فتاویٰ یسئلونک
دارالافتاء، فقہ اکیڈمی
سوال: ایک حدیث شریف میں آتا ہے: ’’لاعدوی ولا طیرۃ‘‘ کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کا حکم کیا ہے؟ اسی طرح ایک اور حدیث میں مجذوم سے بھاگنے کا حکم آتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے مجذوم کے ساتھ کھانا کھایا۔اسی طرح خارشی اونٹ کے بارے میں بھی ایک روایت ہے۔ جبکہ ایک اور واقعہ ہے كہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون والے علاقے سے نکل گئے تھے اور فرمایا کہ ہم ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگے ہیں۔ ان تمام روایات کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ نیز یہ کہ اگر کوئی شخص یقین اور توکل کی وجہ سے احتیاط نہ کرے تو اس کےلیے کیا حکم ہے؟
جواب: ہر بیماری اللہ تعالی کے حکم کے تابع ہے، اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نہیں لگ سکتی۔ چنانچہ صحیح بخاری کی روایت ہے:’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بیماری کامتعدی ہونا (ایک سے دوسرے کولگنے کا وہم) اور صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنا ) اور اُلو(کو منحوس سمجھنا) کوئی چیز نہیں ۔ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان اونٹوں کو کیا ہوتا ہے، جو ہرنیوں کی طرح ریگستان میں رہتے ہیں کہ اچانک ان میں خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے تو دوسرے اونٹوں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے؟رسول اللہﷺنے فرمایا سب سے پہلے اونٹ (جس کی وجہ سے باقی اونٹوں میں خارش لگی)کو کس سے خارش لگی؟ (یعنی جس طرح پہلے اونٹ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے خارش لگی اسی طرح دوسروں کو بھی حکم الہٰی سے ہی خارش لگی)‘‘(صحيح البخاري،كتاب الطب،باب:لاهامة) چونکہ لوگوں میں بیماری کے از خود دوسرے کو لگنے کا ایک توہم پایا جاتا تھا تو مذکورہ بالا حدیث میں اس توہم کی نفی کی گئی ہے، کہ اس قسم کے توہمات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جبکہ بعض اوقات ایک بیماری دوسرے کی طرف متعدی ہو جاتی ہے تو یہ بھی اللہ کے حکم سے ہی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کمزور عقیدہ لوگوں کو ان سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے: ’’اور جذام میں مبتلا شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ‘‘(صحيح البخاري،كتاب الطب،باب الجذام)
اور اگر اللہ رب العزت کی ذات عالی پر یقین اور توکل کامل ہو توایسے مریض کے ساتھ میل جول اور اختلاط بھی کیا جاسکتا ہے، جیساکہ حدیث شریف میں ہے:’’ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جذام میں مبتلا شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا، اور فرمایا كہ اللہ پر اعتماد اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے کھاؤ‘‘(سنن أبي داود، كتاب الطب، باب في الطيرة)اس مرفوع روایت کو (جس میں مجذوم کے ساتھ کھانے کا واقعہ رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہے) علماء نے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد موقوف روایت (جس میں یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے) اُس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[1]
بیماری کے متعدی ہونے کا سببِ حقیقی حکمِ خداوندی ہے، اور سببِ ظاہری اختلاط ہے۔ ظاہری سبب سے بچتے ہوئے احتیاط کرنے کا حکم دیا گیا ہے جوکہ رخصت پر مبنی ہے۔ البتہ حقیقی سبب پر یقین اور توکل کرتے ہوئے اگر کوئی شخص احتیاط نہ کرے تو یہ بھی جائز ہے۔[2]
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ طاعون والے علاقے سے واپس ہوئے تھے تو اس کی تفصیلی روایت صحيح سند كے ساتھ مسند ابی یعلی میں مذکور ہے۔ اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لشکر سمیت شام کی طرف نکلے، قریب جاکر معلوم ہوا کہ شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین کو بلاکر ان سے مشورہ لیا، ان میں سے بعض نے آگے بڑھنے کا مشورہ دیا اور بعض نے واپسی کا مشورہ دیا، ان کے بعد آپ نے انصار کو بلا کر ان سے مشورہ لیا، انھوں نے بھی مہاجرین کی طرح کا مشورہ دیا۔ پھر آپ نے فتح مکہ میں شریک ہونے والے قریش کے بزرگوں کو بلاکر ان سے مشورہ لیا، انھوں نے واپسی کا مشورہ دیا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واپسی کا فیصلہ فرمالیا، اس پر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو فرمانے لگے: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جب تم کسی علاقے میں وبا کے بارے میں سنو تو اس کی طرف مت بڑھو، اور اگر تم جس علاقے میں ہو اور وہاں وبا آپڑے تو اس علاقے سے فرار اختیار کرتے ہوئے مت نکلو۔‘‘ اس بات کو سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور وہاں سے واپس ہوگئے۔
’’احسن الفتاوی‘‘ میں حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’بعض احادیث سے عدوی کی نفی ہوتی ہے اور بعض سے ثبوت ملتا ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ احادیثِ نفی میں وہ ’’عدوی‘‘ مراد ہے جس کے قائل اہلِ جاہلیت تھے اور اب بھی اس کے معتقدین موجود ہیں۔ یعنی یہ اعتقاد کہ بعض امراض میں متعدی ہونے کی خاصیت طبعی اور لازمی طور پر پائی جاتی ہے۔ اس اعتقاد کی نفی نص ’’لاعدوی ولاطیرة‘‘ کے علاوہ مشاہدے سے بھی ہوتی ہےکہ اگر کسی جگہ طاعون پھیلتا ہے تو وہاں اموات کی تعداد محفوظ لوگوں کی تعداد سے بہت کم ہوتی ہے، اگر تعدیہ ضروری ہوتا تو اس کا عکس ہوتا بلکہ کوئی بھی نہ بچتا۔ اور جن احادیث میں پرہیز کا حکم ہے وہ بدرجہ سبب ہے، مگر اس کی حیثیت اسبابِ ظاہرہ سے کم ہے، اس لیے پرہیز ضروری نہیں۔ ’’فر من المجذوم فرارک من الأسد‘‘ کا حکم ضعیف الاعتقاد لوگوں کےلیے ہےکہ ان کو اگر بمشیت الہیہ بیماری لگ گئی تو وہ ’’لاعدوی ولا طیرة‘‘ جیسی احادیث کا انکار کر بیٹھیں گے، جس میں ان کے سلب ایمان کا خطرہ ہے‘‘۔
[1] عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺأَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهُ مَعَهُ فِي القَصْعَةِ، ثُمَّ قَالَ: «كُلْ بِسْمِ اللَّهِ، ثِقَةً بِاللَّهِ، وَتَوَكُّلًا عَلَيْهِ»: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ المُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَةَ وَالمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ، وَالمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ شَيْخٌ آخَرُ مِصْرِيٌّ أَوْثَقُ مِنْ هَذَا وَأَشْهَرُ وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الحَدِيثَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، أَنَّ عُمَرَ، أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ، وَحَدِيثُ شُعْبَةَ أَشْبَهُ عِنْدِي وَأَصَحُّ. (سنن الترمذي، ابواب الأطعمة، باب ما جاء في الأكل مع المجذوم)إسناده ضعيف لضعف مُفضَّل بن فضالة، وقال ابن عدي في ترجمته في "الكامل” لم أر في حديثه أنكر من هذا الحديث الذي أمليتُه، وقال الدارقطني في "الغرائب والأفراد” كما في "أطرافه” لابن طاهر المقدسي (1678): تفرد به مفضل بن فضالة، أخو مبارك، عن حبيب بن الشهيد. قلنا: وخالفه شعبة بن الحجاج، فرواه عن حبيب بن الشهيد، عن عبد الله بن بريدة، أن عمر أخذ بيد مجذوم. قال الترمذي: حديث شعبة أشبه عندي وأصح (سنن أبي داود ت الأرنؤوط، كتاب الطب، باب في الطيرة)
[2] چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَإِنَّمَا أَرَادَ بِذَلِكَ نَفْيَ مَا كَانَ يَعْتَقِدُهُ أَصْحَابُ الطَّبِيعَةِ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَرَوْنَ الْعِلَلَ الْمُعْدِيَةَ مُؤَثِّرَةً لَا مَحَالَةَ، فَأَعْلَمَهُمْ بِقَوْلِهِ هَذَا أَنْ لَيْسَ الْأَمْرُ عَلَى مَا يَتَوَهَّمُونَ، بَلْ هُوَ مُتَعَلِّقٌ بِالْمَشِيئَةِ إِنْ شَاءَ كَانَ، وَإِنْ لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَيُشِيرُ إِلَى هَذَا الْمَعْنَى قَوْلُهُ: ” «فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ» ". أَيْ: إِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّ السَّبَبَ فِي ذَلِكَ الْعَدْوَى لَا غَيْرَ، فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ؟ وَبَيَّنَ بِقَوْلِهِ: ” «فِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ» ” وَبِقَوْلِهِ ( «لَا يُورِدَنَّ ذُو عَاهَةٍ عَلَى مُصِحٍّ» ) أَنَّ مُدَانَاةَ ذَلِكَ يُسَبِّبُ الْعِلَّةَ، فَلْيَتَّقِهِ اتِّقَاءَهُ مِنَ الْجِدَارِ الْمَائِلِ وَالسَّفِينَةِ الْمَعْيُوبَةِ… وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ هَذَا رُخْصَةٌ لِلضُّعَفَاءِ، وَتَرْكُهُ جَائِزٌ لِلْأَقْوِيَاءِ بِنَاءً عَلَى أَنَّ الْجُذَامَ مِنَ الْأَمْرَاضِ الْمُعْدِيَةِ فَيُعْدِي بِإِذْنِ اللَّهِ، فَيَحْصُلُ مِنْهُ ضَرَرٌ، وَمَعْنَى لَا عَدْوَى نَفْيُ مَا كَانُوا عَلَيْهِ مِنْ أَنَّ الْمَرَضَ يُعْدِي بِطَبْعِهِ لَا بِفِعْلِهِ سُبْحَانَهُ. (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الطب والرقٰى)وَلَا سَبِيلَ إِلَى التَّوْفِيقِ بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ: بَيَّنَ بِالْأَوَّلِ التَّوَقِّيَ مِنْ أَسْبَابِ التَّلَفِ، وَبِالثَّانِي التَّوَكُّلَ عَلَى اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُهُ فِي مُتَارَكَةِ الْأَسْبَابِ وَهُوَ حَالُهُ اهـ. وَهُوَ جَمْعٌ حَسَنٌ فِي غَايَةِ التَّحْقِيقِ. (حوالۂ بالہ مرقاة المفاتيح)