مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
عالمِ دین و عظیم اردو نعت گو شاعر المتوفیٰ ۱۹۲۱ء
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اُس سفر کی ہے |
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے |
گرمی ہے، تپ ہے، درد ہے، کلفت سفر کی ہے |
نا شکر! یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے |
کس خاکِ پاک کی تو بنی خاکِ پا شفا |
تجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے |
ماہِ مدینہ اپنی تجلّی عطا کرے! |
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے |
شکلِ بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو! |
کیا قدر اُس خمیرۂ ما و مدر کی ہے |
بے اُن کے واسطے کے خدا کچھ عطا کرے |
حاشا غلط غلط یہ ہوس بے بصر کی ہے |
مقصود یہ ہیں آدم و نوح و خلیل سے |
تخمِ کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے |
اُن پر دُرود جن کو حجر تک کریں سلام |
اُن پر سلام جن کو تحیّت شجر کی ہے |
اُن پر دُرود جن کو کسِ بے کساں کہیں |
اُن پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے |
جنّ و بشر سلام کو حاضر ہیں اَلسَّلَام |
یہ بارگاہ مالکِ جنّ و بشر کی ہے |
شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں اَلسَّلَام |
خوبی انھیں کی جوت سے شمس و قمر کی ہے |
سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں اَلسَّلَام |
تملیک اُنھیں کے نام تو ہر بحر و بر کی ہے |
سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں اَلسَّلَام |
کلمے سے تر زبان درخت و حجر کی ہے |
مومن ہوں، مومنوں پہ رَءُوفٌ رَّحِیم ہو |
سائل ہوں، سائلوں کو خوشی لا نَہَر کی ہے |
دامن کا واسطہ مجھے اُس دھوپ سے بچا |
مجھ کو تو شاق جاڑوں میں اِس دوپہر کی ہے |