لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

منگل 02 جمادی الثانی 1446 بہ مطابق 03 دسمبر 2024

﴿وَلَا تَهِنُـوْا وَلَا تَحْزَنُـوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْن﴾ ’’( مسلمانو ! ) تم نہ تو کمزور پڑو ، اور نہ غمگین رہو۔ اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے‘‘ ۔(آسان ترجمہ قرآن)

آیت کا شانِ نزول

غزو ۂ اُحد میں ابتداءًمسلمانوں کو فتح ہوئی مگر بعد میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا ۔ ۷۰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو ایک پہاڑی پر تعینات فرمایا تھا کہ وہ درے پر نگاہ رکھیں اور ہدایت فرمائی تھی کہ اس جگہ سے نہیں ہٹنا چاہے ہمیں شکست ہی کیوں نہ ہو جائے ۔مگر ابتدائی فتح کی صورت میں اس درے پر موجود بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ رائے بنی کہ ہم جنگ جیت چکے ہیں اور ہماری ذمے داری پوری ہوچکی ہے،اب ہمیں نیچے آ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مالِ غنیمت جمع کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ بہرحال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس اجتہادی خطا کی وجہ سے ۷۰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے اور فتح شکست میں تبدیل ہوگئی ۔ خود حضورِاکرمﷺ کا دندانِ مبارک شہید ہوا، اور آپ ﷺ کا مبارک چہرہ لہو لہان ہو گیا۔ اس موقعے پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی اور اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تسلی دی اور فرمایا کہ: تم نہ کمزور پڑو اور نہ غمگین ہو، اگر تم واقعی مومن ہو تو تم ہی سر بلند ہو گے۔

آیت کا محل و مقام

امام قرطبی لکھتے ہیں : یہ آیت اللہ تعالی کی طرف سے اہل ایمان کے لیے تسلی اور سکونت کے لیے نازل ہوئی ہے اور اس میں اس امت کی فضیلت کا بیان ہے کیونکہ اللہ نے ان سے اسی انداز میں خطاب کیا ہے جیساپیغمبروں سے کیاجاتا ہے جس کی مثال اللہ تعالی کا حضرت موسی علیہ السلام کو یہ فرمانا ہے: إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلى !!

آیت کا تفسیری جائزہ

اس آیت میں لفظ الْأَعْلَوْنَ ایک کلیدی لفظ ہے جو أعْلَى کی جمع ہے۔اس میں معنوی بلندی کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور اس میں مادی بلندی یعنی غلبے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں بیان کیا گیا ہے۔امام رازی اور دوسرے مفسرین نے ان دونوں مفاہیم کو مختلف توجیہات کے ساتھ بیان کیا ہے

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ﴿وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں’’حالانکہ تم ہی ان سے اونچے ہو کیونکہ اس مصیبت کے اجروثواب کے تم امیدوار ہواور کافروں کو آئندہ ثواب کی امید نہیں۔ تمہارےمقتولین جنت میں ہیں اور ان کے مقتول دوزخ میں‘‘۔( تفسیرِ مظہری، سورۂ آل ِعمران، آیت ۱۳۹)

یاد رکھو آج بھی تم ہی معزز و سر بلند ہوکہ حق کی حمایت میں تکلیفیں اٹھا رہے ہو اور جانیں دے رہے ہو اور یقینا آخری فتح بھی تمہاری ہے، انجامِ کار تم ہی غالب ہو کر رہو گےبشرطیکہ ایمان و ایقان کے راستے پر مستقیم رہو۔( تفسیرِ عثمانی،سورۂ آلِ عمران، آیت ۱۳۹)

شیخ الحدیث مولانا غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں :مفهوم المخالفة و انتم الاعلون ان كنتم مومنىن’’غلبے کا ایک معنی ہے دلیل اور برہان کا غلبہ یعنی اگر چہ مادی اعتبار سے مسلمان کسی زمانے میں مغلوب ہوجائیں جیسا کہ اب ہیں اور کفار غالب ہوں تب بھی مسلمانوں کا دین کفار کے باطل ادیان کے مقابلے میں دلیل اور برہان کے اعتبار سے غالب ہے اور دینِ اسلام کا ہر اصول معقولیت کے لحاظ سے کفار کے اصولوں سے برتر ہے۔اور مسلمانوں کے اعلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مسلمانوں کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے، اگر کسی جنگ میں مسلمان مغلوب ہو جائیں اور کافر غالب ہوں تب بھی اللہ تعالی کے نزدیک مسلمان اعلیٰ ہیں۔(تفسیر تبیان القرآن، سورۂ آلِ عمران، آیت نمبر ۱۳۹)

تفسیر بیضاوی میں ہے’’احد کے دن مسلمانوں کو جو مصیبت پہنچی اس پر انھیں تسلی دی جاتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمھیں جو مصیبت پہنچی ہے اس کی وجہ سے جہاد میں کمزوری مت دکھاؤ، اور مقتولین یعنی شہدا پر غمگین مت ہو، اور تم ہی غالب رہو گے اس حال میں کہ تمہاری شان ان سے بلند ہوگی، کیونکہ تم حق پر ہو اور تمھارا قتال برائے خدا ہے اور تمہارے مقتولین جنت میں ہیں۔ اور وہ باطل پر ہیں، ان کی جنگ شیطان کے لیے ہے اور ان کے مقتولین دوزخ میں ہیں ۔(تفسیرِ بیضاوی، سورۂ آلِ عمران، آیت نمبر ۱۳۹)

جیسا عرض کیا گیا کہ اعلون غلبے یعنی فتح کے معنی میں بھی ہے تو اس صورت میں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہا ں فوری غلبے کا وعدہ نہیں ہے ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آخر کار فتح تمہاری ہو گی۔امام جوزی نے لکھا ہے :وآخِرُ الأمر لكم وإِن غَلَبوكم في بعض الأوقات’’ آخر ی فیصلہ تمہارے حق میں ہو گا اگرچہ بعض اوقات وہ تم پر غالب آ جائیں ‘‘ علامہ عثمانی رحمہ اللہ نےاسے یوں واضح کیا ہے:’’یقینا آخری فتح بھی تمہاری ہے، انجامِ کار تم ہی غالب ہو کر رہو گےبشرطیکہ ایمان و ایقان کے راستے پر مستقیم رہو‘‘۔( تفسیرِ عثمانی،سورۂ آلِ عمران، آیت ۱۳۹)

آیت کی غلط تعبیر

بعض حضرات نے اس آیت میں لفظ ﴿الْاَعْلَوْنَ﴾ کے متعدد مفاہیم سے صرف نظر کرتے ہوئے اس ایک ہی معنی مراد لیا ہے اور وہ غلبے و فتح والا مفہوم ہے۔ جب ﴿وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ﴾ کا معنیٰ محض سیاسی غلبہ لے لیا گیا تو اب یہ استدلال کیاگیا کہ ’’چونکہ مسلمان مغلوب ہیں، اس لیے ان میں ایمان نہیں ہےوہ حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔انہیں اپنے والدین سے موروثی عقائد مل گئے ہیں ، وہ ’بائے ایکسیڈنٹ آف برتھ‘ مسلمان ہو گئے ہیں لیکن حقیقی ایمان سے محروم ہیں‘‘۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پیدائشی مسلمان کا ایمان بھی سو فیصد معتبر ہے ۔دنیا میں موجود برے سے برا مسلمان چاہے وہ کتنا بھی بے عمل ہو،اگر وہ اللہ کو مانتا ہے، حضورِ اکرم ﷺپر ایمان رکھتا ہے، بنیادی دینی عقائد (یعنی ضروریاتِ دین) کی تصدیق کرتا ہے تو پھر اس کے ایمانِ حقیقی کی نفی کرنا جائز نہیں ہے ۔اس پر تو وہی سوال صادق آتا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کیا تھا﴿أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لاَ﴾ ’’ کیا تم نے اس کا دل چیز کے دیکھا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمہ دل سے کہا کہ نہیں ‘‘(متفق علیہ ) دوسری بات یہ ہے کہ ایک لفظ کے متعدد احتمالات میں سے اس کے ایک احتمال کو مراد ِ واحد کے طور پر قبول کر کے استدلال کی بنیاد کھڑی کرنا درست رویہ نہیں ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ امام بغوی ، امام قرطبی ، جمال الدین قاسمی ، علامہ آلوسی وغیرہم کی تصریحات کے مطابق یہاں إنْ کا حرف إذ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔امام بغوی﴿ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْن﴾ کی وضاحت میں لکھتے ہیں أَيْ: إِذْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں :قال أبو عبيدة. وقوم من النحاة: إِنْ بمعنى إذ وجعلوا من ذلك قوله تعالى: وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ’’ابو عبیدہ اور ماہرینِ نحو میں سے ایک قوم نے کہا کہ ان ، اذ کے معنوں میں آتا ہے اور اس کی مثال انھوں نے آیت مبارکہ ﴿وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ سے دی ہے۔علامہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :﴿اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْن﴾ أي إذ كنتم لأنه سبحانه لم يخبرهم بكونهم الأعلون إلّا بعد إيمانهم’’(إِنْ كُنْتُمْ)(إذ كنتم) کے معنی میں ہے اس لیے کہ اللہ نے انہیں الأعلون کی بشارت ان کے ایمان لانے کے بعد ہی تو دی تھی‘‘۔ حرف إنْ مشکوک الوقوع چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ اذ متحقق الوقوع امر کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہ ظرفیت کے معنی دیتا ہے ۔لفظ اذ کے معنی سے پتا چلتا ہے کہ مخاطبین کو ایمان حاصل ہے اور وہ ایمان کے لیے ظرف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مفہوم اس طرح واضح ہوتا ہے کہ’’ تم ہی اعلی رہو گے جبکہ تم ایمان والے ہو‘‘۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ایمان کی کسوٹی دنیا کا فتح و غلبہ نہیں ہے۔ اگر ایسا مان لیا جائے تو وقتی طور پر ہی سہی لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پوری جماعت کے ’’ایمان حقیقی ‘‘ پر حرف آتا ہے جبکہ جنگ احد کے زمانے میں ’بائی برتھ ‘ مسلمان تو ابھی پنگھوڑے میں تھے۔ اسی طرح وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو حالت مغلوبیت ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے یا وہ پیغمبر علیہم السلام اور ان کے ساتھی جو دنیاوی طور پر فتح یاب نہ ہو سکے تو ان کے ایمان کا کیا ہوگا ۔ اگر مغلوب ہونے کا لازمی نتیجہ ایمان حقیقی سے محرومی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ جنت سے بھی محرومی ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے: ﴿أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ الضُّعَفَاءُ الْمَغْلُوبُونَ﴾(مجمع الزوائد)’’کیا میں تمہیں اہل جنت کے بارے میں نہ بتا دوں؟ کمزور اور مغلوب لوگ‘‘۔

حاصل یہ کہ یہ آیت مسلمانوں کے لیے تسلی اور ا ن کی فضیلت کے اظہار ، اور جلد یا بدیر ، ان کے غلبے کی بشارت پر مشتمل ہے ۔ غیر ضروری طور پر اس کامفہوم مخالف نکال کر ، اس آیت کو رجز و توبیخ کے لیےاستعمال کرنا آیت کو اس کے محل سے ہٹانے کے برابر ہے ۔

لرننگ پورٹل