قرآن کے نزول کے ساتھ ہی اس کے سمجھنے ،عمل کرنے اور اس کی حفاظت پر محنتیں شروع ہو گئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآنی مفاہیم کو اپنے عمل کا حصہ بناتے ، اس پر غور و فکر کرتے اور جہاں انھیں مشکل سامنے آتی رسول اکرمﷺ سے پوچھتے۔نبی کریم ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں انتہائی اہتمام کے ساتھ قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کیا گیا، اور عہد عثمانی میں اس کے متعدد نسخے تیار کرا کے اطرافِ عالم اسلامی میں روانہ کیے گئے ۔ صحابہ اور ان کے بعد علماے امت اس کے علوم و فنون کی تفہیم اور ابلاغ کی ذمے داری مسلسل نبھاتے رہے،اور اس کے سر بستہ رازوں اورا علی نکات کی پردہ کشائی کرتے رہے۔ قرآن پر مختلف حیثیتوں سے وارد ہونے والے سوالات کے جوابات دیتے رہے ۔ تفسیرِ قرآن،مشکلاتِ قرآن ، مفرداتِ قرآن ، اسباب ِنزول ،اعجازِقرآن سمیت علوم القرآن کے مختلف موضوعات پر الگ الگ کتابیں تصنیف ہوئیں۔ چوتھی صدی ہجری تک ہونے والے اعتراضات کے جوابات ابو طیب ابو بکر باقلانی نے اپنی ضخیم کتاب الانتصار للقرآن میں دیے۔ قرآنی مطالعات کا یہ سلسلہ برابر چلتا رہا یہاں تک کہ آٹھویں صدی ہجری تک آتے آتے امام بدرالدین زرکشی اور ان کےبعد علامہ سیوطی نے علوم القرآن کے مختلف موضوعات کو یکجا کر کے مستقل کتابیں تصنیف کیں۔
متقدمین علماء کی مساعیِ مشکورہ اور علمیہ کے باوجود ضرورت تھی کہ علوم القرآن کے مختلف موضوعات کو جدید اسلوب میں پیش کیا جائے اور مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات کو بھی زیر بحث لا کر ان میں حق و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائے۔
شیخ عبدالعظیم زُرقانی الازہری متوفی ۱۹۴۸ءنے جامعہ ازہر کے کلیۂ اصولِ دین کے دعوت و ارشاد کے متخصصین کے لیے ایک کتاب تالیف کی ، جس کا مقصد انھوں نے یہ بتایا کہ علماے سابقین کے علوم سے جدید استفادہ ہو ۔ مستشرقین کے شبہات کا جواب دیا جائے اور طلبہ میں تحقیق کا جذبہ ابھارا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میری تحریر؛ فکر و تعبیر میں جدید ازہری انداز کی ہوگی، تاکہ اس کا سمجھنا جدید نسل کے پڑھنے والوں کے لیے آسان ہو، جن میں ازہری محقق اور عمومی اہلِ دانش شامل ہیں ، کیونکہ ہر زمانے کی اپنی زبان و بیان اور منطق و برہان ہوتے ہیں ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ﴾(ابراہیم:۴)
چونکہ’’ ماہ نامہ مفاہیم کراچی‘‘ کاایک مقصد عالمِ عرب کی جدید و قدیم تصانیف اور علماے عرب کی علمی کاوشوں سے اپنے قارئین کو متعارف کرانا بھی ہے۔چنانچہ اسی مقصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ہم ذیل میں شیخ عبدالعظیم زُرقانی کی مایہ ناز کتاب مناهل العرفان في علوم القرآن کا مطالعہ پیش کرتے ہیں، تاکہ اس اہم کتاب کے مندرجات سے واقفیت ہو اور کتاب سے براہ راست استفادے کا باعث بن سکے۔
قرآن کے نام
کتاب کے آغاز میں علامہ زُرقانی نے ’’علوم القرآن ‘‘ کی ترکیب کا تعارف، قدیم منطقی مباحث اور جدید ادبی اسلوب کے ساتھ پیش کرنے کے بعد قرآن کی تعریف بھی متکلمین ، فقہاء اور علماے عربی لغت کے نزدیک بیان کی ہے اور پھر قرآن کے مختلف نام ذکر کیے ہیں۔ صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ قرآن کے پانچ ناموں میں قرآن اور فرقان زیادہ معروف ، جبکہ ذکر ،کتاب ، اور تنزیل بھی ہیں۔ ان کے سوا صفاتی نام ہیں اور ان کے درمیان اصولِ فارق یہ ہے کہ یہ صفات کے طور پر قرآن میں مستعمل ہیں، جیسے﴿إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ﴾ (واقعہ: ۷۷)اور﴿وَهَـٰذَا ذِكْرٌ مُّبَارَكٌ أَنزَلْنَاهُ﴾(انبیاء:۵۰)ان آیات میں کریم اور مبارک بطور صفت مستعمل ہیں ۔ صاحبِ کتاب نے قرآن کی متعدد تعریفات میں سے اس کوترجیح دی ہے:القرآن هو کلام الله المعجز، المنزل علی النبيﷺ، المکتوب في المصاحف، المنقول بالتواتر، المتعبد بتلاوته۔ ’’قرآن اللہ کا معجز کلام ہے جو نبی اکرم ﷺپر نازل ہوا، مصاحف میں لکھا ہوا ہےاور تواتر سے منقول ہے، جس کی تلاوت عبادت ہے ‘‘۔
علوم القران کی تعریف
علوم القرآن کا ایک اہم مسئلہ خود اس علم کی تحدید اور تعیین ہے یعنی کون سے مباحث علوم القران میں شامل ہیں اور کون سے شامل نہیں ہیں۔اس کتاب میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ وہ علوم جو قرآن کے نزول ، اس کی ترتیب ، اس کی جمع وکتابت ، اس کی قراءت اور تفسیر ، اعجاز اور ناسخ و منسوخ سے بحث کریں یا اس پر وارد ہونے والے شبہات کو رفع کریں، ان کا موضوع ان مذکورہ حیثیات سے قرآن کریم ہے،جبکہ علوم القرآن کا موضوع بطور مستقل علم؛ ان تمام علوم کا مجموعہ ہے جو اس کی اصطلاح کے جھنڈے تلے جمع ہے۔
تاریخ علوم القرآن
شیخ زرقانی کے نزدیک علوم القرآن کی اصطلاح سب سے پہلے امام شافعی علیہ الرحمہ نے عباسی خلیفہ ہارون رشید کے سامنے استعمال کی۔ اس کے بعد علوم القرآن کی تدوین کا صدی بہ صدی جائزہ لیا ہے مگر حیرت ہے کہ امام ابن تیمیہ اور ابن قیم علیہما الرحمہ کو یکسر نظر انداز کیا ہے ، جبکہ شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کا ذکر بھی مفقودہے ، ہوسکتا ہے کہ علامہ زرقانی کے دور تک شاہ صاحب کی الفوزالکبیرکا عربی ترجمہ نہ ہوا ہو۔ مگر اول الذکر کے نظرانداز ہونے کی وجہ سمجھ نہیں آتی ، حالانکہ اسبابِ نزول کی بحث میں ان کا حوالہ بھی دیا ہے ۔
نزولِ قرآن
نزول قرآن کے ضمن میں شیخ زرقانی کا کہنا ہے کہ قرآن کے تین نزول ہیں ۔
۱)نزولِ اول لوحِ محفوظ کی طرف۔ دلیل :﴿بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ﴿﴾فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ﴾ (بروج:۲۱،۲۲)اس نزول کی حکمت یہ ہے کہ لوح محفوظ کا مستقل وجود ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز پہلے سے لکھی ہوئی موجود ہے، اور علم خداوندی کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے﴿وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ﴾ (قمر:۵۳) ﴿مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَاۚإِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ﴿﴾لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾ (حدید :۲۲،۲۳)
۲ ) دوسرا نزول آسمان دنیا میں بیت العزت کی طرف۔دلیل:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ (قدر:۱)﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ﴾ (بقرہ:۱۸۵)اس کے ساتھ چارا حادیث بھی بیان فرمائی ہیں جو سب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ،اور اس بارے میں تین اور اقوال بھی ذکر کیے ہیں مگر انھیں بمعزلٍ من التحقیق (کہ وہ تحقیق سے دور ہیں ) کہہ کر رد کیاہے۔تعددِ نزول کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مویدیقین ہےاور شک سے پاک ہے کیونکہ متعدد مقامات پر یہ موجود ہے۔
۳: نزول ثالث : روح الامین سیدنا جبریل علیہ السلام کے واسطے رسول اللہﷺ کے دل پر اس کا نزول۔﴿نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿﴾عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ﴾ (شعراء :۱۹۳،۱۹۴)ان آیات سے معلوم ہوا کہ نبی کریمﷺ پر وحی جبریل لے کر آتے تھے، مگر خود انھوں نے اللہ تعالی سے کیسے اخذ کیا ہے؟ اس بارے میں مصنف صاحب نے تین قول ذکر کیے ہیں مگر راجح اس کو قرار دیا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سماعا ً اخذ کیا ہے۔ اور اس کی تائید میں طبرانی کی ایک روایت نقل کی ہے ۔مصنف نے واضح کیا کہ حضرت جبریل کا نزولِ قرآن میں اخذ کرنے اور آگے پہنچانے کے سوا کوئی کردار نہیں ، اسی طرح نبی کریمﷺکا قرآن میں حفظ کرنے ، تبلیغ ، بیان و تفسیر اور پھر نفاذ و تطبیق کے سوا، اس کے بنانے میں کوئی کام نہ تھا،جیسا کہ قرآن نے خود اس کی مکرر وضاحت کی ہے :﴿وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ﴾ (نمل:۶)﴿وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُوا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ مِن رَّبِّي ۚ هَـٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (اعراف:۲۰۳)پھر فرمایا ہے کہ قرآن کا مختلف زمانوں میں نازل ہونے کے باوجود،منظم اور مرتب کتاب ہونا اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہے۔
اس کے بعد مصنف صاحب نے سب سے پہلے اور سب سے آخر میں نازل شدہ آیات ، قرآن کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کےفوائد اور وحی کے تعارف اور اس پر وارد ہونے والے سوالات اور جوابات پر سیر حاصل بحث کی ہے جس میں انھوں نے بیسویں صدی عیسوی کے معروف مفکر علامہ فرید وجدی کی کتاب ’’السیرة المحمدية تحت ضوء العلم والفلسفة ‘‘ سے استفادہ کیا ہے ۔
پانچویں بحث میں اسباب ِنزول اور اس کے متعلقہ مسائل پر گفتگو کی ہے اور اسبابِ نزول کی معرفت کے درج ذیل فوائد بیان کیے ہیں :
۱) حکمتِ خدا وندی کی معرفت حاصل ہوتی ہے جس سے مومن کا ایمان پختہ ہوتا ہے اور منکر کو سوچنے کا موقع مل جاتا ہے۔
۲) قرآن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور اشکا لات کا ازالہ ہوتا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ واحدی کے حوالے سے فرمایا ہے کہ سببِ نزول کے بغیر قرآن کی بعض آیات کا درست مطلب نہیں سمجھا سکتا۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت ﴿فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ﴾اور ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ﴾جیسی آیات کا صحیح مطلب شانِ نزول کے بغیر واضح نہیں ہوتا۔
۳) جہاں بظاہر حصر کا احتمال ہو وہ دور ہوجاتا ہے ، جیسے﴿قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ (انعام: ۱۴۵)
۵) اگر سببِ نزول آیت کے لیے بطور مخصِص وارد ہو تو وہ آیت کے حکم سے خارج نہیں ہوتا اورآیت کا حکم خاص ہوجاتا ہے۔
۶) جس کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہوتی ہے اس کا تعین ہوجاتا ہے۔
۷) حفظ کرنے اور سمجھنے میں آسانی کا باعث بنتا ہے۔
جمہور علماء کے نزدیک قرآن کا خطاب عام ہے جب تک خصوص کا کوئی سبب نہ پایا جائے ، مگر بعض اس سے اختلاف کرتے ہیں، اگر چہ نتیجے کے اعتبار سے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑھتا کیونکہ ان کے نزدیک علت کے شمول سے حکم متعدی ہوجاتا ہے ۔ عموم و خصوص کے اس اہم مسئلے میں عموم کے معتبر ہونے پر جمہور کے دلائل کو منطقی صغریٰ و کبریٰ کے انداز میں بیان کیا ہےاور مخالفین کا رد منطقی انداز میں کرنے کےبعد معذرت بھی کی ہے۔
مولف صاحب مباحث کے درمیان اہم نکات بھی بیان کرتے ہیں جیسےسیدنا اُبَی بن کعب رضی اللہ عنہ کا نبی کریمﷺ کے سامنے قرآن کے حوالے سے اشکال کا تذکرہ۔ جب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی نے دوسری قراءت میں قرآن پڑھا تو انھوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس حاضر ہوکرشکایت کی، نبی اکرمﷺنے دونوں کی قراءت کو درست قرار دیا تو سیدنا ابی کو شک ہوا،اس پر نبی اکرمﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا جس سے یہ شک دور ہوا ۔ اسی طرح یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حفاظتِ قرآن کا خصوصی خیال رکھتے تھے جیساکہ بعض صحابہ کرام کا دوسرے صحابہ کے پڑھنے پر نکیر سے معلوم ہوتا ہے۔
سبعة أحرُف
علومِ قرآن میں ایک معرکہ آرا مسئلہ ’’سبعةأحرُف‘‘ کا ہے، اس پر شیخ زرقانی نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس کی پوری تفصیل تو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ کی مایہ ناز کتاب علوم القرآن میں دیکھی جاسکتی ہے البتہ شیخ زرقانی کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد مندرجہ ذیل اختلافات ہیں:
۱) اسما کا اختلاف ، تثنیہ، جمع ، تذکیر و تانیث ۲ ) تصریفِ افعال ماضی ، مضارع ، امر
۳ ) وجوہِ اعراب ۴ )بعض حروف کی کمی اور اضافہ
۵ ) تقدیم و تاخیر ۶ ) ابدال
۷ ) لہجوں کا اختلاف
محقق جزری کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اختلافِ قراءت تین طرح کا ہے:
۱)اختلافِ لفظ فقط ۲ ) اختلافِ لفظ و معنی ہو مگر دونوں ایک جگہ جمع ہوسکیں یعنی دونوں کا مصداق ایک ہو
۳) دونوں میں اختلاف بھی ہو جبکہ دونوں ایک چیز میں جمع بھی نہ ہو سکیں مگر دوسری طرح سے جمع ہو سکیں اور تضاد کو ملتزم نہ ہوں
مکی اور مدنی کی بحث
مکی اور مدنی آیتوں کی پہچان بھی علوم القرآن کا ایک اہم مسئلہ ہے، اس پر مکی صاحب اور عزالدرینی نے لکھا ہے اور عصر حاضر میں اس پر مستقل اور بہت عمدہ کتابیں شائع ہوئی ہیں جیسے ڈاکٹرعبدالرزاق حسین احمد صاحب نے ’’المکي والمدني في القران الکریم ‘‘ کے عنوان سے دوجلدوں میں سورۂ بنی اسرائیل تک آیات اور سورتوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
نبی اکرمﷺ سے ناسخ اور منسوخ کے منقول نہ ہونے کی وجہ مصنف علیہ الرحمہ نے یہ بیان کی ہے کہ اس وقت سب کچھ عیاں تھا۔ صحابہ کے سامنے قرآن کا نزول ہو رہا تھا ، اس لیے بیان کی ضرورت نہیں تھی۔ و لیس بعد العیان بیان (اور مشاہدے کے بعد بیان کی حاجت نہیں رہتی )۔ یہ وجہ قاضی ابو بکر باقلانی کے الانتصارللقرآن میں بیان کردہ وجہ سے بہتر ہے کہ آپ ﷺ اس پر مامور نہیں تھے۔شیخ زرقانی نے مکی اور مدنی سورتیں پہچاننے کےدرج ذیل قواعد اور اصول ذکر کیے ہیں۔ان کے مطابق مکی سورتوں کی پہچان اس طرح ہو گی کہ وہ سورت:
۱)جس میں کَلّا کا لفظ آیا ہے ۲) جس میں آیتِ سجدہ ہو
۳) جس میں قصص الانبیاء ہوں ۴) سورۂ بقرہ کے سوا جس میں آدم و ابلیس کا قصہ ہو
۵) جس میں یاأيهاالناس سے خطاب ہو ۶)سورِ مفصل(حجرات تا ناس) مکی ہیں
۷) جس کی ابتدا حروف تہجی سے ہو، سوائے بقرہ و آل عمران کے،جبکہ سورۂ رعد میں اختلاف ہے
مکی سورتوں کی کچھ مزید خصوصیات اس طرح ذکر کی ہیں:
۱)شرک ، بت پرستی اور ذہنوں میں پیدا ہونے والے شہبات کا رد اور اس کی مثالیں
۲) انبیاےسابقین اور سنن کونیہ(اصولِ فطرت جیسے زمین آسمان بارش وغیرہ) کا بیان
۳) مشرکین کی خراب عادتوں کا بیان
۴) بہترین اخلاق اور اچھی صفات کا بیان
۵) انفس و آفاق کی نشانات کا بیان مختلف اسلوب کے ساتھ
۶) ایجاز اور خطیبانہ اسلوبِ بیان
مدنی سورتوں کی خصوصیات
جبکہ مدنی سورتوں کی پہچان اس طرح ہوگی:
۱) جن سورتوں میں حد و دوفرائض کا بیان ہو
۲) جہاد و احکام جہاد ہو
۳) جس میں منافقین کا ذکر ہو
۴ )دقائق تشریع کا بیان اور احکام کی تفصیل
۵) اہل کتاب کو ایمان کی دعوت اور ان کے بری خصلتوں کا بیان
۶)بقدر ضرورت اطناب اور تطویل کا اسلوب
اس بحث میں اسلوب قرآن پر واردسوالات کا جواب بھی دیا ہے۔
چونکہ مصنف صاحب جامعہ ازہر کے مدرس ہیں، اس لیے ان کا اندازِ تحریر مخاطبانہ اور تفصیل سے علمی نکات سمیت سمجھانے کا ہے۔ اور جب انھیں احساس ہوتا ہے کہ بات طویل ہو گئی ہے تو فورا معذرت کرکےوجہ بیان کرتے ہیں۔