لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024
بدھ 15 شوال 1445 بہ مطابق 24 اپریل 2024

علمی مقام و مرتبہ 

حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ علمی میدان میں جس طرح اکابر علماء کے دبستانوں سے مستفیدہوئے تھے اسی طرح ان علوم و فنون کو اپنے تلامذہ میں منتقل فرما یا ۔ آپ رحمہ اللہ بلاشبہہ جامع العلوم والفنون تھے۔ آپ کے علمی مرتبے کی ایک جھلک حضرت تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ کے رسالے ’’میرے والد – میرے شیخ ‘‘ میں نظر آتی ہے۔ آپ رحمہ اللہ کے شخصی ذوق کی پہچان حضرت تقی صاحب مد ظلہ سے زیادہ ہو بھی کس کو سکتی ہے، چنانچہ ذیل میں نقل ہونے والے اکثر واقعات موصوف محترم ہی کے رسالے سے ماخوذ ہیں:

علم تفسیر 

آپ رحمہ اللہ کو علم تفسیر سے زیادہ مناسبت عمر کے آخری دور میں ہوئی ۔اگرچہ دارالعلوم دیوبند میں تفسیر ِجلالین اور بیضاوی پڑھانے کا شرف حاصل رہا، اور دورۂ تفسیر کے بعض اسباق اور تفسیر ابن کثیر بھی آپ رحمہ اللہ کے ذمے رہی لیکن شغف اس دور میں زیادہ تر فقہ و فتویٰ ہی سے رہا ۔ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہونے کے بعد حکیم الامت رحمہ اللہ نے ’’احکام القرآن ‘‘ آپ رحمہ اللہ کے سپرد فرمائی تو آپ کو تفسیر سے خصوصی شغف پیدا ہوا، پھر مسجد باب الاسلام کراچی میں روزانہ اور ریڈیو پر ہفتہ وار دروس قرآن دیتے رہے ۔ آپ کو تلاوتِ قرآن کا خاص ذوق تھا، آخری عمر میں کئی کئی پارے تلاوت فرماتے، آپ رحمہ اللہ کے پاس ایک چھوٹا دستی بستہ موجود رہتا تھا ۔ آپ رحمہ اللہ سفر و حضر میں، گھر میں یا کسی تقریب وغیرہ میں جب موقع ملتا اس بستے میں سے قرآن شریف نکال کر تلاوت شروع کردیتے، نمازِ فجر اور نمازِ عصر کے بعد خصوصیت سے تلاوت فرماتے تھے ۔ دورانِ تلاوت تدبر بھی فرماتے، تلاوت کرتے کرتے اچانک رک جاتے اور کبھی اپنے گھر والوں کو ان حقائق و معارف سے آگاہ فرماتے جو دورانِ تلاوت آپ پر منکشف ہوتے تھے ۔ آپ رحمہ اللہ کی تفسیر معارف القرآن بلاشبہہ انھی حقائق و معارف کا گنجینہ ہے ۔ معارف القرآن میں آپ نے دیگر تفسیری اقوال نقل کرنے کے بعد ایک مستقل سلسلہ معارف و مسائل تحریر فرمایا جس کے تحت ہر سورت میں مختلف آیات کے ذیل میں وہ معارف بیا ن فرمائے جو آ پ پر اللہ تعالیٰ نے منکشف کیے ۔ اس باب میں صرف ایک آیت کی تشریح علی سبیل المثال پیش ہے جو ہر ذی فہم کو ’’معارف القرآن‘‘ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کےلیے کافی ہے: ﴿فَلَوْلَانَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُون﴾’’تو کیوں نہ نکل پڑی ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرے اور اپنی قوم کے پاس واپس جاکر انھیں ڈرائے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے یہاں لفظ ’’نفر‘‘ استعمال فرمایا ہے ۔ حالانکہ مفہوم لفظ ’’خرج‘‘ سے بھی ادا ہوسکتا تھا ۔اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’’نَفَرَ مِنْهُ إِلَيْهِ‘‘ کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک شخص کسی چیز سے نفرت یا اعراض کرکے دوسری چیز کی طرف مکمل یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو ۔ لہٰذا ، اس لفظ سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ علم کی تحصیل صحیح طور پر اسی وقت ممکن ہے جب انسان ہر دوسری مصروفیت سے یکسو ہو کر پورے انہماک کے ساتھ علم کی تحصیل میں مشغول ہوجائے۔

اسی طرح آیت میں تحصیل علم کے لیے ’’لیتعلموالدین‘‘ کے بجائے اللہ تعالیٰ نے﴿لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ اس میں پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ عربی زبان میں بابِ تفعل کی ایک خاصیت تکلف بھی ہے جس میں محنت و مشقت کا مفہوم بھی شامل ہے، اور اس سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ تحصیلِ علم کے لیے محنت و مشقت کی ضرورت ہے اور دوسرے اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ علمِ دین کی تحصیل میں مقصد محض علم برائے علم نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کا مقصد دین کاصحیح فہم اور سمجھ پیدا کرنا ہونا چاہیے ۔ لہٰذا صرف کتابیں پڑھنے یا اصطلاحات یاد کرلینے سے علمِ دین کا مقصد پورا نہیں ہوتا، بلکہ ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے دین کا صحیح مزاج و مذاق اور اس کی سمجھ پیدا ہو ۔ جس میں صحبت و تربیت بھی داخل ہے ۔

آگے علمِ دین کی تحصیل کا مقصد دعوت و تبلیغ کو قرار دیا گیا ہے اور اس کے لیے قرآنِ کریم نے لفظ ’’انذار‘‘ استعمال فرمایا ہے ۔ ’’انذار‘‘ کے لغوی معنی ہیں ڈرانا، لیکن یہ لفظ تخویف کے ہم معنی نہیں ہے، بلکہ ’’انذار‘‘ صرف اس ڈرانے کو کہتے ہیں جس کا محرک مخاطب پر شفقت ہو ۔ قرآنِ کریم نے بیشتر مقامات پر تبلیغ و دعوت کے لیے یہی لفظ اختیار فرمایا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ تبلیغ و دعوت مخاطب کی ہمدردی، دلسوزی اور شفقت کے جذبات کے ساتھ ہونی چاہیے اور جس تبلیغ میں ان جذبات کے بجائے مخاطب پر غصہ، اس سے نفرت یا اس کی تحقیر کے جذبات شامل ہوں وہ اللہ تعالیٰ کو مطلوب نہیں ہے ۔

علمِ حدیث 

علمِ حدیث آپ رحمہ اللہ نے حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ سے حاصل کیا جنھیں اپنے زمانے کا حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔آپ نے حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ سے دورۂ حدیث بڑے ذوق و شوق اور اہتمام سے پڑھا اور حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی تقریرِ بخاری اور تقریرِ ترمذی درس کے دوران ہی عربی زبان میں قلم بند فرمائی ۔ حضرت شاہ صاحب کو بھی آپ سے بڑی محبت تھی ۔آپ نے ایک دفعہ زیادتیٔ ثقہ کے مقبول ہونے کا ذکر کیاجس کے جواب میں شاہ صاحب نے مفصل تقریر فرمائی ۔ اس کے بعد جب کبھی یہ مسئلہ زیرِ بحث آتا تو شاہ صاحب آپ کو مخاطب بناکر فرماتے: ’’ کہاں گیا وہ ثقہ کی زیادتی والا‘‘۔ آپ رحمہ اللہ نے جن کتبِ حدیث کا درس دیا وہ یہ ہیں : مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد، سننِ نسائی، طحاوی شریف،ابو داؤد، مشکوٰۃ شریف، شمائلِ ترمذی اور بخاری شریف۔ آپ کے درسِ حدیث کی خصوصیت یہ تھی کہ حدیث کے متن اور غرائب کی توضیح کے بعد فقہی امور ذکر فرماتے پھر اُس حدیث سے جو اخلاقی نتائج برآمد ہوتے ان کی بھی تلقین فرماتے ۔ بطورِ مثال ایک روایت کی تشریح ملاحظہ ہو: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی معروف حدیث صحاح میں موجود ہے کہ﴿ کان رسول اللهﷺ یسمر مع أبي بکر من أمور المسلمین و أنا معه﴾ ’’رسول کریمﷺحضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے عشا کے بعد مسلمانوں کے کسی معاملے میں گفتگو فرمالیا کرتے تھے، اور میں بھی ان دونوں حضرات کے ساتھ ہوتا تھا‘‘ ۔ اس حدیث کا اصل موضوع یہ بتانا ہے کہ اگر کوئی دینی ضرورت در پیش ہو تو عشا کے بعد گفتگو کرنا جائز ہے، چنانچہ یہ حدیث عموماً سمر بعد العشاء عشاکے بعد باتیں کرنے کے باب میں مذکور ہوتی ہے اور یہی مسئلہ اس میں زیرِ بحث آتا ہے، لیکن اس مسئلے کی توضیح کے بعد حضرت مفتی اعظم قدس سرہ فرماتے: ’’یہاں یہ بات بطورِ خاص دیکھنے کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یوں نہیں فرمایا کہ آنحضرتﷺ مجھ سے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرماتے تھے، بلکہ یہ فرمایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرماتے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا ۔ اس طرح حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ ادب سکھایا کہ جب کسی ایسے کام کا تذکرہ کرنا ہو جو تم نے اپنی کسی بڑے کے ساتھ مل کر کیا ہو تو یوں نہ کہو کہ یہ کام میں نے اور میرے فلاں بزرگ نے مل کر انجام دیا، کیونکہ اس میں دونوں کی برابری کا شبہہ ہوتا ہے، اس کے بجائے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ فلاں بزرگ نے یہ کام کیا اور میں بھی ان کے ساتھ تھا ۔ فرمایا کہ آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر ذرا کسی کام سے کسی کا دامن چھوجائے تو اسے بلا شرکتِ غیرے اپنی طرف منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال یہ تھا کہ کوئی کام واقعتاً خود کیا ہو تو بھی اسے اپنے بجائے اپنے کسی بڑے کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش فرماتے تھے ‘‘۔

علمِ فقہ و فتویٰ 

      آپ رحمہ اللہ کو سب سے زیادہ مناسبت جس علم سے رہی وہ علمِ فقہ ہے ۔ اسی بنیاد پر آپ رحمہ اللہ کا لقب ’’مفتیٔ اعظم‘‘ زبان زدِ عام ہوا ۔ آپ رحمہ اللہ کی فقہ سے مناسبت اس وقت بہت بڑھ گئی جب آپ رحمہ اللہ کو دار العلوم دیوبند میں فتوے کی خدمت سونپی گئی ۔ آپ رحمہ اللہ نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ فتاویٰ تحریر فرمائے نیز فقہی تصانیف اور رسالے اس کے علاوہ ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ کے علمِ فقہ میں رسوخ کی ایک مثال ملاحظہ ہو : 

آپ رحمہ اللہ نے اوزانِ شرعیہ کے عنوان سے ایک رسالہ مرتب فرمایا جو محض ۳۲ صفحات کا ہے لیکن ان ۳۲ صفحات نے عہدِ حاضر کے اہلِ علم اور خاص طور پر اہلِ فتویٰ کے لیے جوسہولت میسر کردی ہے وہ بسا اوقات ضخیم تصانیف سے بھی حاصل نہیں ہوتی ۔اس رسالے کا موضوع یہ ہے کہ شریعت میں بہت سے احکام کا مدار خاص اوزان اور پیمانوں پر ہے، لیکن عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہ میں اور اس کے بعد فقہاء کے زمانے میں جو اوزان اور پیمانے صاع، مد، اوقیہ، رطل وغیرہ کے نام سے رائج تھے، وہ آج کے پیمانوں سے یکسر مختلف تھے ۔ ان پیمانوں کا موجودہ دور کے اوزان سے مقابلہ کر کے یہ بتانا ضروری تھا کہ صاع کتنے سیر کا ہوتا ہے اور موجودہ دور میں مد یا اوقیہ یا مثقال کا وزن کیا ہوگا ؟ اگرچہ اس سے پہلے بھی ہندوستان کے متعدد فقہاء نے اس بارے میں اپنی اپنی تحقیقات مرتب فرمائی تھیں، لیکن ان تحقیقات میں اختلاف چلا آتا تھا، خاص طور پر فرنگی محل کے علماء کی رائے دوسرے اہلِ علم سے مختلف تھی اور اس کی بنیاد حضرت مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی قدس سرہ جیسے وسیع النظر عالم کے فتاویٰ پر تھی ۔ اب اس اختلاف پر محاکمہ بڑا پیچیدہ اور مشکل کام تھا ۔ آنحضرت قدس سرہ نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے انتہائی محنت اٹھائی، ایک ایک پیمانے کا خود وزن کیا ۔ فقہاء نے درہم وغیرہ کا وزن جو کے دانوں سے مقرر کیا ہے اور اس کی خاص صفات تحریر کی ہیں، ان خاص صفات کے دانوں کو تلاش کر کے ان کا موجودہ اوزان کے ذریعے وزن کیا ۔ اس کے لیے خود جنگل جا جاکر اصلی رتیاں توڑیں اور ان سے حساب لگایا، یہاں تک کہ اختلاف کا اصل منشا پالیا۔ اس رسالے کی تالیف میں آپ رحمہ اللہ نے فقہ، طب اور لغت کی نادر و نایاب کتب سے بھی مدد لی اور ہر ایک وزن اور پیمانے کا بذاتِ خود عملی تجربہ بھی کیا اور تحقیق و تدقیق کا یہ بار خود برداشت کرکے آنے والوں کے لیے مسئلے کو بالکل واضح کرگئے ۔

      اسی طرح فتویٰ دیتے وقت چاہے کتنا ہی واضح مسئلہ کیوں نہ ہو آپ رحمہ اللہ عموماً کئی کئی کتب سے اس کی تصدیق فرماتے اور پھر فتویٰ دیتے۔ آپ رحمہ اللہ محض استفتا دیکھ کر جواب ارسال نہ فرماتے بلکہ اس سوال کے پس منظر کو دیکھتے اور اس فتوے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کی بھی رعایت کرتے، مثلاً : ایک مرتبہ سوال آیا کہ ’’ہماری مسجد کے امام صاحب فلاں فلاں آداب کا خیال نہیں رکھتے، آیا انھیں ایسا کرنا چاہیے یا نہیں‘‘ ؟ سوال کسی مقتدی کی طرف سے تھا جس کا منشا حق کی دعوت دینا نہیں بلکہ ان کی تحقیر اور ان کے خلافِ احتیاط امور کی تشہیر تھا، چنانچہ آپ رحمہ اللہ نےجواب تحریر فرمایا:’’یہ سوال تو خود امام صاحب کے پوچھنے کا ہے، ان سے کہیں کہ تحریراً یا زبانی معلوم کرلیں ‘‘۔ اسی طرح اگر عوام الناس کی طرف ایسا سوال موصول ہوتا جس کا بظاہر کوئی دینی و دنیاوی فائدہ نہ ہوتا، مثلاً : ’’حضرت خضر زندہ ہیں یا نہیں، عرش افضل ہے یا روضۂ اقدس، حضرت یوسف علیہ السلام کا زلیخا سے نکاح ہوا تھا یا نہیں؟‘‘ وغیرہ تو آپ رحمہ اللہ جواب میں یہ تحریر فرماتے :’’ان باتوں کے معلوم ہونے پر ایمان و عمل کا کوئی مسئلہ موقوف نہیں، اس میں وقت صَرف کرنے کے بجائے وہ کام کریں جو آخرت میں کام آئے ‘‘، اور کبھی محض یہ حدیث لکھ دیتے کہ ﴿من حسن إسلام المرء ترکه ما لا یعنیه﴾’’انسان کے اچھا مسلمان بننے کا ایک جزویہ بھی ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے ‘‘۔ 

ایک صاحب نے سوال بھیجا : ’’یزید کی مغفرت ہوگی یا نہیں ؟‘‘ آپ رحمہ اللہ نے جواب تحریر فرمایا : ’’یزید سے پہلے اپنی مغفرت کی فکر کرنی چاہیے ‘‘ ۔ اسی طرح ایک صاحب نے سوال بھیجا : ’’فلاں صاحب ان امور کی وجہ سے فاسق ہوگئے یا نہیں ؟‘‘ تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا :’’مجھے ابھی تک اپنے فسق کی طرف اطمینان نہیں ہوا، میں کسی دوسرے کے بارے میں کیا فیصلہ کروں‘‘۔ آپ رحمہ اللہ کی عادت تھی کہ ہر کام میں مشورہ ضرور فرماتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رحمہ اللہ کو مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی یہ نصیحت یاد تھی جو آپ رحمہ اللہ نے دوسروں کو بھی تلقین فرمائی :’’جب تک تمہارے ضابطے کے بڑے موجود ہوں ان سے استصواب کیے بغیر کوئی اہم کام نہ کرو اور جب ضابطے کے بڑے نہ رہیں تو اپنے معاصرین اور برابر کے لوگوں سے مشورہ کرو،اور جب وہ بھی نہ رہیں تو اپنے چھوٹوں سے مشورہ کرو ‘‘، ساتھ ہی حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی سناتے کہ ’’میں نے ضابطے کے بڑے اس لیے کہا کہ یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا ؟‘‘۔

آپ رحمہ اللہ کی فقہ میں ممارست کا عالم یہ تھا کہ علامہ زاہد کوثری رحمہ اللہ ایک مکتوب میں آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ طویل تجربے نے آپ کو صحیح معنوں میں ’’ فقیہ النفس ‘‘ کے مقام تک پہنچا دیا ہے ‘‘۔فقیہ النفس فقہاء کے یہاں ایک عظیم مقام ہے جس کی وضاحت حضرت تقی صاحب مد ظلہ نے ان الفاظ میں فرمائی:’’فقیہ النفس فقہاء کی ایک اصطلاح ہے، اس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فقہ میں کثرتِ ممارست کے بعد ایک ایسا ذوقِ سلیم عطا فرمادیا ہو جس کی روشنی میں وہ کتابوں کی مراجعت کے بغیر بھی صحیح نتیجے پر پہنچ سکتا ہو ‘‘۔

معقولات

      جس طرح آپ رحمہ اللہ کو منقولات پر دسترس تھی اسی طرح معقولات میں بھی درجۂ کمال حاصل تھا۔آپ رحمہ اللہ نے منطق، فلسفہ، کلام، ہیئت، ریاضی وغیرہ بھی پڑھائی، بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا تھا کہ آپ رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ میں معقولات کے ماہر کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ایک دفعہ دارالعلوم دیوبند کے ایک استاذ کو طلبہ نے ’’میر زاہد رسالے‘‘ کے درس میں سوالات کی بھرمار کر کے زِچ کردیا، کبھی استاذ سوالات کے اطمینان بخش جواب بھی نہ دے پاتے اور بحث و مباحثے کی نوبت آ جاتی ۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے یہ درس آپ رحمہ اللہ کے ذمے لگایا، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’ جب میں پہلے دن درس دینے کے لیے پہنچا تو میں نے طلبہ سے خطاب کر کے کہا، مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ حضرات کو معقولات میں بہت ملکہ ہے اور اس سلسلے میں آپ کے دل میں سوالات بہت پیدا ہوتے ہیں، اس لیے میں نے یہ طے کیا ہے کہ شروع میں ایک ہفتہ صرف سوال و جواب اور مذاکرے کے لیے رکھوں گا، اس ہفتے میں جس کسی کے دل میں کوئی سوال ہو وہ بلا تکلف بیان کردے اور جب تک اطمینان نہ ہوجائے، آگے نہ بڑھے، البتہ گفتگو کے دوران یہ بات ذہن میں رکھے کہ موضوعِ بحث معقولات ہیں لہٰذا گفتگو کی بنیاد خالص عقلی دلائل پر ہوگی اور محض اس بات کو دلیل نہیں سمجھا جائے گا کہ فلاں منطقی یا فلاں فلسفی نے یہ بات لکھی ہے بلکہ جو بات کہی جائے گی وہ عقلی دلائل کی بنیاد پر کہی جائے گی ‘‘۔اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن میں نے جو قید لگادی تھی کہ کسی منطقی یا فلسفی کے قول کو حجت کے طور پر پیش نہ کیا جائے، اس کی بنا پر طلبہ کی ترکی جلد ہی تمام ہوگئی اور ایک ہفتہ تو درکنار، ایک دو دن ہی میں سارے سوالات ختم ہوگئے اس کے بعد میں نے حسبِ معمول درس شروع کیا اور بفضلہ تعالیٰ طلبہ مطمئن ہوگئے‘‘ ۔

ادبی ذوق

آپ رحمہ اللہ کو زمانۂ طالبعلمی میں سب سے پہلے جس موضوع سے دلچسپی پیدا ہوئی وہ ادب تھا، آپ  نے ’’نفحۃ الیمن ‘‘کی تعلیم کے دوران ہی عربی شعر کہنے شروع کردیے تھے۔ آپ  نے تدریس کی ابتدا صرف و نحو سے کی، اسی دوران آپ  نے’’نفحۃ الیمن ‘‘ پر حاشیہ بھی تحریر کیا۔ سالہا سال آپ  نے ’’مقاماتِ حریری‘‘، ’’دیوانِ متنبی‘‘، ’’دیوان الحماسہ‘‘،اور ’’سبع المعلقات‘‘ کا درس دیا۔ آپ  کو عرب شعراکے اتنے اشعار یاد تھے کہ سننے والے حیرت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ آپ  نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر کہے اور آپ  کے بعض اشعار تو ایسے ہیں کہ جنھیں پڑھ کر منجھے ہوئے اور مشاق شاعر کا گمان ہوتا ہے حالانکہ آپ  نے کبھی شاعری کو مشغلہ نہیں بنایا، آپ  کی ایک عربی غزل پڑھ کر یمن کا ایک شاعر اس قدر متاثر ہوا کہ آپ  سے ملنے چلا آیا، اسی طرح آپ  نے ایک دفعہ مولانا ماہر ؔالقادری  کو اپنی فارسی غزلیں سنائیں تو وہ جھوم اٹھے، آپ  کے اشعار میں شوخی و ظرافت اور بے ساختگی بھی ہے اور وعظ و نصیحت کا سامان بھی، ایک طرحی مشاعرے میں آپ نے یہ غزل پڑھی جسے پڑھ کر بلا شبہہ کسی عربی شاعر کا گمان ہوتا ہے:

ترحّل عني الصبر یوم ترحّلوا
فبِتُّ بقلب في الحشا یتململُ
یقول نصیحي في ھواه توجعاً
’’تعزَّ فإن الصبر بالحُرِّ أجملُ‘‘
یُصبِّرني؟ والصبر عین شکیّتی
وما غالني في الحب إلا التجمّلُ

 (جس دن وہ مجھ سے رخصت ہوئے، اُسی دن مجھ سے صبر بھی رخصت ہوگیا، بس میں نے اس حال میں رات بسر کی کہ دل تڑپ تڑپ رہا تھا، میرا ناصح اپنے تئیں مجھے اِس تکلیف پر کہتا ہے کہ خاطر جمع رکھو کہ مردِِ حُر کے لیے صبر ہی خوب ہے، وہ مجھے صبر کی تلقین کرتا ہے؟ جبکہ صبر ہی تو اپنا روگ ہے اور مجھے عشق میں ہلاک نہیں کیا مگر حسن نے)۔

نیز یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

وہ بزم اب کہاں وہ طرب کا سماں کہاں
ساقی کہاں وہ جامِ مئے ارغواں کہاں
ڈھونڈیں ہم اب نقوشِ سبک رفتگاں کہاں
اب گردِ کارواں بھی نہیں کارواں کہاں

اور یہ اشعار :

لب پر دمِ اخیر ترا نام آگیا
رکتا ہوا یہ سانس بہت کام آگیا
بیمارِ عشق لے کے ترا نام سو گیا
مدت کے بے قرار کو آرام آگیا
آثار سارے صبح ِ قیامت کے ہوگئے
محفل میں آج کون سرِ شام آگیا

پھر ان اشعار کی بے ساختگی دیکھیے: 

اس قدر ہو گیا ہے خوگرِ غم
دل میں کوئی خوشی نہیں آتی
گدگدائے کوئی ہزار مگر
اب لبوں پر ہنسی نہیں آتی
تم بدلتے ہو روز قول و قرار
مجھ کو یہ دل لگی نہیں آتی
عمرِ رفتہ کا مرثیہ پڑھ لوں
اس سے بہتر حُدی نہیں آتی

اور ان اشعار کے تو کیا ہی کہنے :

رازِ ہستی جو پا گیا ہوں میں
سارے عالم پہ چھا گیا ہوں میں
حکَما جس کا راز پا نہ سکے
اس حقیقت کی ابتدا ہوں میں
میری ہستی کو سرسری مت جان
ڈور الجھی ہے اور سرا ہوں میں
آئینہ ہوں جمالِ مطلق کا
ایک جامِ جہاں نما ہوں میں

چند نصیحت آمیز اشعار ملاحظہ ہوں:

یہ دنیا اے عزیزو ایک جھولے کی سواری ہے
اترنا اور چڑھنا سب کا اس میں باری باری ہے
یہاں کی ہر خوشی ہر غم،ہر اک آفت ہر اک راحت
بصیرت سے اگر دیکھو تو امرِ اعتباری ہے
حقیقت حق نے ہر اک آنکھ والے کو دکھا دی ہے
کسی کا غم کسی کے واسطے پیغامِ شادی ہے

اسی طرح یہ نظم’’مقبرے کی آواز‘‘ بھی ہے جو انتہائی وعظ و نصیحت کا سامان ہے:

مقبرے میں اترنے والے سن
ٹھہر، ہم پر گذرنے والے سن
ہم بھی اک دن زمیں پہ چلتے تھے
باتوں باتوں میں ہم مچلتے تھے

اس نظم کا یہ ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے:

جن کو مر مر کے میں نے پالا تھا
جن کے گھر کا میں اک اجالا تھا
جن کے ہر کام کا مدار تھا میں
جن کی بگڑی کا سازگار تھا میں
دین و دنیا کی ساری مکروہات
جن کی خاطر تھی میرے سر دن رات
ہے کہاں آج وہ مری اولاد
جو نہیں کرتی بھول کر بھی یاد
جن پہ تھا کل مدار راحت کا
جس کو دعویٰ تھا کل محبت کا
جس کی الفت کا دل میں تھا اک داغ
کیا کسی گھر کا بن گئی وہ چراغ
آج وہ زینتِ حرم ہے کہاں
مہبطِ الفت و کرم ہے کہاں
کون آباد ہے مرے گھر میں
مِلک کس کی ہے نقد و زیور میں
کوئی کرتا نہیں ہے یاد مجھے
سب نے چھوڑا ہے نامراد مجھے

نظم کا اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے:

ہم ہر اک رہگزر کو تکتے ہیں
فاتحہ کے لیے ترستے ہیں
اے زمیں پر مچلنے والے دیکھ
کبر و نخوت سے چلنے والے دیکھ
وعظ ہے، قبر کا نشان میری
گرچہ خاموش ہے زبان میری
دل کے کانوں سے سن فغاں میری
درسِ عبرت ہے داستاں میری
جانے والے تو جاکے پھیلا دے
میری آواز سب کو پہنچا دے

 آخر میں ایک مرثیے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو آپ  نے مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر لکھے:

کون اٹھتا ہے آج عالم سے
پارہ پارہ ہے کیوں جگر غم سے
خون روتا ہے کیوں افق سرشام؟
سینہ شق ہے یہ کس کے ماتم سے
حادثہ یہ کوئی عظیم نہ ہو!
یہ کہیں رحلت نعیمؔ نہ ہو!

ذوقِ مطالعہ 

آپ کو کم سنی ہی سے مطالعے کا شوق تھا ۔ زمانۂ طالب علمی میں جب مدرسے میں کھانے اور آرام کا وقفہ ہوتا تو آپ کتب خانے کا رخ کرتے اور چونکہ یہ ناظمِ کتب خانہ کےبھی آرام کا وقت ہوتا تھا تو آپ نےاصرار کرکے انھیں اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ آپ کو کتب خانے میں چھوڑکر باہر سے تالا لگا دیا کریں ۔ آپ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو میری نظر سے نہ گزری ہو،اگر کسی کتاب کو پڑھانہیں تو اس کی ورق گردانی ضرور کی تھی یہاں تک کہ جب علوم و فنون کی ساری الماریاں ختم ہوگئیں تو میں نے اُن الما ریوں کا رخ کیا جنھیں کبھی کوئی شخص ہاتھ نہیں لگاتا تھا ۔ یہ ’’اشتات ‘‘ (متفرقات ) کی الماریاں تھیں اور جن کتابوں کو کسی خاص علم و فن سے وابستہ کرنا ناظمِ کتب خانہ کو مشکل معلوم ہوتا تھا، وہ اِن الماریوں میں رکھ دی جاتی تھیں ۔ یہ کتابیں چونکہ بے ترتیب تھیں اس لیے اِس جنگل میں داخل ہونا لوگ بے سود سمجھتے تھے کہ یہاں سے کوئی گوہرِ مطلوب حاصل کرنا تریاق از عراق سے کم نہ تھا، لیکن جب ساری الماریاں ختم ہوگئیں تو میں نے اشتات کے اس جنگل کو بھی کھنگالا اور اس کے نتیجے میں ایسی ایسی کتابوں تک میری رسائی ہوئی جو گوشۂ گمنامی میں ہونے کی بنا پر قابل ِاستفادہ نہ رہی تھیں‘‘۔آپ رحمہ اللہ کو اس ساری محنت سے یہ معلوم ہوگیا کہ کون سی کتاب کہاں رکھی ہے ۔ آپ فرماتے تھے کہ اگر ناظم صاحب کسی کتاب کی تلاش سے مایوس ہوجاتے تو مجھ سے پوچھا کرتے تھے ۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ فرماتے ہیں:’’ یوں تو آپ انتہائی کفایت شعار تھے لیکن کتابیں خریدنے کے معاملے میں کبھی انکار نہیں کیا ۔ جس زمانے میں کراچی میں کوئی اچھا کتب خانہ نہیں تھا تب بھی آپ رحمہ اللہ کے پاس ذاتی کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کو جب کبھی کسی مسئلے پر تحقیق کی ضرورت ہوتی تو وہ آپ کے مکان پر تشریف لے آتے ‘‘۔ آپ رحمہ اللہ کہیں جاتے اور کتنی ہی جلدی میں ہوتے لیکن کسی کتاب پر نظر پڑجاتی تو اسے دیکھے بغیر آگے نہ بڑھتے، آپ کی کتاب سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کسی دوسرے ملک یا شہر جاتے اور وہاں کوئی نادرکتاب دیکھ لیتے تو اپنے قلم سے خود اس کی نقل کر لیتے اور ایسا متعدد بار ہوا چنانچہ آپ  کے ذخیرۂ کتب میں اب بھی کئی ایسی نادرکتب موجود ہیں جو عام طور پر نظر نہیں آتیں‘‘ ۔

ذوقِ عبادت 

اگر چہ آپ رحمہ اللہ کا پورا دن انتہائی مصروف گزرتا تھا، سیاست، انتظامی بکھیڑے، وعظ، تقریر و تدریس، تصنیف و تالیف، خدمت ِخلق وغیرہ غرض فجر سے لے کر رات گئے تک ان امور میں مشغول رہتے تھے؛ پھر بھی تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، تلاوت، مناجاتِ مقبول اور دیگر اذکار کا معمول التزاماً پورا فرماتے تھے ۔ حضرت تقی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں : ’’نماز سے والد صاحب رحمہ اللہ کو خاص شغف تھا، اور جن لوگوں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہےانھیں یاد ہوگا کہ نماز کے دوران آپ پر عجز و نیاز، خشوع وخضوع اور خشیّت و انابت کی ایسی عجیب کیفیت طاری تھی جو شاذو نادر کہیں دیکھنے میں آتی ہے ‘‘۔ آپ نے خود ایک مکتوب میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے فرمایا: ’’آخر ِشب میں طولِ قیام اور طولِ سجود میں ایک خاص لذت پاتاہوں اور جس رکن کو شروع کرتا ہوں، جب تک تھک نہ جاؤں اس سے منتقل ہونے کو جی نہیں چاہتا ‘‘۔ حضرت تقی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ : ’’ہم سے ایک دفعہ یہ جملہ سن کر ’’ذرا نماز سے فارغ ہوجائیں تو پھروہ کام کریں گے ‘‘آپ رحمہ اللہ نےفرمایا : ’’ارے بھائی !نماز فارغ ہونے کی چیز نہیں ہے، اس سے فراغت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ دوسرے کاموں سے فارغ ہوکر نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ‘‘۔ اسی طرح تلاوت کا بھی خوب اہتمام فرماتے تھے جس کا ذکر علم تفسیر کے تحت گزرچکا ہے ۔ 

دعوت و تبلیغ 

دعوت و تبلیغ کے متعلق آپ رحمہ اللہ نے کچھ اصول متعین کر رکھے تھے اور دوسروں کو بھی انھی کی تلقین کرتے تھے ۔ آپ  کے نزدیک دعوت میں سب سے اہمیت اس بات کو حاصل تھی کہ امت کی فکر ہو، آپ  حضرت تھانوی رحمہ اللہ  کایہ قول نقل فرماتے تھے کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ  کو دعوت و تبلیغ کا ایسا تقاضا ہوتا تھا جیسا کھانے پینے کا،جس طرح ان چیزوں پر صبر نہیں کیا جاسکتا اسی طرح حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ بھی دعوت کے مواقع پر صبر نہیں کرسکتے تھے اسی لیے آپ کے وعظ میں خوب تاثیر ہوتی تھی ۔ 

پھر داعی کو دعوت کی لگن ہونی چاہیے کہ لگاتا ر دعوت کے کام میں جُٹا رہے ۔ اسی طرح مخاطَب پر شفقت کرے اور حکمت کے ساتھ دعوت کا کام کرے ۔ آپ  فرمایا کرتے تھے:’’جب داعیٔ حق کے دل میں جذبہ، للہیت اور لگن ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر حکمت القافرماتے ہیں اور اسے یہ اندازہ ہوجاتاہے کہ کون سی بات کہنے کے لیے کون ساموقع مناسب ہوگا‘‘ ۔

آپ  فرمایا کرتے تھے کہ کسی فرقے کی تردید کرتے وقت طنز اور طعن و تشنیع کا انداز نہ اپنایا جائے ۔ اس سے عام لوگوں کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن جس کا رد کیاجائے اس پر اثر نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر الٰہ آبادی کی نسبت علامہ اقبال کے کلام کا اثر بہت وسیع ہے ۔ داعیٔ حق کے متعلق آپ  فرماتے تھے کہ اسے نرم اور شفیق تو ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں کہ حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے میں مداہنت برتے، داعیٔ حق کی مثال آپ  نے یوں دی کہ : ’’داعیٔ حق کی مثال ریشم جیسی ہونی چاہیے کہ اس کو چھو کر دیکھ تو اتنا نرم و ملائم کہ ہاتھوں کو حظ نصیب ہو لیکن اگر کوئی اسے توڑنا چاہے تو اتنا سخت کہ تیز دھار بھی اس پر پھسل کررہ جائے ‘‘۔ 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق آپ  بہت حساس تھے، آپ  نے اس فریضے میں بھی حدود کی خوب رعایت کی، فرماتے تھے : ’’نکیر(ملامت ) ہمیشہ منکَر پر ہونی چاہیے، اور غیر منکَر پر نکیر کرنا خود منکَر ہے ۔ لہٰذا بعض لوگ جو مباحات پر یا محض آداب و مستحبات کے ترک پر نکیر کرنا شروع کردیتے ہیں، اُن کا طرزِ عمل درست نہیں، آداب و مستحبات کی تعلیم و تبلیغ تو کرنی چاہیے، ان کی ترغیب بھی دینی چاہیے، اگر کوئی شخص کسی مستحب کو چھوڑ دے تو اسے تنہائی میں نرمی سے متوجہ کرنے میں بھی مضائقہ نہیں، لیکن اس پر نکیر و ملامت کسی طرح جائز نہیں ‘‘۔

انفاق فی سبیل اللہ 

حضرت تقی صاحب مدظلہ فرماتےہیں کہ آپ رحمہ اللہ کو انفاق کا بڑاذوق تھا ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مواقع ڈھونڈتے تھے ۔ چنانچہ مصارفِ خیر کی جتنی صورتیں عام طور سے ہوتی ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو کہ جس میں آپ رحمہ اللہ نے خرچ نہ کیا ہو ۔ آپ  کا معمول تھا کہ جب کبھی رقم آتی تو اس میں سے مصارفِ خیر میں خرچ کے لیے کچھ رقم علیحدہ رکھ لیتے اور بوقت ضرورت اس میں سے انفاق کرتے، اسی مقصد سے آپ  نے ایک تھیلا ’’صدقات و مبرّات ‘‘ کا بنایا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ موٹر میں کہیں جارہے تھے، موٹر رکی تو ایک سائل آیا، آپ نے اسے کچھ رقم دی تو حضرت تقی صاحب دامت برکاتہ نے سوال کیا:’’ ایسے لوگ عموماََ مستحق نہیں ہوتے،کیا انھیں دینا چاہیے ؟ آپ  نے فرمایا :’’ہاں میاں ! بات تو ٹھیک ہے، لیکن یہ سوچو کہ اگر ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمار ے استحقاق ہی کی بنیاد پر ملنے لگے تو ہمارا کیا بننے گا‘‘؟ 

زہد

آپ رحمہ اللہ نے کبھی بھی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی منفعت کے ہاتھ سے نکل جانے پرحسرت نہ کی، ہمیشہ قناعت اختیار کی لیکن جو چیز آپ  کے پاس موجود رہی کبھی اُس کی ناقدری بھی نہ کی۔ اگر کوئی چیز گم ہوجاتی تو اجمالی طور پر اُس کی تلاش ضرور کرتے چاہے ایک پائی ہی کیوں نہ ہو اور فرماتے کہ بڑی ناقدری کی بات ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی اس عطا سے خود کو مستغنی سمجھ کر اسے تلاش نہ کرے۔1

 حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ فرماتے ہیں کہ جب آپ  دیوبند سے ہجرت فرما کر کراچی آئے تو آپ کےمعاشی حالات انتہائی خراب تھے۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ دیوبند سے چلتے وقت نقد رقم ساتھ لانا؛ ناممکن تھا چنانچہ آپ  کے پاس اُس وقت جو نقد رقم تھی اُسے ایک سنار کو دے کر سونے کا ایک گلوبند بنوا لیا تھا۔ کراچی میں جب حالات تنگ ہوئے تو آپ  اُس گلوبند کو سنار کے پاس لے گئے کہ اُسے فرخت کردیں، سنار نے جب گلوبند کو کسوٹی پر پرکھا تو کہا کہ یہ تو سونا ہے ہی نہیں اور جس سنار سے یہ گلوبندبنوایا گیا تھا اُس نے دھوکہ کر کے شاید پیتل پر سنہری پالش کردی تھی اور اُس کو سونے کا گلوبند کہہ کر بیچ دیا تھا، گویا جو رہی سہی پونجی تھی وہ اس طرح مٹی ہوگئی۔ ایسے سخت حالات میں آخری سہارے کا چھن جانا قیامت سے کم نہیں، کوئی اور ہوتا تو نجانے کیا کچھ فریاد کرتا لیکن حضرت تقی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اس واقعے کا ہنس ہنس کر ذکر فرمایا کرتے تھے۔

اسی طرح آپ رحمہ اللہ کے کئی سرکاری عہدے داروں سے مراسم تھے لیکن اُن سے مالی منفعت کا تعلق کبھی نہ رکھا، نہ ہی اُن کےپاس آنے جانے کا معمول تھا بلکہ کسی مدرسے کی تقریب میں ایک سرکاری شخصیت نے بھی آنا تھا، چنانچہ جب وہ صاحب آئے تو آپ مدرسے کے ایک کمرے میں جا کر سوگئے تا کہ اُن سے سامنا نہ ہو، بلاشبہہ آپ کی تربیت حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کا بڑا حصہ تھا کیونکہ حضرت حکیم الامت فرمایاکرتے تھے: ’’جی چاہتا ہے کہ علماء میں دو چیزیں بالکل نہ ہوں: ایک کبر اور ایک طمع،ان کی وجہ سے یہ بڑی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ علماء کو امراسے استغنا چاہیے، یہ لوگ ملانوں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اس حقیر سمجھنے کا زیادہ سبب یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ طامع ہوتے ہیں۔ اس سے علم اور اہلِ علم کی تحقیر ان کے دل میں مرکوز ہو جاتی ہے، علماء کو ہر وقت اس آیۂ قرآنی کا مراقبہ رکھنا چاہیے: ﴿وَلِلَّـهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ میں استغنا تو کیا، ذرا؛ استغناکی نقل کرتا ہوں مگر کم فہم لوگ مجھ کو ملامت کرتے ہیں کہ سخت ہے، میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں سخت نہیں ہوں ہاں قلب میں غیرت ضرور ہے۔2

تصانیف

حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کی تصانیف کی کل تعداد ۱۶۲ہے جن کا ذکرمفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہ نے یوں فرمایا ہے: 

تفسیر

 (۱)تفسیر معارف القرآن (۲) احکام القرآن (عربی ) از سورۂ شعراء تا سورۂ حجرا ت ۔

حدیث

(۳) تقریر ِترمذی  جو حضرت انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس میں قلمبند فرمائی (غیر مطبوعہ ) (۴) الازدیاد السني علی الیانع الجني (عربی ) اکابر علماےدیوبند کا سلسلۂ اسنادِحدیث (۵)مختصر چہلِ حدیث مترجم متعلقہ اخلاق و آداب (۶) چہلِ حدیث متعلقہ اسلامی معاشیات (غیرمطبوعہ ) (۷) چرخے کی فضیلت: متعلقہ احادیث کا مجموعہ ۔

فقہ

(۸)فتاوٰی دارالعلوم دیوبند (امدادالمفتین ) (۹) اسلام کا نظام اراضی (۱۰) آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام (۱۱)مسئلۂ سود (۱۲) آداب المساجد (۱۳)رفیقِ سفر، سفر سے متعلق شرعی احکام و آداب (۱۴) مسجد کے حدودِ کار اور آداب، یہ رسالہ مستقل تصنیف فرمایا تھا، بعد میں اسے معارف القرآن کا جزبنادیا (۱۵) شبِ براءت (۱۶)احکام القمار (۱۷) تصویر کے شرعی احکام (۱۸) بیمہ زندگی (۱۹) حیلۂ ناجزہ،یہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ اور والدِ ماجد کی مشترک تصنیف ہے (۲۰) نکاح طلاق،یہ بھی آپ نے بعد میں معارف القرآن کا جز بنادیا (۲۱)اعضاےانسانی کی پیوند کاری (۲۲)پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود (۲۳) ضبطِ ولادت کی شرعی حیثیت (۲۴) احکام ِحج (۲۵) قرآن میں نظامِ زکوٰۃ (۲۶)احکام ِدعا (۲۷ تا ۷۱ ) جواہرالفقہ،یہ آپ کے پینتالیس فقہی رسائل پر مشتمل ہے (۷۲ تا۸۹ ) وہ اٹھارہ رسائل جو فتاویٰ دارالعلوم ’’امدادالمفتین ‘‘ کا جز بن کر شائع ہو رہے ہیں (۹۰ تا ۹۶ ) وہ سات فقہی رسائل جو عربی زبان میں احکام القرآن کا جز بن کر شائع ہو چکے ہیں ۔

عقائد و کلام

(۹۷) ایمان و کفر قرآن کی روشنی میں (۹۸) مقامِ صحابہ رضی اللہ عنہم (۹۹) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں افضل کون ہے؟ (۱۰۰) ختم ِنبوت کامل (۱۰۱)التصریح بما تواتر في نز ول المسیح (عربی ) یہ کتاب حضرت مولانا سید انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ اور والد ماجد(مفتیٔ اعظم) رحمہ اللہ کی مشترکہ تالیف ہے (۱۰۲)هديةالمهدیین في آیات خاتم النبیین (عربی) (۱۰۳) مسیحِ موعود کی پہچان (۱۰۴) دعاوی مرزا (۱۰۵)ممالکِ اسلامیہ سے قادیانیوں کی غداری (۱۰۶)مشرقی او ر اسلام (۱۰۷) سنت و بدعت ۔ 

معیشت و سیاست

 (۱۰۸) اسلام کا نظامِ تقسیم دولت (۱۰۹) اسلامی نظام میں معاشی اصلاحات کیا ہوں گی؟ (۱۱۰) دستورِ قرآنی (۱۱۱)اسلامی  ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق (۱۱۲)ووٹ اور ووٹر کی شرعی حیثیت (۱۱۳) سرمایا داری، سو شلزم اور اسلام (۱۱۴)خطبۂ صدارت کل ہند جمعیتِ علماےاسلام کانفرنس منعقدہ حیدر آباد،سندھ، جنوری ۱۹۴۷ ء (۱۱۵) افاداتِ اشرفیہ در مسائلِ سیاسیہ (۱۱۶) جہادِ پاکستان ۱۹۶۵ ء (۱۱۷) حالیہ جنگ نے ہمیں کیا سبق دیے؟(۱۱۸) وحدتِ امت (۱۱۹)أخلاق أم شقاق؟ (عربی ) (۱۲۰) اسلام میں مشورے کی اہمیت (نامکمل )۔ 

 سیرت و تاریخ 

(۱۲۱) سیرتِ خاتم الانبیاء (آداب النبی ﷺ) (۱۲۳) شہادتِ کائنات، آنحضرت ﷺکی رسالت کی شہادتیں کائنات میں (۱۲۴) فتوح الہند (۱۲۵ ) شہیدِ کربلا (۱۲۶) ذوالنون مصری (۱۲۷) دو شہید (۱۲۸ ) درس ِعبرت۔ 

اصلاح وارشاد 

(۱۲۹) گناہ ِبے لذت (۱۳۰) گناہوں کا کفارہ (۱۳۱) بسم اللہ کے فضائل و مسائل (۱۳۲) روحِ تصوف (۱۳۳)دافع ُ الإفلاس (۱۳۴) مصیبت کے بعد راحت (۱۳۵) کید الشیطان، موت کے وقت مکرِ شیطانی اور بچاؤ کی تدبیریں (۱۳۶ ) رجوع إلی الله (۱۳۷) ذکر اللہ اور درود و سلام کے فضائل (۱۳۸) آداب الشیخ والمرید (۱۳۹) خلاصہ و تسہیل قصدالسبیل (۱۴۰) دل کی دنیا (۱۴۱) ملفوظات اما م مالک رحمہ اللہ (۱۴۲ ) ملفوظات امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (۱۴۳ ) پیغمبر امن و سلامت ﷺ (۱۴۴) مقدمہ حیاۃ المسلمین ۔

 تعلیم وتبلیغ

(۱۴۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، یہ کتاب ماہنامہ ’’القاسم‘‘دیوبند میں قسط وار شائع ہوئی (۱۴۶ ) قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم (۱۴۷) طلبہ کے نام دو اہم پیغام (۱۴۸) وصیت نامہ ۔

زبان وادب

 (۱۴۹) أصول اللغة، مقدمہ المنجد اردو (۱۵۰) کشکول، اردو فارسی کلام،نظم و نثر (۱۵۱) نفحات، عربی نظم و نثر کا مجموعہ (۱۵۲)تحفة الوطن شرح نفحة الیمن (عربی)۔

متفرقات

(۱۵۳) اسلام میں نظامِ مساجد (۱۵۴) میرے والدِ ماجد اور ان کے مجرب عملیات (۱۵۵) نقوش و تاثرات ۔ سفر نامہ دیوبند و تھانہ بھون (۱۵۶) مجالسِ حکیم الامت (۱۵۷)حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے آخری عمر کے ملفوظات جو خاتمة السوانح میں شائع ہوئے (۱۵۸ ) مکاتیب ِحکیم الامت (غیر مطبوعہ ) (۱۵۹) دارالعلوم دیوبند اور اس کا مزاج و مذاق (۱۶۰) تاریخ ِقربانی (۱۶۱) مقدمہ امدادالفتاویٰ (۱۶۲)مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (عزیز الفتاویٰ ) ۔3

وفات

آپ رحمہ اللہ کی وفات۱۱ شوال ۱۳۹۶ ھ بمطابق ۶ اکتوبر ۱۹۷۶ء کو کراچی میں ہوئی،4آپ کی نمازِ جنازہ حکیم الامت رحمہ اللہ کے خلیفہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمہ اللہ نے پڑھائی اور دارالعلوم میں ہی آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔5 آپ کی وفات پر متعدد علماےکرام نے آپ کی دینی خدمات پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا جن میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب، مولانا قاری محمد طیب صاحب، علامہ یوسف بنوری صاحب، ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب، مولانا منظور نعمانی صاحب، مولانا سرفراز خان صفدر صاحب، مولانا سلیم اللہ خان صاحب، مولانا یوسف لدھیانوی صاحب، مولانا سحبان محمود صاحب،مولانا عاشق الٰہی صاحب، شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب، مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب، شامل تھے۔ بہت سے علماے کرام رحمہم اللہ نے تعزیتی کلمات شائع کیے۔ مشہور شاعر اور ادیب جناب رئیسؔ امروہوی نے بھی ایک قطعہ کہا جس کے دو شعر ملاحظہ ہوں:

فقیہ و شارحِ قرآن و مفتیٔ اعظم
وہ جس کی ذات میں تھیں جلوہ گر تمام صفات
وہ ’’البلاغ‘‘ کا داعی وہ دعوت تبلیغ
رئؔیس آئینۂ علم وفضل جس کی ذات6

لیکن اس موقعے پر شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے اپنے جذبات کا اظہار سب سے مؤثر انداز میں کیا، ملاحظہ ہو:

کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج
کیوں چھائے ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج
کیا نخلِ تمنا کو مرے آگ لگی ہے؟
رہ رہ کے یہ سینے سے جو اٹھتا ہے دھواں آج
رفتارِ تنفس ہے کہ چلتے ہوئے آرے؟
کیوں جرعۂ زہراب ہے یہ شربتِ جاں آج
کیا حضرت والد کو قضا لے کے چلی ہے؟
اک قافلۂ نور ہے گردوں پہ رواں آج
ابا مرے جنت کے بسانے کو چلے ہیں
اے موت! ترا مرتبہ پہنچا ہے کہاں آج
یوں برق و شرر نے مرا پھونکا ہے نشیمن
باقی ہے کوئی شاخ، نہ تنکوں کا نشاں آج
اب زیست کا ہر مرحلہ نظروں میں کٹھن ہے
گردابِ بلا خیز ہے یہ نہرِ رواں آج
دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے
اور آنکھ ہے ظالم! کہ بس اک خشک کنواں آج
وہ والدِ مشفق، وہ مرے شیخِ مربی
کس دیس کی بستی میں ہیں آرام کناں آج
وہ چہرۂ پر نور کی تابندہ ضیائیں
صد حیف! کہ ہیں خاک کے تودے میں نہاں آج
وہ پھول چنا میرے گلستاں سے اجل نے
جس پھول کی خوشبو سے معطر ہے جہاں آج
وہ اسوۂ اسلاف کی رخشندہ علامت
اے خاک بتا! تو نے چھپائی ہے کہاں آج
وہ عظمتِ اسلام کا تابندہ ستارہ
توصیف سے جس کی مری عاجز ہے زباں آج
وہ مشعلِ ایمان، کہ بھٹکے ہوئے راہی
پاتے ہیں جسے دیکھ کے منزل کا نشاں آج
وہ معرفت و علم کا مہتابِ فروزاں
ہے چشمِ فلک! کون سی بدلی میں نہاں آج
وہ گنجِ گراں مایہ علومِ نبوی کا
عالم میں اسی فیض کے دریا ہیں رواں آج
وہ مفتیٔ اعظم، وہ معارف کا خزینہ
وہ جس کے فتاویٰ سے منور ہے جہاں آج
کس شان سے قرآں کے بکھیرے ہیں معارف
دنیا ہے کہ اک سلسلۂ کاہکشاں آج
وہ اشرف و محمود کا اک ذکر سراپا
وہ انور و شبیر کا انداز بیاں آج
وہ بے کس و مظلوم کی آہوں کا سہارا
کیا ہو گیا وہ مرہم ِ افسردہ دلاں آج
یہ مسندِ افتا ہے کہ ویران پڑی ہے
ہےدینی مدارس میں بس اک ہو کا سماں آج
اب کون بنے داروے غمِ ہاے زمانہ؟
کس کو ہے مسلماں کا غمِ سود و زیاں آج
اب کون ہے دنیا میں جو پوچھے گا تؔقی کو
کس فکر میں ہے، کیوں نہیں آیا، ہے کہاں آج7

علامتِ اہلِ حق

ان سطور کی تیاری میں حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کی سوانح پڑھنے کے ساتھ دیگر علماء کی حیاتِ مبارکہ کے مطالعے کی سعادت بھی نصیب ہوئی، اس مطالعے سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اور جس نکتے کو حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ نے اپنے ایک رسالے میں بھی درج کیا وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بیٹھنے سے اسلاف اور بزرگانِ دین کی محبت پیدا ہوتی ہو، ائمۂ امت سے تعلق بڑھتا ہو،وہی اہلِ حق ہیں، اور جن کی مجالست سے اسلاف سے دوری اور علماے حق سے بغض پیدا ہوتا ہو،ان سے اجتناب ہی میں خیر ہے، کیونکہ اگر یہ دولت چلی گئی تو گویا پورا دین ہی چلا گیا، پس ایسے لوگوں سے میل جول ختم کر دینا ہی مفید ہےجو دینی روایت سے کاٹیں اور اہل اللہ سے دور کریں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ ایک جملہ بکثرت فرماتے تھے کہ ’’طرق الوصول إلی الله بعدد أنفس الخلائق‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے اس قدر کثیر ہیں کہ جتنی مخلوقِ خدا کی سانسیں، اکابرکی سیرت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اہل اللہ کی صحبت معرفتِ الٰہی کے حصول کا موثر ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ صحبت ہی کل دین ہے تو بے جا نہ ہوگا، صحابہ رضی اللہ عنہم کادرجہ اگر سب سے بلند ہے تو اسی صحبت سے ہے جسے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اپنے نبیﷺ کی صحبت کے لیے منتخب فرمایا، اسی صحبت نے ان حضرات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، بقولِ شاعر:

خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

اور اسی حقیقت کو اکبر الہٰ آبادی نے یوں بیان کیا:

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ حق کی صحبت میسر فرمائے اور علماے اہلِ حق کے راستے پر چلنےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

حوالہ جات

[1]میرے والد۔میرے شیخ، مفتی محمد تقی عثمانی، مکتبہ معارف القرآن، جنوری ۲۰۰۹ء،

 ص:۸۵-۹۲/۷۷-۸۱/۴۰-۷۱/۳۵-۳۶/۱۶-۳۳/۱۲-۱۴/۹۵-۱۵۵

2 ماہنامہ البلاغ، جمادی الثانیۃ ۱۴۳۹ھ، ص:۱۳

3 حیاتِ مفتی اعظم رحمہ اللہ، مفتی محمد رفیع عثمانی،ادارۃ المعارف کراچی،مئی ۲۰۰۵ء،ص:۱۷۱

4 ماہنامہ البلاغ، مفتی اعظم رحمہ اللہ نمبر،ص:۳۱

5 //aalmiakhbar.com/archives/4224

6 ماہنامہ البلاغ، مفتی اعظم رحمہ اللہ نمبر،ص: ۱۲۲۴

7 ماہنامہ البلاغ، مفتی اعظم رحمہ اللہ نمبر،ص:۱۳

لرننگ پورٹل