حل تلاش کرنے میں علماے کرام نے پوری تندہی اور جان فشانی سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ان ہی علماے کرام میں استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا نام ِگرامی سر فہرست ہے۔ انھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل،وفاقی شرعی عدا لت کے ذریعے نفاذِ اسلام کے لیے عملی جدوجہد فرمائی ہے۔اسی طرح معیشت کی اصلاح وتجدید کے متعلق ان کے کارنامے کی پوری دنیا معترف ہے، جس کی بدولت غیر سودی نظام ِ معیشت کے قیام کا راستہ ہموار ہوا ہے۔اس میدان میں آپ کو مجتہدانہ بصیرت حاصل ہے۔ غیر سودی نظام معیشت پر آپ نے ایک وقیع لٹریچر مہیا کیا ہے ،جس سے سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر بھرپور استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ الحمد للہ حضرت شیخ الاسلام صاحب دامت برکاتہم سے ایک عرصہ پہلےاس سلسلے میں ایک خصوصی نشست کا موقع ہمیں میسر آیا۔ اس میں حضرت کےساتھ ان کی اقتصادی میدان میں کوششوں کے ساتھ ساتھ مختلف علمی موضوعات پر بات چیت ہوئی اور حضرت کی گراں قدر اوردلنشین گفتگوسےمستفیدہوئے۔ 

ویسے تو استاذ محترم کی عمومی مجالس اورعلمی دروس میں شرکت کی سعادت پہلے ہی سے حاصل ہے، البتہ حضرت کے ساتھ ایک خصوصی نشست اور محفل کی تمنّا عرصے سے دل میں بسی ہوئی تھی تاکہ حضرت کے گراں قدرخیالات کھل کرجاننے کا موقع ملے۔اس کے لیے میں اور میرے دوست فیض محمد صاحب نے غور وفکر شروع کیا کہ کس طرح استاذگرامی سے وقت لیا جائے۔اچھی خاصی سوچ بچار کے بعد یہ طے ہوا کہ ایک خصوصی دعوت کا اہتمام کیا جائے اور اس میں حضرت کو مدعو کیا جائے ، اور اس دعوت کو ایک علمی محفل کا بہانہ بنایا جا ئے۔ اگر حضرت نے ہماری دعوت کو قبول فرمالیا تو اس طرح ایک خصوصی نشست کا موقع بھی میسر آئے گا اورحضرت کا ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہونا بذات خود ہمارے لیے سعادت کی بات ہو گی۔لہٰذا اس مقصد کے لیے ہم نے حضرت کو دعوت دی کہ وہ ہمارے ساتھ ایک وقت کے کھانے میں شریک ہوں۔انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے ہوئے حضرت نے ہماری اس خواہش کو پذیرائی بخشی اور ہمیں شب ہفتہ رات نوبجے بتاریخ ۲۲ فروری۲۰۲۰ء وقت دیا،تو ہم پر خوشی اور سرشاری کی ایک کیفیت طاری ہوگئی، کہ حضرت کا اپنے انتہائی قیمتی لمحات میں سےہمارے لیے وقت نکالناجہاں ہمارے لیے سعادت کی بات ہے وہاں حضرت کی کمال تواضع کی بہت بڑی دلیل ہے۔

ہفتے کی شب میں نماز عشا کے بعد فیض محمدجن کا اس محفل کے انعقاد میں فعا ل کردار تھا، وہ اور جنید حضرت کے گھر چلے گئے تاکہ حضرت کے ساتھ آئیں۔ہم نے دار العلوم کے دار الاقامے ( ہا سٹل ) میں نشست کا اہتمام کیا تھا۔تھوڑی دیر میں حضرت تشریف لائے، ہم نے دار علی کے دروازے پر استقبال کیا، اور وہاں سے ہم حضرت کو لے کر نشست گاہ آئے، محفل جم گئی۔ شرکاے مجلس میں راقمُ الحروف، یاسین مدنی ،فیض،اسماعیل ہاشمی،جنید، عبدالصبور، زاہد اسلام ، عثمان اور وقاص شامل تھے۔ حضرت کے ارشاد پر سب شرکا نے فرداً فرداً اپنا تعارف کرایا۔ تمام ساتھیوں کا رُخ استاذ گرامی کی طرف تھا۔ حضرت نے محفل کے آغاز میں دارالعلوم میں طلبہ کے لیے بہترین انتظامات اور مختلف سہولتوں کی دستیابی پر گفتگو فرما ئی اور ہمیں ان سہولتوں پر شکر کرنے کی طرف متوجہ فرمایا۔ اس کے بعد سنجیدہ سوالات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، ہر نوع کے موضوعات پر سوال ہوتے رہے اور حضرت نہایت بے تکلفی سے ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔

آغاز میں حضرت نے اپنے زمانۂ طالب علمی کے واقعات سنائے کہ اس زمانےمیں دارالعلوم جہاں قائم کیاگیا،یہ ایک دوردراز علاقہ تھا، آبادی نہیں تھی، ریگستان تھا،بنیادی سہولتوں کافقدان تھا۔ہم نےکسمپرسی اور سخت حالات میں یہاں پڑھا۔ لیکن آج الحمدللہ دارالعلوم میں تمام سہولیات دستیاب ہیں۔ فرمایا:فراغت کےبعدجب میں دارالعلوم میں استاذبنا تو میری عمر چھو ٹی تھی،اس وقت میری داڑھی بھی نہیں تھی جبکہ میرے شاگردداڑھی والے تھے ، اس وقت ہم شیروانی وغیرہ پہن کراپنامقام قائم کرتےتھے۔اُستاد جی جب اپنے دورِ طالب علمی کے واقعات اور اس کےبعد بحیثیت اُستاذ ،دارالعلوم میں اپنے تجربات کے متعلق گفتگو سے فارغ ہوئے تو شرکاے مجلس میں سے عثمان نے کہا کہ جب آپ عدالت میں جج تھے تو اس وقت جو اہم فیصلے آپ نےکیے، اس کی روداد ہم سننا چاہتےہیں۔تو فرمایا: یہ بڑی دردناک داستان ہے، ضیاءالحق(اللہ ان کو غریق رحمت کریں ) جب صدر بنے ،تو انھوں نے ہمارے دستورمیں ایک ایسا بنیادی کام کیا کہ اگر ہم اس سے فائدہ اٹھاتے،تو آج ہمارے آئین میں کوئی غیراسلامی شق نہ ہوتی۔ انھوں نے آئین میں ترمیم کی اور یہ اختیار سپریم کورٹ کودیا، کہ کوئی بھی غیر اسلامی دفعہ عدالت میں چیلنج کی جاسکتی ہے۔جب میں جج بنا تو غیر اسلامی قوانین میں تبدیلی کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا۔ میں نے سیاسی دینی جماعتوں سے کہا آپ اپنی سیاست کرتی رہیں،مگراس موقعے سےفائدہ اٹھاتےہوئےایک ایک قانون کاجائزہ لے کر ہمارے پاس درخواستیں لائیں،ہم غیر اسلامی قوانین میں تبدیلی کریں گے۔اگرچہ کم سہی لیکن پھر بھی کچھ درخواستیں آئیں، جن پر ہم نے کاروائی کی اور تقریباً دوسو غیراسلامی قوانین تبدیل کیے۔ ایک قانون جب ختم ہوتا تھا تو لاکھوں مقدمات خارج ہوتے تھے۔ جب پنجاب میں ’’شفعے‘‘ کے قانون کوہم نے تبدیل کیا تو اس کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ مقدمات خارج ہو گئے۔ یہ جگہیں اب بھی خالی ہیں،بعض پر لوگ ہیں مگر وہ علما نہیں ہیں،ایک آدھ اگرہو۔لیکن جب جج ہی خراب ہو تو اس اختیار سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔جب تک ان پوسٹوں پر علماءنہ ہوں تو درخواست دینا بےکارہے۔گفتگو کے درمیان راقم نےایک چیف جسٹس کا تذکرہ کیا کہ سودکے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے انھوں نےکہا : ’’سودجائز ہے یا نہیں ،یہ فتویٰ مدرسوں سے پوچھیں ہم سے نہ پوچھیں ‘‘۔ تو حضرت نے فرمایا کہ مجھے تو اسی لیے نکالا تاکہ اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کیے جاسکیں۔

جاری ہے۔۔۔

لرننگ پورٹل