توضیح و تفسیر
﴿ وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ﴾ان کی اس زعم باطل کی نفی میں یہ آیت وارد ہوئی ہے۔
سَيِّئَةً سے کیا مراد ہے؟
﴿بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً﴾أيْ’شِرْکاً’’کیوں نہیں جو لوگ سَيِّئَةکا ارتکاب کرتے ہیں یعنی شرک کا‘‘۔ امام قتادہ علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:أما السیئة فالشرک،’’سیئہ سے مراد شرک ہے‘‘۔اسی طرح ابو وائل نے سیئہ کی تفسیراللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانےسے کی ہے۔( طبری،ج: ،۱ ص: ۳۰۷)امام طبریعلیہ الرحمۃفرماتےہیں اس آیت میں وہ لوگ جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے،یہود ہیں جو کہتے تھے:’’ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہر گز نہیں چھوئےگی‘‘۔ (بقرۃ:۸۰) ان کے متعلق فرمایا، شرک اور کفر کی وجہ سے ان کو عذاب دیا جائےگا،اور ان کے گناہوں نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے،اس لیے وہ مخلد فی النار ہوں گے۔اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے سیئہ ذکر فرمایاہے جس سے مرادکفراور شرک ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:﴿من عمل مثل عملکم یا یهود،وکفر بمثل ما کفرتم به،حتی یحیط کفره بماله من حسنات،فأولئک أصحاب النار هم فيها خالدون﴾۔’’اے یہود!جس نے تمہارا جیسا عمل کیا اورجس چیز کا تم انکار کرتے ہو اس کا ایسا ہی انکار کیا، یہاں تک کہ اس کا کفر اس کی تمام حسنات گھیر لے،تو ایسے لوگ آگ والے ہیں جواس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(ابنِ کثیر)
:إذا مات مؤمناً فأعظم الطاعات وهو الإيمان معه فلا يكون الذنب محيطاً به فلا يتناوله النص ’’جب کوئی مسلمان فوت ہوتا ہے تو طاعتوں میں سب سے بڑی طاعت یعنی ایمان اس کے ساتھ ہوتا ہے ،تو گناہ اسے احاطہ نہیں کر سکتا ۔پس اس پراس آیت کا اطلاق نہیں ہو سکتا‘‘۔
﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ﴾
والمراد بالخطیئة هنا الشرک،أي إنه أشرک وأحدق به شرکه،ومات علیه ولم یتب منه،’’یہاں خطیئہ سے مرادشرک ہے یعنی وہ شخص جو شرک میں مبتلاہو اور شرک اس کا احاطہ کرے،وہ اسی حالت میں مر جائے اس سےتوبہ کیے بغیر۔‘‘ امام طبری علیہ الرحمۃنے اس کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے: ﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ ﴾یحیط کفره بماله من حسنة’’ابن عباس رضی اللہ عنہ نےفرما یا،اور ان کی بدی انھیں گھیر لیتی ہے،ان کا انکار اور کفر ان کی حسنات کا احاطہ کرلیتا ہے‘‘۔اسی طرح ابن جریج علیہ الرحمۃفرماتے ہیں میں نے عطا سے دریافت کیا، ما هي الخطیئة في قوله﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ ﴾قال:هي الشرک،ثم تلا قوله تعالی﴿ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾’’اللہ تعالیٰ کے اس قول﴿وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ ﴾سے کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے کہا خطیئہ شرک کو کہتےہیں ،پھر عطانے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’اور جو کوئی برائی لے کر آئے گا،تو ایسے لوگوں کو منھ کے بل آگ میں ڈال دیا جائےگا‘‘۔(طبری، ج:۱، ص:۳۱۰)
ان آیات کی غلط تعبیرات
سَيِّئَة کی تفسیر کبیرة من الکبائر ’’کبیرہ گناہوں میں سے کوئی گناہ ‘‘ سے کی ہے ۔( کشاف، ج: ،۱ ص: ۱۵۹) اس بنیاد پر انھوں نے کہا کہ کوئی مسلمان اگر کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو اور وہ توبہ کیے بغیر مر جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے دوزخی ہے ۔خوارج نے بھی معتزلہ کی طرح سَيِّئَة سے کبیرہ گناہ مراد لیا اور کہا کہ اس آیت میں کبیرہ گناہ کرنے والے کے لیے خلود فی النار کی وعید وارد ہوئی ہے جو مسلمانوں کی نہیں بلکہ کافروں کی سزا ہے ،اس سزا سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے اگرچہ پہلے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
درست تعبیر
﴿أَتَيْتُ النَّبِيَّﷺ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهُوَ نَائِمٌ ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَر﴾’’میں ایک مرتبہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضرہوا، آپﷺ ایک سفیدکپڑے میں آرام فرما رہے تھے۔پھرمیں دوبارہ آیا تو آپﷺجاگ رہےتھے،اس وقت آپﷺ نے فرمایا؛’’جس شخص نےیہ کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورپھر اسی پر اسے موت آجائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک خوش گوارتعجب ہوا،میں نے کہا:چاہے اس نے زناکیا ہو اورچوری کی ہو؟تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو‘‘میں نے پھر عرض کیا:چاہے اس نے زناکیا ہو اور چوری کی ہو؟آپﷺنے فرمایا:’’اگرچہ اس نےزنا کیا ہواور چوری کی ہو‘‘میں نےحیرت سے سہ بارہ عرض کیا:چاہے اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو؟تو آپﷺ نےفرمایا:’’چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، باوجود یکہ ابوذر کی ناک خاک آلودہو(یعنی اگر چہ ابو ذرکو ناگوار گزرے)‘‘۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو یہ الفاظ بھی بیان فر ماتےتھے، اگرچہ ابوذر کو نا گوار گزرے‘‘۔(متفق علیہ)
﴿فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ﴾’’پس پھر وہ اس میں سے ان لوگوں کو نکالے گا جنھوں نے کبھی کوئی نیکی کی ہی نہ تھی‘‘۔(متفق علیہ)دوسری وجہ یہ ہے کہ معتزلہ ، خوارج اور دوسرے گروہوں کی تعبیرات کو ماننے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمھم اللہ اجمعین کی تفسیر کی تغلیط کرنا پڑتی ہے جو جائز نہیں ہے۔تیسری وجہ یہ کہ معتزلہ و خوارج کے نقطہ نظر کو تسلیم کرنے میں اجماع امت کی خلاف ورزی لازم آتی ہے جو ایک نا جائز کام ہے۔
منزلةبین المنزلتینکہتے ہیں، دو منزلوں یعنی ایمان اورکفر کے بیچ میں ایک منزل۔تو ان کے نزدیک جو شخص کبائرکا مرتکب ہووہ ایمان سے نکل جاتا ہے جبکہ کافرنہیں ہوتا بلکہ بیچ میں ہوتاہے۔