لاگ ان
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
لاگ ان
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024

یہ مضمون استاذ گرامی ماہرِ لسانیات، اردو کے معروف ادیب، نقاد اور مزاح نگار جناب ڈاکٹر عبد الرؤف پاریکھ صاحب کے ایک مضمون کی تلخیص ہے(حماد احمد)

حال ہی میں راقم الحروف کو جامعہ میں اردو زبان کے آغاز اور ارتقا سے متعلق کورس پڑھانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اکثرطالبِ علم اردو کو لشکری زبان سمجھتے ہیں ۔ان کا استدلال تھا کہ ہم بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ اردو لشکری زبان ہے۔اردو زبان کے آغاز و ارتقاکے بارے میں آج تک جو مختلف نظریات پیش ہوئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ معروف و مقبول لیکن سب سے قابل توجہ نظریہ یہی ہے کہ اردو لشکری زبان ہے۔ اگرچہ ماہرینِ لسانیات نے یہ بات کوئی ایک صدی پہلے ثابت کردی تھی کہ اردو لشکری زبان نہیں ہے لیکن افسوس کہ آج بھی یہ نظریہ موجود ہے کہ اردو لشکری زبان ہے ۔اردو زبان کے آغاز اور ارتقا سے متعلق مباحث میں لشکری زبان کے نظریے کی تردید میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ چونکہ ہمارے ہاں طالب علموں کی نظر سے ایسا تحقیقی موادِ مطالعہ بالعموم نہیں گزرتا لہٰذا وہ ایسے فرسودہ نظریات کے اسیر رہتے ہیں۔ یہ سطور اپنے طالب علموں کی رہنمائی کی غرض سے لکھی جارہی ہیں ۔

لشکری زبان کا نظریہ ہے کیا؟

اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ ، جسے نظریہ نہیں قیاس آرائی کہنا چاہیے (۱)،کہتا ہے کہ اردو ایک کھچڑی یا ملواں زبان ہے اور یہ مغلوں کے عہد میں بیرونِ ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمانوں کی زبانوں(مثلاً عربی ، فارسی اور ترکی وغیرہ) کے الفاظ اور مقامی بولیوں کے سنسکرت الاصل یاہندی الاصل الفاظ سے مل کر بنی ہے۔ اس نظریے کو درست ماننے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ’’اردو‘‘ترکی زبان کا لفظ ہے اور اردو کے معنی ترکی میں لشکر یا فوجی چھاؤنی کے ہیں۔ چونکہ مغلوں کے لشکر میں مختلف زبانیں بولنے والے سپاہی شامل تھے اور وہ آپس میں گفتگو کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کرتے تھے جس میں ان تمام زبانوں کے الفاظ شامل تھے، اسی لیے اس زبان کا نام ’اردو‘ پڑ گیا۔

لشکری زبان کا نظریہ کیوں غلط ٹھہرتاہے؟

اردو کے لشکری زبان ہونے کا نظریہ پیش کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ دو یا زیادہ زبانوں کے ملنے سے کوئی نئی تیسری زبان وجود میں آسکتی ہے ۔ اس ضمن میں کام کے دواصول یاد رکھنے ضروری ہیں جو شوکت سبزواری نے مختلف مآخذات بالخصوص میکس ملر (Max Muller) سے اخذ کرکے پیش کیے ہیں :

۱ ۔ زبانوں کی تقسیم اور ان کے باہمی رشتوں کا تعین ان کی صرفی اور نحوی خصوصیات اور ساخت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں ذخیرۂ الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ (۲)

۲ ۔ دوسرے یہ کہ یہ خیال سراسر غلط اور لسانی بحثوں میں حقیقت سے بھٹکانے والا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ زبانوں کو جوڑ کر کوئی نئی تیسری زبان بنائی جاسکتی ہے۔ کوئی زبان آس پاس کی زبانوں اور بولیوں سے غذا حاصل کر کے اور ان کی فضا میں سانس لے کر توانائی تو حاصل کر سکتی ہے لیکن کسی زبان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی دوسری زبان سے مل کر ایک تیسری زبان بنا سکے۔ زبان دراصل ایک ایسی چیز ہے جو مسلسل ارتقا اور تغیر کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔(۳)

محض ذخیرۂ الفاظ کی بنیادپر کسی زبان کی اصل اور اس کے آغاز کا اندازہ لگانا اس لیے غلط ہے کہ الفاظ تو ایک زبان سے نکل کر دوسری زبان میں چلے جاتے ہیں اور دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ایسی ہو جس میں دوسری زبانوں کے کچھ نہ کچھ الفاظ نہ ہوں۔مثال کے طور پر انگریزی میں دنیا کی سو سے زائد زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔ لیکن کوئی نہیں کہتا کہ انگریزی کھچڑی زبان ہے کیونکہ زبانیں اس طرح نہیں بنا کرتیں ۔ ان کی تشکیل اور ارتقا میں صدیاں اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ اردو کی تشکیل میں بھی سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال لگے ہیں ۔ اگر باہمی رابطے سے نئی زبان بنا کرتی تو دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں جہاں مختصر رقبے میں کئی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس طرح کئی ملواں یا کھچڑی زبانیں دنیا میں ہوتیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ صرفی اور نحوی ساخت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ لفظیات بھی اہمیت رکھتی ہے، خاص کر بنیادی الفاظ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بنیادی الفاظ میں بعض مصادر (آنا، جاناوغیرہ)، اعداد (ایک ،دو ،تین وغیرہ) اور بنیادی رشتے (ماں، باپ، بھائی، بہن وغیرہ) ایک ہی خاندان کی زبانوں میں مماثلت رکھتے ہیں۱۸ اور ان سے اس زبان کے ڈھچر کا بہت کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ لشکری اردو کے نظریے کو درست ماننے والے امیر خسرو کو، جن کا انتقال  ۱۳۲۵ء میں ہوا ، اردو کا شاعر مانتے ہیں اور اردو کا آغاز مغلوں کے دور سے بھی مانتے ہیں حالانکہ مغل دور کا آغاز ۱۵۲۶ ء میں پانی پت کے میدان میں بابر کی کامیابی سے ہوتاہے۔ گویا ان کے خیال میں اردو کے آغاز اور اس کی ابتداسے بھی چند سو سال قبل امیر خسرو اردو میں شاعری فر ما رہے تھے۔یوں اردو کا آغاز مغل دور سے قبل کیوں نہ تسلیم کیا جائے؟ خود آزاد نے بھی ’’آبِ حیات‘‘ میں امیر خسرو کا احوال اور ان کی اردو شاعری کے نمونے دیے ہیں۔

اردو کا وجود بہت قدیم ہے لیکن ا س کا نام نیا ہے۔ اردوسے پہلے اس کے کئی نام تھے جو مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں مختلف تھے۔مثلاً ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی اور ریختی۔ بعض مغربی دانش وروں نے ا سے اِنڈوستان (Indostan) کا نام دیا ( اسی لیے اس کا نام ہندوستانی بھی پڑ گیا)اور بعض نے اسے مُور (Moor) یعنی مسلمانوں کی زبان کہا۔ (۴)  شمس الرحمٰن فاروقی یہ بات وزن رکھتی ہے :’’ہماری زبان کے نام کے طور پر لفظ’اردو‘ کا استعمال اٹھارھویں صدی عیسوی کے ربع آخرسے پہلے نہیں ملتا۔ زبان کے نام کے طور پر اس لفظ (اردو) کی زندگی غالباً ’زبانِ اردوے معلاے شاہجہاں آباد ‘ کی شکل میں شروع ہوئی اور اس سے مراد تھی’’ شاہجہاں آباد کے شہرِ معلی ؍ قلعۂ معلی؍ دربار معلی کی زبان‘‘۔ایسا لگتا ہے کہ شروع شروع میں اس فقرے سے ہماری اردو زبان نہیں بلکہ فارسی مراد لی جاتی تھی۔ مرورِ ایام کے ساتھ یہ فقرہ مختصر ہوکر زبانِ اردوے معلی، پھر زبانِ اردواور پھر اردو رہ گیا‘‘۔(۵)

شمس الرحمان فاروقی نے ایک او راہم بات یہ بھی بتائی ہے کہ پہلے لفظ ’’اردو‘‘ سے دہلی کا شہر مراد لیا جاتا تھا۔(۶)

گویا کسی زبان کے نام کی بنیاد پر اس کی تاریخ اور آغاز و ارتقأ کا فیصلہ کرنا نہایت گمراہ کن ہے۔

حواشی

۱۔ بیگ، مرزا خلیل احمد؛ اردو زبان کی تاریخ؛ ص: ۴۱، ۷۳۔

۲۔ سبزواری، شوکت؛ داستانِ زبانِ اردو؛ ص: ۲۵۔۲۹؛ سبزواری صاحب کے اخذکردہ ان اصولوں کی مرزا خلیل بیگ نے بھی نشان دہی کی ہے۔ دیکھیے: اردو زبان کی تاریخ، ص ۴۹۔۵۰؛ نیز گیان چند بھی ان کا ذکر کرتے ہیں؛ ملاحظہ ہو: لسانی مطالعے؛ص: ۶۸و بعدہٗ۔

۳۔ سبزواری، شوکت؛ داستانِ زبانِ اردو؛ ص: ۲۹۔

۴۔ فاروقی،شمس الرحمٰن ؛ اردو کاابتدائی زمانہ، ص ۱۲۔۱۳ نیزصدیقی، ابواللیث ، تاریخِ زبان و اد بِ اردو؛ ص: ۷۰۔۸۲

۵۔ اردو کا ابتدائی زمانہ؛ ص: ۱۶۔

۶۔ ایضاً؛ص:۱۸

لرننگ پورٹل