Mafheem February 2025

Cover Page content

  • نعت

    نعت

    مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ

    پھر پیشِ نظر گنبدِ خضرا ہے حرم ہے

    پھر پیشِ نظر گنبدِ خضرا ہے حرم ہے
    پھر نامِ خدا روضۂ جنت میں قدم ہے

    پھر شکرِ خدا سامنے محرابِ نبی ہے
    پھر سر ہے مرا اور ترا نقشِ قدم ہے

    محرابِ نبی ہے کہ کوئی طورِ تجلی
    دل شوق سے لب ریز ہے اور آنکھ بھی نم ہے

    پھر منتِ دربان کا اعزاز ملا ہے
    اب ڈر ہے کسی کا نہ کسی چیز کا غم ہے

    پھر بارگاہِ سیدِ کونین میں پہنچا
    یہ ان کا کرم ان کا کرم ان کا کرم ہے

    یہ ذرۂ ناچیز ہے خورشید بہ داماں
    دیکھ ان کے غلاموں کا بھی کیا جاہ و حشم ہے

    ہر موے بدن بھی جو زباں بن کے کرے شکر
    کم ہے بخدا ان کی عنایات سے کم ہے

    رگ رگ میں محبت ہو رسولِ عرَبی کی
    جنت کے خزائن کی یہی بیعِ سلَم ہے

    وہ رحمتِ عالم ہے شہِ اسود و احمر
    وہ سیدِ کونین ہے آقاے امم ہے

    وہ عالَمِ توحید کا مظہر ہے کہ جس میں
    مشرق ہے نہ مغرب ہے عرب ہے نہ عجم ہے

    دل نعتِ رسولِ عرَبی کہنے کو بے چین
    عالَم ہے تحیر کا، زباں ہے نہ قلم ہے

  • اداریہ

    آگ بجھی ہوئی نہ جان

    غزہ میں پندرہ مہینے کی تباہ کن جنگ کے بعد کچھ امن ہوا ہے۔ معاہدہ طے پایا اور اس پر عمل در آمد شروع ہو گیا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے ابتدائی دور عمل میں آچکے ہیں۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا۔ اہلِ ایمان کے لیے یہ حالات کوئی نئے نہیں ہیں کہ: ’’وہ تو جیتے ہیں جنگوں کی مصیبت کے لیے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو ابتلا و آزمائش کی خبر دیتے ہوئے فرما دیا تھا کہ: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ﴾ ’’ہم لازماً آزمائیں گے تمھیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں ، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے‘‘۔ پوری دنیا گواہ ہے کہ اہلِ غزہ ان تمام آزمائشوں سے گزرے بلکہ: ﴿زُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا﴾ ’’اور وہ شدید جھنجوڑوں سے جھنجوڑے گئے‘‘۔ لیکن وہ بہ حیثیتِ مجموعی: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پر ہی عمل پیرا رہے۔ یقیناً ان صابرین کے لیے بشارت و شاباش اور رحمتیں ہیں۔

     یہ جاننا چاہیے کہ آزمائش ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اب بھی جاری ہے۔ حیاتِ دنیا آزمائش ہی سے عبارت ہے۔ یہاں کی غلامی بھی آزمائش اور یہاں کی شاہی بھی آ زمائش، چنانچہ رسول اللہﷺنے فرمایا: «لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ بَلاَءٌ وَفِتْنَةٌ» (ابنِ ماجہ) ’’نہیں باقی رہا دنیا میں کچھ مگر آزمائش اور مصیبت‘‘۔ دوسری روایت میں ایک اہم اضافہ ہے: «لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا بَلَاءٌ وَفِتْنَةٌ، فَأَعِدُّوا لِلْبَلَاءِ صَبْرًا» (السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها أبو عمرو الداني) ’’نہیں بچا دنیا میں سے کچھ سوائے آزمائش اور مشکل کے پس آزمائشوں کے مقابلے میں صبر کی تیاری کرو‘‘۔ پس جنگ کے خاتمے کے بعد بھی آزمائش جاری ہے لیکن خود دیگر آزمائشوں کے ساتھ جنگ کی مصیبت بھی رُکی نہیں بلکہ محض تھمی ہے اس لیے کہ جنگوں کے تسلسل کی خبریں خود رسول اللہﷺنے دی ہیں: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة» ’’میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم و دائم، تا قیامت دشمنوں سے لڑتا رہے گا‘‘۔ مسلم کی ہی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ: «فَيَنْزِلُ عِيسَىٰ ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ» (مسلم) ’’یہاں تک کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نزول فرمائیں گے اس وقت مسلمانوں کا امیر، ان سے کہے گا: آئیے نماز پڑھائیے، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: نہیں بلکہ تم ہی ایک دوسرے کے امیر ہو اور یہ وہ عزت ہے جو اللہ نے اس امت کو عطا کی ہے‘‘۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طائفۂ منصورہ کی تحریکِ جہاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک جاری رہےگی۔ ایک روایت سے اس گروہ کی جنگوں کے تسلسل کی خبر یوں ملتی ہے: «تُقَاتِلُ أَعْدَاءَهَا كُلَّمَا ذَهَبَ حِزْبُ قَوْمٍ تَسْتَحْرِبُ قَوْمَ…» (الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم) ’’وہ گروہ اپنے دشمنوں کے خلاف لڑتا رہے گا جب ایک قوم کے ساتھ اس کی لڑائی ختم ہوگی تو دوسری کسی قوم کے خلاف اسے لڑنا پڑے گا‘‘۔

     ان روایات سے جنگ اور اس کی آزمائشوں کے تسلسل کا اندازہ ہوتا ہے۔ اوپر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا ذکر ہے۔ دوسری روایات میں امام مہدی کے ظہور اور دشمنانِ اسلام کی شکست اور عالمی سطح پر خلافت کے قیام کا ذکر پایا جاتا ہے۔ ارضِ مقدس بھی اسی خلافت کے ماتحت ہو گی لیکن اس فتح کے ساتھ ہی آزمائشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائےگا۔ آپﷺنے ایک صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: «إِذَا رَأَيْتَ الْخِلَافَةَ قَدْ نَزَلَتِ الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ فَقَدْ دَنَتِ الزَّلَازِلُ وَالْبَلَايَا وَالْأُمُورُ الْعِظَامُ» (مسندِ احمد) ’’جب تم دیکھو کہ ارضِ مقدس میں خلافت قائم ہو چکی ہے تو سمجھ جانا کہ زلزلے، آزمائشیں اور بڑے بڑے امور نزدیک آ لگے ہیں‘‘۔ مطلب یہ کہ آزمائش خلافت سے پہلے بھی ہے اور خلافت کے بعد بھی ہے تو گویا انسان کو ہر حال میں صبر کرنا ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے مختلف امور کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: «فَإِنَّ وَرَاءَكُمْ أَيَّامَ الصَّبْرِ صَبْرٌ فِيهِنَّ كَقَبْضٍ عَلَى الْجَمْرِ لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ أَجْرُ خَمْسِينَ يَعْمَلُ مِثْلَ عَمَلِهِ» (مستدرکِ حاکم) ’’پس اس کے بعد تو صبر کے دن ہیں اور صبر کرنا ان دنوں میں ایسے ہے جیسے کسی نے ہاتھ میں انگارہ تھام رکھا ہو اور اس دور میں بھی عملِ صالح کرنے والے پچاس ایسا ہی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ہے‘‘۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ پچاس بندے ان کے دور کے ہوں گے یا ہم میں سے؟ فرمایا: ان لوگوں کو تمہارے پچاس بندوں کے برابر اجر ملےگا‘‘۔ سید نا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک قول کے الفاظ ہیں: الدهر یومان یوم لک و یوم علیک فإذا کان لک فلا تبطر و إذا کان علیک فل تضجر . ’’زمانے میں دو دن ہوتے ہی ہیں: ایک دن تیرے حق میں، ایک تیرے خلاف، پس اگر دن تمھارے لیے سازگار ہوں تو آپے سے باہر نہ ہو جاؤ اور اگر دن تمہارے خلاف ہو جائیں تو تنگ دل نہ ہوا کرو‘‘۔ اہلِ غزہ نے اور دوسری طرف اہلِ شام نے بھی اپنے خلاف دن جھیلے ہیں۔ مکمل طور پر نہ سہی لیکن کسی حد تک دن ان کے حق میں ساز گار ہو چکے ہیں۔ یہ بھی ان کی آزمائش ہے کہ اب وہ کیسا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کے کہ وہ انھیں اتحاد و اتفاق اور درست راہ پر گامزن رہنے کی توفیق عطا کرے۔

  • غزہ جنگ بندی کامعاہدہ

    مولانا عبد الغفور صدیقی

    استاذ فقہ اکیڈمی

    غزہ جنگ بندی کامعاہدہ

    غاصب صیہونی حکومت نے مسلسل پندرہ ماہ تک غزہ میں قتلِ عام اور نسل کشی کے بے مثال وحشیانہ جرائم کے بعد بالآخر حماس ہی کے تجویز کردہ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دیے۔ یوں ۴۷۰، دنوں بعد غزہ کی فضاؤں میں امن کی فاختہ اُڑنے لگی۔ لیکن اخلاقی اقدار اور جنگی اصولوں سے عاری کم ظرف دشمن نے معاہدے کے اعلان اور نفاذ کے درمیان بھی دانستہ طور پر تین دن کا وقفہ رکھ کر کسی انہونی آس میں اپنے انسانیت سوز مظالم جاری رکھے۔ یہاں تک کہ بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے جب حماس کی جانب سے رہا ہونے والے یرغمالیوں کی فہرست دینے میں کُچھ تاخیر ہوئی تو اس کو جواز بنا کر معاہدہ نافذ ہونے کے بعد بھی اسرائیلی بربریت برابر جاری رہی۔ لیکن جن کو نیست و نابود کرنے کے لیے جدید انسانی تاریخ کے یہ ہولناک مظالم روا رکھے گئے تھے، معاہدہ نافذ ہونے کے ساتھ ہی جب وہ فاتحانہ شان کے ساتھ جوق در جوق غزہ میں ظاہر ہو نے شروع ہوئے تو تل ابیب میں بیٹھے منصوبہ سازوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ان کی دہشت سے کلیجے مُنھ کو آگئے، سو اب لہو کے گھونٹ پینے کے سوا اور میسر ہی کیا ہے؟ سب کُچھ تو غزہ میں لُٹا دیا، مرشد نے کہا تھا نا کہ تُم اس دن پر روؤ گے جس دن تمھاری ماؤں نے تمھیں جنا تھا۔ یہودیّت کی سائنسی و معاشی ترقی کی چکا چوند کی وجہ سے جو لوگ قرآنِ کریم میں بیان کردہ یہودی ذلت و مسکنت کو حقیقتِ حال کے ساتھ تطبیق دینے سے قاصر تھے، وہ اگر آج آنکھیں بند کر کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں تب بھی ارشادِ خداوندی کا واضح مفہوم ان کے قلوب و اذہان کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر راسخ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

    بہر کیف! حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بالواسطہ مذاکرات قطر اور مصر کی ثالثی میں غزہ جنگ کے ابتدائی دنوں سے جاری تھے جن کو اس وقت اسرائیلی میڈیا مشروط بات چیت کا عنوان دے رہا تھا۔ قاہرہ، دوحہ اور پیرس میں ہونے والے ابتدائی روابط ہی میں حماس نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فورسز کے انخلا اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے مشروط کر دیا تھا، لیکن رعونت کا یہ عالم تھا کہ تب جنگ بندی و انخلا نامی الفاظ کا اسرائیلی ایوانوں میں ذکر ہی نہیں تھا، بلکہ حکم دیا جا رہا تھا ہمارے قیدی ہمارے حوالے کر کے غزہ کی سر زمین سے نکل جاؤ۔ اس مقصد کے لیے امریکی وزیرِ خارجہ بھی اسرائیلی سفیر بن کر مصری صدر سیسی، اُردن کے شاہ عبد اللہ اور دیگر عرب حکمرانوں سے مسلسل ملاقاتیں کر رہا تھا۔ مگر عبد الفتاح السيسى نے مصری وجود پر فلسطینی کاز سے غدّاری کے دھبے کو مزید بدنما ہونے سے بچانے کے لیے اہلِ غزہ کو سینا میں دھکیلنے کے شیطانی منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا۔ جبکہ شاہ عبد اللہ نے بھی اپنے بھپرے عوام کے شدید ردِ عمل کے خوف سے اس منصوبے کا حصّہ بننے سے معذرت کر لی۔ دوسری جانب دھونس دھمکی، بین الاقوامی دباؤ، صالح العاروری کی شہادت، حتیٰ کہ پورے خاندان کے قتلِ عام کے باوجود بھی امریکہ و اسرائیل حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو جھکانے میں ناکام رہے۔

    جنگ کے چوتھے مہینے جب غزہ میں جانبازوں کے ہاتھوں اسرائیلی فورسز کا بھرکس نکل کر مایوسی کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے اور معصوم بچوں کے قتلِ عام کے سبب امریکہ و یورپ شدید عوامی مظاہروں کی لپیٹ میں تھے تب اسرائیل نے پہلی بار یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی اور غزہ سے محدود انخلا کی پیشکش کی۔ اسرائیل کا استدلال تھا کہ وہ وسطی غزہ کے نتساریم محور میں اپنی فوج برقرار رکھ کر حماس کو دوبارہ منظّم ہونے سے روکنے کے لیے غزہ کو شمال و جنوب کے دو زون میں تقسیم کرے گا۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل نے نتساریم میں اپنی سرحد سے سمندر تک کے علاقے کو وسیع چھاؤنی میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح جنوب میں فلاڈیلفیا کوریڈور میں بھی اس کی فوج موجود رہے گی تاکہ حماس غزہ میں اسلحہ منتقل نہ کر سکے۔ ان کے علاوہ شمالی سرحد پر بھی نگرانی کے لیے بفر زون قائم کیا جائے گا۔ لیکن حماس نے ایسی تمام تجاویز کو انتہائی حقارت سے ٹھکرا دیا۔ مئی کے مہینے تک جب اسرائیلی فورسز غزہ میں اپنے مقاصد کے حصول میں بے بس ہو کر ہلاکتوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور اسرائیل کا داخلی استحکام بھی ڈولنے لگا تو امریکی صدر بائیڈن نے سی آئی اے رپورٹ کے تناظر میں حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے حماس ہی کی شرائط پر ایک معاہدے کا خاکہ پیش کیا جس پر حماس کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن نیتن یاہو نے اس مجوّزہ معاہدے کو اپنے سیاسی عہد کے لیے رسوا کُن اختتامیہ سمجھتے ہوئے رد کر دیا۔ ۳۱ جولائی کو مکّار دشمن نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کر دیا اور ان کی شہادت سے تمام رہنماؤں کو عدم تحفّظ کا احساس دلا کر اپنی مرضی کا معاہدہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی لیکن حماس رہنماؤں کے موقف میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی۔

    جب ۱۶، اکتوبر کو حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار جنوبی غزہ میں اسرائیلی فورسز کے خلاف دیوانہ وار لڑتے ہوئے رتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے تو اس موقعے پر امریکی آقاؤں نے نیتن یاہو کو سمجھایا کہ یہ بہترین وقت ہے اپنی فتح کا اعلان کر کے معاہدہ قبول کر لو۔ لیکن اسرائیل سنوار کی شہادت اور شمال میں لبنان کے خلاف حاصل ہونے والی نمایاں کامیابیوں کی وجہ سے نئے خمار میں مبتلا ہو گیا۔ لیکن یہ نشہ بھی صرف تین دن بعد ہرن ہو گیا جب شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے قریب حماس اور اسلامی جہاد کے مجاہدین کی ایک طوفانی یلغار میں ۴۰۱ویں آرمڈ بریگیڈ کا سربراہ احسان دقسا اپنے کئی ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ احسان دقسا دروز کمانڈر تھا اور اس کا شمار اسرائیلی فوج کے سینیر ترین افسران میں ہوتا تھا۔ اسی دن فوج کی ایک پوری یونٹ حماس کے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اعلیٰ کمانڈ کے احکامات کے بغیر ہی شمالی غزہ سے اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑی ہوئی جبکہ اسی دن جنوبی غزہ میں بھی تین افسران سمیت آٹھ فوجی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    حماس کی مذاکراتی ٹیم پر سب سے کڑا امتحان اُس وقت آیا جب نومبر میں میزبان ملک قطر کی طرف سے ثالثی سے دست برداری اور حماس کو دفتر بند کرنے کی دھمکی دی گئی، لیکن غزہ کے جنگی محاذ پر اپنی فیصلہ کن برتری کی وجہ سے حماس کے مذاکرات کاروں کا موقف نرم ہونے کے بجائے مزید جارحانہ ہو گیا۔ اس وقت تک اسرائیلی فوج شدید داخلی بحران کا شکار ہو چکی تھی کیونکہ غزہ سے بھاگنے والی فوج میں اضافہ ہونے لگا تھا، جبکہ غزہ جانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ فوج کے اندر سے جنگ بندی معاہدے کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔ ریزرو بھرتیاں مکمل ختم ہو گئیں، مغربی میڈیا کے مطابق غزہ جنگ سے منحرف فوجیوں نے دستخط مہم شروع کی تو صرف چند دنوں میں یہ تعداد پانچ سو سے تجاوز کر گئی۔ اسرائیلی فوج کی جنگ سے بددلی اس انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ صاف جھلکتا تھا کہ اگر غزہ جنگ یوں ہی جاری رہی تو فوج غزہ سے بھاگ کھڑی ہو گی یا اندرونی بغاوت ہو جائے گی۔ ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی حکومت پر جنگ بندی معاہدے کے لیے عوامی دباؤ انتہائی شدید ہو گیا، میڈیا سروے میں ۷۰ فیصد اسرائیلی عوام حماس کے ساتھ معاہدے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دوسری جانب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نیتن یاہو پر واضح کر دیا کہ ۲۰، جنوری کو میرے حلف اٹھانے سے قبل ہر حال میں معاہدہ ضروری ہے۔ چنانچہ دسمبر میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کو بادلِ نخواستہ معاہدے کے لیے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی منظوری دینی پڑی۔ اب کی بار ٹرمپ کی بڑھک کے باوجود حماس کی مذاکراتی ٹیم انتہائی پر سکون تھی، لیکن اسرائیلی مذاکرات کاروں کے کندھے جُھک چکے تھے، اب وہ عیّاری و مکاری سے کُچھ رعایتیں حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن حماس نے کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اسرائیلی حکومت متذبذب تھی لیکن اس دوران ٹرمپ نے اپنے نمائندے سٹیو وٹکوف کو فوری تل ابیب بھیج کر نیتن یاہو پر واضح کر دیا کہ اب حماس ہی کی شرطوں پر معاہدے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ معاہدے کے اعلان سے قبل آخری ۱۰، منٹوں میں بھی موساد سربراہ نے رسوائی کے گراف کو کم کرنے کی خاطر معاہدے کے ڈرافٹ میں جزوی تبدیلی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن وہ مکمّل نا مراد رہا۔ بدیہی اصول یہی ہے کہ متحارب فریقین کے درمیان جنگ بندی کی شرائط وہی طے کرتا ہے جس کا میدانِ جنگ میں پلڑا بھاری رہا ہو اور حماس نے بھی تو اسرائیل کو غزہ کے محاذ پر ناک رگڑوا کر ہی اس معاہدے پر مجبور کیا تھا۔

    قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے بیچ دوحہ میں ہونے والے حالیہ معاہدے کے تانے بانے بنیادی طور پر حماس کی ان ہی شرائط کے گرد بُنے گئے ہیں جن پر وہ روزِ اول سے قائم ہے، امریکی صدر بائیڈن کا تجویز کردہ معاہدہ بھی ان ہی شرائط کے موافق تھا اس لیے موجودہ معاہدے کی تفصیلات بائیڈن ہی کے تجویز کردہ مرحلہ وار معاہدے کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہیں۔ حالیہ معاہدہ بنیادی طور پر تین اہم نکات پر مبنی ہے: جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے مرحلہ وار مکمّل انخلا اور اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی۔ یہ معاہدہ تین مراحل پر مشتمل ہے:

    پہلا مرحلہ: جنگ بندی کا پہلا مرحلہ بیالیس دنوں کا ہو گا، اس دوران حماس کی جانب سے ۳۳، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی، جن میں زیادہ تر خواتین، بیمار اور زخمی شامل ہیں۔ ان کے بدلے اسرائیل اپنی جیلوں سے تقریباً ۱۹۰۰ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین، بچے اور پچاس سال سے زیادہ عمر کے ۲۹۶ ، ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے، رہا ہونے والوں میں پی، ایف، ایل، پی کی سرکردہ رہنما خالدہ جرار،۴۴ سال اسرائیلی جیلوں میں گزارنے والے نائل برغوثی، اور ۲۲ سالوں سے پابندِ سلاسل الفتح کے رہنما مروان برغوثی بھی شامل ہیں۔ جنگ بندی کے پہلے دن تین اسرائیلی خواتین کے بدلے نوے فلسطینیوں کو رہائی نصیب ہوئی۔ جنگ بندی نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی اسرائیلی افواج غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے انخلا کر لیں گی، اور چند دن بعد نتساریم محور سے بھی انخلا شروع ہو جائے گا، لیکن غزہ اور مصر کے درمیان فلاڈیلفیا کوریڈور میں فی الحال اسرائیلی فوج برقرار رہے گی۔ تاہم پہلے مرحلے کے آخری ایام میں رفح کراسنگ کو زخمی و بیمار ا فراد کے لیے کھول دیا جائے گا جو علاج کے لیے مصر میں داخل ہو سکیں گے، اس کراسنگ پوائنٹ کی نگرانی فلسطینی اتھارٹی اور یورپی یونین کے سپرد ہو گی۔ مصری علاقے سینا میں ان زخمیوں کے علاج کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تین طبی مراکز بھی فعال ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی فورسز غزہ کے شمالی اور مشرقی علاقوں کے سات سو میٹر چوڑے بفر زون میں بھی پہلے مرحلے کے دوران موجود رہیں گی۔ پہلے مرحلے میں شمالی غزہ سے بے گھر ہونے والوں کی واپسی ہو گی، تاہم ان کی واپسی کے لیے ایک نظم قائم کیا گیا ہے جس کے تحت پیدل افراد ساحلی راستے سے جبکہ گاڑیوں کے ذریعے واپس لوٹنے والے وسطی شاہراہ کا استعمال کریں گے، ہتھیاروں کی منتقلی کے خدشے کے پیشِ نظر گاڑیوں کی چیکنگ کی شرط بھی رکھی گئی ہے، اس عمل کی نگرانی قطر اور مصر کے اہلکار کریں گے۔

    دوسرا مرحلہ: معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات معاہدہ نافذ ہونے کے سولھویں روز شروع ہوں گے، ان مذاکرات میں حماس کی قید میں تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی، مردہ یرغمالیوں کی لاشوں کی سپردگی اور بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر بات چیت ہو گی۔ مذکورہ مرحلے میں رہا ہونے والے اسرائیلیوں کی اکثریت فوجی افسران اور اہلکاروں کی ہے اس لیے ممکنہ ڈیل میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی رہائی کا امکان ہے جن میں اہم شخصیات اور حماس و دیگر مسلح تنظیموں کے ارکان بھی ہوں گے۔ اس معاہدے کی رو سے دوسرے مرحلے میں غزہ کے تمام علاقوں سے اسرائیلی فوج کو مکمل انخلا کرنا ہو گا، البتہ شمالی و مشرقی علاقوں کے گرد بفر زون سے متعلق ابہام موجود ہے۔ اس معاہدے میں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ فریقین دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی پر بات چیت کریں گے۔ اس وقت حماس کی قید میں ۹۴ یرغمالی ہیں جن میں سے تقریباً ۳۴ ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ چار مزید اسرائیلی یرغمالی ایسے بھی ہیں جو ۲۰۱۴ء سے حماس کی قید میں ہیں، ان میں سے بھی ایک ہلاک ہو چکا ہے۔

    تیسرا مرحلہ: جنگ بندی معاہدے کا تیسرا مرحلہ غزہ کی تعمیرِ نو اور انتظامی کنٹرول سے متعلّق ہے۔ ان امور پر بھی مذاکرات پہلے مرحلے کے سولھویں روز شروع ہوں گے۔ غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق اس کی تعمیرِ نو پر کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اسرائیل کو ڈر ہے کہ غزہ کے ملبے کا ڈھیر سمندر میں پھینکنے سے اس کا رقبہ وسیع ہو جائےگا، وہ کئی بار اس پر واویلا مچا چکا ہے۔ جہاں تک غزہ پر حاکمیت یا انتظامی کنٹرول کا تعلق ہے تو اس کے لیے حماس اور الفتح کے درمیان بیجنگ اور قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد مشترکہ عبوری انتظامی کونسل تشکیل دینے پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن اسرائیل اس کو تسلیم کرنے سے فی الحال انکاری ہے، اس کی خواہش ہے کہ متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی نگرانی میں ایک عبوری کونسل تشکیل دی جائے۔

    حماس اور الفتح کے بیچ غزہ پر متحدہ حکومت تشکیل دینے سے متعلق کامیاب مذاکرات کے باوجود مغربی کنارے کے علاقے جنین کے پناہ گزین کیمپ میں مزاحمت کاروں کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کی ظالمانہ کار روائیوں کی وجہ سے اعتماد مجروح ہوا ہے، بالخصوص اب اسلامی جہاد کو مذکورہ اتھارٹی سے متعلق شدید تحفظات ہیں۔ حماس نے فلسطین کے انتظامی ماہرین پر مشتمل ٹیکنوکریٹ عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی ہے جو موجودہ حالات میں انتہائی مستحسن قدم ہوگا۔ حماس کی اس تجویز کو تمام فلسطینی تنظیموں سمیت قطر کی بھی حمایت حاصل ہے۔ غزہ پر عبوری یا مستقل حکومت فلسطینیوں کا ہی حق ہے، وہ کسی بھی طور پر بیرونی مسلّط کرده حاکمیت کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اس آزادی کے لیے وہ بہت بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔

    دوسری جانب اس جنگ بندی معاہدے پر اسرائیلی اور امریکی سازشوں کے سیاہ بادل ابھی سے منڈلانے لگے ہیں۔ نیتن یاہو نے جنگ بندی نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی اس معاہدے کو عارضی قرار دیا ہے، جبکہ وزیرِ خارجہ گیڈون کا کہنا ہے کہ اگر حماس کا اقتدار باقی رہا تو مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ غیر مستحکم ہو جائےگا۔اُدھر ٹرمپ انتظامیہ غزہ کی تعمیرِ نو کے نام پر آبادی کے ایک بڑے حصے کو اردن، مصر یا انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ مصری سرحد کے ساتھ فلاڈیلفیا کوریڈور اور غزہ کے گرد بفر زون میں فوج کی مستقل تعیناتی پر اسرائیل کے بےہودہ اصرار سے بھی اس کے مکارانہ و بھیانک عزائم بے نقاب ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ حتیٰ کہ شہری اسرائیلی یرغمالی خاتون کے بجائے فوجی خاتون کی رہائی کو بہانہ بنا کر معاہدے کی رو سے شمالی غزہ واپس جانے والوں کا راستہ روک کر اسرائیل نے موجودہ امن عمل کی پائیداری کو مخدوش بنا دیا ہے۔ اسرائیل کے ناپاک وجود پر اتنی کاری ضربیں لگ چکی ہیں کہ پہلے جیسی وسیع مہم جوئی اب اس کے لیے کوئی آسان کام نہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے لے کر موجودہ معاہدے تک کی رسوائی سے غاصب ریاست کی بنیادوں میں بھونچال برپا ہے۔ خطے میں فوجی برتری کا سارا غرور غزہ کی خاک میں مل چکا ہے۔ یہ ایک خالص غیر متوازن جنگ تھی، حماس اور اسرائیل کی عسکری قوت کا موازنہ ہی نری حماقت ہے۔ لیکن اور تو چھوڑیے صرف شمالی غزہ کے چھوٹے سے علاقے بیتِ حنون میں جس طرح مٹھی بھر بھوکے پیاسے جانبازوں نے اس فوج کے بخیے ادھیڑے اس کی مثال عرب اسرائیل جنگوں میں بھی نہیں ملتی۔ اگر معصوم بچوں و بے گناہ خواتین کا قتلِ عام اور شہری آبادیوں کو کھنڈرات بنانے کا نام کامیابی ہے، پھر تو بلاشبہہ اسرائیل اس صدی کا سب سے بڑا فاتح ہے۔ لیکن غزہ پر فوج کشی سے قبل دنیا کے سامنے جو واضح اہداف طے کیے گئے تھے، پندرہ ماہ تک بارود سے غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے بعد بھی وہ ان اہداف کو حاصل کرنے سے مکمل عاجز رہا۔ آخر جن کو ختم کرنے کا عزمِ مصمّم کر کے آیا تھا اُن ہی کی طے کردہ شرائط پر معاہدہ کر کے بھیک میں یرغمالی رہا کرنے کے سوا کوئی سبیل باقی نہ رہی۔ اس تاریخی و ذلت آمیز شکست پر اسرائیل شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے، اب وہ اپنی فطرتی مکاری و کمینگی کے سبب اس امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سازشی ہتھکنڈوں پر اُتر آیا ہے۔

    عالمی دنیا، اس معاہدے کے ثالث ممالک اور سعودی عرب کو فوری نوٹس لے کر سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ خادم الحرمین کے پاس گذشتہ پندرہ ماہ کے گناہوں کی تلافی کا بھی یہی موقع ہے۔ اسرائیل کی طرف سے سرکاری سطح پر گریٹر اسرائیل کے نقشوں کے اجرا کے بعد آپ کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ اور یاد رکھیں! فلسطینی مزاحمت ہی اسرائیل کے ناپاک عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جس دن یہ مزاحمت باقی نہ رہی تو اسرائیلی افواج اردن کو روند کر اور خلیجِ عقبہ کو عبور کرتے ہوئے سعودی عرب میں داخل ہونے سے گریز نہیں کریں گی۔ آپ تو وسیع اتحاد کے باوجود صعدہ کے پہاڑوں میں دس سال تک حوثیوں کو زیر نہیں کر سکے، یہودی افواج کا کیا مقابلہ کریں گے؟ اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی ضرور حفاظت فرمائے گا، لیکن: تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

  • !مدارس رجسٹریشن بل: پس منظر و پیش منظر

    مولانا محمد اقبال

     معاونِ شعبۂ تصنیف و تحقیق فقہ اکیڈمی

    مدارس رجسٹریشن بل: پس منظر و پیش منظر

    دینی مدارس کا تاریخی پس منظر

    تعلیم و تربیت کا وہ شجرۂ طیبہ جسے رسولِ اکرمﷺنے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے صفہ کے چبوترے پر اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا، وہ نہ صرف اپنی پاکیزہ جڑوں پر پروان چڑھا، بلکہ یہاں سے ہدایت و تربیت کی ایسی فصل تیار ہوئی جو آج تک انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ بن رہی ہے۔ تاریخِ اسلام میں اس شجرۂ طیبہ کی آبیاری ہر دور میں ایسے عظیم نفوس نے کی، جنھوں نے رسول اکرمﷺکے نقشِ قدم کی کامل پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگیاں علومِ قرآن و سنت کی توضیح و تشریح، تعلیم وتعلّم اور تبلیغ و دعوت کے لیے وقف کر دیں۔ یہاں سے مدارسِ دینیہ کی صورت میں علم و حکمت کے وہ چشمے پھوٹے، جنھوں نے انسانیت کو جہالت و ظلمت کی تاریکیوں سے نکال کر رشد و ہدایت کی روشنی عطا کی۔ جب ہم دینی درس گاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مغربی استعمار کے تسلط سے پہلے مدارسِ دینیہ کا کردار کافی وسیع اور ہمہ گیر تھا۔ وہ صرف دینی تعلیم و تربیت کے مراکز نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اسلام کی تاریخ میں کبھی بھی تعلیم کو دینی اور دنیاوی، دو علیٰحدہ خانوں میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ تعلیم کو نافع اور غیر نافع کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا۔ اس کا مقصد انسان کی مکمل ترقی اور فلاح تھا، جہاں دینی و دنیاوی دونوں علوم کو یکساں اہمیت دی جاتی تھی۔ ایک ایسا جامع نظامِ تعلیم رائج تھا جو دینی اور دنیاوی علوم میں تفریق سے پاک تھا۔ اس نظام کے تحت مفسرین، محدثین، فقہا، ریاضی دان، فلسفی اور سائنس دان یکساں طور پر پروان چڑھتے تھے۔ اگر عالمِ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی علما ایسے تھے جو بیک وقت فقہ، حدیث، تفسیر اور طبی یا سائنسی علوم میں کمال رکھتے تھے۔ اس ہمہ جہت نظامِ تعلیم کا نتیجہ یہ تھا کہ اس کے تحت ایک مسلمان اگر طبیب یا سائنس دان بنتا تو وہ اپنی اسلامی اقدار کو ساتھ لے کر چلتا تھا۔ تاہم، یہ صورت حال اس وقت بدل گئی جب مغربی طاقتوں نے عالمِ اسلام پر غلبہ حاصل کر کے نظامِ تعلیم کو تبدیل کر دیا۔ ان مغربی طاقتوں نے دینی اور دنیاوی علوم کو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا۔ دینی علوم کی سرپرستی سے نہ صرف ہاتھ اٹھا لیا بلکہ ماضی کے تعلیمی اداروں کے اوقاف کو بھی قبضے میں لے لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دینی تعلیم کو محدود کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں اور اس کا دائرہ سکڑتا گیا۔ استعماری طاقتوں نے یہاں ایسا نظامِ تعلیم تشکیل دیا جس میں دین کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ جب حکومت نے دینی علوم کو بالکل نظر انداز کیا تو اس تبدیلی نے مسلمانوں کی علمی و ثقافتی بنیادوں کو متاثر کیا۔ نتیجتاً، دینی علوم کی ترویج اور تحفظ کے لیے عوامی سطح پر مدارس قائم کیے گئے۔ برصغیر میں ۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں نے دینی مدارس قائم کرنے کا آغاز کیا تاکہ وہ فرنگی حکومت کے اثرات سے اپنے ایمان، ثقافت اور تعلیم کو محفوظ رکھ سکیں۔ ان مدارس کا مقصد مسلمانوں کی دینی اور علمی میراث کو بچانا تھا۔ چنانچہ برصغیر میں ان مدارس نے نہ صرف دینی علوم کا تحفظ کیا بلکہ تحریکِ آزادی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان اداروں کی خدمات نے برصغیر میں مسلمانوں کی تقدیر کو سنوارا اور ان کی علمی و دینی شناخت کو مستحکم کیا۔

    دار العلوم دیوبند کا قیام

    دار العلوم دیوبند کا قیام برصغیر کی اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ دار العلوم دیوبند کا قیام 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اس وقت عمل میں آیا جب مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، اس تاریخی مزاحمت میں علماے کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مگر اس مسلح جدوجہد میں کامیابی نہیں ملی۔ چنانچہ علماے کرام نے محسوس کیا کہ انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت میں ناکامی کے بعد مسلمانوں کے دین و ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے علمی اور تعلیمی میدان میں جدوجہد ضروری ہے۔ یہی احساس دار العلوم دیوبند کے قیام کا سبب بنا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور دیگر اکابر نے یہ ادارہ اس لیے قائم کیا کہ قرآن و حدیث کے علوم کو محفوظ رکھا جائے اور مسلمانوں کا اپنے دین سے تعلق مضبوط ہو۔ انگریزوں کی تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کرنے کی کوششوں کے جواب میں، دار العلوم دیوبند نے اسلامی علوم کو اصل شکل میں محفوظ کرنے اور ایسے علما تیار کرنے کی تحریک شروع کی، جو دین کی صحیح رہنمائی فراہم کر سکیں۔ یہ ادارہ علمی و دینی جدوجہد کا مرکز بن گیا، جس کا نصب العین مسلمانوں کو ذہنی غلامی سے بچانا اور ان کے دینی ورثے کی حفاظت تھا۔ انگریزوں کی حکومت نے نہ صرف مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو کمزور کیا بلکہ اپنی تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے ان کے دینی اور ثقافتی تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ اس تناظر میں دار العلوم دیوبند کا قیام ایک انقلابی قدم تھا جو مسلمانوں کو ان کی دینی شناخت سے جوڑے رکھنے کی کوشش تھی۔ دار العلوم دیوبند نے اپنی ابتدائی زندگی سے ہی انگریزوں کی استعماری پالیسیوں کے خلاف علمی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ یہ ادارہ محض ایک مدرسہ نہیں تھا، بلکہ ایک تحریک تھی، جو دینِ اسلام کی اصل روح کو زندہ رکھنے کے لیے سرگرمِ عمل تھی۔ یہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ چنانچہ دار العلوم دیوبند کے تعلیمی نظام نے اسلامی علوم کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ادارہ اپنی سادگی، خلوص اور جدوجہد کے جذبے کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں ایک مثال بن گیا۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے علما نے دنیا کے مختلف حصوں میں جا کر تعلیمی ادارے کھول دیے اور مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ دار العلوم دیوبند کا مقصد نہ صرف تعلیمی خدمات انجام دینا تھا بلکہ مسلمانوں کو ذہنی غلامی سے نجات دلانا اور ان میں آزادی اور خود مختاری کی روح پیدا کرنا بھی تھا۔ اس ادارے کی تحریک نے اسلامی معاشرے میں ایک نئی روح پھونکی اور مسلمانوں کے مذہبی ورثے کو استعماری اثرات سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ادارے کے بانی نے نہایت دور اندیشی اور حکمت عملی کے ساتھ ایک ایسا تعلیمی ماڈل پیش کیا جو آج بھی بہت سارے معاشروں میں قابلِ تقلید ہے۔ یہ ادارہ اپنی تاریخ، جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے مسلمانوں کے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد نہ صرف تعلیم و تدریس تھا بلکہ مسلمانوں کے دینی، علمی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت بھی تھا، جو آج بھی دار العلوم دیوبند کے مشن کا حصہ ہے۔

    پاکستان کے قیام کے بعد

    دار العلوم دیوبند کا قیام ایک ایسے دور میں ہوا تھا جب برصغیر کے مسلمان حکومت اور ریاست سے محروم تھے۔ اس وقت کے تقاضے ایک مسلم مملکت کے تقاضوں سے بالکل مختلف تھے، جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومت ہو۔ پاکستان کے قیام کے بعد صورتِ حال تبدیل ہو چکی تھی۔ اب ایک آزاد مملکت وجود میں آ چکی تھی جس میں مسلمانوں کی اپنی حکومت قائم تھی۔ ایسے میں یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ ایک آزاد مسلم ریاست اپنی ذمے داری ادا کرتے ہوئے اسلامی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائے گی، اور استعمار کے برسرِاقتدار آنے کے سبب نظامِ تعلیم کے اندر جو دوئی پیدا ہوئی ہے اسے ختم کر دے گی۔ اس طرح نجی سطح پر مدارس کے قیام کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ تاہم، بدقسمتی سے ریاست نے اس حوالے سے کوئی مؤثر دل چسپی ظاہر نہیں کی، جس کے باعث اسلامی تعلیم کے فروغ کے لیے نجی سطح پر مدارس کے قیام کی ضرورت بدستور برقرار رہی۔ اور بہ امرِ مجبوری وہی منہج برقرار رکھنا پڑا جو انگریز دور میں دار العلوم دیوبند کے بزرگوں نے اپنایا تھا۔ وفاق المدارس العربیہ کے صدر شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اس قضیے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پاکستان کے قیام کے بعد ہمارے بزرگوں کا خواب تھا کہ ملک میں ایک ایسا تعلیمی نظام رائج ہو جس میں دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کا بھی احاطہ کیا جائے۔ یہ نظام ایسا ہو کہ تمام طلبہ ابتدا میں مشترکہ بنیادی تعلیم حاصل کریں اور پھر ہر طالب علم اپنی دل چسپی کے مطابق ڈاکٹر، انجینیر یا عالم دین بن سکے، لیکن ان سب کی بنیاد دین پر قائم ہو۔ حضرت والد صاحب (مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع) قدَّسَ اللہ سرہ نے اپنی تقاریر میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دیا جائے جو دین اور دنیا دونوں کے علوم کو یک جا کرے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومتی اربابِ اختیار، جو علی گڑھ اور دیگر انگریزی تعلیمی نظاموں سے متاثر تھے، اس تصور کو اپنانے کے لیے تیار نہ تھے۔ جب یہ دیکھا گیا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کے نفاذ میں طویل جدوجہد درکار ہوگی، تو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں قرآنی و دینی علوم کے حامل افراد ضائع نہ ہو جائیں۔ اسی پس منظر میں حضرت والد صاحب نے 1951ء میں دار العلوم نانک واڑہ قائم کیا تاکہ دیوبند کے طرز پر قرآن و حدیث کے علوم کو محفوظ رکھا جائے اور ایسے افراد تیار کیے جائیں جو دین کے حقیقی علم بردار ہوں‘‘۔ چنانچہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک آزادمسلم مملکت میں نجی سطح پر مدارسِ دینیہ کا قیام عمل میں آیا۔ وقت کے ساتھ ملک بھر میں دینی مدارس کا ایک وسیع جال پھیل گیا، جو آج بھی اپنے بنیادی مقصد، یعنی دینِ اسلام کے علوم کی حفاظت و اشاعت میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان مدارس کا بنیادی ہدف دین کو اس کی اصل شکل میں محفوظ رکھنا اور ایسے افراد کی تربیت کرنا ہے جو قرآن و سنت کے علوم کے ماہر ہوں۔ چونکہ ان مدارس کے قیام کا مقصد دینی علوم، جو حکومت کی سرپرستی سے محروم تھے، کی نشر واشاعت کے لیے معقول انتظام کرنا تھا، اس لیے مدارس کے معاونین بھی دینی علوم کی خدمت کے جذبے سے تعاون فراہم کرنے لگے۔ اسی مقصد کے تحت مدارس میں ایسا نصاب ترتیب دیا گیا جس میں دینی علوم کو مرکزی حیثیت دی گئی، جبکہ عصری علوم کو محدود جگہ دی گئی۔ دوسری جانب، حکومت اور ریاست کے زیرِ اہتمام قائم کیے گئے تعلیمی اداروں میں عصری علوم کو فوقیت دی گئی اور دینی علوم کو نظرانداز کیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ملک میں طبقاتی نظامِ تعلیم فروغ پانے لگا، جو بلاشبہہ ریاستی کارپردازوں کی ترجیحات اور پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مدارس کے ذمے دار حضرات نے یہ محسوس کیا کہ ریاستی امور میں ان مدارس کا کردار محدود ہو گیا ہے، اور مدارس کے فاضلین معاشرے میں ایک مخصوص حد تک ہی کردار ادا کرنے کے قابل ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں نے انھیں مجبور کیا کہ اپنی ترجیحات پر نظرِثانی کریں اور نصابِ تعلیم میں مزید ضروری مضامین شامل کریں۔ اس شعور کے تحت مدارس میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، اور مختلف مدارس کے بورڈ وجود میں آنے لگے۔ چونکہ ریاست کی طرف سے کوئی معاونت دستیاب نہیں تھی، اس لیے مدارس نے مسلکی بنیادوں پر اپنے بورڈ تشکیل دیے۔ یہ ایک فطری عمل تھا جو وقت کی ضرورت کے تحت انجام پایا۔

    نائن الیون کا واقعہ اور مدارس

    جب نائن الیون کا واقعہ پیش آیا، جس کے براہِ راست اثرات پاکستان اور یہاں کے دینی مدارس پر پڑے۔ اس مرحلے پر ریاست نے مدارس سے متعلق پالیسیوں میں چند اقدامات تجویز کیے، لیکن یہ کسی مثبت سیاسی تبدیلی کا نتیجہ نہیں تھا کہ ریاست کو واقعی اپنی کوتاہی کا ادراک ہو چکا تھا۔ بلکہ بدقسمتی سے یہ کوششیں مدارس کے محدود اثرات کو مزید محدود کرنے کے لیے کی گئیں۔ چنانچہ بیرونی دباؤ کے تحت مدارس کی اہمیت کو کم کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں۔ یہ صورتِ حال اس طرح تھی جیسے کوئی بیمار شخص جسے اپنی بیماری اور علاج کا ادراک ہو، اور اچانک کوئی یہ کہہ دے کہ وہ اس کا علاج کرنا چاہتا ہے، لیکن درحقیقت وہ اس کی حالت مزید خراب کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اب ایک طرف ریاست کی یہ مداخلت اور دوسری طرف اپنی کم مائیگی کا احساس مدارس کو درپیش تھا۔ چنانچہ دانا و بینا لوگوں نے یہی نسخہ تجویز کیا کہ کسی صورت ریاست کی مداخلت قابلِ قبول نہیں ہے۔ کیونکہ وہی ریاست جو پچاس برس تک طبقاتی نظامِ تعلیم کو فروغ دیتی رہی، اب اچانک اسے اپنی کوتاہیوں کا ادراک کیسے ہونے لگا۔ مزید یہ کہ حکومت کے زیرِ انتظام تعلیمی اداروں میں بھی کوئی مثالی صورتِ حال موجود نہیں ہے۔ اس لیے مدارس کے ذمے دار حضرات نے واضح طور پر کہا کہ ہم اسی عطار کے لونڈے سے دوا نہیں لے سکتے جس کے سبب یہ مرض لاحق ہوا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مدارس کے ذمے دار حضرات کو شروع میں ہی اپنے مرض کا ادراک تھا اور اب شاید ایک اور سبب یہ بھی بنا کہ ’’جب تک ریاستی اداروں میں اپنے افراد شامل نہ ہوں، مداخلت سے نجات ممکن نہیں‘‘۔ چنانچہ انھوں نے اپنی وسعت کے مطابق خود اصلاح کا عمل شروع کیا۔ اسی شعور کے تحت مدارس نے اپنے نصاب میں عصری علوم شامل کیے اور اپنے طور پر اسکول اور کالج قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ چنانچہ یہ حکمتِ عملی آج بھی اکثر مدارس کے بزرگوں کی سرپرستی میں جاری ہے۔ اور ساتھ اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں اور تمام مسالک کے بورڈز اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے نام سے متحد کیے گئے۔ سیاسی طور پر دینی سیاسی جماعتوں نے ان کی پشت پناہی کی۔ دوسری جانب حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا، جس میں کبھی اتار چڑھاؤ اور کبھی دباؤ کی کیفیت رہی۔ حکومت مدارس کو مبینہ ’’قومی دھارے‘‘ میں لانے کی سعی کرتی رہی، جس کے تحت رجسٹریشن منسوخ کرنا، الزامات لگانا اور دیگر دباؤ کے حربے استعمال کیے گئے۔ کبھی یہ کہا گیا کہ بیرونی قوتوں کا دباؤ ہے، کبھی یہ دعویٰ کیا گیا کہ مدارس میں دہشت گردی ہوتی ہے یا فنڈنگ کے معاملات مشکوک ہیں۔ آپ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مدارس کا مالی نظام و انصرام کیسے کیا جاتا ہے اس کا پتا لگانے کا سب سے بڑا ذریعہ بینک ہی ہو سکتا ہے، مگر حکومت نے مدارس کے لیے اکاؤنٹس کھولنے کے راستے ہی بند کر دیے۔ ظاہر ہے جب مدرسہ کےپاس رجسٹریشن نہیں ہوگی تو وہ بطور ادارہ کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا۔ جب اکاؤنٹ نہ کھلے تو فنڈنگ کی شفافیت کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مدارس کی رجسٹریشن بند ہونے سے ان کا قانونی وجود ختم ہو گیا، جس کے باعث بینک اکاؤنٹ کھولنا اور غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینا ممکن نہ رہا۔ حکومت نے مدارس پر سخت نگرانی کی اور معلومات طلب کیں، خاص طور پر چھوٹے مدارس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں، رجسٹریشن دوبارہ کھولنے کے لیے سوسائٹیز ایکٹ میں بھی ترامیم کی گئیں، مگر رجسٹریشن جاری نہ ہو سکی۔ بالآخر ۲۰۱۹ء میں دباؤ کے تحت وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن پر بات چیت ہوئی، جس کا نتیجہ ایک مفاہمتی یادداشت کی صورت میں نکلا۔ اس کے اندر یہ طے پایا کہ حکومت مدارس کے اکاؤنٹ کھولنے پر سے پابندی ہٹا دے گی اور وہ مدارس جو پہلے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر تھے ان کی رجسٹریشن بحال کی جائے گی۔ ان کی تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو ان امور کی وضاحت کرے گی۔ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے فوراً بعد حکومت نے دینی مدارس کے لیے ایک ڈائریکٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا، اور مدارس کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے۔ اس اقدام پر دینی حلقوں نے اعتراض اٹھایا کہ یہ مدارس کی خودمختاری ختم کرنے اور انھیں وزارتِ تعلیم کے زیرِ انتظام لانے کی کوشش ہے۔ حالانکہ بظاہر یہ کہا گیا کہ مدارس آزاد رہیں گے، مگر وزارتِ تعلیم کی ہدایات کی پابندی لازم قرار دی گئی۔ اس کے ساتھ حکومت نے مفاہمتی یادداشت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ مدارس کی رجسٹریشن کھولی اور نہ غیر ملکی طلبہ کے ویزے کی سہولت دی۔ اس کے نتیجے میں دینی مدارس نے وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کے بجائے دوبارہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا مطالبہ کیا۔ مدارس کے اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کی خواہش پر دینی جماعتوں نے گذَشتہ سال حکومت سے مطالبہ کیا کہ مدارس کی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے لیے قانون سازی کی جائے۔ اس کے نتیجے میں حکومت نے ایک بل تیار کر کے اسمبلی میں پیش کیا، مگر بعض وجوہات کی بنا پر اسے روک دیا گیا۔ بعد ازاں، چھبیس ویں آئینی ترمیم کے موقعے پر حکومت کو آئین میں ترمیم کے لیے جمعیت علماے اسلام کے ارکان کی حمایت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا فضل الرحمن مدظلہ نے مدارس سے متعلق پہلے سے طے شدہ مسودے کی منظوری کے لیے حکومت سے بات کی، جس پر حکومت نے اتفاق کیا۔ نتیجتاً، یہ مسودہ دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہو گیا۔ بِل کے ابتدائی مسودے میں طے کیا گیا تھا کہ جو مدارس خود وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کرانا چاہیں، وہ ایسا کر سکتے ہیں، لیکن جو ایسا نہ کرنا چاہیں، وہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ تاہم، حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بِل میں یہ شرط شامل نہیں کی گئی اور وزارتِ تعلیم کا ذکر بھی حذف کر دیا گیا۔ بِل کی منظوری کے بعد جب اسے صدرِ مملکت کے پاس بھیجا گیا تو ابتدا میں انھوں نے ایک معمولی غلطی کی نشاندہی کی، جسے اسپیکر قومی اسمبلی نے درست کر دیا۔ تاہم، 15، دن بعد مزید اعتراضات سامنے آئے، حالانکہ آئین کے مطابق صدر کو اعتراضات واپس بھیجنے کے لیے 10 دن کی مدت دی گئی ہے۔ مقررہ مدت کے بعد اعتراضات بھیجنے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوتی، اس لیے بِل کو قانونی طور پر منظور تصور کیا گیا۔ اس بِل کی منظوری کے بعد جہاں صدرِ مملکت نے دوبارہ یہ اعتراض کیا کہ اسے بیرونی طاقتیں ناراض ہوں گی وہاں ہمارے بہت سارے حضرات جنھوں نے دو سال پہلے الگ بورڈ بنائے تھے، انھوں نے بھی حکومتی وزرا کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی اور مدارس کے اس بِل کی مخالفت کی اور یہ موقف اپنایا کہ مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں اس لیے انھیں سوسائٹی ایکٹ کے بجائے وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹر ہونا چاہیے۔ اس مطالبے کے ساتھ ساتھ انھوں نے خلطِ مبحث پیدا کرنے کی بھی کوشش کی اور ان کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ مدارس کو وزارتِ صنعت و تجارت کے تحت رجسٹر ہونے کا مطلب ہے کہ مدارس کو فیکٹریوں کے ساتھ رجسٹر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ دانستہ یا نادانستہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش تھی۔

    سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کیا ہے؟

    سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ ایک ایسا قانون ہے جو افراد کو نیک مقاصد کے حصول کے لیے ادارے یا انجمنیں قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ قانون غیر سیاسی تنظیموں کی تشکیل کو ممکن بناتا ہے، جو تعلیمی، ادبی، ثقافتی یا دیگر مثبت سرگرمیوں کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی ادارے کی رجسٹریشن کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قانونی حیثیت تسلیم کر لی گئی ہے اور اسے غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا۔ اس ایکٹ کی اہم شرائط میں مجلسِ انتظامیہ کا قیام، تنظیم کے مقاصد کا تعین، اور ان کا جائز و قانونی ہونا شامل ہیں۔ ان شرائط کی تکمیل کے بعد تنظیم کو رجسٹر کر لیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ اپنے طے شدہ دائرۂ کار اور مقاصد کے مطابق آزادی سے کام کرنے کی اہل ہوتی ہے۔ اسی قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے دینی مدارس کے اکابرین نے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ اپنے دینی امور کو آزادی سے جاری رکھ سکیں اور حکومتی مداخلت سے بچ سکیں۔ مدارس نے اس ایکٹ کے تحت اپنی قانونی شناخت کو یقینی بنانے کے لیے رجسٹریشن کا عمل اپنایا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک دینی مدارس اسی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مدارس کے جملہ تعلیمی امور میں حکومت کسی بھی وقت مداخلت کر سکتی ہے۔ اگرچہ مدارس کے لیے وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن میں کچھ فائدے بھی ہیں مگر حکومتی مداخلت سے مدارس نہیں بچ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسالک کے بیش تر مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے پر زور دیتے ہیں۔ بہرحال دینی جماعتوں اور مدارس کی قیادت کے مطالبے پر کابینہ نے اس بِل کی منظوری دی اورصدر مملکت نے دست خط کردیے، صدر کے دستخط کےبعد گزٹ نوٹیفیکشن جاری کر دیا گیا۔ لہذا مدارس بِل اب باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔ ان مدارس کے لیے جو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے حکومت نے ایک راستہ نکالا ہے کہ ان کے لیے صدر مملکت ایک آرڈیننس جاری کریں گے۔ بعد میں پھر اسی بِل میں ترمیم کر کے اسے نئے سرے سے اسمبلی سے منظور کیا جائے گا، جس میں سوسائٹی ایکٹ اور وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کا اختیار ہوگا۔ اس بِل کی منظوری کے بعد ان شاء اللہ مدارسِ دینیہ غیر ضروری حکومتی مداخلت سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ قانونی حیثیت اختیار کریں گے اور ان کے بینک اکاؤنٹس بھی کھلیں گے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی اس مادیت زدہ معاشرے میں اگر اسلامی تہذیب کے روشن آثار نظر آ رہے ہیں تو وہ انھیں دینی درس گاہوں کی خدمات کا ثمرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے مدارس حقیقت میں امتِ مسلمہ کی فکری، روحانی اور اخلاقی تربیت کا صحیح مرکز ثابت ہوں، اور بحیثیت قوم ہمیں اپنی اصل ذمے داری، ایک عمدہ اسلامی نظامِ تعلیم کے قیام کی توفیق نصیب ہو۔

  • شوقِ حیات

    شاعر: ابو القاسم الشابی

    ترجمہ: ڈاکٹر حبیب مصطفیٰ خمور

    شوقِ حیات

    شاعر کا مختصر تعارف

    ابو القاسم الشابی عربی زبان کے معروف شاعر ہیں۔ آپ کا تعلق شمالی افریقہ کے ملک تونس (Tunisia) سے تھا۔ آپ کا سنِ پیدائش 1909ء اور سنِ وفات 1934ء ہے۔ پچیس سال کی عمر میں آپ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی شاعرانہ زندگی ایک دہائی سے بھی کم مدت پر محیط ہے، مگر اس مختصر عرصے میں آپ کی بے مثال، حیات افروز شاعری نے آپ کو بقاے دوام سے ہم آغوش کیا۔ إرادة الحياة (شوقِ حیات) ابو القاسم الشابی کا مشہور قصیدہ ہے جو میں نے کچھ عرصہ پہلے پڑھا اور چیدہ چیدہ اشعار کا ایک ہی نشست میں نثری ترجمہ کر ڈالا۔ جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے:

    إِذا الشَّعْبُ يوماً أرادَ الحياةَ
    فلا بُدَّ أنْ يَسْتَجيبَ القدرْ

    ’’اگر کوئی قوم جینے کا ارادہ کر لے تو پھر لازمی ہے کہ وہ اپنا نصیب آزما ئے‘‘۔

    ولا بُدَّ للَّيْلِ أنْ ينجلي
    ولا بُدَّ للقيدِ أن يَنْكَسِرْ

    ’’بالآخر رات چھٹ جائےگی اور ہتھکڑیاں ٹوٹ جائیں گی‘‘۔

    ومَن لم يعانقْهُ شَوْقُ الحياةِ
    تَبَخَّرَ في جَوِّها واندَثَرْ

    ’’جسے شوقِ زندگی نے گلے نہیں لگایا اس کا نام ونشان تک مٹ گیا‘‘۔

    كذلك قالتْ ليَ الكائناتُ
    وحدَّثَني روحُها المُستَتِرْ

    ’’مجھے عالَم نے یہی کچھ بتایا اور اس کی پوشیدہ روح مجھ سے یوں ہم کلام ہوئی‘‘۔

    ودَمْدَمَتِ الرِّيحُ بَيْنَ الفِجاجِ
    وفوقَ الجبالِ وتحتَ الشَّجرْ

    ’’تندو تیز ہواؤں نے؛ پہاڑوں کی چوٹیوں پر، درختوں کے نیچے اور كشاده راستوں میں ایک حشر برپا کیا ہے‘‘۔

    ولم أتجنَّبْ وُعورَ الشِّعابِ
    ولا كُبَّةَ اللَّهَبِ المُستَعِرْ

    ’’میں نہ تو آگ کے شعلوں سے اور نہ ہی تنگ گھاٹیوں کی دشواریوں سے گریز پا ہوں‘‘۔

    ومن لا يحبُّ صُعودَ الجبالِ
    يَعِشْ أبَدَ الدَّهرِ بَيْنَ الحُفَرْ

    ’’جو پہاڑوں کو سر کرنے کا سودا نہیں رکھتا اس کی زندگی تا ابد گڑھوں میں بسر ہوتی ہے‘‘۔

    فَعَجَّتْ بقلبي دماءُ الشَّبابِ
    وضجَّت بصدري رياحٌ أُخَرْ

    ’’جوانوں کا لہو میرے دل میں امڈ آیا ہے اور میرے سینے میں آندھیاں ہنگامہ خیز ہیں‘‘۔

    أُباركُ في النَّاسِ أهلَ الطُّموحِ
    ومَن يَسْتَلِذُّ ركوبَ الخطرْ

    ’’میں زندہ دلوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنھیں خطروں سے کھیلنے میں بڑا لطف آتا ہے‘‘۔

    وأَلعنُ مَنْ لا يماشي الزَّمانَ
    ويقنعُ بالعيشِ عيشِ الحجرْ

    ’’ان لوگوں کے لیے لعن طعن ہے جو زمانے کے شانہ بہ شانہ نہیں چلتے اور پتھر جیسی بےجان زندگی پر قناعت کرتے ہیں‘‘۔

    ويقنعُ بالعيشِ عيشِ الحجرْ
    ويحتقرُ الميْتَ مهما كَبُرْ

    ’’کائنات زندگی سے عبارت ہے اور زندگی کو پسند کرتی ہے اور مردہ جسم کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتی ہے چاہے وہ حجم کے اعتبار سے بہت بڑا ہو‘‘۔

    فلا الأُفقُ يَحْضُنُ ميتَ الطُّيورِ
    ولا النَّحْلُ يلثِمُ ميْتَ الزَّهَرْ

    ’’افق کبھی مردہ پرندوں سے بغل گیر نہیں ہوتا اور نہ شہد کی مکھی مرجھائے ہوئے پھولوں کا رس چوستی ہے‘‘۔

  • ہمارے نظامِ تعلیم پر استعمار کے اثرات

    ڈاکٹر محمد رشید ارشد

    مدیر غزالی فورم

    ہمارے نظامِ تعلیم پر استعمار کے اثرات

    قسط نمبر ا

    ملکی سطح پر سیاسی اور معاشی استبداد اپنا کھیل کھیل رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر غزہ میں جواستعمارِ جدید کا ننگِ انسانیت ظلم و ستم جاری ہے۔ ان دونوں معاملات میں امتِ مسلمہ کے عوام کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی ظاہر و باہر ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ’’نظام ِ تعلیم پر استعماری طاقتوں کے اثرات‘‘ جیسے علمی موضوع کا کیا محل ہے۔ مگر اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہم جس آشوب سے گزر رہے ہیں ان حالات میں اس طرح کے موضوع کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ ملکی و عالمی ہر دو حالات کا اس موضوع سے براہِ راست تعلق ہے۔ مثلاً آج جب بین الاقوامی تنازعات ہوتے ہیں تو ہم کچھ اداروں اور کچھ تصورات کی دہائی دیتے ہیں، جیسے اقوامِ متحدہ ایک ادارہ ہے اور اسی طرح ہیومن رائٹس ایک تصور ہے۔ ہمارے خیال میں یہ دو چیزیں بھی استعمار اور نو آبادیاتی نظام کی توسیع ہیں۔ علامہ اقبال کی زندگی میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز بنی تھی جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یونائٹڈ نیشنز میں بدل دیا گیا۔ اقبال نے اس موقعے پر جو کہا تھا وہ آج بھی بہت متعلق ہے:

    بر فَتَد تا روَش ِرزم دَریں بزم ِکہن
    دردمَندانِ جہان طرحِ نو انداختہ اند
    من ازیں بیش ندانَم کہ کفن دُزدے چند
    بہر تقسیمِ قُبور انجمنے ساختہ اند

    تاکہ اس پرانی مجلس یعنی دنیا سے جنگ کو ختم کیا جا سکے اس مقصد کے دنیا کے لیے درد مندوں نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ میں تو اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ چند کفن فروشوں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔

    بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
    ڈر ہے خبرِ بد نہ مرے مُنھ سے نکل جائے
    تقدیر تو مُبرم نظر آتی ہے و لیکن
    پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
    ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پِیرکِ افرنگ
    اِبلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے!

    علامہ اقبال نے لیگ آف نیشن کو فرنگی بڈھے کی داشتہ کہا ہے اور یہ صحیح بات ہے۔ جون ایلیاؔ نے کہا تھا:

    حل نہ کرنے کے لیے ہر مسئلہ ہے زیرِ غور
    مسئلوں کو اور الجھانے کا فن ہے سامراج
    بستیاں ہیں مضطرب، آبادیاں ہیں مضمحل
    بربطِ خود پروری پر زخمہ زن ہے سامراج

    سامراج، استعمار، نو آبادیاتی نظام، نام جو بھی لے لیں یہ آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہے اور امتِ مسلمہ اس کا شکار ہے۔ امتِ مسلمہ کو اس کے ہاتھوں دو طرح کی نابودی کا سامنا ہے۔ کچھ علاقے ہیں وہاں طبعی نابودی کا اندیشہ ہے، جسے ہم physically eliminate کہتے ہیں، یعنی جسمانی طور پر ختم کر دیا جائے۔ پھر اس سے بڑھ کر تہذیبی نابودی (civilizational annihilation)یعنی ایک کلچر کا خاتمہ ہے۔ اب دو ڈھائی سو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں کہ ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ہماری اکثر مسلم ریاستوں کو پوسٹ کلونیل اسٹیٹس کہا جاتا ہے، اس طرح کی ریاستیں ہمیشہ سے استعمار کی پٹھو ریاستیں رہی ہیں۔ اور آج تک ہم نے اپنی ریاستوں کو بدلا نہیں ہے، یعنی ہم اسی پر راضی ہیں اور مطمئن ہیں۔ لہذا جو آج ہم بھگت رہے ہیں اس کے پیچھے وہی استعمار ہے۔ کیا اچھا شعر ہے میر کا:

    امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
    کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھیں کی دولت سے

    اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ

    گو سانس چل رہی ہے خوں اب نہیں جہَندَہ
    مشرق بہ دستِ مغرب مردہ بہ دستِ زندہ

    اکبر نے اگرچہ نو آبادیاتی دور میں یہ کہا تھا، لیکن آج بھی صورتِ حال یہی ہے کہ ’’مشرق بہ دستِ مغرب مردہ بہ دستِ زندہ‘‘ والی کیفیت ہے۔ لہذا یہاں استعمار آیا اور استعمار کے ساتھ جدیدیت بھی آئی۔ Mignolo ایک لاطینی امریکن مفکر ہے، اس کی ایک کتاب ہے The Darker Side of Modernity (جدیدیت کا تاریک پہلو) اس میں وہ یہ کہتا ہے: Coloniality is the flip side of modernity یعنی نو آبادیات جدیدیت کا دوسرا پہلو ہے، نو آبادیات اور جدیدیت کو آپ الگ نہیں کر سکتے یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔

    مغربی افکار کی قبولیت و عدم قبولیت کا تصور

    اس بحث میں ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ اگر ہم استعمار کا شکار نہ ہوتے تو کیا ہم ایسے ہی روایتی طریقے پر رہتے؟ ظاہر بات ہے ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ تہذیبوں میں آپس کا لین دین چلتا رہتا ہے۔ پیغمبرِ اسلامﷺکے دور میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خندق کا مشورہ دیا، اسی طرح منجنیق اختیار کی گئی، یہ ساری وہ چیزیں ہیں جنھیں ہم ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔ خلافتِ راشدہ میں نظامِ حکومت کے سلسلے میں ایرانی اور رومی طرزِ حکومت سے استفادہ کیا گیا۔ اسی طرح لباس، سواری جیسی چیزوں میں تبدیلی آتی رہی۔ یہ معاملہ چند چیزوں تک محدود نہیں تھا بلکہ تصورات بھی لیے گئے، ان تصورات کے زیرِ اثر جبریہ، قدریہ، حشویہ اور معتزلہ جیسے مختلف فِرق وجود میں آئے۔ پھر جوہر، عرض، ہیولا، استحالہ، وجوب، ممکن الوجود، واجب الوجود اور ممتنع الوجود جیسی اصطلاحات بھی آگئیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی تھیں کہ جو یونانی فکر کے اس اثر سے آئیں۔ لیکن یہ سب کچھ گن پوائنٹ پر نہیں تھا، یہ جبر کے ساتھ نہیں تھا، بلکہ ہم نے اپنی شرائط پر یہ ساری چیزیں لیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم غالب تھے، تو ہمارے پاس یہ اختیار تھا، مگر مغربی تہذیب کے مقابلے میں آج ہمارے پاس رد و قبول کا اختیار ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اسلامک ماڈرنسٹ جو مقولہ بہت استعمال کرتے ہیں کہ: خُذْ ما صَفا ودَعْ ما کَدِر، جو اچھا ہے وہ لے لو، جو آلودہ ہے اسے چھوڑ دو۔ اور بظاہر یہ بڑی اچھی بات لگتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی منہج ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ تب ہے جب ہمارے پاس اختیار ہو،ماضی میں ہمارے پاس انتخاب کا اختیار تھا اور ہم نے اسی اختیار کا استعمال بھی کیا۔ مگر جب ہم استعمار کے قبضے میں آئے تو ہم مغلوب تھے۔ انھوں نے ہمارے اداروں کو تحلیل کیا اور ہم پر ایک جبر مسلط کیا۔ گویا ہم حالتِ اختیار سے حالتِ اضطرار میں چلے گئے، یہ بہت جوہر ی تبدیلی ہے۔ چنانچہ عقل و نقل کی کشمکش یا روایت و جدیدیت کا ٹکراؤ جو اٹھارہویں صدی عیسوی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی میں مکمل ہو گیا، اس میں ہمارے پاس اختیار نہیں تھا۔

    تعلیم کے دورس اثرات

    چونکہ ہمارا موضوع تعلیم ہے آپ کو معلوم ہو گا کہ تعلیم میں اصالت اور عصبیت ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی روایت کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے اور اسے ٹھیک ٹھیک اپنی اگلی نسلوں تک پہنچانا ہوتاہے:

    باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
    پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو

    تعلیم کے لیے جہاں rootednessدرکار ہوتی ہے وہاں ایک دوسرا پہلو بھی ہوتا ہے، یعنی اگر ایک طرف اصالت ہے تو دوسری طرف معاصرت ہوتی ہے۔ جسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ علم کا ایک پہلو ہے rootedness اور ایک پہلو ہےrelatedness، ہم جس دنیا، جس زمان و مکان اور جس سیاق و سباق میں رہ رہے ہیں اس سے بھی وہ علم اور تعلیم متعلق رہنی چاہیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اسلامک ماڈرن ازم کا ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے ’’الثوابت والمتغیرات‘‘، یعنی ثوابت وہ پختہ چیزیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور ایک متغیرات ہیں۔ علامہ اقبال کی کتاب reconstruction میں بھی یہ تھیم بار بار آتا ہے۔ چنانچہ دورِ استعمار میں ان دونوں چیزوں کو نقصان پہنچا، ایک ہماری اصالت کو زَک پہنچی کہ وہ لوگ آ گئے انھوں نے آ کر ایک تو زبان بدل دی، پھر نظامِ تعلیم بدل دیا۔ نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے ساتھ پڑھے لکھے ہونے کا مطلب بھی بدل گیا۔ کہا گیا کہ: ’’پڑھے فارسی اور بیچے تیل‘‘۔اب جو پرانا علم تھا، جس کے لیے عالم، فاضل وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوتے تھے، وہ غیر متعلق ہو گیا، کیونکہ یہ مارکیٹ میں چلنے والا علم نہیں ہے۔ مارکیٹ میں تو اب انگریزی دان چلیں گے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ جو ہماری اصل تھی اس سے ہمارا تعلق ختم ہوا۔ اور پھر جو جدید علوم آ رہے تھے انگریزوں نے ایسا نہیں کیا کہ وہ سارے علوم جو اپنے ہاں رائج کیے وہ سارے یہاں رائج کر دیے۔ بلکہ انھوں نے اس میں انتخاب کیا، جو سائنس اور ٹیکنالوجی تھی وہ یہاں رائج نہیں کی، زیادہ تر لٹریچر، ادب، ثقافت اور تاریخ اس طرح کی چیزوں کو فروغ دیا۔

    اسی لیے اکبر نے کہا تھا

    علم پورا اگر سکھائیں ہمیں
    تب کریں شکر مہربانی کا

    یعنی ہمیں پورا علم نہیں سکھا رہے، اس میں بھی ایک خاص انتخاب ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پڑھ لکھ کے سیانے ہو جائیں اور ہمارے منھ کو آئیں۔ باقی یہ بات کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے جو ہمارا علم تھا کیا وہ بالکل ٹھیک تھا؟ ایسا بھی نہیں ہے، ہم طالب علموں کی ناقص رائے یہ ہے کہ دونوں پہلوؤں سے اس میں کمزوری واقع ہو چکی تھی۔ ایک جو اصالت والی بات ہے اس میں بھی کمزوری ہو گئی تھی۔ علومِ عالیہ یعنی متن کے علم میں گہرائی پیدا کرنا، اس کے اندر تفقہ اور بصیرت پیدا کرنا کم ہوتا جا رہا تھا اور علومِ آلیہ پر توجہ زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ ما قبلِ استعمار بھی ایسا نہیں ہے کہ ہم کوئی بالکل ٹھیک جگہ پر کھڑے تھے۔ یہاں وحدانی نظامِ تعلیم تھا، اس میں اپنے زمانے کا علم بھی تھا، اگرچہ کافی حد تک خارج میں یعنی یورپ میں جو ہو رہا تھا اس سے برِصغیر کے لوگ ناواقف تھے۔ اسی طرح ماقبل استعمار جو علوم و فنون، مثلاً ہندسہ، طب، ہیئت، جغرافیہ وغیرہ تھے، انھیں جدید تحقیق سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت تھی۔ لہذا ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ معاملات بالکل ٹھیک چل رہے تھے اور ساری خرابی انگریز نے کی ہے۔ بلکہ دونوں پہلوؤں سے یعنی قرآن وسنّت میں تفقہ میں کمزوری تھی اور اسی طرح زمانے کے جو علوم تھے ان میں بھی ہم کافی پیچھے تھے۔ بہرحال ہمارے ہاں جب انگریز آیا تو ہم نے جدید علوم کا استقبال ویسے نہیں کیا جیسے ماضی میں یونانی علوم کا کیا تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ فاتح بن کر آیا، جبر سے معاملہ ہوا اور ہمیں ایک وجودی خطرہ لاحق ہو گیا۔ جب ایسی صورتِ حال کا سامنا تھا تو اس کے مقابل میں جو لائحہ عمل اختیار کیا گیا تھا اس کے دو تناظر مولانا قاسم نانوتوی اور سرسید احمد خان تھے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ دونوں مولانا مملوک نانوتوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ دونوں کا تجزیہ یہی تھا کہ یہ جو اِدبار اور زوال ہم پر آیا ہے اس سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کا نسخہ تعلیم اور تربیت، علم اور اخلاق ہے۔ سر سید احمد خان اور مولانا قاسم نانوتوی دونوں ایک تجزیے پر پہنچے، مگر ان میں فرق یہ تھا کہ سر سید نے کہا علم و اخلاق وہ جو یورپ کا ہے، جبکہ مولانا قاسم اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا کہ علم بھی سلف کا اور اخلاق بھی سلف کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں نے مرض کی درست تشخیص کی مگر علاج میں اختلاف رونما ہوا۔ انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یو پی کے لڑکوں میں سر سید احمد خان کے بیٹے سید محمود منتخب ہوئے تھے، انھیں داخل کرانے کے لیے سر سید لندن گئے، اس سفر کی روداد ’’مسافرانِ لندن‘‘ کے نام سے لکھی۔ انھوں نے وہاں کا نظامِ تعلیم اور تمدن دیکھا اور اس سے بہت متأثر ہوئے۔ وطن واپسی پر انھوں نے وہاں کے نظامِ تعلیم بلکہ عمارتیں بھی آکسفورڈ اور کیمبرج کے ماڈل پر بنائیں۔ پھر اخلاق کی درستی کے لیے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔اس میں کھانے پینے کا کیا طریقہ ہے؟ چھری کانٹے سے کیسے کھانا ہے؟ کیسے اٹھنا ہے؟ کیسے بیٹھنا ہے؟ کیسے چلنا ہے؟ یہ سکھانا شروع کیا۔ لہذا انھوں نے انگریزی طرزِ زندگی کو ماڈل بنایا اور مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے رفقا نے دوسرا ماڈل بنایا۔

    اکبر کا ایک معجز نما شعر ہے

    توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
    جب بسولا ہٹا تو رندا ہے

    ایک اور جگہ کہا

    مشرقی تو سرِ دشمن کو کچل دیتے ہیں
    مغربی اُس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں

    مغرب یہ دونوں کام کرتا ہے، اس کا پہلا مرحلہ توپ والا ہے کہ اسے سرِ دشمن کو کچل دینا ہوتاہے، پھر اگلا مرحلہ اس کی طبیعت کو بدلنا ہے، اس کے لیے پروفیسر آئےگا۔ کتنی اچھی تشبیہ دی ہے کہ وہ جو بسولا ہے جو تیشہ ہے وہ تو کاٹ دیتا ہے جبکہ رندا چھیلتا ہے اور درست کر دیتا ہے۔

    اقبال نے بھی کہا کہ

    میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
    نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

    لوئس التھوسر(Louis Althusser) بائیں بازو کے ایک مشہور تھنکر ہیں، انھوں نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ دو طرح کے آلات و اوزار apparatusہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے جابر ریاستی آلہ (repressive state apparatus) جس میں آرمی، فوج، طاقت اور جیلیں ہوتی ہیں۔ اور ایک ہے نظریاتی ریاستی آلہ (ideological state apparatus) جس میں اسکول، کالج، میڈیا انڈسٹری ہے۔ یعنی ایک وہی ہے جو سرِ دشمن کو کچل دیتا ہے، وہ توپ ہے اور دوسرا وہ پروفیسر ہے جو طبیعت کو بدل دیتا ہے۔ تو استعمار نے پہلے ہمیں مغلوب کیا اور اس کے بعد نظامِ تعلیم اور ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے ہمیں ہماری روایت سے کاٹ کر جدیدیت سے آشنا کر کے وہ ہمیں اپنے ڈھب پہ لے آیا۔

    ثقافتی اجارہ داری

    سیاسی مغلوبیت سے لے کر سماجی اور علمی شکست کے درمیان ایک مرحلہ ثقافتی اجارہ داری کا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی مفکر Gramsci نے پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس میں طاقت کا استعمال نہیں ہوتا، بظاہر ایسے لگتا ہے کہ خوشی خوشی یہ سب ہو رہا ہے۔ اس میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی ذہنی تبدیلی پیدا کر دی جاتی ہے کہ اجارہ زدہ گروہ خود برضا و رغبت اپنے خیالات سے دست بردار ہو جاتا ہے اور اجارہ دار کے نظریات کو قبول کر لیتا ہے، یہ hegemony کہلاتی ہے۔ اور عام طور پر یہ تب ہوتا ہے جب ان دونوں گروہوں کے درمیان طاقت، ثقافت اور معیشت میں عدم مساوات ہو۔ جس پر اجارہ قائم کیا جا رہا ہے وہ اپنے خیالات، ثقافت، شناخت سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ کالونی کہتے ہی اس کو ہیں کہ حاکم اور محکوم کے درمیان نظریات، خیالات وغیرہ کا جو تعلق ہوتا ہے وہ یک طرفہ ہوتا ہے وہ ایکسچینج نہیں ہوتا۔

     چنانچہ استعمار کے تسلط کے بعد ہندوستان میں لوگوں نے مغرب کی ثقافتی اجارہ داری کو قبول کر لیا۔ ولیم ولسن ہنٹر (William Wilson Hunter) کی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان‘‘ ایک مشہور کتاب ہے، وہاں پر یہ لکھا ہوا ہے کہ جب مسلمانوں نے برطانوی ہندوستان کو دار الحرب کے بجائے دار الامان کے طور پر قبول کر لیا تو انھوں نے اپنی محکومانہ حیثیت بھی تسلیم کر لی۔ جب تک مسلمان ہندوستان کو دارالحرب سمجھتے رہے تو مزاحمت کو اپنا مذہبی فرض سمجھتے رہے، مگر جب اپنی محکومانہ حیثیت کو قبول کر لیا تو مزاحمت کی جگہ متابعت نے لے لی۔

     سرسید احمد خان نے کہا تھا کہ: ’’ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے بلکہ دھوکے میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈ میکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکے کی ٹٹی کو اٹھا دیا تھا۔ ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدتِ دراز تک قائم رہےگا‘‘۔ (حیاتِ جاوید)

    یہ دیکھتے ہوئے تعجب ہوتا ہے کہ معلوم نہیں ہم سر سید مرحوم کو کہا ں سے تحریکِ پاکستان میں ڈال دیتے ہیں، حالانکہ وہ تو قیامت تک ملکۂ عالیہ کا راج قائم رکھنا چاہتے تھے۔

     آگے وہ کہتے ہیں: ’’پس ہم اپنے ہم و طنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا اور ان کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کر سکیں اور زمانۂ سلف کے دھوکا دینے والے خیالات کو باطل کرنا جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنتِ انگریزی کے لائق و کار آمد رعایہ بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔(تذکرۂ سر سید، محمد امین زبیری)

     Hegemony اسی کو کہتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے اندر نکارت پیدا نہ ہو آپ واقعی سمجھیں کہ یہ ہمارے خیر خواہ ہیں۔

    آگے کہتے ہیں: ’’جو شخص اپنی قومی ہمدردی سے اور دور اندیش عقل سے غور کرے گا کہ ہندوستان کی ترقی ، کیا علمی کیا اخلاقی صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجے کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک کو بھول جائیں، تمام مشرقی علوم کو نَسیاً منسیاً کر دیں ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرینچ ہو جائے۔ یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست مال ہوں ہمارے دماغ یورپین خیالات سے بجز مذہب کے لبریز ہوں۔ ہم اپنی قدر، اپنی عزت کی قدر کرنا خود سیکھیں۔ ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیر خواہ رہیں اور اسی کو اپنا محسن سمجھیں‘‘۔ (مقالاتِ سر سید، حصہ ۱۵،ص ۶۶)

    بہرحال یہ جو ایک مقولہ ہے کہ: Divide and ruleیعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو، ایسے ہی کسی نے لکھا ہے کہ:Define and rule ، یعنی تعریف کرو اور حکمرانی کرو۔ پہلی والی بھی ایک اسٹریٹیجی ہے اور دوسری بھی۔

    اکبر نے کہا ہے

    میری نصیحتوں کو سن کر وہ شوخ بولا
    نیٹو کی کیا سند ہے صاحب کہیں تو مانوں

    سر سید کے نقطۂ نظر کے ضمن میں میکالے کا یہ جملہ بھی اہم ہے کہ:

    We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern.

    (Macaulay’s Minute on Education, February 2, 1835).

    ’’ہمیں فی الحال ایک ایسا طبقہ بنانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے جو ہمارے اور ان لاکھوں لوگوں کے درمیان ترجمان ہو جن پر ہم حکومت کرتے ہیں‘‘۔ آگے وہ مزید کہتے ہیں کہ:A class of persons, Indian in blood and colour, but English in taste, in opinions, in morals, and in intellect. ’’لوگوں کا ایک طبقہ جو خون اور رنگ کے لحاظ سے ہندوستانی ہو لیکن ذوق، راے، اخلاق اور عقل کے لحاظ سے انگریز ہو‘‘۔

    اقبال نے کہا تھا کہ

    ترا وجود سراپا تجلّیِ افرنگ
    کہ تُو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

    اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تمام گر بروے کارلاتے ہیں ان میں سے ایک کلچر انڈسٹری بھی ہے۔ اکبر کہتے ہیں:

    یورپ میں گو ہے جنگ کی قوت بڑھی ہوئی
    لیکن فزوں ہے اس سے تجارت بڑھی ہوئی

    جاری ہے

  • فهمتَ الآن يا ولدي

    شاعر: عبد الله حسین ابو المجد الوصابی

    مترجم: مولانا حماد احمد ترکؔ

    فهمتَ الآن يا ولدي

    فهمتَ الآن يا ولدي                                کیا اب تمھاری سمجھ میں آیا میرے بچے!

     لماذا قلتُ لاتكبر؟!                               میں نے تم سے کیوں کہا تھا کہ ’’بڑے مت ہونا‘‘؟

    فمصرٌ لم تعُد مصراَ                                 مصر کی بھی اب وہ شان نہ رہی

    وتونس لم تعد خضرا                             تیونس بھی ہرا بھرا نہ رہا

    وبغدادٌ هي الأُخرى                                اور بغداد بھی تو ہے

    تذوق خيانةَ العسكر                               جسےفوج کی خیانت جھیلنا پڑی

    فهمتَ الآن ياولدي                                 کیا اب تمھاری سمجھ میں آیا میرے بچے!

     لماذا قلتُ لاتكبر؟!                               میں نے تم سے کیوں کہا تھا کہ ’’بڑے مت ہونا‘‘؟

    وإن تسأل عن الأقصىٰ                            اور اگر تم اہلِ قدس کی پوچھتے ہو

    فإن جراحهم أقسىٰ                                 تو سنو…ان کا زخم تو مزید گہرا ہے

    بني صُهيون تقتلهم                                 کیونکہ… بنی صیہون انھیں قتل کر رہے ہیں

    ومصرٌ تغلق المعبر..                              اور مصر نے سرحدی راستہ بند کر دیا ہے

    فهمتَ الآن يا ولدي                                کیا اب تمھاری سمجھ میں آیا میرے بچے!

     لماذا قلتُ لاتكبر؟!                               میں نے تم سے کیوں کہا تھا کہ ’’بڑے مت ہونا‘‘؟

    وحتى الشام يا ولدي                               بس کیا کہوں … مرے لاڈلے، اہلِ شام تو

    تموت بحسرةٍ أكبر                                  انتہائی حسرت و یاس کے عالم میں مر رہے ہیں

    هنالك لو ترى حلبا                                 ذرا ادھر حلَب کی طرف دیکھو

    فحق الطفل قد سلِبا                                وہاں بچوں سے ان کا حق چھینا جا رہا ہے

    وعرِض فتاة اغتصبا                                بہنوں کی عصمتیں پامال ہو رہی ہیں

    ونصف الشعب في المهجر                     اور آدھے لوگ بے گھر ہیں

    صغيري أنني أرجوك لاتكبر                  بات مان لو نا ،میری ننھی سی جان! مت بڑے ہو

    فهمتَ الآن يا ولدي                                کیا اب تمھاری سمجھ میں آیا میرے بچے!

     لماذا قلتُ لاتكبر؟!                               میں نے تم سے کیوں کہا تھا کہ ’’بڑے مت ہونا‘‘؟

    فأُمّتنا مٌمزّقةٌ                                            ہماری ملّت بکھر چکی ہے

    وأٌمّتنا مقسّمةٌ                                          اور امّت پارہ پارہ ہے

    وكل دقيقةٍ تخسَر                                    اس کا ہر لمحہ خسارے اور گھاٹے کا ہے

    وحول الجيد مشنقةٌ                                اس کی گردن میں پھندا ڈلا ہوا ہے

    وفي أحشائها خنجر                                 اور اس کے سینے میں خنجر پیوست ہے

    فهمتَ الآن يا ولدي                                کیا اب تمھاری سمجھ میں آیا میرے بچے!

     لماذا قلتُ لاتكبر؟!                               میں نے تم سے کیوں کہا تھا کہ ’’بڑے مت ہونا‘‘؟

    هنا سيسي، هنا سبسي                             کہیں سیسی ہے تو کہیں سبسی ہے

    هنا حوثي، هنا حفتر                               کہیں حوثی ہے تو کہیں حفتر ہے

    هنا إيران وأمريكا                                    کہیں امریکا و ایران ہیں

    وإسرائيل وابن عمر                                اور کہیں اسرائیل اور جمال بن عمر

    هنا عربي يخذلنا                                     ایک طرف تو ہمیں عربوں نے تنہا چھوڑ دیا ہے

    ومسلم جاء ينحرنا                                  دوسری طرف، نام نہاد ’’مسلمان‘‘ ہمیں ہی ذبح کر رہے ہیں

    وإرهابي يفجرنا                                      اور دہشت گرد ہمارے اوپر ہی دھماکے کر رہے ہیں

    ولاندري لِم فجّر؟                                  اور ہم جانتے تک نہیں کہ دھماکے ہو کیوں رہے ہیں

    فهمتَ الآن يا ولدي                                کیا اب تمھاری سمجھ میں آیا میرے بچے!

     لماذا قلتُ لاتكبر؟!                               میں نے تم سے کیوں کہا تھا کہ ’’بڑے مت ہونا‘‘؟

  • بیت المقدس کا تاریخی خاکہ

    صوفی جمیل الرحمٰن عباسی

    مدیر ماہنامہ مفاہیم

    بیت المقدس کا تاریخی خاکہ

    قسط نمبر۳۰

    ۱۴، فروری ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی فلسطین پر اپنا مینڈیٹ (حقِ استبداد) اقوام متحدہ کو سونپ کر اس قضیے سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ چنانچہ ۲ ، اپریل ۱۹۴۷ء کو حکومتِ برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کی کہ وہ مسئلۂ فلسطین کو جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل کریں اور اس مسئلے پر غور و فکر کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو تمام اطراف و جوانب سے اس معاملے پر غور کر کے کوئی مناسب حل تجویز کرے۔ اقوامِ متحدہ نے ایک خاص گیارہ رکنی کمیٹی ، یونائیٹڈ نیشنز اسپیشل کمیٹی آن پیلسٹائین، united nations special committee on Palestine تشکیل دی۔ کمیٹی میں ہالینڈ، آسٹریلیا، کنیڈا، چیکو سلواکیہ، گوئٹے مالا، پیرو سویڈن، یوگو سلاویہ اور ایران وغیرہ تھے۔ اس کمیٹی کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس مسئلے کے جملہ پہلوؤں پر غور و فکر کر کے اس کا حل تجویز کرے اور اقوامِ متحدہ کی مجلسِ عامہ کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں رپورٹ پیش کرے۔ عرب ممالک نے بجا طور پر اس کمیٹی کی تشکیل پر اعتراض کیا۔ ا س اعتراض میں افغانستان اور ترکیہ بھی ان کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو کمیٹی چھوٹے اور غیر طاقت ور ممالک پر مشتمل ہے اور کمیٹی کے اکثر رکن ممالک امریکہ کے دباؤ کا شکار بلکہ بعض ممالک کے مندوبین تو واضح طور پر صیہونیت کی طرف میلان رکھنے والے ہیں۔ مئی ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ میں برطانوی نمائندے الیگزینڈر کاڈگان نے اعلان کیا کہ اقوامِ متحدہ جو بھی قرار داد منظور کرے اس کے احترام کے باوجود ہم دونوں فریقین کی موافقت کے بغیر کسی حل کی حمایت نہ کریں گے اور ہم ہر حال میں اپنے ضمیر کی آواز کو ترجیح دیں گے۔ اس پر یہودیوں اور امریکہ نے سخت تنقید کی اور اسے کمیٹی کو سبوتاژ کرنے کے برابر قرار دیا۔ اگرچہ یہ بات بیان کی حد تک تھی اور خصوصاً عرب جانتے تھے کہ یہ برطانیہ کا جھوٹ ہے۔ اور اگر برطانیہ یہودیوں کی پشت پناہی نہ کرتا تو نوبت یہاں تک پہنچ ہی نہ پاتی۔ خاص طور پر آخری برطانوی ہائی کمشنر کے اس بیان کی گونج ابھی تک ماحول میں گونج رہی تھی کہ اگر برطانیہ کا اسلحہ اور فوجی طاقت نہ ہوتی تو فلسطین میں ۱۹۲۲ء کی ۴۸ ہزار یہودی آبادی ۱۹۴۷ء میں ۶ لاکھ ۴۰ ہزار تک نہ پہنچ پاتی۔ بہرحال عربوں نے اقوامِ متحدہ کی خصوصی کمیٹی کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ اختیار کیا۔ اسی دوران جون اور جولائی ۱۹۴۷ء کے دوران قدس میں تحفظِ ارضِ مقدس کے عنوان سے عربوں کے دو اجتماعات منعقد ہوئے جن میں جمال الحسینی نے خطاب کیا، جبکہ مفتی الحاج امین الحسینی رئیس مجلس اعلی العربیہ، مقیم قاہرہ کا خط پڑھ کر سنایا گیا۔ ان اجتماعات میں ارضِ مقدس کے تحفظ کے اعلانات اور صہیونیوں اور انگریزوں کی سازشوں کی مذمت وغیرہ کی گی۔ ۳۱، اگست کو خصوصی کمیٹی کو دیا گیا وقت مکمل ہوا اور اس نےمسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے اپنا فارمولہ پیش کیا۔ کمیٹی نے تجویز کیا کہ: فلسطین کو دو مستقل ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ملک کا۴۳ فیصد رقبہ عرب ریاست کے لیے مختص کیا جائے جبکہ ۵۶ فیصد علاقے پر یہودی ریاست قائم کی جائے۔ جبکہ قدس اور بیت اللحم اور آس پاس کے کچھ علاقے ایک اکائی بنا کر اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیے جائیں۔ تمام مذاہب کو یہاں زیارت وغیرہ کا حق دیا جائے گا۔ دونوں ریاستوں کی اپنی اپنی مجلس تاسیس تشکیل دی جائے گی اور یہی مجلسیں اپنا اپنا دستور اور کرنسی وغیرہ تشکیل دیں گی۔ اس کام کے لیے دو سال کی مدت طے کی جائے گی۔ اسی دوران وائٹ پیپر (۱۹۳۹ ء ) میں فلسطینی اراضی کی خرید و فروخت و انتقال پر عائد پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ اس منصوبے میں یہودیوں کی ہجرت کا بھی ایک منصوبہ بھی طے کیا گیا۔ طے کیا گیا کہ مئی ۱۹۴۸ء کے آغاز میں برطانیہ اپنی فوجوں کا انخلا کر لے گا۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اپنی نگرانی میں جون کے آغاز سے پہلے دو ریاستیں قائم کرنے کا اعلان کرے گی۔ اس دوران امن و امان کی ذمےدار بھی یہی کمیٹی ہوگی جو دونوں ملکوں کی ملیشیا کے ذریعے یہ ذمے داری ادا کرےگی۔ خصوصی کمیٹی کی ان تجاویز کے سامنے آنے کے بعد، ۶ ستمبر کو عرب ممالک کی ایک کانفرنس کا انعقاد، لبنان میں ہوا جس میں متفقہ طور پر تقسیمِ فلسطین کے اس منصوبے کو رد کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ اس منصوبے کی مخالفت میں تمام وسائل بہ روے کار لائے جائیں گے۔ جانی و مالی، فوجی و افرادی و سیاسی ہر طرح سے اہلِ فلسطین کی مدد کی جائے گی۔ کونسل نے اپنے خدشات کے اظہار کے لیے برطانیہ اور امریکی کی جانب وفود بھی روانہ کیے۔ اگلے ہی دن ۷، ستمبر ۱۹۴۷ ء کو عرب کونسل کا ایک مزید اجلاس ہوا جس میں اس حقیقت پر غور کیا گیا کہ عرب نہ صرف اسلحے کے اعتبار سے کمزور ہیں بلکہ ان کے پاس مناسب جنگی تیاری اور مہارت بھی نہیں ہے، جبکہ اس کے برعکس یہود نہ صرف جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں بلکہ ان کے پاس جنگِ عظیم میں لڑے ہوئے فوجی اور افسر بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دہشت گرد تنظیمیں ارگوان ، ہاغاناۃ اور شیٹرن وغیر ہ بھی تربیت یافتہ اور منظم ہیں۔ یہ تجویز پیش کی گئی کہ عرب حکومتیں اپنی فوج کا کچھ حصہ فلسطین کے بارڈر پر متعین کر دیں اور عرب عوام اور جوانوں کو مسلح کرنے اور انھیں فوجی تربیت دینے کا کام بھی فی الفور شروع کیا جائے۔ کانفرنس میں ایک فنی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لا کر تمام تر فوجی معاملات کی نگرانی و اہتمام اسی کمیٹی کے سپرد کی گئی۔ فنی کونسل کا مرکزی دفتر دمشق میں قائم کیا گیا۔ جنگی معاملات کی یہ کمیٹی جامعۃ الدولۃ العربیہ کے تحت تھی۔ کانفرنس نے فلسطین کی مدد کے لیے دس لاکھ پاونڈ کی رقم جمع کرنے کا اعلان کیا اور رکن ممالک کو تاکید کی کہ وہ فنی کمیٹی کے ذریعے فلسطینیوں کی افرادی و مادی مدد کا سلسلہ جلد شروع کریں اور مصر، شام، لبنان، اردن اور عراق جلد اپنے فوجی دستے فلسطین کی سرحدوں پر تعینات کریں۔

    کانفرنس کے خاتمے کے بعد جلد ہی دمشق کے نزدیک ایک معسکر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ عرب ممالک نے اپنی سرحدی پابندیاں نرم کیں اور اردن، شام، لبنان عراق اور مصر سے رضا کار تربیت کے لیے دمشق کا رخ کرنے لگے۔ طہ ہاشمی العراقی، اسماعیل صفوت پاشا اور فوزی القاوقجی الشامی وغیرہ مجاہدین کی تنظیم و تربیت کا اہتمام کر رہے تھے۔ تربیت دینے والوں میں شامی فوجی سرِ فہرست تھے۔ مجلس اعلیٰ العربیہ کی ہدایت کے مطابق فلسطین میں تنظیم شباب العربی کے نام سے جہادی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ایک مصری فوجی افسر محمود لبیب کو تنظیم کے رضا کاروں کی تربیت پر مامور کیا، لیکن برطانوی ادارۂ انتدابِ فلسطین اس کوشش کے آڑے آیا اور اس نے محمود لبیب کو فلسطین سے نکال دیا۔ جبکہ دوسری طرف یہودیوں کو نہ صرف مسلح تربیت و تنظیم بلکہ دہشت گردی تک کی بھی کھلی چھوٹ حاصل تھی اور وہ کئی مقامات پر دہشت گردی کی وارداتوں کے مرتکب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کے گھروں اور خیموں میں دھماکا خیز مواد پھینکنا، آگ لگا دینا اور فائرنگ وغیرہ روزمرہ کا معمول بن گیا۔ ان دنوں کئی مسلمانوں کو زخمی کیا گیا جبکہ ایک مسلمان کو تو زندہ جلا دیا گیا۔ ۹ نومبر ۱۹۴۷ ء کو اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں تقسیم کی قرار داد پر راے شماری شروع کی گئی۔ جس میں ۳۳، آرا تقسیم کے حق میں اور ۱۳، ووٹ اس کے خلاف پڑے جبکہ ۱۰، ارکان ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس عرصے میں روس اور امریکہ نے فلسطین کی تقسیم پر اتفاق کیا جسے عرب دنیا نے شدید ناپسند کیا۔ دمشق میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور امریکی سفارت خانے کا گھیراؤ کیا گیا۔ اسی طرح عمان، عراق اور اردن وغیرہ میں بھی مظاہرے شروع ہوئے، بیروت اور سعودیہ میں بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے شروع ہوئے اور فلسطین کے لیےچندے جمع کیے گئے۔ مطالبے کیے گئے کہ سرحدیں کھول کر مجاہدین کو بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔ جامع ازہر کے زیرِ اہتمام بھی مظاہرے اور جلسے جلوس ہوئے۔ ان شہروں میں فلسطین کے لیے رقوم اور اسلحہ جمع کیا گیا اور رضاکاروں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا گیا۔ تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود فلسطین کے اندر بھی جہادی سرگرمیوں کو منظم کیا جا رہا تھا۔ یہاں کی قیادت، شہید موسیٰ کاظم الحسینی کے صاحب زادے عبد القادر الحسینی کر رہے تھے۔ اقوامِ متحدہ میں تقسیم فلسطین کی قرار داد منظور ہونے کے بعد یہودیوں نے اپنی دہشت گردی میں اضافہ کر دیا۔ نومبر اور دسمبر ۱۹۴۷ء میں مختلف علاقوں میں یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی اکا دکا جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن آمنے سامنے مقابلے کے بجائے یہودیوں کا زیادہ زور دہشت گردی پر تھا۔عمارتوں ، پلوں اور دیگر عوامی مقامات پر دھماکے یا آتش زنی کی طرف ان کا زیادہ رجحان تھا۔ اس کے علاوہ ان کی جنگی تیاریاں عروج پر تھیں۔ اسلحے کے تاجروں سے اسلحہ خریدنے کے علاوہ وہ اپنے دوست ممالک سے دھڑا دھڑ اسلحہ منگا رہے تھے۔ امریکی حکومت کی ملی بھگت سے امریکی فرموں سے اسلحہ خریدا جاتا اور انھی کی مدد اور ملی بھگت سے اسلحہ تل ابیب تک پہنچایا جاتا۔ اس کے علاوہ جنگِ عظیم میں یہودیوں کی شرکت کے سبب بھی ایک بڑی تعداد ان کی مسلح تھی۔ دوسرے علاقوں سے آنے والے یہودی بھی کچھ نہ کچھ اسلحہ ساتھ لے ہی آتے تھے۔ ۱۹۴۸ء کے ابتدائی مہینوں میں یورپ کی طرف سے یہودیوں کو فوجی گاڑیاں، بکتر بند گاڑیاں، توپیں اور بھاری اسلحہ فراہم کیا جا رہا تھا۔ اسی دوران برطانیہ نے ۲۰ جنگی ہوائی جہاز اسرائیل کو فروخت کیے، جبکہ امریکہ نے بھی کچھ جہاز اسرائیل کو فراہم کیے۔ اس سے یہود کو مسلمانوں پر کھلی برتری حاصل ہو گئی۔ راس العین، صرفند اور وادی الصرار وغیرہ میں ان کی چھاؤنیاں آباد ہوچکی تھیں اور جا بجا ان کی فوجی تربیتیں جا ری تھیں۔ جنگی فنی کونسل نے فلسطین کو چار جنگی قیادتوں میں تقسیم کیا تھا۔ شمالی سمت میں شام اور لبنان کی سرحدوں سے لے کر، الناصرہ، جنین، نابلس، طولکرم اور عکا وغیرہ کی قیادت فوزی القاوقجی کے سپرد کی گئی۔ القدس، رام اللہ، اریحا، الخلیل کی قیادت عبد ا لقادر الحسینی کو سونپی گئی۔ لد، رملہ، یافا، کی قیادت حسن سلامہ کر رہے تھے۔ غزہ کے علاقے کی قیادت طارق الافریقی کے پاس تھی۔ مجاہدین کو اسلحے کی کمی کا احساس شدت سے ہو رہا تھا۔ جتنی بھی جمعیتیں اور اور دستے جو دفاع وطن کے لیے کوشاں و مجتمع تھے وہ وسائل اور اسلحے کی کمی کا شکوہ کر رہے تھے۔ جو تھوڑا بہت اسلحہ انھیں دستیاب تھا وہ پرانا جبکہ بعض ناقابلِ استعمال بھی تھا۔ ۱۹۳۶ ء تا ۱۹۳۹ء کی جہادی تحریک کے بعد جو قانون سازی اور پابندیاں عربوں کو اسلحے سے دور رکھنے کے لیے لگائی گئی تھیں وہ ابھی تک نافذ العمل تھیں اور انگریز اس کی نگرانی کر رہے تھے، یہاں استعماری قوتوں کا دہرا معیار سامنے آتا ہے۔ اردن کو جو اسلحہ برطانیہ کی طرف سے بیچا گیا تھا اس پر پہلے ہی پابندی تھی کہ وہ یہودیوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقعے پر بھی برطانیہ نے اردن اور عراق کو سخت وارننگ اور دھمکیاں دیں کہ وہ اپنا اسلحہ فلسطین کی طرف روانہ نہ کریں۔ دسمبر ۱۹۴۷ء میں مجاہدین کی طرف سے عرب کونسل کو خطوط روانہ کیے گئے اور انھیں قلت وسائل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ جن ملکوں اور جماعتوں کے سربراہان اور اعیانِ ملت نے اسلحے، سامان اور نقد رقوم کے وعدے کیے تھے انھیں جلد سامان مہیا کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اس جانب پیش رفت نہ کی جاسکی۔ جنوری ۱۹۴۸ ء میں مجاہدین کے دستوں کی فلسطین میں آمدکا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کا آغاز اردن کی طرف سے ہوا تھا۔ انگریز فوج نے فی الفور حکومتِ اردن سے رابطہ کر کے انھیں کہاکہ ہمیں یہ کام مناسب طریقے سے کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہم مذاکرات کرتے ہیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ انگریزی فوج مجاہدین کے داخلے میں رکاوٹ نہ ڈالے گی لیکن انھیں دو شرطوں کی پابندی کرنا ہو گی۔ پہلی تو یہ کہ فلسطین میں داخل ہونے والے مجاہدین برطانوی افواج کے انخلا تک کسی قسم کی جنگی سرگرمی شروع نہ کریں گے اور دوسرے یہ کہ انگریزی فوج کے انخلا کے بعد جنگ شروع کرنا پڑی تب بھی مسلمان خود کو انھی علاقوں تک محدود رکھیں گے جو قرار دادِ تقسیم میں عربوں کو دیے گئے ہیں۔ مسلمانوں نے انگریزوں کی ان شرائط کو تسلیم کر لیا۔ شام کی طرف سے داخل ہونے والے فوزی القاوقجی کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کی شرائط طے کی گئیں۔ یہ یک طرفہ شرائط تھیں۔ یہودیوں پر اس قسم کی شرائط عائد کرنا تو دور کی بات تھی، پہلے سے طے شدہ انسانی و اخلاقی اصولوں کی پامالی پر بھی انگریز کی طرف سے انھیں کھلی چھوٹ حاصل تھی۔ بہرحال مسلمان اس وقت ان شرائط کو ماننے پر مجبور تو تھے لیکن آگے چل کر انھیں اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسری طرف یہود کی دہشت گردی جاری تھی۔ مار چ ۱۹۴۸ء میں انھوں نے ایک سرائے میں دھماکے کر دیے جس میں ۱۷، عرب شہید جب ۱۰۰، زخمی ہوئے جن میں بڑی تعداد بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ یہاں یتیم بچوں کی پناہ گاہ اور کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا سامان تھا، اسی طرح القدس میں ہاغاناۃ نے ایک ہوٹل کو آگ لگا دی جس میں ۱۳، عرب شہید جب کہ ۲۰ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ الخلیل میں انھوں نے عرب شہریوں کے ایک ہجوم پر بم پھینک دیے جس سے ۲۰، عرب شہید جبکہ ۶۰ سے اوپر زخمی ہو گئے۔ حیفا میں یہودی دہشت گرد، برطانوی فوجیوں کا روپ دھار کر ایک عمارت میں داخل ہوئے اور دھماکا خیز مواد سے عمارت کو اڑا دیا اسی طرح حیفا میں بھی دہشت گردی کی اور ایک بڑی تعداد شہید ہوئی جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ بدلے میں عرب فدائیوں نے بھی بعض یہودی بستیوں پر حملے کیے اور ان کی بعض عمارتوں میں دھماکے کیے اور ان میں تقریبًا ۸۴ یہودی واصل جہنم ہوئے جن میں رابرٹ سیموئیل کا بیٹا ایڈون سیموئیل بھی تھا۔ مجاہدین نے عبد ا لقادر الحسینی کی قیادت میں ایک یہودی قافلے پر حملہ کر کے بہت سا اسلحہ لوٹ لیا اور تقریباً ۱۰۰، سے زائد یہودی قتل ہوئے اور باقی نے ہتھیار ڈال دیے جن سے اسلحہ اور گاڑیاں لینے کے بعد انھیں جانے دیا گیا۔ اسی دوران مجاہدین نے ہاغاناۃ کے ۳۵، دہشت گردوں پر مشتمل ایک دستے پر حملہ کر کے اس کا خاتمہ کر دیا۔

    جوں جوں برطانوی انخلا اور تقسیمِ فلسطین کے دن نزدیک آ رہے تھے۔ یہودیوں کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آ رہی تھی۔ چنانچہ اپریل ۱۹۴۸ء میں انھوں نے تل ابیب سے اپنے منظم دستوں کو قدس کی طرف روانہ کرنا شروع کیا۔ ان کا ہدف یہ تھا کہ قدس تک اپنا محفوظ راستہ بنایا جائے۔راستے میں انھوں نے مسلمانوں کے کئی گاؤں پر قبضہ کر لیا۔ان میں اہم ترین مقام قَسطَل تھا، یہ قصبہ قدس کے مغرب میں یافا کی طرف جانے والے راستے پر، قدس سے ۱۰، کلومیٹر دور واقع تھا۔ جنگی حکمتِ عملی کے لحاظ سے یہ اہم مقام تھا۔ یہاں رومی دور کا ایک قلعہ بھی موجود تھا۔ یہاں ۵۰ مجاہدین پر مشتمل ایک مختصر دستہ حفاظت پر مامور تھا۔ یہودیوں نے ۳، اپریل کو فجر کے وقت یہاں دو طرفہ حملہ کرتے ہوئے قصبے کا محاصرہ کر لیا۔ مجاہدین نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور ان کا گھیرا توڑنے میں کامیاب رہے۔ لیکن اسلحے اور گولیوں کی کمی کی وجہ سے انھوں نے قصبے سے نکل کر ایک نزدیکی گاؤں کی طرف پسپا ہونے کو ترجیح دی۔ ان دنوں عبد القادر الحسینی جنگی کمیٹی سے امداد کے حصول کی خاطر دمشق گئے ہوئے تھے۔ انھیں وہیں اس حادثے کی روح فرسا خبر ملی۔ آپ نے جنگی کمیٹی کو یہودیوں پر براہِ راست حملے کے لیے آمادہ کرنا چاہا، لیکن جنگی کمیٹی کا جواب یہ تھا کہ جب تک برطانیہ اپنی فوجوں کا انخلا نہیں کرتا ہمیں کسی جنگی سرگرمی میں حصہ نہیں لینا۔ اس کی ایک وجہ تو انگریزوں کے ساتھ وہ اتفاق تھا جو اردن کے ذریعے سے ہوا تھا اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان ممالک خود کو برطانوی افواج کے مقابلہ سے قاصر پاتے تھے۔ اس کے بعد شیخ عبد القادر حسینی نے کمیٹی سے درخواست کی کہ تم ہمیں اسلحہ اور دوسرا سازو سامان دے دو تو ہم خود یہود کے مقابلے میں کافی ہوں گے۔ لیکن کمیٹی نے ان کی اس بات کا بھی مثبت جواب نہیں دیا۔ عبد القادر حسینی کے بیانات جو مختلف کتابوں میں پائے جاتے ہیں خاصے دل خراش ہیں۔ ’’تم لوگ ہمیں ہمارے دشمنوں کے حوالے کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کریں۔ میرا خیال ہے عرب کونسل اور اس کی قیادت ہمارے ساتھ خیانت کر رہی ہے۔ جو معاملہ تم نے ہمارے ساتھ کیا ہے اسے دیکھ کر مجھے زندہ رہنے سے مرنا بہتر لگ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہودی پورےفلسطین پر قبضہ کر لیں میں مر جانا چاہتاہوں۔ تم اپنے اسلحے اپنے پاس رکھو، ہم اپنے جسموں اور خونوں سے لڑیں گے ہمیں دو، اچھی باتوں میں سے ایک تو ملے گی یا تو اللہ کی مدد سے فتح یا شہادت، البتہ تاریخ تمھیں فلسطین کے ضیاع کا مجرم ٹھہرائے گی۔ میں قسطل میں جان دینے جا رہا ہوں‘‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی نے ان کے سامنے بھی وہی انگریزوں سے کیا گیا وعدہ رکھا چنانچہ ان کے ایک بیان سے اس کا اندازہ ہوتاہے۔ ’’دیکھو آج تمھیں جو ساز و سامان درکار ہے،  ۱۵،  مئی کے بعد اس سے دس گنا زیادہ درکار ہو گا اور اگر سامان مل جائے تب بھی اُس وقت تم یہود پر قابو نہ پا سکوگے۔ اگر قسطل گیا تو ہم قدس، یافا، حیفا اور طبریہ وغیرہ کو بھی نہ بچا سکیں گے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس پر اللہ کوگواہ بناتا ہوں اور میں تم لوگوں کو اس سب کاذمے دار ٹھہراتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد شیخ عبد القادر، قدس کی طرف روانہ ہوئے۔ رام اللہ میں برطانوی فوج کے عربی دستے موجود تھے۔ عبد القادر الحسینی رحمہ اللہ نے ان افواج سے رابطہ کیا اور ان کو اپنا ساتھ دینے کی درخواست کی۔ انھوں نے ہائی کمان کی اجازت کے بغیر جنگ میں حصہ لینے سے معذرت کی اور حسینی کو بھی مئی تک جنگ موخر کرنے کا مشورہ دیا۔ بہرحال عبد القادر الحسینی نے رضا کار مجاہدین کو لے کر قسطل پر حملہ کر دیا۔ یہاں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ اگرچہ مسلمانوں کا اسلحہ پرانا تھا لیکن یہ لوگ جذبۂ ایمانی کے ساتھ لڑے آخر کار یہودی ۱۵۰، لاشیں چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے اور قسطل دوبارہ مسلمانوں نے حاصل کر لیا۔ البتہ اس جنگ میں پہلا بڑا نقصان یہ ہوا کہ عبد القادر الحسینی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ اگلے دن یہودیوں نے دوبارہ ایک سخت حملہ کر دیا اور مسلمانوں کو شکست دے کر قصبے پر قبضہ کر لیا۔

    جاری ہے

    کتابیات

    القدس و المسجد الأقصی عبر التاریخ، دکتور محمد علي البار، دارالقلم، دمشق

    واقدساه، دکتور سید حسین العفاني مکتبة دار البیان الحدیثیة، السعودیة، الطائف

    فلسطین في عهد الانتداب، دکتور أحمد طربین،shorturl.at/druNO

    الثورة الکبریٰ العربیة في فلسطین، صبحي محمد یاسین، noor-book.com/wgper0

    مذکرات عوني عبد الهادي، مرکز دراسات الوحدةالعربیة، بیروت لبنان، سبتمبر ۲۰۰۲ء

  • فکری کتابیں، ناول اور درست منہجِ مطالعہ

    تحریر: احمد دمنہوری

    ترجمہ: مولانا معراج محمد

    فکری کتابیں، ناول اور درست منہجِ مطالعہ

    فکری کتابیں اور ناول نہ صرف اسلامی علوم کے زاویۂ نظر کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عمومی طور پر افکار و نظریات کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ اثر ان افراد پر زیادہ پڑتا ہے جن کی فکری تربیت بنیادی طور پر انھی کتابوں کے زیرِ اثر ہوئی ہو۔ اگر کسی شخص کی کائنات اور علم کے حوالے سے فکری نشوونما ان کتابوں نے کی ہو، تو وہ لاشعوری طور پر مادی، جدیدیت زدہ مغربی فکر کا گرویدہ بن جاتا ہے۔ اگر ایسا شخص کسی یونی ورسٹی کا استاد ہو، تو معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس بے چارے کی کل جمع پونجی وہ کتابیں ہوتی ہیں جو اسلامی علوم کی تاریخ اور تنقید پر لکھی گئی ہوتی ہیں۔ ایسا شخص نہ تو مطالعہ کیے گئے مواد پر درست یا نادرست ہونے کا حکم لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ان مسائل کی گہرائی کو سمجھ پاتا ہے جن کے متعلق وہ تاریخ پڑھتا ہے۔ نتیجتاً، وہ اپنے مطالعے کا مقلد بن جاتا ہے اور انھی مصنفین کے نظریات کو دہرانے لگتا ہے۔ بالآخر وہ ماہرینِ علم کی تقلید سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے نظریاتی مفکرین کی تقلید کرنے لگتا ہے، اور خود کو مفکر یا مجدد سمجھنے لگتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ روایت کے خلاف بات کرتا ہے۔ چونکہ وہ اپنے افکار یا صاحبِ کتاب کے افکار کو جانچنے کا کوئی معروضی پیمانہ نہیں رکھتا، اس لیے صرف خوب صورت ادبی جملوں کو دہرانے میں مصروف رہتا ہے۔ پھر بھی بڑے اعتماد سے کہتا ہے: ’’یہی تشفی بخش بات ہے!‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خالی الذہن ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ خالی برتن کسی بھی مواد سے بھر سکتا ہے۔

    ’’ناولوں‘‘ کے تربیت یافتہ فرد کا حال کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ خالص عقلی تناظر میں نہ تو وہ افکار کا موازنہ کر سکتا ہے اور نہ ہی معاملات کو منظم طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی تجربات کو مطلق حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے یا اپنے داخلی شعور کو اس طرح دیکھتا ہے گویا وہ خارجی حقائق ہیں۔ یہ رویہ اسے ذاتی اور انفرادی حادثات کو عمومی حکم لگانے کی بنیاد بنانے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ واقعات سے ایسے معانی و مطالب نکالتا ہے جو درحقیقت ان میں موجود نہیں ہوتے۔ مزید برآں، وہ لوگوں کے اندرونی خیالات کی ایسی تفسیر کرتا رہتا ہے جس سے صرف مزید کلام آرائی کا جواز پیدا ہو۔ یہ سب صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اسے کہانیاں پسند ہیں۔کبھی وہ خود سے واقعات گھڑتا ہے اور ان کا تجزیہ کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اور دوسرے لوگ ان گھڑے ہوئے واقعات کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ناقدین ان کے تجزیے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ: دیکھا! فن سماج کا کیسا آئینہ دار ہوتا ہے؟ میں خود بھی فکری کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور اپنے پسندیدہ ناول پڑھتا ہوں۔ میرے نزدیک کوئی طالبِ علم ان کتابوں سے مکمل طور پر بے نیاز نہیں رہ سکتا، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ معروضی تنقیدی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس میں لکھی گئی باتوں کے صحت و فساد کا تجزیہ کرنے کی اہلیت ہو اور اس مواد کے عمومی اور انفرادی پہلوؤں کو سمجھنے کی سمجھ بوجھ ہو۔ یہ صلاحیت سنجیدہ علوم کے حصول سے پیدا ہوتی ہے۔ فکری کتابوں کے مصنفین اپنے ذاتی افکار کو ناول یا فکر کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور اپنے قارئین کے ساتھ فنِ تحریر اور ناول نگاری کے ذریعے کھیلتے ہیں تاکہ انھیں اپنی مرضی کے نتائج تک لے آئیں۔ بعض اوقات وہ ایسا شعوری طور پر نہیں بھی کرتے، مگر نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ حقیقت میں یہ کتابیں غیر علمی ہوتی ہیں۔ علمی کتابوں میں ایک علمی معیار اور قواعد کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ فکری کتابوں کے لیے صرف خیال کی روانی اور لکھنے کی مہارت کافی سمجھی جاتی ہے، چاہے مواد ناقص یا مسخ شدہ ہو۔ ان دونوں کے فرق کو یوں سمجھا جا سکتا ہے جیسے اخبارِ آحاد اور اخبارِ متواترہ کا فرق ہے۔ اوّل الذکر ظن کا فائدہ دیتے ہیں جبکہ متواتر قطعی علم کا۔ طلبہ کو چاہیے کہ پہلے بنیادی افکار کو مضبوط کریں، پھر فکری کتابوں اور نظریات کے بھنور میں قدم رکھیں۔ اس کے ساتھ اہلِ رشد و صلاح کی رہنمائی حاصل کریں تاکہ ان کی فکر درست سمت میں پروان چڑھ سکے۔ جس نے ایسا کیا، اس کے بارے میں رشد و سداد کی امید کی جا سکتی ہے، ان شاء اللہ۔

  • اسلام میں استاذ کا مقام و مرتبہ

    محمد عثمان خان

    معاونِ شعبۂ تعلیم، فقہ اکیڈمی

    اسلام میں استاذ کا مقام و مرتبہ

    قسط نمبر۲

    قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ تعمیرِ انسانیت اور علمی ارتقا میں استاذ کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا۔ ابتداے آفرینش سے نظامِ تعلیم میں استاذ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی فلاح و بہبود، جذبۂ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استاذ اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑ پودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ سکندر ِاعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاذ کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے؟ سکندر ِاعظم نے کہا کہ اس کے والدین اسے آسمانوں سے زمین پر لے آئے ہیں جبکہ استاذ اس کو زمین سے آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ بطلیموس استا ذ کی شان یوں بیان کرتاہے: ’’استاذ سے ایک گھنٹا گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے‘‘۔ زندگی کے تمام پیشے، پیشۂ تدریس کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔ عدلیہ، فوج، سیاست، بیوروکریسی، صحت، ثقافت، تعلیم اور صحافت غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو یہ تمام ایک استاذ کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات میں عدل، توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یہ صالح اساتذہ کی تعلیمات کا پرتو ہے۔ اور اگر اساتذہ کی تعلیمات میں کہیں کوئی نقص اور کوئی عنصر خلافِ شرافت وانسانیت آ جائے تب وہ معاشرہ رشوت خوری اور بےامنی کی منھ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ استاذ کو ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی معمارِ قوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔ استاذ معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ اپنے فرائض کی ادائی میں اگر ذرّہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرے کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت، نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ استاذ کو افراد سازی کے فرائض کی ادائی کے سبب معاشرے میں اسے اس کا جائز مقام دیا جانا ضروری ہے۔ معاشرتی خدمات کی ادائی کے سبب معاشرہ نہ صرف استاذکو اعلیٰ اور نمایا ں مقام فراہم کرے بلکہ اس کے ادب اور احترام کو بھی ہر دم ملحوظِ خاطر رکھے۔ ہر معاشرے اور مذہب میں استاذ کو ملنے والی اہمیت اساتذہ سے خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے عزیز شاگرد حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے پوچھا: ’’استاذ کیسا ہوتا ہے؟‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’استاذ جب بچوں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاذ ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاذ نہیں ہے‘‘۔ امامِ اعظم کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے میں مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آئےگا۔ استاذ معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ آج یہ پیشہ (سوائے مستثنیات کے) اپنی عظمت اور وقار کو تقریباً کھو چکا ہے۔ پیشۂ تدریس آج صرف ایک جاب (نوکری)، اسکیل (تنخواہ) اور ترقی کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ استاذ اور شاگرد کا مقدس رشتہ کہیں کھو گیا ہے۔ تاریخ ِعالم شاہد ہے کہ ہر اس قوم کو عروج اور ترقی نصیب ہوئی جس نے اپنے اساتذہ کی قدر و منزلت کی۔ مشہور پاکستانی ادیب، دانش ور ماہر ِتعلیم جناب اشفاق احمد مرحوم جب اٹلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تب ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ان کا چالان کیا گیا۔ اپنی مصروفیت کی وجہ سے جب انھوں نے چالان ادا نہ کیا تب ان کو چالان کی عدم ادائی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج نے چالان کی ادائی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک استاذ ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے چالان کی بروقت ادائی سے قاصر رہے۔ جج کو جب پتا چلا کہ وہ ایک استاذ ہیں تب وہ اپنی کرسی سے احتراماً کھڑا ہو گیا اور حیرت و استعجاب سے کہنے لگا: A teacher in the Court? ایک استاذ عدالت میں؟ یہ کہتے ہوئے ان کا چالان معاف کر دیا۔ بدقسمتی سے ہمیں اپنے ملک میں اساتذہ کے ساتھ اس کے برعکس برتاؤ کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ مشرقی معاشرے جو اساتذہ کے ادب و احترام کی وجہ سے بامِ عروج پر تھے اساتذہ کے ادب و احترام سے اعراض کے سبب تنز لی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

    استاذ کی ذمے داریاں

    استاذ نسلِ نو کی تربیت کا اہم کام انجام دیتا ہے۔ ہر قوم و مذہب میں استاذ کو اس کے پیشے کی عظمت کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ استاذ طلبہ کو نہ صرف مختلف علوم و فنون کا علم دیتا ہے بلکہ اپنے ذاتی کردار کے ذریعے ان کی تربیت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ معاشرے کی زمامِ کار سنبھالنے والے افراد خواہ وہ کسی بھی شعبے اور پیشے سے وابستہ ہوں اپنے استاذ کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ استاذ کا اہم اور بنیادی فریضہ انسان سازی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کام میں نصابِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کے اثرات بھی شامل ہوتے ہیں لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور ایک استاذ ہی ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم جو بھی ہو لیکن استاذ اسے جس طرح چاہے پڑھا سکتا ہے۔ بقول اکبر:

    کورس تو صرف لفظ سکھاتے ہیں
    آدمی آدمی بناتے ہیں

     ایک مسلمان معلّم پر عام اساتذہ سے دوگنی ذمے داری عائد ہوتی ہے، چونکہ وہ پہلے ایک مسلمان ہے اور پھر ایک مدرس بھی ہے۔ فلسفۂ اسلام کی رو سے استاذ ایک مربی، مزکی، رہنما و رہبر ہوتا ہے، جو نہ صرف نسلِ نو کی تربیت کرتا ہے بلکہ نسلِ نو کو اسلامی نظریۂ حیات اور اسلامی تعلیمی نظریا ت سے وابستہ بھی کرتا ہے۔ کیونکہ نظریے کے بغیر کوئی بھی قوم حمیت سے عاری بے تربیت افراد کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ مسلم معلّمین کے لیے نبیِ اکرمﷺکی سخت وعید ہے کہ جو کوئی بھی مسلمانوں کے کسی معاملے کا ذمے دار بنا پھر ان کے لیے ایسی خیر خواہی اور کوشش نہ کی جتنی وہ اپنی ذات کے لیے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو منھ کے بل جہنم میں ڈال دیں گے۔ اس فرمانِ نبویﷺ کی روشنی میں اگر مسلم اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ذرہ بھر بھی کوتاہی برتیں گے تو روزِ قیامت ان کا سخت مواخذہ کیا جاےگا۔ اساتذہ اپنی اہمیت اور ذمے دار ی کو محسوس کریں، خاص طور پر مسلم اساتذہ اپنے مقام کو پہچانیں کہ اوّل تو وہ مسلمان ہیں اور پھر ا سلامی طرزِ معاشرت اور دینِ فطرت کے نفاذ کے لیے نئی نسل کو تیار کرنے والے معلم، استاذ مربی او ر رہبر ہیں۔ نامساعد حالات میں بھی مسلم اساتذہ کا منشا و مقصد نسلِ نو کی اسلامی تعلیم و تربیت ہوتا ہے۔ پیشۂ تدریس سے وابستہ افراد کے لیے حسبِ ذیل چار عملی میدان ہوتے ہیں

    تعمیرِ ذات

    نئی نسل کی شخصیت کی تعمیر کا کام انجام دینے والے استاذ کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہوتی ہے۔ طلبہ کے لیے استاذ کی ذات افکار و اقدار کا اعلیٰ معیار ہوتی ہے۔ اساتذہ اپنی شخصیت کی تعمیر میں نبیِ اکرمﷺکی ذات کو پیشِ نظر رکھیں، کیونکہ ہر انسان کے لیے نبیِ اکرمﷺکی ذات پاک میں بہترین نمونہ ہے۔ آپﷺمعلّمِ اعظم ہیں، اسی لیے اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے علاوہ درس و تدریس میں اثر وتاثیر پیدا کرنے کے لیے آپﷺکے اسوۂ حسنہ کی لازمی پیروی کریں۔ ایک معلّم کا قلب جب ربِ حقیقی کی عظمت و کبریائی سے معمور ہوگا، اور وہ احکامِ خداوندی کا پابند اور سنّتِ نبویﷺپر عامل ہوگا تب اس کا درس شاگردوں کے لیے بارانِ رحمت اور زندگی کی نوید بن جائےگا۔ معلّم کا خوش اخلاق، نرم خو، خوش گفتار، ملنسار، ہمدرد، رحم دل، غم گسار و مونس اور مدد گار ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ صرف کمرۂ جماعت یا مدرسہ کی چار دیواری تک ہی استاذ نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہر پل اپنی رفتار، گفتار، کردار غرض ہر بات میں معلّم ہوتا ہے۔ طلبہ صرف استاذ سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاذ کی ذات اور شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ استاذ مدرسہ، کھیل کا میدان، گھر اور بازار ہر جگہ طلبہ کے لیے ایک زندہ نمونہ ہوتا ہے۔ ایک عظیم استاذ اپنی شخصیت کو نہ صرف نکھارتا ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے معاشرے کو بہترین انسان فراہم کرتا ہے۔ ایک حقیقی استاذ اسلاف کے علوم اور افکار کو بلا کم و کاست اگلی نسلوں کو صحت و عمدگی سے منتقل کرتا ہے۔ ایک استاذ کوصبر و تحمل، معاملہ فہمی، قوتِ فیصلہ، طلبہ سے فکری لگاؤ، خوش کلامی اور موثر اندازِبیان جیسے اوصاف سے متصف ہونا چاہیے۔

    علم میں مسلسل اضافے کی جستجو

    انگریزی کا معروف قول ہے کہ: Teaching is nothing but learning یہ بالکل حقیقت ہے کہ تدریس کے ذریعے کئی تعلیمی راز عیا ں ہوتے ہیں اور تدریس ہر پل اساتذہ کے علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اساتذہ بہتر تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لیے جدید معلومات کے حصول کو یقینی بنائیں تاکہ درس و تدریس کے دوران کسی خفت اور تحقیر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ اپنے علم میں اضافے کے ذریعے اساتذہ نہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی تدریس کو بھی با اثر بنانے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ عربی کے ایک مقولے کا مفہوم ہے کہ: ’’علم حاصل کرو گود سے گور تک‘‘۔ اساتذہ کو اس قول پر ہمیشہ کاربند رہنا چاہیے۔ استاذ میں علمی لیاقت اور تدریسی صلاحیت کے ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریقِ تعلیم سے واقفیت بے حد ضروری ہے۔

    طلبہ کی کردار سازی

    طلبہ کی کردار سازی میں اور شخصیت کے ارتقا میں معلّم کا بہت بڑا دخل ہوتاہے۔ ایک اچھا استاذ اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لیے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے۔ اپنے طلبہ کے دلوں سے کدورتوں اور ہر طرح کی آلودگیوں کو دور کرتے ہوئے انھیں ایمان، خوفِ خدا، اتباعِ سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے معمور کرتا ہے۔ طلبہ کی کرداری سازی کے لیے خود بھی تقویٰ و پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ ایک اچھا معلم اپنے شاگردوں میں مقصد سے لگن و دل چسپی پیدا کرتا ہے، طلبہ کو بےکار اور لایعنی مشاغل سے دور رکھتا ہے۔ دنیا سے بے نیازی اور مادہ پرستی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے شاگردوں کو محنت اور جستجو کا عادی بناتا ہے۔ کاہلی سستی اور اوقات کے ضیاع سے طلبہ کو باز رکھتا ہے۔

    تعلیم گاہ اور استاذ

    آج کل اسکول، کالج، یونی ورسٹی تعلیم کی اصل غرض و غایت سے انحراف کرتے ہوئے مادہ پرستی کے فروغ میں پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ یہ ادارے ڈاکٹر، انجینیر، سائنس دان، سیاست دان، پروفیسر، استاذ اور فلاسفر بنانے میں تو کامیابی حاصل کر رہے ہیں، لیکن ایک آدمی کو انسان بنانے میں جو کہ تعلیم کا اہم مقصد ہے ناکام ہو رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے انسان سازی سے آج عاری نظر آ رہے ہیں، اساتذہ کی ان حالات میں ذمےداری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ طریقۂ تعلیم اور نظامِ تعلیم میں تبدیلی کی سعی و کوشش کریں۔ مادہ پرست نصابِ تعلیم و تعلیمی اداروں میں دانش وری سے تدریسی افعال کو انجام دیں، تاکہ طلبہ میں دہریت اور مادہ پرستی جیسے جذبات سر نہ اٹھا سکیں۔ اپنے عمل و کردار سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو مثبت تعلیمی نظام کی طرف راغب کریں۔ دیانت داری اور امانت داری کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کریں۔ تعلیمی اداروں سے دھوکے باز سیاست دانو ں کے بجائے باکردار و امانت دار سیاست دان پیدا کریں۔ ایسے انجینیر اور ڈاکٹر تیار کریں جو لوگو ں کے علاج کو صرف اپنا ذریعۂ معاش نہ بنائیں بلکہ اس خدمت کو عباد ت کے درجے تک پہنچا دیں۔ اساتذہ اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت کر یں کہ وہ اپنے پیشوں میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ انسانی قدروں کی پہچان رکھنے والے بھی ہوں۔

    اساتذہ اور ان کے معاشرے سے چند تقاضے

    تدریس معاشرے کا ایک انتہائی اہم اور مقدس پیشہ ہے۔ استاذ کا مقام مادیت پرستی اور ماہانہ مشاہرے سے بالا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے دور میں اساتذہ کا شعبہ مختلف اعتبارات سے تنزلی کا شکار ہے۔ بعض نااہل لوگ خود سے استاذ بن کر مسندِ درس پر بیٹھ کر اس پیشے کو بدنام کر رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے اسے مال کمانے کا ذریعہ بنا کر بدنام کر دیا ہے۔ یقیناً روپے پیسے کی ضرورت اساتذہ کو بھی ہے لیکن انھیں روپے پیسے کو اپنا مطلوب نہیں بنانا چاہیے۔ بلکہ قناعت و کفایت کے اصول کو اپنانا چاہیے۔ دوسری طرف معاشرے کا یہ فرض ہے کہ وہ اساتذہ کی مالی کفالت اور ان کی ناگزیر ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کرے۔ مالی کفالت کے باوجود ایک استاد مالی اعتبار سے کسی کاروباری شخصیت کے برابر نہیں پہنچ سکتا۔ یقیناً کچھ نہ کچھ کمی تو ضرور رہے گی۔ اب اس کمی کے تناظر میں دو طرفہ ذمےداریاں عائد ہوتی ہیں۔ استاذ کو چاہیے کہ اپنی اس ’’قربانی و قناعت‘‘ کو اخروی اجر وثواب کا ذریعہ سمجھے اور یہ یقین رکھے کہ اس نے ذاتی دولت و عیش و عشرت پر، اللہ کے بندوں اور رسول اللہﷺ کے امتیوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی ہے اور اللہ اس کی اس قربانی کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ معاشرے کو چاہیے کہ اساتذہ کی اس قربانی اور ان کے مقامِ بلند کا پاس کرتے ہوئے ان کی عزت و توقیر دوسرے تمام لوگوں سے حتیٰ کہ سرکاری عہدے داروں سے بھی کہیں زیادہ کرے۔

    قرآنِ کریم پوچھتا ہے کیا علم والے اور لا علم برابر ہو سکتے ہیں ؟ تو ظاہر اس کا جواب یہی ہے کہ برابر نہیں ہو سکتے۔ تو مسئلۂ زیرِ بحث میں اساتذہ کی ذمےداریاں معاشرے سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں اور اس لیے بھی کہ معاشرے کو جیسی تیسی تربیت فراہم کرنے والے بھی طبقۂ اساتذہ ہی ہے۔ نوجوان نسل کی کوتاہیاں، والدین کا تغافل، نصابِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں اپنی جگہ، مگرکارِ پیغمبری سے وابستہ ہونے کی بنا پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں۔ اس حوالے سے معاشرے کی تربیت کے ساتھ ساتھ خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا تعین اور ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اگراساتذہ اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سا بھی ادارک کر لیں تو یقیناً یہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

  • صورت گر کچھ خوابوں کے

    مولانا حماد احمد ترکؔ

    نائب مدیر ماہ نامہ مفاہیم کراچی

    صورت گر کچھ خوابوں کے

    قسط نمبر۱

    جنگ دو آدمیوں کی ہو یا دو ملکوں کی، اہم یہ ہوتا ہے کہ فاتح اپنی فتح میں اپنے حامیوں کو بھی شامل کر لے اور ایک عالم اس کی کامیابی کے گن گائے، محض دشمن کو چت کر دینا یا اسے بھاگنے پر مجبور کر دینا ہی کافی نہیں، اس کی شکست کا منظر، اس کا بکھرا ہوا لشکر، اس کا حالِ ابتر، اس کی سیاہ کاریوں کا دفتر اور ذلّت و رسوائی سمیٹنے کے بعد اس کا سیاہ مقدر، نوشتۂ دیوار و در ہو جائے تو فتح مکمل ہوتی ہے۔ یورپ ایک عرصے سے اپنی ہاری ہوئی جنگیں بھی جیت رہا ہے کیونکہ وہ جھوٹ کو اتنا پھیلاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ حق کو حق ثابت کیا جائے اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیا جائے۔ کسی زمانے میں یہ کام مؤرخین اور مصنفین کیا کرتے تھے یا شعرا کی نظموں میں فتح و شکست کا اظہار ہوا کرتا تھا، آج اس کا ذریعہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کو کہا جا سکتا ہے۔ ہنگامِ کارزار میں میدان مار لینا یا کوئی معرکہ سر کر لینا بھی قابلِ فخر ہے، لیکن زیادہ بڑا کارنامہ نظریے کی جیت ہے اور آج اس کا ایک ذریعہ جدید طرزِ صحافت ہے جس میں تصاویر اور وڈیوز کے ذریعے اپنے مؤقف اور اپنی معرکہ آرائیاں دونوں ہی دنیا کے سامنے لائی جاتی ہیں۔ باطل قوتیں طویل عرصے سے اس جدید طرزِ صحافت کے ذریعے پوری دنیا کے قلوب و اذہان کو اپنے مواقف کے لیے نرم کرنے میں کامیاب ہیں۔ تمام تر دھوکے بازی اور جعل سازی کے باوجود داعش کی مقبولیت کا ایک بہت بڑا سبب یہی تھا۔ بہرحال، اسباب کی قلت کے سبب مجاہدینِ اسلام اس شعبے میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے قاصر تھے لیکن معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جہاں مجاہدین نے ہتھیاروں کے مقابلے میں اور جنگی حکمتِ عملی میں دشمن کے دانت کھٹے کیے وہیں شیردل اور نڈر صحافیوں نے قدس کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں لٹائیں اور مکار دشمن کی جعل سازی اور دھوکے بازی دنیا پر عیاں کر دی۔ طوفان الاقصیٰ کا ہر نیا دن مکار اور غاصب صیہونیوں کی رو سیاہی اور ان کے خلاف نفرت میں اضافہ کر رہا ہے۔ بلاشبہہ وہ صحافی جو فلسطین میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کا یہ فعل راہِ خدا میں عظیم جہاد ہے۔ غزہ اور مغربی کنارہ ان صحافیوں کے لیے موت کی وادی ہے یا جسمانی معذوری کا باعث ہے۔ صیہونی افواج چن چن کر صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں لیکن صحافی حضرات پر عزم ہیں۔ وہ بلا خوف و خطر دھماکوں کی گرج، ٹینکوں کی دھمک اور جنگی جہازوں کی دل دہلا دینے والی بم باری میں بھی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موسم کی سختیاں ان کا عزم متزلزل نہیں کر سکتیں، سردی، گرمی، بھوک پیاس اور آندھی و طوفان میں بھی دن رات یہ بہادر صحافی ہر ممکن ذریعہ استعمال کر کے فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔

     صحافیوں کے حقوق کے عالمی ادارے CPJ (Commitee to Protect Journalists) کا کہنا ہے کہ وہ ۱۹۹۲ء سے صحافیوں کے تحفظ کی خاطر اعداد و شمار مرتب کر رہے ہیں اور حالیہ قتلِ عام اب تک کا سب سے زیادہ خطرناک سانحہ ہے۔ غاصب صیہونی افواج کے نزدیک صحافیوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے عالمی قوانین کی عملاً کوئی حیثیت نہیں۔ ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق غزہ میں صحافیوں کا قتل ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ CPJ اور صحافیوں سے متعلق دیگر عالمی اداروں نے غزہ میں موجود صحافیوں کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا اور صحافتی سطح پر فلسطینی صحافیوں کے تحفظ کے لیے بھرپور تحریک چلائی۔ ان اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ غزہ میں موجود صحافیوں کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ صحافی طبقہ مستقل ان خطرات سے دو چار ہے: فضائی حملوں میں قتل کردیا جانا، قحط کے دوران صحافتی خدمات انجام دینا، کھانے پینے سے محرومی، بے گھر ہو کر مہاجرت کی زندگی گزارنا، صحافتی سامان مثلاً کیمرہ، لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط ہو جانا، دھمکیاں ملنا، سائبر حملے ہونا، اہلِ خانہ کا قتل یا اغوا، دہشت گردی کا الزام لگا دیا جانا، تفتیش کے نام پر توہین اور گرفتاری کا سامنا وغیره۔ قارئین غور فرمائیں کہ غزہ میں خدمات انجام دینے والے صحافی جن کی بڑی تعداد الجزیرہ سے وابستہ ہے وہ کوئی یوٹیوبر، انفلوئنسر یا ایکٹوسٹ نہیں ہیں جو ایک موبائل اور چند جملے روانی سے بول سکنے کی صلاحیت پر صحافی بن جائیں اور لائیکس، سبسکرپشن اور ویوز کی حرص میں وڈیوز بنائیں، اور اسی کو اپنا ذریعۂ معاش ٹھہرائیں۔ یہ صحافی باقاعده اس شعبے کی تعلیم حاصل کیے ہوئے سند یافتہ صحافی ہیں جو کسی بھی ملک کے شعبۂ صحافت سے وابستہ ہو کر اپنی دنیا بنا سکتے ہیں لیکن قدس کی بابرکت مٹی کی محبت سے سرشار یہ صحافی اہلِ فلسطین کی آواز بنے ہوئے ہیں۔ حفاظتی ہیلمٹ اور پریس کی جیکٹ پہنے یہ صحافی اس مجاہد کی طرح دکھتے ہیں جو آہنی خود سر پر سجائے، زرہ پہنے، سر بکف، سینہ سپر آگ کے دریا میں کود پڑتا ہے اور خاک و خوں میں غلطاں ہو کر ملت کی آزادی کی راہ ہموار کرتا ہے اور خود زخموں سے چور ہو کر اپنے بھائیوں کو امن و سکون فراہم کرتا ہے۔ غزہ سے شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۶، دسمبر ۲۰۲۴ء تک ۲۰۱ صحافی طوفان الاقصیٰ کے مقدس معرکے میں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ زخمی یا لاپتا صحافی ان کے علاوہ ہیں۔ جبکہ ۷۵ صحافی اس دوران پابندِ سلاسل ہو کر اسرائیلی عقوبت خانوں میں حق گوئی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی چند اولو العزم صحافیوں کا تذکرہ ہے جنھوں نے القدس کی حرمت پر جان دے دی یا زخمی ہوئے۔

    شیریں ابو عاقلہ

    شیریں ابو عاقلہ اگرچہ طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ڈیڑھ سال قبل قتل کر دی گئی تھیں لیکن آپ کے مظلومانہ قتل نے دنیا بھر کے صحافیوں بالخصوص فلسطینی صحافیوں کو استعمار کے خلاف آواز اٹھانے کا زبردست حوصلہ دیا۔ آپ نے اپنی جان دے کر قابض صیہونی افواج کے مظالم سے پردہ اٹھانے والے نڈر صحافیوں کے لیے شان دار مثال قائم کی۔ شیریں ابو عاقلہ ۳، اپریل ۱۹۷۱ ء کو القدس شہر میں پیدا ہوئیں۔ القدس کے قریب واقع بیت حنینا شہر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ شیریں عیسائی مذہب رکھنے والی فلسطینی صحافی تھیں جن کے پاس امریکی شہریت بھی تھی لیکن انھوں نے فلسطین میں ہی رہنے کو ترجیح دی اور ۲۵ سال تک الجزیرہ ٹی وی کے لیے کام کیا اور مغربی کنارے کے چپے چپے میں بذاتِ خود پہنچ کر وہاں کے حالات نشر کیے۔ شیریں ابو عاقلہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اردن کا سفر کیا اور یرموک یونی ورسٹی سے سند حاصل کی۔ فلسطین میں اونروا، وائس آف فلسطین، عمان سیٹلائٹ چینل اور دیگر اداروں کے ساتھ کام کیا اور پھر ۱۹۹۷ء میں الجزیرہ سے وابستہ ہو گئیں۔ ۲۰۰۰ء میں انھوں نے انتفاضۂ ثانیہ کے دوران اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی مزاحمت کے مناظر براہِ راست نشر کیے اور دن رات مزاحمتی سرگرمیوں کی کارکردگی پر رپورٹیں تیار کیں، اسی طرح ۲۰۰۲ ء میں جنین، طولکرم اور قطاعِ غزہ میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے قتلِ عام کی مہم شروع کی تو شیریں ابو عاقلہ نے الجزیرہ کے عملے کے ساتھ متعدد مقامات پر خدمات انجام دیں اور حالات و واقعات دنیا تک پہنچائے۔ شیریں وہ پہلی عرب صحافیہ ہیں جنھیں ۲۰۰۵ء میں اسرائیل کے ایک بڑے اور اہم قید خانے ’’عسقلان جیل‘‘ میں داخلے کی اجازت ملی اور انھوں نے وہاں طویل مدت سے قید فلسطینی قیدیوں کے انٹرویو کر کے ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا۔ شیریں نے اپنی زندگی فلسطین کے نام کر دی تھی۔ جن دنوں شیریں کو قتل کیا گیا وہ عبرانی زبان سیکھ رہی تھیں تاکہ اسرائیلی میڈیا میں پیش کیا گیا صیہونی بیانیہ سمجھا جا سکے اور اس کے موافق حکمتِ عملی کے لیے مزاحمتی گروہ اپنی راہ ہموار کریں۔ مئی ۲۰۲۲ ء میں مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی جارحیت کو طشت از بام کرنے کے لیے شیریں نے دن رات ایک کر دیا۔ اور جب جنین کیمپ پر ۱۱، مئی ۲۰۲۲ء کو صیہونی سپاہیوں نے بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ کیا تو اس اطلاع پر شیریں اپنے عملے کے ساتھ وہاں پہنچیں۔ وہ نیلی جیکٹ اور ہیلمٹ پہنے ہوئے تھیں جس پر پریس لکھا تھا اور ایک محفوظ مقام پر تھیں لیکن ان کے عملے پر فائرنگ کی گئی، اس فائرنگ میں ایک گولی شیریں کے سر میں لگی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ اس حملے میں زخمی ہونے والے ایک کیمرہ مین نے بتایا کہ ہم نے سامنے آ کر اطلاع دی کہ ہم صحافی ہیں اس کے باوجود ہم پر گولیاں چلائی گئیں۔ اسرائیل نے اس حملے کی ذمےداری مجاہدین پر ڈال دی لیکن عملے نے گواہی دی کہ ہم پر اس سمت سے گولی چلائی گئی جہاں اسرائیلی اسنائپر موجود تھے۔ بعد میں پوسٹ مارٹم نے بھی اس کی تصدیق کی کہ اسرائیلی اسنائپر سے چلائی گئی گولی تھی۔ دماغ سے ملنے والی گولی کی نوک سبز رنگ کی تھی‏جو اس بات کی غماز ہے کہ گولی بکتر شکن (اینٹی آرمر) تھی۔ شیریں ابو عاقلہ کو ان کی وفات کے بعد بہت سے عالمی خبر رساں اداروں نے خراجِ تحسین پیش کیا۔ نیو یارک ٹائمز نے انھیں فلسطینی گھرانوں کے لیے ’’مانوس نام‘‘ قرار دیا۔ ٹائمز آف اسرائیل نے ’’تجربہ کار اور ماہرِ فن صحافیہ‘‘ کا لقب دیا، نیز انھیں ’’عرب نشریات کی نمایاں ترین شخصیات‘‘ میں شمار کیا۔ بی بی سی نے ان کا تذکرہ یوں کیا: ’’ناظرین اور صحافیوں میں یکساں مقبول‘‘۔ انھیں عالمی اداروں میں Trail Blazerکے نام سے یاد کیا گیا جس کے معنیٰ Pioneer یا Trend setterکے ہیں۔

    وائل الدحدوح

    وائل الدحدوح غزه شہر میں الشفا اسپتال کے قریب واقع محلہ زیتون میں ۳۰، اپریل ۱۹۷۰ ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غزہ سے ہی حاصل کی۔ جوانی میں پابندِ سلاسل ہو گئے اور ۷ سال جیل میں گزارے۔ اعلیٰ تعلیم جامعہ اسلامیہ غزہ اور جامعہ القدس سے حاصل کی۔ ۱۹۹۸ء میں الدحدوح نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ القدس اخبار، وائس آف فلسطین اور بعض فلسطینی جرائد میں بطورِ نمائنده خدمات انجام دیں۔ ۲۰۰۰ ء میں دوسری انتفاضہ کے آغاز میں سحر سیٹلائٹ چینل کے لیے کام کیا اور فلسطینی مزاحمت کی ترجمانی کی۔ ۲۰۰۳ء میں وائل العربیہ ٹی وی سے منسلک ہوئے اور محض ایک سال بعد قطاع میں قائم الجزیرہ کے دفتر میں بطورِ رپورٹر ملازم ہوئے اور تادمِ تحریر وہ الجزیرہ سے وابستہ ہیں۔ اسرائیل نے غزہ سے انخلا کے دو سال بعد ۲۰۰۸ء میں غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی اور بحری و برّی تمام راستے بند کر دیے۔ اس دوران یعنی۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں غزہ میں ہونے والی نسل کشی اور صیہونی جارحیت کو وائل الدحدوح نے نہایت تن دہی سے رپورٹ کیا۔ اس اسرائیلی آپریشن کو کاسٹ لیڈ کا نام دیا گیا جس میں ۲۲ دنوں کے اندر ۱۵۰۰ فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اسی طرح آپریشن پلر آف ڈیفنس ۲۰۱۲ ء کے دوران بھی وائل الدحدوح مرد ِمیدان نظر آئے اور غزہ سے نشریات جاری رکھیں، لیکن اس سے مشکل آپریشن پروٹیکٹو ایج ۲۰۱۴ء تھا جو ۸، جولائی  ۲۰۱۵ءسے ۲۶، اگست کے دوران فلسطینیوں پر مسلط رہا۔ رمضان المبارک میں جاری اس جارحیت کے دوران ۲۵۰۰ فلسطینی شہید ہوئے۔ ۳۰ ہزار گھر مکمل تباہ کر دیے گئے اور ایک لاکھ سے زائد گھر جزوی تباہ ہوئے۔ اس دوران وائل الدحدوح نے غزة تَنْتَصِر کے عنوان سے الجزیرہ ٹی وی پر حلقات منعقد کیے جس میں صیہونی جارحیت کے بالمقابل اہلِ غزہ کی استقامت اور مجاہدین کی جوابی کار روائیوں کا احاطہ کیا گیا۔ غزہ کی سرنگوں پر بھی انھوں نے ایک ڈاکومینٹری تیار کی۔

     وائل الدحدوح طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی اپنے رفقا کے ساتھ الجزیرہ ٹی وی پر نشریات میں نظر آ رہے تھے۔ جنگ کے ۱۹ ویں دن ۲۵، اکتوبر ۲۰۲۳ء کو بھی الدحدوح معمول کے مطابق اسرائیلی بمباری کے مناظر براہِ راست دکھا رہے تھے کہ انھیں فون کال موصول ہوئی جس کے بعد وہ نشریات چھوڑ کر چلے گئے۔ انھیں اطلاع دی گئی تھی کہ نصیرات کیمپ کے جس گھر میں وائل الدحدوح کے اہلِ خانہ پناہ گزین تھے اس پر اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی ہے۔ اس بمباری میں وائل الدحدوح کے خاندان کے نو بچے اور تین بڑے شہید ہوئے۔ شہدا میں وائل الدحدوح کی اہلیہ، ان کا بیٹا، بیٹی، شیر خوار پوتا اور بھتیجے شامل تھے۔ وائل الدحدوح بمباری کے کچھ دیر بعد براہِ راست نشریات پر نمودار ہوئے، وہ شہدا کی میتوں کے ساتھ کھڑے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ رنج و الم ان کے چہرے پر عیاں تھا، انھوں نے غم سے نڈھال لہجے میں کہا: ’’ہمارا انتقام ہمارے بچوں سے لے لیا، انا لله وانا الیہ راجعون۔ سن لو! یہ آنسو بزدلی اور خوف کے نہیں انسانیت کے آنسو ہیں۔ جلد یہ قبضہ خاک میں مل جائے گا‘‘۔ اس الم ناک سانحے نے وائل الدحدوح کا عزم متزلزل نہیں کیا اور وہ اپنے عوام کی ترجمانی کرتے رہے۔ ۱۵، دسمبر ۲۰۲۳ء کو نشریات کے دوران وائل اور ان کے ساتھیوں پر بمباری کی گئی جس میں وائل شدید زخمی ہوئے اور معروف صحافی محمد ابو دقّہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے ایک اور بیٹے اور صحافی حمزه الدحدوح ۷، جنوری ۲۰۲۴ء کو اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے۔

     صحافت کی دنیا میں چند ہی ایسے باہمت لوگ ہوں گے جو وائل الدحدوح جیسا جذبہ رکھتے ہوں۔ وہ صحافی جس نے کئی جنگیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور دنیا کو دکھائیں۔ جو اپنے دفتر کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی کو بہ کو گھوما۔ جس نے ہزاروں لوگوں کی اموات کی خبریں نشر کیں۔ عمارتیں اور اسپتال تباہ ہوتے دیکھے۔ جس کے گھر والے اس سے چھین لیے گئے۔ جس پر براہِ راست بمباری کی گئی۔ جسے دھمکایا گیا لیکن وہ ایک قدم پیچھے نہ ہٹا، ہر نئی مشکل نے اس کے عزم میں اضافہ ہی کیا۔ نہیں معلوم یہ غزہ کی مقدس مٹی کی محبت تھی یا قبلۂ اوّل سے عقیدت تھی جو وائل کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار کر چکی تھی۔ وائل کے دفتر سے دسیوں صحافی نشریات کے لیے نکلے لیکن وہ دوبارہ دفتر نہیں پہنچ سکے۔ معرکۂ طوفان الاقصیٰ نے انھیں قبول کر لیا۔ وائل کے لیے یہ صورتِ حال غیر متوقع نہیں تھی اور وہ جانتے تھے کہ انھیں کسی بھی وقت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ خان یونس حملے میں زخمی ہونے کے بعد ان پر دباؤ بڑھ گیا کہ وہ اپنے علاج کے لیے غزہ سے ہجرت کریں ورنہ وہ اپنے بازو سے محروم ہو سکتے ہیں، بہت اصرار کے بعد وہ علاج کے لیے تیار ہو گئے اور ۱۶ جنوری کو انھوں نے مصری سرحد کے راستے قطر کا سفر کیا اور شمالی غزہ کی ذمے داری ایک نوجوان صحافی اسماعیل الغول کے سپرد کی۔ وائل الدحدوح کا علاج جاری ہے اور وہ صحت یابی کے بعد پھر سے غزہ پہنچنے کے لیے پر عزم ہیں۔

    جاری ہے

  • غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا

    آصف محمود

    معروف کالم نگار

    غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا

    جن کا خیال تھا کہ حماس کی مزاحمت کو ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہ قصۂ ماضی ہے، انھیں خبر ہو کہ اسرائیل کو اسی مزاحمت کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کرنا پڑا ہے اور معاہدہ بھی وہی ہے جس پر فلسطینی مزاحمت پہلے دن سے رضامند تھی مگر نیتن یاہو نے جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن کا خیال تھا کہ غزہ اب قصہ پارینہ بن چکا، اور یہاں اسرائیل ساحل کے ساتھ اب اپنی بستیاں آباد کرے گا، ان کو خبر ہو کہ معاہدے کی رو سے غزہ، غزہ والوں کے پاس ہے۔ جن کا خیال تھا کہ شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا جائےگا، انھیں خبر ہو کہ شمالی غزہ پر اہلِ غزہ کا حق تسلیم کروا لیا گیا ہے۔ جن کو یقین تھا کہ فلاڈیلفیا اور نیتسارم کاریڈور اب ہمیشہ کے لیے اسرائیلی فوج کے بوٹوں تلے رہیں گے انھیں خبر ہو کہ دونوں کاریڈورز سے اسرائیل کو انخلا کرنا ہو گا۔ جن کا خیال تھا مزاحمت کاروں کو یوں کچل دیا جائے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی وہ اب بیٹھے سر پیٹ رہے ہیں کہ صرف بیتِ حانون میں اتنے اسرائیلی فوجی مارے گئے جتنے آج تک کی جنگوں میں نہیں مارے گئے۔ جن کا خیال تھا چند سر پھروں کی مزاحمت کچل دی گئی، انھیں خبر ہو کہ اسرائیلی برگیڈیر عامر اویوی دہائی دے رہا ہے کہ مزاحمت تو آج بھی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے، لیکن اسرائیل گھائل ہو چکا، مزاحمت کار تو نئی بھرتیاں کر رہے ہیں لیکن اسرائیل سے لوگ بھاگ رہے ہیں کہ فوجی سروس نہ لی جائے۔

    غزہ میں مزاحمت متحد ہے۔ لوگوں پر قیامت بیت گئی، بچے ٹھٹھر کر مر گئے، قبریں کم پڑ گئیں، لیکن کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سب ڈٹ کر کھڑے ہیں، لہو میں ڈوبے ہیں لیکن خدا کی رحمت سے مایوس نہیں۔ اُدھر اسرائیل ہے جہاں مایوسی اور فرسٹریشن میں دراڑیں واضح ہیں۔ ہرادی یہودی اسرائیلی حکومت کو سیدھے ہو چکے ہیں کہ ملک تو چھوڑ دیں گے لیکن لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کا فنانس منسٹر بزالل سموٹرچ دھمکی دے رہاہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی شکست ہے، وہ حکومت سے الگ ہو جائے گا۔ نیشنل سیکیورٹی کا وزیر اتمار بن گویر بھی دہائی دے رہا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی معاہدہ شکست کے مترادف ہے۔ ایرل سیگل چیخ رہا ہے یہ معاہدہ اسرائیل پر مسلط کیا گیا ہے۔ یوسی یوشع کہتا ہے بہت برا معاہدہ ہوا لیکن ہم بے بس ہو چکے تھے، اور کیا کرتے۔ مقامی خوف فروشوں سے اب کوئی جا کر پوچھے، حسابِ سودوزیاں کا گوشوارہ کیا کہتا ہے۔ اسرائیل کے جنگی مبصرین دہائی دے رہے ہیں کہ جس دن امریکہ کمزور پڑ گیا یا اس نے منھ پھیر لیا اس دن اسرائیل کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ اسرائیلی فضائیہ کے افسران گن گن کر بتا رہے ہیں کہ امریکی امداد نہ پہنچتی تو اسرائیل تیسرے ہفتے میں جنگ کے قابل نہ تھا۔ وہ حیران ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، ہزاروں قتل ہوئے پڑے اور لاکھوں زخمی، دنیا نے منھ موڑ رکھا، کئی ایٹم بموں کے برابر سلحہ ان پر پھونک دیا گیا، کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی، اسلحہ تو دور کی بات انھیں کوئی مسلمان ملک پانی اور خوراک تک نہ دے سکا، لیکن وہ ڈٹے رہے، کیسے ڈٹے رہے۔ وہ لڑتے رہے، کیسے لڑتے رہے؟ کچھ وہ تھے جن کے سر قضا کھیل چکی، اور کچھ وہ تھے جو اس کے منتظر تھے، قدم مگر کسی کے نہ لڑکھڑائے۔ ہبریو یونیورسٹی میں قائم عارضی وار روم میں اب پہلی تحقیق اس بات پر ہو نے لگی ہے کہ ان حالات میں مزاحمت کیسے قائم رہی؟ حوصلے کیوں نہ ٹوٹے۔ دنیا اب ویت نام کی مزاحمت بھول چکی ہے۔ دنیا آئندہ یہ پڑھا کرے گی کہ غزہ میں ایسی مزاحمت کیسے ممکن ہوئی؟

    جس مزاحمت کا نام لینے پر مغرب کے سوشل میڈیا کے کمیونٹی سٹینڈرڈز کو کھانسی، تپ دق، تشنج اور پولیو جیسی مہلک بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں، اتفاق دیکھیے اسی مزاحمت کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے، معاہدے میں اسی مزاحمت کا نام لکھنا پڑا اور عالم یہ ہے کہ امریکی صدر اور نومنتخب امریکی صدر میں کریڈٹ کاجھگڑا چل رہا ہے کہ سہرا کس کے سر باندھا جائے۔ دنیا اپنے فوجیوں کی تحسین کرتی ہے مگر ادھر خوف کی فضا یہ ہے کہ غزہ میں لڑنے والے اسرائیلی فوجیوں کی شناخت خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کہیں کسی ملک میں جنگی جرائم میں دھر نہ لیے جائیں۔ ان جنگی مجرموں کے لیے باقاعدہ مشاورتی فرمان جاری ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک جائیں تو گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے طریقے استعمال کیے جائیں۔ خود نیتن یاہو کے لیے ممکن نہیں کہ دنیا میں آزادانہ گھوم سکے۔ قانون کی گرفت میں آنے کا خوف دامن گیر ہے۔ یہ فاتح فوج کے ڈھنگ ہیں یا کسی عالمی اچھوت کے نقوش ہیں جو ابھر رہے ہیں؟ ادھر اسرائیل میں بائیڈن کے سفیر جیک لیو کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نہ صرف گلوبل ساؤتھ گنوا دیا ہے بلکہ مغرب بھی اس کے ہاتھ سے جا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم تو اسرائیل کے ساتھ ہیں لیکن نئی نسل کچھ اور سوچ رہی ہے اور اگلے بیس تیس سال میں معاملات نئی نسل کے ہاتھ میں ہوں گے۔ جیک لیو کے مطابق بائڈن اس نسل کا آخری صدر تھا جو اسرائیل کے قیام کے بیانیے کے زیرِ اثر بڑی ہوئی۔ اب بیانیہ بدل رہا ہے۔ نیا بیانیہ کیا ہے؟ نیا بیانیہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی یہودی ٹین ایجرز فلسطینی مزاحمت کی تائید کر رہے ہیں۔ 42 فی صد ٹین ایجر امریکی یہودیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا جرم کر رہا ہے۔ 66 فی صد امریکی ٹین ایجر یہودی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں۔۔۔۔ کیا یہ کوئی معمولی اعداد وشمار ہیں؟ غزہ نے اپنی لڑائی اپنی مظلومیت اور عزیمت کے امتزاج سے لڑی ہے ورنہ مسلم ممالک کی بے نیازی تو تھی ہی، مسلمان دانش وروں کی بڑی تعداد نے بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کی سلامتی کی قیمت پر غزہ کو فراموش کر دیا تھا۔ اسرائیل کا مظلومیت کا جھوٹا بیانیہ تحلیل ہو چکا ہے۔ دنیا کے سب سے مہذب فاتح کی کوزہ گری کرنے والے فقیہان ِ خود معاملہ طفولیت میں ہی صدمے سے گونگے ہو چکے۔ مرعوب مجاورین کا ڈسکو کورس منہدم ہو چکا ہے۔ ان کے جو ممدوح مزاحمت کو ختم کرنے گئے تھے، اسی مزاحمت سے معاہدہ کر کے لوٹ رہے ہیں۔ جدوجہد ابھی طویل ہوگی، اس سفر سے جانے کتنی مزید عزیمتیں لپٹی ہوں، ہاں مگر مزاحمت باقی ہے، باقی رہے گی۔ مزاحمتیں ایسے کب ختم ہوتی ہیں؟ ڈیوڈ ہرسٹ نے کتنی خوب صورت بات کی ہے کہ غزہ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ہے۔

  • ملامت کا رخ اہلِ غزہ کی طرف کیوں؟

    ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    ملامت کا رخ اہلِ غزہ کی طرف کیوں؟

    اہلِ غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کیا کم تھی کہ احمد جاوید صاحب نے ان پر طنز و تشنیع اور ملامت کے تیر بھی برسانے شروع کردیے ! یہ کام ان سے قبل اہل المورد کررہے تھے تو اس پر حیرت نہیں تھی کہ شکست خوردہ دانش سے اور کیا توقع کی جاسکتی تھی، لیکن اہلِ تصوف تو اہلِ دل ہوتے ہیں، پھر انھیں کیا ہوگیا ہے؟ بات صرف سطحی تجزیے، شاعرانہ انفعال، لفاظی اور مبالغے کی حد تک ہوتی، تو نظر انداز کی جاسکتی تھی کہ معاملات سمجھے بغیر تجزیے کرنا اور کتاب پڑھے بغیر تبصرے کرنا بعض اہلِ قلم کی عادت بن چکی ہے اور بعض بزرگ صرف عمر رسیدہ ہونے کی بنا پر اسے اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن جب بات اہلِ عزیمت پر طنز و تشنیع اور ملامت تک پہنچ گئی، تو گرفت ضروری ہوگئی ہے۔ اہلِ غزہ کو اس بات پر ملامت کہ غاصب ریاست کے خلاف مزاحمت کرکے وہ اپنے ہزاروں لوگوں کے قتل کا باعث بنے، حقائق کے خلاف ، اور قانون سے بے خبری کی دلیل تو ہے ہی، لیکن شاید یہ مظلوم کو ملامت کرنے (’victim blaming ‘) کی بد ترین مثال بھی ہے۔ کیا ملامت کرنے والے نہیں جانتے کہ یہ ظلم 7، اکتوبر 2023ء کو شروع نہیں ہوا، بلکہ ایک صدی سے زائد عرصہ قبل 1917ء میں اعلانِ بال فور سے شروع ہوا جب وقت کے دیوتا نے اس سرزمین پر ایک ناجائز ریاست کی بنیاد رکھنے کا باقاعدہ اعلان کیا؟ کیا انھیں اتنا بھی اندازہ نہیں کہ 100 سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں جو موڑ 7، اکتوبر 2023ء کو آیا، وہ اس دن نہ آتا، تو چند دن بعد اس نے آنا ہی تھا، اور اہلِ غزہ نے تو اصل میں ’پیش بندی کا اقدام‘ (pre-emptive strike) کیا ہے، جو وہ نہ کرتے، تب بھی غاصبوں نے ان کے ساتھ یہی کرنا تھا، لیکن اس پیش بندی کے اقدام کی وجہ سے غاصبوں کو جو نقصان پہنچا، وہ نہ پہنچ پاتا؟ کیا انھیں یہ بھی نظر نہیں آرہا کہ اہلِ غزہ کی اس عظیم الشان اور بے مثل قربانی کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کی جاگیروں کی جانب سے غاصب اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو جائز تسلیم کرنے کا سلسلہ رک گیا ہے؟ اب تو ٹرمپ نے غزہ پر قبضے کا باقاعدہ اعلان بھی کرلیا ہے۔ تو شکست خوردہ دانشور اور ملامتی صوفی اب کیا کہیں گے؟ کیا غزہ خالی کردینا چاہیے؟ اور اس کے بعد مسجدِ اقصیٰ سے بھی دستبردار ہوجانا چاہیے؟ پھر اگر خاکم بدہن بات مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی تک پہنچ گئی، تو کیا کریں گے؟
    جنگ میں ’بیانیہ‘ سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اعلانِ بال فور سے اسرائیل کے قیام تک مغربی دنیا اسے ’عرب-یہودی تنازع ‘ کہتی تھی؛ 1948ء سے 1967ء تک اسے ’عرب-اسرائیل تنازع ‘ اور 1967ء کے بعد اسے ’فلسطینیوں اور اسرائیل کا تنازع‘ کہا جانے لگا؛ اور یاسر عرفات کو ’فلسطینی اتھارٹی‘ سونپ دینے کے بعد اسے ’حماس-اسرائیل تنازع‘ کا نام دیا گیا؛ اب مغربی میڈیا اس تنازعے کو صرف اہلِ غزہ تک محدود قرار دے رہے ہیں، اور ہمارے شکست خوردہ دانش ور اور ملامتی صوفی سوچے سمجھے بغیر ان کے سُر میں سُر ملا رہے ہیں۔ چونکہ غزہ اور مسجدِ اقصیٰ سمیت پورے القدس پر تمام مسلمانوں کا شرعی اور قانونی حق ہے اور ان کا دفاع تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے، اس لیے درحقیقت یہ تمام مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے اور اس کو اسی طرح دیکھنا لازم ہے۔
    سورۃ الشوریٰ، آیت 39 میں مسلمانوں کی صفت یہ ذکر کی گئی کہ جب ان میں کسی پر زیادتی ہو، تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ اس سے پچھلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے تمام امور باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔ یہ آیات مسلمانوں کے ’اجتماعی حقِ دفاع‘ کی بنیاد ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 بھی ریاستوں کو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی دفاع کا حق دیتی ہے۔ نیٹو کی تنظیم تو بنی ہی اسی اصول پر ہے کہ اس تنظیم کے کسی ایک رکن پر حملہ تنظیم کے تمام ارکان پر حملہ تصور ہوگا۔1969ء میں ’اسلامی کانفرنس کی تنظیم‘ جسے اب ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کہا جاتا ہے، وجود میں ہی تب آئی تھی جب مسجدِ اقصیٰ کو جلانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کے بعد سے آج تک اس تنظیم کا اولین مقصدِ وجود مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت ہے۔
    ہمارے نزدیک تو اسرائیل کا قیام ہی غیر قانونی طریقے سے عمل میں لایا گیا ہے لیکن معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی قبضہ جنگ کا تسلسل ہے اور اقوامِ متحدہ کا سرکاری موقف یہ ہے کہ 1967ء میں اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، وہ اس کا حصہ نہیں ہیں، وہاں اس کی حیثیت قابض طاقت کی ہے جس نے جلد یا بدیر مقبوضہ علاقوں سے نکلنا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اس کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق ہے۔ غزہ اور مسجدِ اقصیٰ انھی مقبوضہ علاقوں میں ہیں۔ نیز مظلوموں کی مدد کےلیے جنگ مسلمانوں کا صرف حق ہی نہیں، بلکہ شرعی فریضہ ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت 60 مسلمانوں کو اپنی استطاعت کی حد تک دشمن کے خلاف قوت تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سورۃ کی آیت 72 اور سورۃ النساء کی آیت75 میں مظلوم بچوں اور مرد و خواتین کو ظلم سے بچانے کےلیے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر فقہاے امت نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں پر حملہ ہو اور وہ دفاع سے قاصر یا غافل ہوں، تو دوسرے مسلمان اسے پرایا جھگڑا سمجھ کر الگ تھلگ نہیں بیٹھیں گے، نہ ہی خاموش تماشائی بن کر سب کچھ برباد ہوتا دیکھیں گے، بلکہ ان کے قریب کے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا، پھر ان کے بعد کے مسلمانوں پر، یہاں تک کہ شرقاً و غرباً یہ فریضہ پوری دنیا کے مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا، اور ایسے میں جو مسلمان اس فریضے کی ادائیگی سے گریز یا کوتاہی کریں، تو وہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی ’انسانیت کے تحفظ کےلیے حملہ‘ جائز ہے اور نیٹو نے 1998ء میں کوسووو میں بمباری کو اسی بنیاد پر جواز دیا تھا۔ اہلِ غزہ تو القدس کے عشق میں اپنا سب کچھ قربان کررہے ہیں اور اس شعر کا مصداق ہیں:
    اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
    ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

    ان کو برا بھلا کہنے کے بجائے تنقید اور ملامت کا رخ 57 مسلمان ریاستوں کی حکومتوں کی طرف کرنا چاہیے۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ باقی دنیا کی جانب سے مدد نہیں آرہی، لیکن یہ سوال پوچھنا کیوں مشکل ہے کہ باقی دنیا کی جانب سے مدد کیوں نہیں آرہی؟ کیا اس لیے کہ اربابِ اقتدار پر تنقید کے نتیجے میں کچھ تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اور مورچے پر موجود سب کچھ لٹانے والے جانبازوں کو برا بھلا کہنے پر اپنی جیب سے کچھ نہیں جاتا؟ یہ بات شکست خوردہ دانش وروں کی حد تک تو قابلِ فہم ہے، لیکن ہم تو سمجھتے تھے کہ ملامتی صوفی دوسروں پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کیا کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہمیں ملامتی صوفی بھی ٹھیک نہیں ملے!

Custom Cursor