1 تو اپنا محبوب قرار دیا۔عام طور پر محبوب، محبت پا کر اِترا ہی جاتے ہیں لیکن محبوب رحمانی علیہ السلام کے کیا کہنے کہ آپ نے عجز وانکسار کے لہجے میں فرمایا : ﴿أَلاَ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلاَ فَخْرَ﴾ 2 ’’جان رکھو کہ میں اللہ کا محبوب ہوں اور میں اس پر فخر نہیں کرتا ‘‘۔چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو اپنا بنا لیا تو اس اپنانے کے دو مظہر ہوئے :﴿فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ فَبَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ﴾ 3 ’’اللہ نے انھیں اپنے لیے چن لیا اور انھیں اپنی رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا‘‘ ۔پہلے آپﷺکی بعثت کی شان ملاحظہ کیجیے :﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ 4’’ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر‘‘۔اسی بات کو رسول پاک ﷺنے یوں واضح کیا﴿ بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ﴾5 ’’مجھے بھیجا گیا تمام سرخ و سیاہ کی طرف‘‘۔مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسود و احمر سےجن و انس مراد ہیں کہ آپ ان دونوں کی طرف مبعوث ہوئے اور بعض دوسرے اہلِ علم نے کہا کہ اس سےعرب وعجم مراد ہیں ۔ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا: ’’ سچی بات یہ ہےکہ بیک وقت دونوں مفہوم صحیح ہیں‘‘۔6
إِنَّهُ لَيْسَ شَيْءٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ﴾7’’زمین و آسمان کی ہر چیز مانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں سوائے ناہنجار جن وانس کے‘‘۔ محبتِ الٰہی کا ایک ظہور ﴿فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ﴾ کے الفاظ میں ہوا۔ اس ترکیب میں وارد’’چناؤ‘‘ کا معنی یوں بیان کیا گیا: 8’’تاکہ آپ اللہ کی صفات کے مظہر بن جائیں‘‘ تو آپ ﷺبندۂ مولا صفات اور مظہر نورِ خدا ٹھہرے۔
﴿رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ 9کا لقب عطا کیا۔اللہ تعالی کا ایک اسم ِعظیم ہے تو آپ ﷺکو ﴿سِرَاجًا منيرا﴾10 قرار دیا گیا ۔اللہ تعالی ہے تو رسول اللہ ﷺکو شاہد و شہید قرار دیا گیا ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا﴾ ﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عليكم شهيدا﴾۔11اللہ کا ایک نام ہے تو اللہ نے آپ کو ﴿رَسُولٍ كَرِيمٍ﴾ 12قرار دیا اور آپﷺنے خود اپنے بارے میں فرمایا :﴿أَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ﴾ 13’’میں اولادِ آدم کا سب سے کریم شخص ہوں‘‘۔اسی طرح اللہ تعالی کا ایک اسم شریف، بھی ہے تو ﴿أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾ 14 پر مستزاد،متعدد اولیتوں سے آپﷺکو نوازا گیا ہے۔ ایک روایت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپ ﷺفیصلۂ نبوت میں تو پہلے ہیں لیکن بعثت میں آخری ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:﴿إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ﴾15 ’’ میں اللہ کے پاس خاتم النبیین لکھاجا چکا تھا جب آدم اپنی مٹی میں لتھڑے تھے‘‘۔آخرت کےمراحل میں بھی آپ کو اولیت دی گئی ہے : ﴿أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ﴾16 ’’سب سے پہلے مجھے ہی زمین سے نکالا جائے گا‘‘۔ میدانِ حشر کی عام بے ہوشی کے ذکر میں فرمایا:﴿أَنَا أَوَّلُ إِفَاقَةً﴾17 ’’اس بے ہوشی سے سب سے پہلے افاقہ مجھے ہی ہو گا‘‘۔
اور ہے تو اس نے آپ ﷺکوأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُؤْذَنُ لَهُ بِالسُّجُودِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾18’’قیامت والے دن سب سے پہلے مجھے ہی سجدے کا اذن ہو گا‘‘ پھر آپ کی زبان پر وہ محامد اور ثنائے حسِیں کے ترانے جاری ہو ں گے جو اس سے پہلے کسی پہ کھلے نہ ہوں گے، اس دن حمد کا پرچم آپ ہی نے تھاما ہو گا۔ اتنے میں محب کی محبوب کے لیےمحبت جوش مارے گی تو حکم جاری ہو گا: ﴿يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ﴾۔19’’اے محمد سر اٹھائیے مانگیے! آپ کو دیا جا ئے گا، سفارش کریں قبول کی جائے گی‘‘۔ سفارش کرنا جبکہ وہ مقبول بھی ہو اور معقول بھی،ایک اعلی منصب اور قابل فخر چیز ہے۔لیکن میرے حضورﷺنے اپنے اس درجۂ رفیع کا ذکر بغیر فخر کے کیا:﴿أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ﴾ 20 ’’قیامت کے دن سب سے پہلے میں ہی سفارش کروں اور سب سے پہلے میری ہی سفارش سنی جائے گی اور اس میں مجھےکوئی فخر نہیں ہے‘‘۔ اب تاریخ کی سب سے بڑی لیکن مختصر ترین سفارش شروع ہوتی ہے:﴿يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي، يَا رَبِّ﴾21 ’’یا رب میری امت میری امت یا رب ‘‘۔
أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ يَشْفَعُ فِى الْجَنَّةِ﴾22’’لوگوں میں سب سے پہلے میں ہی جنت کے معاملے میں سفارش کروں گا‘‘۔ اب جب جنت کے ’’داخلے‘‘ کھلیں گے تو حکم ہو گا :﴿يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ﴾23’’اے محمد داہنے دروازے سے اپنے ان امتیوں کو جنت میں داخل کریں جن پر کوئی حساب نہیں ہے‘‘۔سبحان اللہ!رتبہ دیکھیے ہمارے پیغمبر علیہ السلام کا کہ اعلی درجے کے مستحقین جنت بھی آپ کی شفاعت کے بعد ہی جنت میں جارہے ہیں۔شفاعت کے اگلے ادوار میں ان لوگوں کو جنت میں داخلےکی نوید سنائی جائے گی جن کے دل میں ﴿حَبَّةٍ مِنْ شَعِيرٍ مِنَ الْإِيمَانِ﴾’’جو کے دانے کے برابر ایمان‘‘ موجود ہو گا۔اس کے بعد جو کے نصف دانے کے برابر ایمان والوں کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی اور اس کے بعد ان لوگوں کو شفاعت قبول کرتے ہوئے جنت کی بشارت دی جائے گی جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان موجود ہو گا۔24
أَنَا أَوَّلُ مَنْ يُوضَعُ لَهُ الصِّرَاطُ﴾ ’’میرے ہی لیے سب سے پہلے پل صراط کو بچھایا جائے گا‘‘۔25اب آئی جاگتے خوابوں کی منزل، جنت کی سچی بیٹھک اور یہاں بھی آپ ﷺہی سبقت فرمائیں گے : ﴿أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الجنةِ﴾26’’میں ہی سب سے پہلے جنت کے دروازے پہ دستک دوں گا ‘‘۔اب جب جنت کے دروازے کھلیں گے اور خازن آپ کو مرحبا کہے گا تو آخری مراحل کی ایک اور اولیت کا ذکر کرے گا:﴿بِكَ أُمِرْتُ أَنْ لَا أَفْتَحَ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ﴾27 ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ سے پہلے کسی کے لیے جنت کا دروازہ نہ کھولوں‘‘جب رسول اللہ ﷺکو اتنی ’’ اولیات ‘‘ دی گئیں تو یہ نہ سمجھیں کہ امت محروم رہی، اور اس نبیِ رحمتﷺکے فیض سے کیسے محروم رہ سکتی ہے کہ جس کے کلمہ شفاعت کی ابتدا ہی ﴿أُمَّتِى أُمَّتِى﴾ سے ہوئی تھی!!چنانچہ اولیتِ محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام کے طفیل امت محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام بھی پہلی امتوں سے پہلے جنت میں جائے گی، پڑھیے فرمان رسولﷺمع درود :﴿نَحْنُ الآخِرُونَ الأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ﴾ 28’’ہم (زمانی ترتیبِ میں) پچھلے، قیامت والے دن سب سے آگے ہوں گے اور ہم ہی جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے‘‘۔
ہے۔ مفاہیم کے اس خصوصی شمارے میں کوشش کی گئی ہے کہ آپ ﷺکی شخصیت کے یہ دونوں پہلو بساط بھر سامنے لائے جائیں۔ موضوعات کی ترتیب میں یہ بھی پیش نظر رہا ہے کہ وہ مواد سامنےلایا جائے جو محض علمیت کے بجائے، آپ ﷺکی عقیدت و عظمت کو دل و دماغ پر حاوی کرنے میں معاون ہو۔
يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ﴾29 ’’اس علم (دین)کو ہر اگلی نسل کےعادل لوگ (اپنے پچھلوں سے)سیکھیں گے‘‘۔
﴿ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ﴾ کا کچھ ازالہ کیا جا سکے، دین اور تصور دین اور اس کے فرائض و واجبات کے ثبوت و اثبات میں ’’پر خلوص‘‘غلو کا شکار ہو کر، مسلّمہ اصولوں سے انحراف کرنے والے دوستوں کا خود پر عائد، حقِ نصیحت و خیرخواہی ادا کیا جا سکے۔
بالمُشافَہہ ہی ممکن ہے ۔البتہ کم تر درجے میں یہ رابطہ، بالمُطالَعہ بھی ممکن ہے،تو اس قیامِ ربط میں تھوڑی سے خدمت کرنے کے لیے ہم، مقالات اور منتخباتکے نام سے دو سلسلے اپنے ماہنامے میں شروع کر رہے ہیں جس میں اہلِ علم کے مختصر یا مفصل مضامین و اقتباسات پیش کرتے رہیں گے۔فیض رسانی کے اس کام کے دوران کوشش رہے گی کہتَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ﴾ کو مُحقَق و منقح،روایتِ علمی کی تحقیق سے روشناس کرایا جاتا رہے ۔ عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے سماج کی دینی تعمیر کی غرض سے تاویل و تعبیرِ جدید کا شوق کئی حلقوں میں بہت پایا جاتا ہے لیکن تاویل و تعبیر کے اصول و ضوابط سے ناواقفی بس کچھ نہ کہیے خاموش رہیے۔ان دو خدمتوں کے لیے تصحیح ہائے مفاہیم اور نظریات کے نام سے دو سلسلے شروع کر رہے ہیں ۔
مَنْ لَّمْ يَهْتَمَّ بِأمْرِ المُسلمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ ﴾30’’جو مسلمانوں کے معاملات سے دلچسپی نہ رکھے وہ مسلمانوں میں سے نہیں‘‘ کا مصداق بننے سے بچا جا سکے۔
حوالہ جات