لاگ ان
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
لاگ ان
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024
پیر 27 شوال 1445 بہ مطابق 06 مئی 2024

کیا آپ جانتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے مدرسوں نے اپنے طلبہ کو کیا سکھایااور کیسے سکھایا ؟  طلبہ نے کس طرح کی کتابیں پڑھیں اور  ان کے نصاب میں کون سے مضامین پر زور دیا گیا تھا؟

عثمانی  نظامِ تعلیم کے اہم ترین عناصر میں سے ایک اس کی یونیورسٹیاں تھیں جنھیں مدرسہ کہا جاتا تھا۔ مدرسے اسلامی ثقافت اور تہذیب کے اہم ستون تھے۔ جنھوں نے صدیوں معاشرت و سلطنتِ اسلامی  کی  تشکیل   کیے رکھی۔عثمانی مدرسوں نے اس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے   مذہب، قانون، طب اور دوسرے شعبوں میں  تعلیم   کااہتمام کیا۔ حتی کہ   بیسویں صدی  میں تمام مشہور سائنسدان، فنکار اور سیاستدان، یہاں تک کہ حکمران  بھی  مدرسے کے تربیت یافتہ ہوا کرتے تھے۔

مدرسۂ نظامیہ

محققین مدرسۂ   نظامیہ بغداد  کو ’’اسلامی نشأۃ ثانیہ‘‘  کا ادارہ قرار  دیتے ہیں۔اسے عظیم سلجوق سلطنت کے وزیر ِ باتدبیر؛نظام الملک ابو علی حسن ابن علی الطوسی نے گیارہویں صدی میں قائم کیا تھا۔ نظام الملک  خود بھی اعلی علمی شخصیت تھے اور علم  و اہلِ علم کو محبوب رکھتے تھے۔ ان کی دینی خدمات کی وجہ سے علماے کرام نے انھیں ’’قوام الدین ‘‘ کا  لقب عطا کیا۔ نظام الملک  نے نیشا پور اور دوسرے شہروں کے  مدرسۂ نظامیہ کی طرز پر مدرسے قائم کیے۔    یہ مدارس اسلامی دنیا میں اعلی تعلیم کے منظم ادارے تھے۔یہاں تعلیم کا معیار اتنا اعلٰی تھا کہ ان کی شہرت ، یورپ حسرت سے سنا کرتا تھا۔اگرچہ منگول  حملوں نے    مدرسوں  کو بھی تباہ و تاراج  کیا   لیکن  بعد میں  عثمانی سلطنت کی سرپرستی  میں  ’’نظامیہ مدرسوں  ‘‘نے مسلمانوں کی دینی و علمی خدمت  جاری رکھی۔

چودہویں اور پندرہویں صدی میں ، انا طولیہ  سے مشرق کے علمی مراکز  سے  فیض یاب ہونے والےطالب علموں نے اسلامی ثقافتی ورثے سے  بہت سے ثمرات وآثار جمع کیے اور انھیں اپنے ساتھ لے جاتے رہے۔ یہ اسکالرز فارسی جامع العلوم عالم فخر الدین الرازی (۱۱۵۰-۱۲۱۰) کے اسکول سے وابستہ تھے ۔ شمس الدین الفناری سلطنت عثمانیہ میں اس اسکول کے پہلے نمائندے تھے۔ افواہ کی بات یہ ہے کہ جب الفناری کی وفات ہوئی ، تو اس نے دس ہزار جلدوں کی کتابوں کا ایک مجموعہ اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔الفناری کے بعد ، اس اسکول کے سرکردہ نمائندے ملا یگان (Mullah Yegan) ، سلطان محمود دوئم (جسے محمود فاتح بھی کہا جاتا ہے) کے دور میں مشہور اسکالرز میں سے ایک اور خدر بک (Khidr Bey) ، استنبول کے پہلے قاضی (ایک مسلم جج جو اسلامی فقہ کی ترجمانی اور اس کا انتظام کرتا ہے) تھے۔ان علماء و معلمین نے  کسی طے شدہ  لازمی نصاب کے مطابق تعلیم نہیں دی تھی۔اس کی  وجہ سے  سال بہ سال ، عثمانی مدرسوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کی فہرست درج کرنا مشکل ہے۔ ان   کے مدارس میں ، علماء و معلم براہ راست تعلیم کے اصولوں کا تعین کرتے اور اپنی مہارت کے شعبے میں ریفرنس کتابیں پڑھاتے تھے۔ جب طلبہ ایک خاص  علمی سطح پر پہنچ جاتے تھے تو انھیں  ایک اجازہ (اجازت نامہ ) جاری کیا جاتا تھا   جس کا مقصد  حاصل شدہ علم  کو آگے منتقل کرنے کی اجازت دینا تھا۔( جس  کا مقصد پہلے سے ہی اختیار رکھنے والے کے ذریعے دیا ہوا کچھ خاص علم منتقل کرنا تھا)۔

اساتذہ کے لکھے ہوئے ان اجازات میں یہ معلومات شامل ہوتی  تھیں کہ طالب علم نے  کون  سے علوم حاصل کیے ہیں  اور اس ضمن میں کون سی کتابیں پڑھی ہیں  اور آگے وہ کون  سی   کتابیں اور علوم   پڑھا سکتا ہے۔ عثمانی مدرسوں کے جاری کردہ بیشتر اجازات علماے کرام کے ایک سلسلۂ سند  کو امام فخر الدین الرازی تک پہنچتے ہوئے دکھاتے ہیں۔

یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کون سی کتابیں مدرسے کے طلبہ کی تربیت  میں استعمال ہوتی تھیں، ہمیں کئی طریقوں سے    تحقیق کرنی پڑتی تھی۔ تاریخ کی کتابیں اور علماء کی سوانح  ہمیں کچھ رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ گلیبولولو مصطفی علی (۱۵۴۱۔۱۶۰۰) ، ایک عثمانی مؤرخ اور  مصنف  ہیں جن کی کتابوں میں سلطان محمود فاتح کے دور سے پڑھائی جانے والی کتابوں کی پہلی تفصیلی فہرست  میسر ہوتی ہے۔ اس وقت کے رئیس الکتاب (اس وقت کے وزیر خارجہ کے مساوی) مصطفی آفندی کی سربراہی میں ایک کمیٹی کے ذریعے تحریر کردہ ’’الکواکب السبعة ‘‘ (سات ستارے) ، یہ پہلا مطالعہ ہے جو پڑھائی گئیں کتابوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ یہ کتاب مارکوئس ڈی ویلینیو (Marquis de Villeneuve)کی درخواست پر تیار کی گئی تھی ، جو استنبول میں فرانسیسی سفیر تھے۔ایک اور اشارہ مدارس  کے کتب خانوں کی فہرستوں سے ملتا  ہے۔ فوت شدہ  اساتذہ اور طلبہ کی جائداد کے تعین کے لیے رکھے گئے ’’ٹیرک‘‘ (ورثے کے ریکارڈ)، بھی اس امر پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ان ریکارڈوں کی جانچ کرنے والے ادبی مؤرخ پروفیسر اسماعیل ایرانسل نے ان عام کتابوں کی فہرستیں شائع کی ہیں جواہل مدارس میں متداول تھیں۔دستیاب شواہد پر نظر ڈالنے سے  پتہ چلتا ہے کہ مدرسے کے طلبہ پہلے قرآن مجید پڑھتے اور حفظ کرتے تھے۔ عربی اور اس کے ادبی فنون کے علم کو عثمانی دانشور ایک لازمی امر  سمجھتےتھے۔ خیال کیا جاتا تھا کہ قرآن سیکھنے سے اس کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ایک لحاظ سےعربی اسلامی دنیا کی مشترکہ تعلیمی زبان تھی۔ مدارس میں عام طور پر پڑھائی جانے والی کتابوں میں  عربی گرامر کی کتابیں اور  لغات  پائی گئیں۔ ایسے  علماے کرام  جو کبھی بھی کسی عرب ملک نہیں گئے تھے ، ان کے پاس عربی گرامر کی کتابیں تھیں۔ عالمِ دین اور ماہرِ  اخلاقیات محمد برکوی(Muhammad Birgivi)، کی کتابیں ’’اظہار‘‘ اور ’’عوامل‘‘صدیوں سے مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں   جن میں  انھوں نے عربی سیکھنے کا آسان طریقہ فراہم کیا تھا۔تعلیم کے دورانیے کے علاوہ  برگیوی نے عثمانی سلطنت میں ازمیر(Izmir)کے قریب برگی(Birgi)شہر کبھی نہیں چھوڑا جہاں وہ ایک عالم کی حیثیت سے کام کرتے  تھے۔ تاہم ، انھوں نے متعدد شعبوں میں جو کتابیں لکھیں وہ سلطنت  میں عام رائج تھیں۔ ان کی کتاب ’’وسائیت نام‘‘ (Vasiyetname)ایک مشہور و معروف  دینی کتاب تھی جس نے نہ صرف طلبہ بلکہ پوری عوام کو اپنی گرفت میں لے  رکھا تھا۔

عربی گرامر کی کتابوں کی تعلیم کے بعد مدارس میں طریقۂ کار سے متعلق کتابیں پڑھی گئیں ، کیونکہ مناسب طریقہ ٔ کار کے بغیر اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ فلکیات ، جیومیٹری اور کیلکولوس سے متعلق کتابیں بھی تدریسی سوچ کو بڑھانے کے لیے پڑھائی گئیں۔طلبہ کی تدریسی سوچ کی مہارت کے لیے منطق پر مبنی کتابیں ضروری تھیں۔ سیریاک(Syriac)(فلسفی پورفیری(Porphyry)کی کتاب’’آئسگوج‘‘(Isagoge)قرونِ وسطی میں فلسفے پر ایک معیاری درسی کتاب، لاطینی اور عربی تراجم کے ساتھ، ان میں سے ایک تھی۔

کسی طالب علم کو   کسی فن کا   ایک مرجع اور  اہم  بنیادی کتاب(Reference book) پڑھا دینا  ، ا فرد کے فارغ التحصیل ہونے کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا ، جس کے بعد طالب علم اپنے آپ کو اس شعبے میں ازخود بہتر بناتے تھے جس میں انھوں نے مہارت حاصل کرنی ہوتی تھی۔ اگر طالب علم کو کبھی بھی کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ جانتے تھے کہ متعلقہ معلومات کہاں سے ملنی ہیں۔پروفیسر ایرانسل نے دانشوروں کے ’’ٹیرک‘‘(Tereke)ریکارڈ میں دو بنیادی کتابیں پائیں: پہلی کتاب فقیہ ابراہیم الحلبی کا سب سے مشہور کام ، ’’ملتقی الابحر‘‘ (سمندروں کا سنگم) تھی ، جو ۱۵۱۷ میں لکھی گئی تھی۔ یہ کام حنفی مسلک کی پہلے کی متعدد معیاری تالیفوں کی ایک کشش ہے۔ کتاب کے اثر و رسوخ کا ذکر کرتے ہوئے، سفارتکار اور مصنف جیمس لیوس فارلی(James Lewis Farley) نے کہا: ’’سلطان ترکوں پر حکومت کرتا ہے ، اور قرآن اور ملتقی سلطان پر حکمرانی کرتے ہیں۔ دوسری کتاب اسلامی قانون کے عنوان پر ’’ ڈیرلِل الحکام‘‘ (Pearls from Provisions)سلطان محمود فاتح کے سرپرست ملا حصریف(Mullah Husrev) نے لکھی تھی۔

مدرسوں نے   ادب میں  بنیادی طور پرشاعری  کے دیوان پڑھائے۔ اس  میں طلبہ کے لیے زبان و ادب کے علاوہ  گہری اور تھکن آور  پڑھائی  کے دوران آرام  و سکون کا   موقع ہوتا ہے۔تدریس کے وقفوں  اور  شام کے اوقات   میں طلبہ ادب پر گفتگو کرتے ،شاعری  اور بیت بازی کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔ایک طالب علم  ایک شعر  پڑھتا،مقابلہ کرنے والے دوسرے  طالب علم   کو اُس شعر کے آخری  حرف سے شروع ہونے والا کوئی شعر پڑھنا  ہوتا تھا، جس کا جواب پہلے طالب علم کو اسی  طریقے سے دینا پڑتا تھا،  اس طرح  یہ سلسلہ آگے بڑھتا۔اس طریقے  سے انھوں نے اپنی  یادداشت کی مہارت کو پرکھااور اس میں  اضافہ    کیا۔ برابری  کی صورت میں ، شاعر کو اپنے مخالف کے آخری لفظ کا آخری حرف استعمال کرنا پڑتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ مقابلوں میں ہزاروں جوڑے سنائے گئے تھے۔

ریکارڈز کے مطابق ، سعدی شیرازی کی کتابیں جنھیں ’’بوستان‘‘اور’’گلستان‘‘کہا جاتا ہے عام طور پر پڑھائی جاتی تھیں۔ عبد الرحمن جامی کا دیوان اور تیرہویں صدی کے صوفی مولانا  جلال الدین رومی کی مثنوی ادبی فن پاروں میں شامل ہیں۔

حوالہ جات

https://www.dailysabah.com/arts/books-syllabuses-ijazah-a-look-into-the-educational-system-in-ottoman-madrassas/news

لرننگ پورٹل