لاگ ان
منگل 28 شوال 1445 بہ مطابق 07 مئی 2024
لاگ ان
منگل 28 شوال 1445 بہ مطابق 07 مئی 2024
لاگ ان / رجسٹر
منگل 28 شوال 1445 بہ مطابق 07 مئی 2024
منگل 28 شوال 1445 بہ مطابق 07 مئی 2024

یا باغيَ الخیر …

نبی کریم ﷺ رمضان کی آمد سے دو مہینے اور بعض اسلاف چھے مہینے پہلے ہی سے اسے پالینے کے لیے دعا مانگنا شروع کر دیتے تھے۔اس لیے کہ یہ خاص مہینا ہے، جسے  شهرالله کہا گیا جس میں اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک یعنی صیام کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔اللہ کی رحمت اور جنت کے دروازے اس میں کشادہ کیے جاتے ہیں اور دوزخ کے کواڑ بند کردیے جاتے ہیں ، شیاطینِ سرکش کو پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے جس میں﴿يَابَاغِيَالْخَيْرِ أَقْبِلْ﴾’’ اے خیر کے طالب ، آگے بڑھ آگے بڑھ ہمت کر‘‘ کی صدا لگائی جاتی ہے۔یہ برکت و بڑھوتر ی کا مہینا ہے، چنانچہ نیکیوں کا اجر بڑھا دیا گیا ۔ نفل کا مول فرض کے برابر لگا ہے اور ایک فرض کی قدر ستر تک جا پہنچی ہے۔ عمرے کی قیمت ، حج کو چھو رہی ہے اور ایک تسبیح ، ستر کے برابر جا پہنچی ہے۔رمضان کی برکت صرف اجر ہی میں نہیں ہے بلکہ عمل میں بھی ہے یعنی رمضان میں جتنی عبادت آسانی سے کر لی جاتی ہے غیر رمضان میں اُتنی عبادت مشکل سے بھی نہیں کی جا سکتی ۔

روزے کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی طرف نسبت دی :﴿الصَّوْمُ لِي﴾’’روزہ خاص میرے لیے ہے ‘‘ بقول ملا علی القاری علیہ الرحمہ یہ اس لیے ہے کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی صفت صمدانیت کے مشابہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لیے اکل و شرب کی احتیاج سے بری ہے تو انسان جزوی طور پر اس صفت کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے اللہ کے لیے اپنی حاجات و شہوات کو ترک کرتا ہے ۔جب انسان اللہ کے لیے یہ سب چھوڑ دیتا ہے تو اس کے بدلے میں اسے ایسا خاص قرب خداوندی عطا کیا جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنے رب ہی کو پا لیا ہو ۔ تو پھر اسے ﴿أَنَا أَجْزِي بِهِ﴾ کی بشارت دی جاتی ہے۔ اب اس کے لیے کئی خوشیاں ہیں، روزانہ افطار کی خوشی ، ماہِ مبارک کے خاتمے پر عید کی خوشی اور سب سے بڑی وہ خوشی جو اپنے رب سے ملاقات پر اسے دی جائے گی ۔ جب  میدانِ حشر کی پیاس کو بابِ ریا ن کی طراوت سےدور کیا جائےگا۔

اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کا ایک حصہ اپنی رحمت کے نزول ، ایک حصہ اپنی مغفرت کے وفور اور ایک حصہ دوزخ سے نفور کے لیے خاص کیا ہے ۔ رمضان کے حقوق کی ادائی میں کچھ کوتاہی کر لے تو لیلۃ القدر عطا کی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں روحانی تقویت کے لیے فرشتے ، روح الامین کی سرکردگی میں اترتے ہیں ۔ 

رمضان ، قرآن کا مہینا ہے ۔ قرآن کریم کی لوح محفوظ سے سماے دنیا پر منتقلی،اور پھر نبی کریم ﷺ پر اس کے نزول کی ابتدا، اسی مہینے میں ہوئی ۔ اسی مہینے میں ہر شب رسولِ بشر اور رسولِ ملک علیہما السلام ملاقات کرتے ، روح الامین کی برکات قلب سلیم میں منتقل ہوتیں اور باہم قرآن کریم کا دور مکمل کیا جاتا۔ حضور علیہ السلام کی رفیق ِ اعلیٰ کی طرف مراجعت والے سال دو مرتبہ یہ دورۂ قرآنی مکمل کیا گیا۔ آپ ﷺ نے چند بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ سماعت قرآن کا شرف بخش کر ، اشارہ فرما دیا تھا کہ میں اب یہ امانت تمہارے سپرد کر کے جا رہا ہوں اس کی حفاظت کا طریق یہی ہے اس کو لازم پکڑ لو ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منشاے نبوت کے عین مطابق تراویح اور سماعتِ قرآنی کی سنتِ موکدہ کو جاری رکھا اور اللہ کے فضل و کرم سے آج تک یہ تسلسل جاری ہے اور صبحِ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جس نے ایمان اور احتساب (خلوص و اخلاص ) کے ساتھ رمضان کی راتوں کا قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘ ۔

لشکرِ بولہب کی ستیزہ کاری میں انسان کے لیے ڈھال روزے کو قرار دیا گیا اور ماہ رمضان کو شہر صبر قرار دیا گیا جس کا بدلہ جنت اور اجر بے حساب ہے۔ صبر بھوک پیاس کی مشقت اور دیگر حظوظ نفس بھی ہے حتی کہ غیظ نفس پر بھی کوئی آمادہ ٔ پیکار ہو تو بھی جواب میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ میں تو روزے سے ہوں، میں تو روزے سے ہوں۔

روحِ انسانی کی عظمت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے رب نے اسے اپنی طرف نسبت دی تو وہ روحِ ربانی کہلائی ، یہ نیکی ، آخرت اور اللہ کی طرف بہت رغبت رکھتی ہے ۔ اس کے معاون کے طور پر فرشتے ہیں جن کی پشت پناہی روح الامین اور اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے دونوں پہلؤوں کے درمیان ’ نفس ‘ کو بٹھایا گیا ۔اس سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں ، یہ دنیا ، شہوت و شہوات کی طرف شوق اور نیکی کی طرف سے روک رکھتا ہے ۔ یہ شیاطین سے ساز باز کر کے ان کے لشکروں کو ہم پہ لا چڑھاتا ہے۔ اگر ہماری روح مضبوط و توانا رہے تو شیطانی حملوں کو پسپا کر کے نیکی کے میدانوں میں سیر کرتی ہے۔ اور اگر روح کےمقابلے میں ہمارا نفس طاقتور ہو جائے تو اب اسے سرکشی ، امارگی و انارکی سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ اب ان دونوں کی قوت و ضعف کا تعلق ان کی خوراک و غذا پر ہے تو روحِ ربانی کی غذا وحی ربانی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے :﴿قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا﴾’’ آپ فرما دیجیے کہ اس (قرآن )کو روح مقدّس آپ کے رب کی طرف سے لایا ہے تاکہ وہ اہل ایمان کو ثبت و ثبات عطا کرے‘‘(نحل:۱۰۲) اسی وحی کو﴿رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا﴾ بھی کہا گیا اور فرمایا کہ ﴿جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا﴾ تو جب بندہ اس روشنی کی چکا چوند میں آتا ہے تو اس کے مادی ظلمتیں پاش پاش ہو جاتی ہیں، پھر صراط مستقیم اسے دِکھنے لگتی ہے اور کتاب و ایمان کے عقدے اس پر کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور روح ، الروح کی روحانیت اور نورانیت سے سرشار ہو جاتی ہے۔

 نفس کی لپک و رغبت اسفل سافلین کی طرف ہے اور اس کی تمام تر خوراک بھی مادی اور سِفلی ہے۔ لذت ِ کام و دہن کے سوا ، اسے کسی سے سرو کار نہیں ہے ۔ ان چیزوں کو پا کر یہ پھو لتا اور پھیلتا ہے ۔سَمِّنْ كَلْبَك يأْكُلْك’’ اپنے کتنے کو کھلا پلا کر موٹا کرو کہ تمہی کو کاٹ کھائے‘‘ کے مصداق یہ ’ زرد کتا ‘ روحانی وجود کی روحانیت کے آڑے آ کر برائی کا حکم دینے لگتا ہے۔ روزہ انسانی نفس میں دخل ِ شیطانی کے راستوں پر پہرے ہی کا نام ہے ۔ دن بھر کی بھوک پیاس اور دیگر جائز نفسانی تقاضوں پہ رکاوٹیں لگائے رکھنا ، سحر خیزی اور شب بیداری کا مجاہدہ ، نفس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ روح کی بیداری و مضبوطی اور نفس کی کمزوری و شکستگی کے نتیجے ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾کی منزل ہاتھ آئے گی۔

رمضان کو باہمی ہمدردی کا مہینا بھی قرار دیا گیا کہ سال بھر ، رچتا پچتا کھانے والا بھوک پیاس کے مراحل سے جب گزرتا ہے تو اسے بھوکوں پیاسوں کے درد کا کچھ احساس ہوتا ہے۔انسان روزہ شروع کرنے سے پہلے اپنی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کھاتا پیتا ہے لیکن اسے سنت اور بابرکت کھانا قرار دیا گیا۔ ان لوگوں کو خدائی رحمتوں کا حقدار اور فرشتوں کے استغفار کا مستحق ٹھہرایا گیا ۔

جنت کو سال بہ سال سجا کر اپنے باسیوں کے قابل بنایا جاتا ہے اور یہ ماہ سجاوٹ بھی رمضان ہی ہوتا ہے ۔ جنت کی سجاوٹ و آرائش سے ، حجلۂ بہشتی کی دلہنیں یعنی حوریں بھی متاثر ہوئی بغیر نہیں رہ سکتیں، اور وہ اللہ کی جناب میں یوں دعا گو ہوتی ہیں :’’ اے ہمارے رب اس مہینے کی برکت سے ہمیں اپنے نیک بندوں میں سے خاوند عطا کر دے جن کو دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ ہمارے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کریں ‘‘۔

روزے اور رمضان کی برکات کے حصول کی دو لازمی شرطیں ’ آداب و معمولات ‘ ہیں ۔ آداب سے شروع کرتے ہیں تومعروف بات ہے کہ صرف کھانےاور پینے سے رکنے کا نہیں بلکہ فضولیات اور بےہودہ کاموں سے رکنے کا نام روزہ ہے۔ حدیث میں آتا ہےکہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانا اور اس کی حدود و آداب کی محافظت کی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔جابر بن عبد اللہ رضی اللہ نے فرمایا کہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سمع وبصر اور زبان کو محارم سے روزہ رکھو ا ، پڑوسی کو تکلیف دینے سے اجتناب کر اور شور شرابہ سے الگ ہو کر سکینت اور وقار کا راستہ اخیتار کر ، تو روزے کے آداب کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بعض روزے داروں کو روزے سے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

رمضان کے معمولات کی طرف آئیں تو سب سے اہم چیز تعلّق مع القرآن ہے ۔ اس ضمن میں تراویح سے آگے بڑھ کرتلاوت قرآن کا خاص اہتمام کرنا چاہیے ۔ اسلاف کا رمضان میں تلاوت قرآن کا شوق دیدنی ہوتا تھا۔جب رمضان شروع ہوتا تو امام مالک علیہ الرحمہ تمام کام چھوڑ کر تلاوت قرآن کی طرف متوجہ رہتے اور حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمہ بھی ایسا ہی کیا کرتے ۔ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ رمضان میں ساٹھ ، دور مکمل کیا کرتے تھے۔ امام بخاری علیہ الرحمہ رمضان میں ہر دن ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ بعض لوگ قرآن کریم کی درس و تدریس کی جانب متوجہ ہوتے ۔ حضرت قتادہ علیہ الرحمہ رمضان میں قرآن کریم کی درس و تدریس کا خاص اہتمام کیا کرتے۔ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جب بصرہ کے امیر تھے تو وہ لوگوں کو جمع کرتے اور انھیں فقہ کی تعلیم دیا کرتے ۔بعض سلف رمضان کریم میں حدیث شریف سے لو لگاتے۔شیخ حسن بن محمد الشافعی علیہ الرحمہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ ہر سال رمضان میں صحیح بخاری کا حفظ برقرار رکھنے کے لیے اس کا ختم کرتے تھے۔

نبی کریم ﷺ کی سخاوت رمضان میں اپنے عروج پہ ہوا کرتی تھی، لہذا نفلی صدقہ و خیرات کا رمضان میں بہت اہتمام کرنا چاہیے ۔اس لیے کہ اس ماہ میں نفل کا اجر فرض کے برابر دیا جاتا ہے اور کسی روزے دار کو افطار کرانے پر ، روزہ رکھنے والے کے برابر اجر دیا جاتا ہے چاہے یہ افطار ایک گھونٹ پانی یا لسی پہ کیوں نہ ہو اور رہی یہ بات کہ کوئی کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اسے دوزخ سے نجات کی بشارت دی گئی ہے ۔ امام ابن شہاب زہری علیہ الرحمہ رمضان میں لوگوں کو کھانا کھلانے کا بہت اہتمام کیا کرتے تھے ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہر شام کسی مسکین کو افطار کرایا کرتے تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجد میں کھانا رکھوا دیا کرتے کہ یہ عبادت میں مشغول لوگوں کی سہولت کے لیے ہے۔امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے استاد حماد بن ابی سلیمان علیہ الرحمہ ہر شام پچاس بندوں کو افطار کرایا کرتے اور جب عید الفطر کی(یعنی چاند) رات ہوتی تو ہر ایک کو ایک کپڑوں کا جوڑا بھی عنایت کرتے۔

رمضان کا ایک اہم کام ذکرُ اللہ میں محنت کرنا ہے اس لیے کہ ذکر کی برکت سے روزے کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے اور  روزے کی برکت سے خود ذکر کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔رمضان کا ایک اہم کام دعا ہے اس لیے کہ رمضان میں افطار اور سحر کے علاوہ حالت روزہ میں بھی دعائیں خاص طور پر قبول کی جاتی ہیں ۔اسی طرح ختم قرآن کے موقع پر بھی دعا کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے ۔ایک حدیث میں رمضان مبارک میں چار کاموں کی ترغیب وارد ہوئی ہے کلمہ طیبہ لا الہ الا الله کا ورد اور استغفار کا اہتمام ، جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ مانگنا ، تو ان امور کا اہتمام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔رمضان کے آخری عشرے میں نبی اکرم ﷺ ، رمضان کے ابتدائی دنوں سے زیادہ محنت کیا کرتے تھے۔آپ ﷺ آخری عشرے کی راتوں کو زندہ رکھتے اور تمام اہلِ خانہ کو بھی جگایا کرتے تھے ۔ان دنوں میں اعتکاف کرنا اور لیلۃ القدر کو تلاش کرنا بھی ایک اہم کام ہے۔یہ ہے رمضان کی جان توڑ محنت جس کے بعد جب رمضان کی آخری رات آتی ہے تو مسلمانوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور انھیں یہ اصول بتایا جاتا ہے:العامل إنما يوفى أجره إذا قضى عمله ’’مزدوری کرنے والا جب کام ختم کر لے تو اس کو اجر دیا جاتا ہے‘‘پھر جب وہ عید گاہ کی طرف چلتے ہیں تو مغفورالهم کی سند سے انھیں نوازا جاتا ہے ۔ بقولِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ: فرشتے راستوں میں کھڑے ہو کر ایسی آواز لگاتے ہیں جنھیں جن و انس کے سوا سب سنتے ہیں: ’’اے امّتِ محمد چلو۔۔۔ چلو اپنے رب کریم کی بارگاہ میں جو تمھیں اجرِ جزیل اور مغفرتِ عظیم سے نوازے گا ۔

 دعا ہے کہ اللہ ہمیں رمضان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس بد دعا کا مستحق ہونے سے بچائے کہ جو جبریل علیہ السلام نے کی اور اس پر آمین رسول اللہ ﷺ نے فرمائی کہ دوری اور بربادی ہو اس کے لیے جو رمضان پائے اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کر سکے‘‘۔

لرننگ پورٹل