لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024
جمعرات 16 شوال 1445 بہ مطابق 25 اپریل 2024

ہر طرف سفید لباس میں ملبوس، عمامے باندھے، ٹوپیاں سروں پر جمائے، ہاتھوں میں مصلے لیے محوِ گفتگو یہ نوجوان امتحان گاہ میں داخلے کے منتظر تھے۔ اذن ملتے ہی قطار میں چلتے ہوئے باادب امتحان گاہ کے داخلی دروازے کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ وہاں موجود نگران سفید کرتا شلوار پہنے، نورانی چہرے کے حامل،قوی بدن، خوش گفتار، کوئی پینتالیس یا پچاس برس کے، طلبہ کو بعد از تصدیق امتحان گاہ میں داخل کرنے لگے۔

گزشتہ ہفتے پہلی دفع وفاق المدارس العربیہ، پاکستان کے تحت منعقدہ امتحانات میں شرکت کا موقع ملا۔ اس سے قبل امتحانات تو بہت دیے تھے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے، بالخصوص جامعہ کراچی میں چار سال امتحانات کا تجربہ رہا، ایک سال بطور ممتحن جامعہ کراچی کے پرچے میں نگرانی بھی کی لیکن یہاں کے امتحانات کا تجربہ بالکل منفرد تھا۔ داخلے سے قبل ایک خدشہ سا تھا کہ باقاعدہ کبھی ہمیں وفاق المدارس کے نظم وضبط کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ کبھی یہ گمان ہوتا کہ مدارس کے اساتذہ کو جو protocol ان کے طلبہ دیتے ہیں ہم وہ دے سکیں یا نہیں، ناگاہ یہ خیال گزرتا کہ پرچے انتہائی مشکل اور نگرانی نہایت سخت ہوگی، گردن گھمانے کی بھی گنجائش نہیں ہوگی، اور کبھی یہ تاثر کہ اس الگ تھلگ، جدید سہولیات سے عاری نظام کے تحت پرچے دے پائیں گے یا نہیں۔۔! قصہ مختصر، مدرسے میں داخل ہوئے، اسباق میں باقاعدگی سےشرکت، اساتذہ سے فیض یاب ہوئے،امتحان کے دن آگئے، پہلے دن جب امتحان گاہ میں داخل ہوئے تو یہ بتایا گیا کہ مسجد کے وسیع صحن میں تمام درجات(اولی سے دورۂ حدیث تک آٹھ سال) کے طلبہ کے کارڈ مختلف مصلوں پر رکھے ہوئے ہیں جن پر رقم الجلوس (seat number) درج ہے، تمام طلبہ گھوم پھر کر اپنے کارڈ تلاش کریں اور جہاں کارڈ رکھا ہوا ملے وہیں بیٹھ جائیں، ذرا سی تلاش کے بعد کارڈ نظر آگیا ۔ ہم بھی اپنے ساتھ جائے نماز لائے تھے لیکن ٹھنڈے فرش پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ دائیں بائیں اور سامنے الگ الگ درجات کے طلبہ تھے۔ صحن میں کل دو یا تین نگران تھے۔

جوں ہی سات بجے تو اعلان ہوا کہ طلبہ کی آنکھوں کے سامنے سوالنامے کا مہربند لفافہ کھولا جائے گا۔ لفافہ کھلنے اور سوالنامے تقسیم ہونے کا مرحلہ بھی بہت دلچسپ تھا۔سب سے پہلے ایک صاحب جوکہ وضع قطع سے استاذ لگتے تھے’ع‘ پر زور دے کر، آہستہ آواز میں ’سابعہ۔۔۔ سابعہ‘ کہتے ہوئےگزرے، چنانچہ جہاں جہاں سے یہ صاحب گزرتے وہاں موجود ساتویں درجے کے طلبہ اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور ان کے پہنچنے پر طلبہ دونوں ہاتھوں سے ادب کے ساتھ پرچہ وصول کرتے اور بیٹھ جاتے۔ اسی ترتیب پر تمام درجات کے سوالنامے تقسیم ہوئے۔امتحان شروع ہوا تو نگران حضرات نے نہ تو چیخ چیخ کر نقل سے باز رہنے کی تلقین کی اور نہ ہی نقل پکڑے جانے پر بھیانک انجام سے خبردار کیا۔ نہ وقت کی کمی کا احساس دلایا نہ پرچے کرنے کے ضوابط اور آداب بیان کیے(کیونکہ یہ سب چیزیں سہ ماہی و ششماہی امتحانات میں طلبہ اپنی درسگاہوں میں سیکھ چکے تھے)۔ نگران حضرات زیادہ تر اپنی اپنی جگہوں پر تشریف فرما رہے، کبھی کبھی صفوں کے درمیان چکر بھی لگاتے ۔

ایک دلچسپ منظر یہ دیکھا کہ اگر کسی طالبِ علم کو نگران سے کوئی بات پوچھنی ہوتی تو وہ اپنی جگہ بیٹھ کر اشاروں یا آوازوں سے انھیں اپنے قریب نہیں بلاتا تھا بلکہ اپنی جگہ سے اٹھ کر خاموش کھڑا ہوجاتا، اگر نگران متوجہ نہ ہوتے یا تاخیر ہوجاتی تو طالبِ علم نہ ہی بے صبری سے گردن دائیں بائیں گھما کر نگران کو تلاش کرتا اور نہ ہی پیچ وتاب کھاتا، دوسری طرف؛ کوئی نگران اگر کسی طالبِ علم کو کھڑے ہوئے دیکھ لیتا تو فورا اس کا مسئلہ معلوم کرتا۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک طالب علم اپنی جگہ سے اٹھا،وہاں موجود نگران کا چہرہ دوسری طرف ہے لہذا اس کھڑے ہوئے طالبِ علم کی جانب توجہ نہیں ہوئی لیکن دور کھڑے نگران کی نظر پڑ گئی تو دور کھڑے نگران نے قریبی نگران کو آواز یا اشارے سے بھیجنے کے بجائے خود آکر مسئلہ دریافت کرلیا۔

ہمارے ایم اے کے پرچوں میں نقل کرتے ہوئے پکڑے جانے پر ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا: ’’آپ کیا سمجھتے ہیں ہمیں پتا نہیں چلتا کون کیا کر رہا ہے؟ ہمیں سب نظر آتا ہے‘‘۔۔۔۔ یا نقل والے کاغذ تمام طلبہ کے سامنےلہرا لہرا کر انھیں تنبیہ کی جاتی:’’ یہ دیکھیں، یہ صاحب یہاں بیٹھ کر نقل کر رہے تھے۔۔۔ اگر کوئی اور کرے گا تو اسے بھی پکڑ لیا جائے گا‘‘۔۔۔ ہمیں تجسس ہوا کہ کیا یہاں بھی اسی طرح علی الاعلان نقل کرنے والے طالب علم کی تذلیل کر کے اسے بے دخل کیا جائے گا یا کوئی دوسرا رویہ اختیار کیا جائے گا؟ درمیان میں ایک بات اور عرض کرتے چلیں کہ نقل تو دور کی بات بعض اوقات تمام نگران کسی کام سے امتحان گاہ سے باہر چلے جاتے لیکن چند طلبہ کے علاوہ کوئی آپس میں گفتگو کرنے اور جواب پوچھنے کی جسارت نہیں کرتا تھا۔ ہاں بعض طلبہ اساتذہ سے جواب دریافت کرنے کی کوشش ضرور کرتے تھے اور کبھی کبھی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتے تھے۔

نقل کے بارے میں جامعہ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ایک مفتی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں دس سال مدرسے میں زیرِ تعلیم رہا ہوں، نقل پکڑے جانے کا ایک واقعہ بھی مدرسے میں نہیں سنا۔ جامعہ فاروقیہ کے ایک مفتی صاحب بتانے لگے کہ دس سال تعلیم کے اور تین سال بطورِ نگران ایسے مدرسے میں کام کیا جس میں سات سو طلبہ امتحان دیتے تھے، ان تیرہ سالوں میں صرف ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے پکڑے جانے کا پیش آیا۔چوتھے پرچے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ہمارے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک طالب علم کو ایک نگران نے نقل کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ ہم پرچہ مکمل کر چکے تھےاور دائیں بائیں کے ماحول کا مشاہدہ کرنے میں مشغول تھے، نگران صاحب تیزی سے اس طالب علم کے پاس آئے اور بیٹھ گئے، پھر بغیر کوئی لفظ بولے اس سے نقل والا کاغذ لیا اور پھرتی سے موڑ کر مٹھی میں چھپا لیا تاکہ کوئی اور نہ دیکھ سکے، پھر اسی خاموشی سے واپس جا کر نگرانِ اعلیٰ کو بلا لائے، انھوں نے بھی بغیر کوئی بات کیے پرانی کاپی لے کر نئی کاپی طالب علم کو دے دی، نہ اسے جگہ سے اٹھایا، نہ اس کی تلاشی لی، اور نہ ہی اسے سب کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کی، امتحان کے بعد اگر کوئی ضابطے کی کاروائی کی گئی ہو تو اور بات ہے۔

بہرحال اسے سب کے سامنے ذلت اور رسوائی سے بچالیا، یہ معاملہ اتنی خاموشی سے ہوا کہ دو تین طلبہ کے علاوہ کسی کے سامنے اس کا نقل کرنا ظاہر نہ ہوسکا، یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔یہ کچھ تاثرات تھے جو اس ایک دفعہ کے امتحان سے ہمیں ملے، اس سے قبل ہمیں مدارس سے کچھ نہ کچھ بعد اور دوری محسوس ہوتی تھی، کچھ تو حقیقی وجوہ کی بنا پر اور کچھ جدید تعلیم کے زیرِ اثر رہنے کی وجہ سے، لیکن اب الحمد للہ! دل میں جو بُعد تھا اس کی جگہ محبت اور مودت گھر کر چکی ہے۔ یہ تجربہ آپ بھی کر سکتے ہیں، جن کے قلوب بے وجہ مدارس سے نفرت اور بُعد سے لبریز ہیں امید ہے کہ اہلِ مدارس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، نظم و ضبط ملاحظہ کرنے اور انھی کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ اطوار کے حامل افراد کودیکھنے کے بعد یہ بُعد محبت اور عقیدت میں بدل جائے گا۔ ان شاء اللہ

لرننگ پورٹل