لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

جمعرات 19 جمادی الاول 1446 بہ مطابق 21 نومبر 2024

امتِ محمدﷺ کے فرقوں میں تقسیم ہو جانے کی خبر رسول پاک ﷺ نے دی تھی،چنانچہ آپ ﷺ کی دوسری اَخبار کی طرح تاریخ نے اس حقیقت کو بھی ثابت کیا۔لیکن حقیقت؛جس طرح خود میں کمی برداشت نہیں کرتی اسی طرح بیشی سے بھی اسے سخت بیر ہے اس لیے کہ کمی ہو یا بیشی دونوں کے گرداب میں پھنس کر حقیقت اپنی حقیقت کھو دیتی ہے۔ چنانچہ فرقہ بندی کی موجودگی بارے میں بعض ’’بہی خواہوں‘‘ کی طرف سے اتنا غلو کیا گیا کہ فرقہ بندی کی حقیقت کو فرقہ بندیوں کا افسانہ بنا دیا جس کے تحت اختلاف کو تفرقے کا نام دے دیا گیا ۔ اب اصلاح کا بیڑا بھی انہی لوگوں نے اٹھایا ۔ جب تفرقے کا تصور ہی غلط تھا تو اس کے تحت اصلاح کے لیے کی جانے والی کوششوں کا رخ از خود غلط ہو گیا، نتیجہ یہ کہ یہ اصلاحی کارگزاریاں مزید تفرقے کا ذریعہ بن گئیں۔

مولانا سید مناظر حسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ اپنے بیش قدررِسالے’’مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’مسلمانوں کی فرقہ بندیوں، نام نہاد فرقہ بندیوں کا ذکر کر کے کسی نئے فرقے کی بنیاد قائم کرنے کا کچھ دنوں سے عام دستور ہوگیا ہے ۔ ماتم کرنے والے پہلے امت ِمرحومہ کے اس خود تراشیدہ انتشار و تشتت کا مرثیہ پڑھتے ہیں اور اپنی ان ہی سینہ کوبیوں، نوحہ خوانیوں کے ہنگاموں میں ماتم سراؤں کا یہ گروہ شعوری یا غیر شعوری طور پر چاہتا ہے کہ محمد ﷺ کی امت سے پھاڑ کر کسی ٹولی یا ٹکڑی کو اپنے اوپر جمع کرلے‘‘۔

مسلمانوں کے اختلاف و تفرقے کا نوحہ بہت سارے لوگوں نے کیاہے۔ یہ کام کہیں تو خبث باطن سے ہوا کہ اپنی دال گلانے کے لیے ؛ مسلمانوں کے اختلافات کے قصے سنا سنا کر ؛ اپنی ذات شریف پر لوگوں کو متفق و متحد ہونے کی دعوت دی گئی، اور کہیں کہیں یہ کام خلوص سےبھی ہوا کہ دین ہی کے کسی کام پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے،انھیں اختلافِ امت کی بھیانک تصویر دکھا کر ڈرایا جاتا رہا ۔ ہم بہت مؤدب ہو کر ڈرتے ڈرتے کہنا ہی چاہتے ہیں کہ دین کا کام کرنے والے بہت سوں نے یہ کام دکھایا اور اس طرح وہ بچے کچھے اتحاد و اتفاق کا کام تمام کرنے کا ذریعہ بن گئے۔

یہ تو تھےدین کا کام کرنے والے جن کے خلوص پر ہمیں کوئی شبہہ نہیں، لیکن اب کچھ ایسے لوگ بھی میدان میں آ گئے جو دین و مذہب ہی کا کام تمام کرنا چاہتے ہیں: ’’کیا کرو گے اس دین کو جس میں تفرقہ ہی تفرقہ ہے ‘‘ یہ ان کا آپ کہہ لیں کہ نعرہ ہے۔عام طور پر مسلمانوں میں پائے جانے والے اختلافات کا’ ’ سہرا‘‘ مذہب و مسلک کے سر باندھا جاتا ہے۔ لیکن مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ ہمیں ایک دوسری تصویر دکھاتے ہیں کہ اس کی ابتدا سیاسی نظریات سے ہوئی، اور چونکہ ان سیاسی نظریوں کے حاملین ؛ مسلمان تھے، لہذا وہ اپنےنظریات کی دینی تعبیر کرنے پر بھی مجبور تھے، سو سیاسی اختلاف کے ساتھ ساتھ یہ لوگ مذہبی تفرقے کا ذریعہ بھی بنے ۔ ہم اولاً مولانا کی اس بحث کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

فرقہ بندیوں کی ابتدا

’’ فرقہ بندیوں کی ابتدا میں غلو کا عمل دخل ہے اور اس کی ابتدا مسئلہ سیاست سے ہوئی جب غالی لوگوں نے قرار دیا کہ دین کی روح سیاست و حکومت ہے اور دین و اسلام میں تعینِ امام سے اہم کوئی امر نہیں ہے۔تنظیمِ حکومت اور اداے امانت،ان ہی دو چیزوں کا نام اسلام ہے اور ان کے بعد کوئی شرعی تقاضا باقی نہیں رہتا۔ نماز روزے والے دین کو انھوں نے عامیانہ قرار دیا اور کہا کہ نماز روزے کا مطلب ان قوتوں کو بڑھانا ہے جو امام کے لیے ضروری ہیں ۔ اچھی حکومت کی طرف سے ملنے والی سہولیات و آسائشیں جنت ہیں اور بری حکومت کا ظلم ہی دوزخ ہے۔ اس غلو کے ردِ عمل میں وہ گروہ سامنے آیا جس نے’’لا یَجِبُ نَصْبُ الإمامِ أصلا‘‘ کا نعرہ لگا کر سرے سے ریاست و امامت کی ضرورت ہی کا انکار کر دیا ۔

امتِ وسط کےاہل سنت، اس افراط و تفریط کے ماحول میں بھی راہ اعتدال پر جادواں رہے، انھوں نے قیام ِ حکومت کو ایک عملی کاروبار قرار دیا جس کا عقائد سے کوئی تعلق نہیں، فقہی احکام کے ذیل میں اسے شمار کرنا چاہیے ۔ہاں قیامِ حدود اور اداےحقوق کے لیے قیام ِحکومت ضروری ہے، اس لیے اس کا تعلق مسلمانوں کے ان فرائض سے ہے جنھیں فرضِ کفایہ کہتے ہیں ۔

جہاں اہلسنت نے حکم و حکومت کو عقائد سے الگ کر کے عملیات یا فقہی احکام میں داخل کیا، وہیں دوسروں نے اسے عقیدے کا مسئلہ بنا دیا ۔سیاسی کشمکش ہی کے بطن سے خوارج نےجنم لیا ۔ تحکیم کے معاملے میں حضرت علی رضی سے خفا ہو کر، بقول شہرستانی انھوں نے کہا : لم حكمت الرجال؟ لا حكم إلا الله’’آپ نے بندوں کو حکَم کیوں بنا دیا، حکم تو صرف اللہ ہی کے لیے ہے‘‘۔ اس نعرے ہی سے ان کی ناسمجھی اور غلو نظر آتا ہے، لیکن بعد میں انھوں نے ’’ترقی‘‘ کی اور انہی کی ایک ترقی یافتہ شاخ، ارزاقیہ تھے جنھوں نےحق و باطل کی کشمکش میں بیٹھ رہنے والوں کو کافر قرار دیا چاہے وہ دین کے دوسرے معاملات میں ان کے ہمنوا بھی ہوں ۔البتہ جو مسلمان بادشاہوں کے مددگار تھے ان کے قتل کو انھوں نے مذہبی فریضہ قرار دیا۔ بہرحال یہ واضح ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف و تفرقے کی ابتدا سیاسی تھی، بعد میں کچھ مذہبی نظریات بھی ان گروہوں نے قائم کر لیے لیکن ان کی تعداد، اہل سنت کے مقابلے میں تھوڑی ہے ۔

 اس کے بعد مسلمانوں میں مذہبی نظریات کی بنیاد پر فرقے بندی شروع ہوتی ہے۔سب سے پہلے مسئلہ تقدیرکی بنیاد پر قدریہ وجود میں آئے، ان کا امام معبد الجہنی بصرے کا رہنے والا تھا لیکن اس نے یہ نظریہ سِنسَوَيْه ایرانی سے لیا جو مجوسی تھا،امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے اسلام کے بارے میں لکھا کہ اس نے اسلام کا دعوی کیاتھا گویا امام کے نزدیک اس کا اسلام میں داخلہ ہی سچا نہ تھا تو آپ دیکھ رہے ہیں یہ فتنہ باہر سے آیا ۔ ان کے مقابلے میں جھم بن صفوان نظریہ جبر کا قائل ہو کر کھڑا ہوا اور جبریہ کی بنیاد رکھی ۔ معلوم نہیں یہ عربی النسل تھا یا نہیں بہرحال ایک عرب خاندان کا موالی تھا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے نہ یہ صاحبِ علم تھا،نہ علماء کی کی صحبت اٹھائی تھی بلخ میں ایک چوکی کا داروغہ تھا ۔ بعض ہندوستانیوں نے اس علاقے کا سفر کیا تو ان سے متاثر ہوا ۔اس نے اللہ تعالی کو ہوا کی طرح کائنات میں جاری و ساری قرار دیا ۔ اس نے اللہ کی صفت کلام کا انکار کر کے قرآن کو مخلوق قرار دیا ۔ یہ فتنے بھی اسلام کا خانہ زاد نہ تھا باہر سے آیا لیکن اس کی پیش بھی نہیں گئی ۔

حسین بن منصور الحلاج، ایرانی النسل تھا جس کا دادا مجوسی تھا ۔ اس نے ہندوستان کا سفر بھی کیا اور بعض جوگیوں کی شاگردی اختیار کی، ہندوستانیوں سے اس کی خط و کتابت بھی رہا کرتی تھی۔ اس نے انا الحق کا نعرہ لگایا جس کے ڈانڈے ہندوستانی شنکر اچاریہ کے نظریے ’’ آتما اور پرماتما میں کوئی دوئی نہیں ہے ‘‘ سےملتے ہیں۔

علماء نے آٹھ بڑے فرقے اور ان میں سے ہر ایک کی کئی کئی شاخیں بیان کر کے فرقوں کی گنتی ستر سے اوپر پہنچائی ہے،ا ن میں سے ان چند فرقوں کا ذکر ہم نے بطور مثال کیا ۔ دکھانا یہ مقصود ہے یہ فتنے بیرون سے آئے، اندرون کو کچھ متاثر ضرور کیا لیکن آخر شکست کھا کر نابود ہوئے۔سب سے طاقتور فرقہ معتزلہ رہا کہ حکومت وقت کے اہلکار بھی ان سے متاثر ہوئے لیکن دوسرے فرقوں کے ساتھ انھیں بھی جانا پڑ ا ‘‘۔

فاتح فرقہ

لیکن امتیوں کی اس کثیر تعداد کے سامنے ایسی ٹولیوں اور ٹکڑیوں کی پیش نہ گئی اور ایسے فرقے گردشِ زمانہ کی نذر ہوگئے ۔ اب یہ ٹولیاں اور کہیں نہیں بلکہ تاریخ کے قبرستان یا الملل و النحل کے اوراق میں پائی جاتی ہیں ۔بہر حال محفوظ و مامون طریقہ ہر دور میں وہی رہا جس پر امت کا سوادِ اعظم گامزن رہا اور آج کے اس پر فتن دور میں صراطِ مستقیم پر رہنے کا واحد راستہ جمہور علماے امت کے ہاتھوں میں زمام تھما کر فرقہ بندی کے ماتم کناؤں سے علیحدہ ہوجانے میں نظر آتا ہے ۔فرقوں کے ان حملوں کا کامیابی سےدفاع کرنے والا گروہ، اہل سنت والجماعت ہے،بعض روایات میں اس کے لیے فرقۂ ناجیہ کا نام بھی آیا ہے او ر بعض روایات میں ان کی یہ نشانی بتائی گئی ہے:﴿مَا أَنَا عَليه وَأَصْحَابِي﴾ ’’جو اس طریق پر ہوں گے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں‘‘۔

افتراقِ امت اور فقہی مسالک

جب یہ دکھایا جا تا ہے کہ دیکھو مسلمانوں کا افتراق مذہب نے نہیں سیاست نے پیدا کیا تو لوگ ’’ دیکھیں ہم نے کہا نہیں تھا ‘‘ کے انداز میں فقہاء و علماء کے اختلاف کو سامنے لے آتے ہیں، تو ضروری ہے کہ اس پر بھی بات کی جائے:

فقہی مسالک کو فرقہ بندی سے جوڑنے والے حضرات دو قسم کے ہیں: ایک تو وہ جو صراحت کے ساتھ اہل سنت کے فقہی مسالک کو فرقے قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسری قسم بعض مخلص حضرات کی ہے جنھوں نے خود کو فرقہ واریت سے بچانے کے لیے اس کا اعلان کیا کہ ہم کوئی فرقہ نہیں ہیں اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے جب یہ کہا گیا کہ ہمارے ہاں معروف فرقے جو ہیں وہ یا تو فقہی مسالک کی بنیاد پر ہیں یا کچھ اعتقادی تو جیہات ہیں، بعض مسائل میں کچھ باریک اختلافات ہیں جن کی بنیاد پر فرقے وجود میں آئے ‘‘ پھر جب فرقوں کی مثالیں پیش کرنے کے لیے نام لیے گئے تو وہ بھی انہی مسالک و سلاسل تصوف کے تھے تو سامعین پر اثر یہ ہوا کہ فقہی اختلا ف کو جان بوجھ کر فرقہ قرار دینے کی ہرزہ سرائی کو ماننا لوگوں کے لیے آسان ہو گیا تو شعوری یا لاشعوری طور پر انہی مسالک کو فرقہ سمجھنے لگے۔

اختلاف سنتِ الہی اور اتحاد حکمِ الہی

یہ سمجھنا چاہیے کہ کائنات کی رنگارنگیاں اختلاف ہی سے قائم ہیں گویا انسان کی زبان و رنگ، فہم و حفظ کی صلاحیتوں، جسمانی و روحانی طاقتوں، مزاج اور ذوق سمیت متعدد ایسے قدرتی فرق و تفاوت ہیں جو انسانوں میں پائے جاتے ہیں ۔یہی قدرتی اختلاف،انسان کی سوچ، نظریے، اخلاق حتی کہ دین ومذہب میں اختلاف کا باعث بنتے ہیں۔

 کہا جا سکتا ہے کہ اختلاف، اللہ تعالیٰ کی ایک کائناتی اور آفاقی سنت ہے لیکن اتفاق کو قائم رکھنا اور افتراق سے بچنا یہ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم شرعی ہے، یہ ایک طرح کی آزمائش ہے۔ البتہ چونکہ انسان اپنی خلقت کی بنا پر اختلاف پر مجبور ہے اس لیے ہر طرح کے اختلاف سےاس کو روکا جاتا تو یہ انسان کے لیے تکلیف مالایطاق ہوتی ۔ اس لیے دین نے اختلاف کے بعض دروازے تو ہمیشہ کے لیے بند کیے اور انھیں توڑنے والوں کو سخت سزا سنائی گئی جبکہ بعض اختلاف کے دروازوں کو کھلا رکھا گیا ہے۔اس کی مثال یوں ہے کہ انسان میں قدرتی طور پر شہوت کا جذبہ رکھا گیا ہے ۔اسے پورا کرنےکے بعض راستوں پہ پابندی لگائی اور نکاح کے طریقے سے انقضاے شہوت کو جائز رکھاگیا ۔

اختلاف کی رخصت

اختلاف کرنے کی اجازت یا رخصت، دوسری اجازتوں کی طرح الفاظ و اقوال میں وارد نہیں ہوئی ۔اس لیے کہ اس باب میں اصل اتفاق ہے اور اختلاف ایک رخصت و مجبوری، اور دوسرے یہ کہ چونکہ انسان جبلی طور پر انفرادیت کو پسند کرتا ہے،اگر اسے لفظوں میں بتا دیا جاتا کہ اختلاف کر لیا کرو تو شاید وہ اعتدال پر قائم نہ رہ سکتا ۔ چنانچہ اختلاف کی رخصت دوسرے انداز میں دی گئی،مثلا رسول اللہ ﷺ نےواضح طور پر مسلمان اہل علم کو اجتہاد کی اجازت دی ہے۔ جہاں اجتہاد ہو گا وہاں اختلاف کا پیدا ہونا بعید نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اجتہاد میں رائے صواب اختیار کرنے والے کو دگنا اجر جبکہ اجتہادی خطا پر اکہرے اجر کی نوید سنائی ۔ گویا رسول اللہ ﷺ اس امکان کو تسلیم کر رہے ہیں کہ اجتہاد کے نتیجے میں اختلاف کا ہو جانا امر بعید نہیں ہے۔اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعض اجتہادی اختلافات جب رسول اللہﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو آپ ﷺ نے رجز و توبیخ سے کام نہیں لیا، تو یہ بھی گویا آپﷺ کی طرف سے ان کو اجازت دی گئی کہ اجتہادی مقامات پر اگر اختلاف ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔غزوہ بنو قریظہ کے دوران رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ نماز عصر بنو قریظہ کی بستی میں جا کر پڑھنی ہے ۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ عصر کا وقت آ گیا۔  بعض لوگوں نے وہیں نماز ادا کی جبکہ بعض لوگوں نے کہا کہ ہم حضور ﷺ کے حکم کے مطابق بنو قریظہ کی بستی میں نماز ادا کریں گے ۔ جب یہ رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا تو :﴿فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ﴾’’آپ ﷺ نے کسی پر ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا ‘‘۔(صحیح بخاری )

ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکم رسول ﷺ واضح تھا لیکن اس کی تفہیم و تطبیق میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اختلاف ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس اختلاف کو گویا برداشت کیا اور کسی گروہ پر سختی نہیں فرمائی ۔ بعض دفعہ آپﷺ اختلاف کی صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو راجح قرار دیتے، تب اختلاف رفع ہو جاتا، بعض دفعہ آپﷺ نے کسی ایک جانب کو متعین نہیں فرمایا تو یہ اس کی طرف گویا اشارہ تھا کہ دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اختلافات، دور نبوت کے بعد ظاہر ہوئے تو چونکہ نبی ﷺ موجود نہ تھے جو وحی کی روشنی میں ایک جانب کو متعین فرما دیتے تو اس وجہ سے اختلاف باقی رہا ۔

 صحابہ کرام کے اختلافات کی نوعیت مختلف ہوا کرتی تھی ۔بعض دفعہ کوئی کسی حدیث سے واقف ہی نہ ہوتا تھا، بعض دفعہ حدیث یا حکم سے دونوں واقف تھے لیکن ایک کے نزدیک وہ روایت منسوخ ہوئی،بعض دفعہ دونوں حکم سے واقف ہوتے لیکن دونوں کے نزدیک اس حکم کا محل مختلف ہوتا، ایسی تمام مثالیں فقہ الخلاف کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں، مثلا رفع الملام عن أئمة الانام، الإنصاف في بیان سبب الاختلاف وغیرہ میں موجود ہیں۔ ہم اسی ایک مثال پراکتفا کرتے ہیں۔

فقہی اختلاف کی تعریف

فقہی مسالک، فقہی اختلاف پر مبنی ہیں۔ محض اس ترکیب، اختلاف الفقہی کو سمجھنے ہی سے واضح ہو سکتا ہے کہ فقہی مسالک، فرقے اور فرقہ بندی نہیں ہے۔ اصطلاح میں فقہ ’’ شریعت کے ان عملی اور فروعی احکام کو کہتے ہیں جو دلائل شرعیہ سے بطرز اجتہاد حاصل کیے جائیں ‘‘ تو اب اختلاف فقہی کا مطلب ہو گا ’’ دلائل شرعیہ یعنی قرآن و سنت اور قیاس و اجماع میں سے، شریعت کے عملی اور فرعی احکام کے استنباط و اجتہاد میں فقہاے کرام کا اختلاف !اب جبکہ یہ اختلاف فروعات میں ہو رہا ہے نہ کہ اصولیات میں، اور یہ اختلاف اجتہاد یعنی فہم نصوص میں ہو رہا ہے نہ کہ نصوص میں تو اب تفرقہ کہا ں رہا !!

دین کے بعض اصول ہیں اور بعض اس کی فروع ہیں ۔ دلائل قطعی سےثابت ہونے والے عقائد اور احکام اصول میں شامل ہیں اور ان میں اختلاف کرنا جائز نہیں ہے ۔مثال کے طور پر نماز پڑھنے کا حکم، دلائل قطعیہ سےثابت ایک اہم اصولی حکم ہے،اس کے مقابلے میں نماز کا طریقہ ایک فرع ہے۔ اس طریقے کی بعض چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ان فروعات میں اختلاف کی رخصت دی گئی ہے،اختلاف اگر اصول میں ہو تو اس اصولی اختلاف کی بنیاد پر فرقہ وجود میں آتا ہے اور اگر اختلاف فروع میں ہو تو اس فروعی اختلاف سے مسلک فقہ وجود میں آتا ہے۔

 آدابِ اختلاف

جس طرح نکاح کا ایک خاص طریقہ اور اس کےقوانین مقر ر ہیں۔ نکاح کرانے والےکی صلاحیت و اہلیت کیا ہے۔ نکاح کرنے والے دولہا اور نکاح میں آنے والی دلہن کی صلاحیت و اہلیت کیا ہے اور نکاح کے نتیجے میں ہر ایک پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں،یہ سب چیزیں روایتی معاشروں میں دین و مذہب نےطےکی ہوتی تھیں اور جدید معاشروں میں ریاست یہ سب طے کرتی ہے۔اسی طرح جن دائروں میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے ان دائروں میں اختلاف کے آداب بھی سکھلائےگئے ہیں، کہاں اور کتنے اختلاف کی اجازت ہے؟ اختلاف کا اہل کون ہے؟ اختلاف کے وقت کس کو رائے دینے کا حق حاصل ہے اور کس کی رائے کومعتبر سمجھا جائے گا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے جو اس وقت زیر بحث نہیں ۔ ادھر اشارہ کرنا مطلوب ہے کہ جس جگہ اختلاف کی گنجائش ہے وہاں بھی اختلاف کے اہل لوگوں ہی کو اختلاف کرنے کی اجازت ہے ۔

فقہی اختلافات اور صحابہ کرام

 جیسا عرض کیا گیا کہ فقہی اختلافات دورِ نبویﷺ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی موجود تھے، اگر فقہی اختلاف کو تفرقے کانام دیا جائے تو معاذ اللہ یہ الزام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی مقدس ہستیوں کی طرف بھی منسوب ہوگا، سیدناابنِ عمررضی اللہ عنہ، سیدناابن مسعودرضی اللہ عنہ،ام المومنین سیدہ  عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین مختلف مسائل میں اختلاف پایا جاتا تھا ۔ جو اختلاف رسول اللہ ﷺ کے فیصلے یا اجماعِ صحابہ کے نتیجے میں رفع ہو گئے وہ تو ختم ہو گئے لیکن جو اختلاف باقی رہے وہ ان کے شاگردوں کے ذریعے سے آگے پہنچے اور ائمہ کرام کے اختلاف کی بنیاد بنے۔

دو اہم مثالیں

ہم نے عرض کیا کہ فقہاےکرام کے اکثر اختلافات کا منبع اختلافِ صحابہ ہی تھا ۔ ہم اس کی دو مثالیں پیش کرتے ہیں:استنجا اور رفعِ حاجت کے وقت قبلے کی طرف منھ یا پیٹھ کر نے کی ممانعت ایک مشہور امر ہے ۔ البتہ اس بارےمیں فقہاء  کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے ۔امام سفیان ثوری، امام ابراہیم نخعی اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ استقبال و استدبارِ قبلہ ہر صورت میں ممنوع ہے چاہے رفع حاجت صحرا و میدان میں ہو چاہے کسی عمارت یعنی بیت الخلا وغیرہ میں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے یہ رائے سیدناعبد اللہ بن مسعود اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہما کی ہے۔

امام شافعی اور امام مالک علیہما الرحمہ کا مذہب یہ ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ رفع حاجت کھلی فضا یا صحرا میں کی جائے، لیکن بیت الخلا وغیرہ میں اس کی ممانعت نہیں ہے ۔ صحابہ میں سے یہ مذہب سیدناعبد اللہ ابن عباس اور سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فقہا کا اختلاف اختلاف صحابہ پر مبنی ہے۔اس اختلاف کی بنیاد نبی کریم ﷺ کے قول و فعل پر ہے مثلا آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :﴿لاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بِبَوْلٍ وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا﴾(ترمذی، نسائی)’’ قضاے حاجت کے وقت نہ قبلے کی  طرف رخ  کرو اور نہ پیٹھ‘‘۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:﴿رَأَيْتُ النَّبِىَّﷺ عَلَى حَاجَتِهِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ مُسْتَدْبِرَ الْكَعْبَةِ﴾( سنن ترمذی)’’میں نے دیکھا کہ قضاے حاجت کے دوران آپﷺ کا چہرہ شام کی طرف تھا اور پشت قبلے کی طرف‘‘۔سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :﴿نَهَى النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ فَرَأَيْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُهَا﴾ (أبو داؤد) ’’نبی اکرمﷺ نے ہمیں قضاے حاجت کے دوران قبلہ رخ ہونے سے منع فرمایا تھا،لیکن آپﷺ کے وصال سے ایک سال قبل میں آپﷺ کو( قضاے حاجت کے وقت)قبلہ رخ دیکھا‘‘( یہ بحث حجۃ اللہ البالغہ اور نیل الاوطار سے لی گئی )۔

رفع یدین کا فقہی اختلاف بہت معروف ہے۔ حنفیہ اور مالکیہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کے قائل نہیں ہیں جبکہ حنابلہ اور شافعیہ رکوع کے وقت بھی رفع یدین کے قائل ہیں ۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ بھی اسی موقف کے حامی تھے ۔ان کی ملاقات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ہوئی تو پوچھا کہ یہ اہل عراق کا کیا معاملہ ہے رکوع میں جاتے اور واپس آتے وقت رفع یدین  نہیں کرتے جبکہ مجھ سے زہری نے،اور انھوں نے سالم جبکہ سالم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: مجھ سے حماد نے، اور ان سے ابراہیم اور انھوں نے علقمہ سے اور انھوں نے عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سےروایت کیا: ﴿كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ تَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ ثُمَّ لَا يَعُودُ﴾(العناية شرح الهداية)’’آپ ﷺ تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے اور پھر دوبارہ ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے‘‘۔

مذاہب کی تشکیل

ہم یہ دیکھ چکے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں فقہی اختلافات پائے جاتے تھے۔ صحابہ کرام مختلف مہمات میں جب دوسرے شہروں میں منتقل ہوئے تو جہاں گئے تو وہاں کےشاگردوں نے آپ سے علم سیکھا تو قدرتی طور پر جو ان کی فقہی آر ا و ترجیحات تھیں وہی آگے منتقل ہوئیں۔ جب ایک شہر میں ایک صحابی اور ان کےشاگردوں کی آرا پھیل گئیں تو وہاں کےعوام ان کی پیروی کرنے لگے ۔ جب کسی کورہنمائی کی ضرورت پڑتی، وہ اپنےاہل علم سے رجوع کرتا اور وہ اہل علم اپنے اساتذہ کی روشنی میں ان کی رہنمائی فرماتے ، اس طرح مختلف علاقوں میں مسلک بنتےچلے گئے۔حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نےاس موضوع پر تفصیل سے لکھاہے ۔ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:’’جب کسی مسئلے میں صحابہ کرام اور تابعین کے مذاہب مختلف ہوتے تو ہر عالم اپنے علاقے اور اپنے شیوخ کے اقوال کو اختیار کرتا، اس لیے وہ ان کے اقوال کی صحت و سقم اور ان سے مناسبت رکھنے والے اصولوں کو زیادہ یاد رکھنے اور سمجھنے والا ہوتا اور اس لیے بھی کہ اس کا دل اپنے ان شیوخ کے فضل و بِر اور تبحر علمی کی طرف میلان رکھنے والا ہوتا تھا‘‘۔ (حجۃ اللہ البالغہ مع رحمۃ اللہ الواسعہ، جلد دوم ص:۶۰۵ )

فقہی اختلاف باعث رحمت

ایک روایت نبی اکرمﷺ کی طرف یوں منسوب کی جاتی ہے:﴿اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ﴾’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘۔ مختلف حفاظ حدیث نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا کہ نبی اکرمﷺ کے قول کے طور پر یہ جملہ ثابت نہیں ہے ۔علامہ عراقی رحمہ اللہ نے تخریج احادیث اِحیاء علوم الدین میں کہا کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ فقیہِ مدینہ قاسم بن محمد بن ابی بکر  رحمہ اللہ کا قول ہے:اختلاف أمة محمد ﷺ رحمة’’امت محمدیہ کا اختلاف رحمت ہے‘‘۔ عام طور پر محدثین و فقہاء نے اس قول کو معنا ًصحیح قرار دے کر قبول کیا ہےاور اختلافِ امت سے انھوں نے فقہاےامت کے فروعی اجتہادی اختلاف مراد لیے ہیں اور ان اختلافات کو امت کے لیے مفید قرار دیا ہے ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے المدخل الی سنن الکبری میں ضعیف سند سے ایک حدیث مرفوع نقل کی ہے: ﴿اخْتِلَافُ أَصْحَابِي لَكُمْ رَحْمَةٌ﴾ ’’میرے صحابہ کا اختلاف تمھارے لیے رحمت ہے‘‘۔چونکہ اختلافِ فقہاء کی بنیاد اختلافِ صحابہ پر ہی ہے اس لیے مندرجہ بالا توجیہ کے مطابق، اس قول کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ یہی بات خلیفہ عدل عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمائی ہے:’’مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ صحابہ کرام باہم اختلاف نہ کرتے، کیونکہ اگر مسائل ِدینیہ میں ایک ہی رائے ہوتی تو لوگ دشواری میں مبتلا ہو جاتے،جب کہ وہ قابلِ اتباع رہنما ہیں اور ان میں سے جس کی رائے کو کوئی شخص اختیار کرے وہ سنت پر عمل کرنے والا ہے‘‘۔(کتاب الاعتصام للشاطبی)

مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے اسی اجتہادی اختلاف کے بارے میں شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ جن امور میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال مختلف رہے ہیں، اللہ نے اختلافِ اجتہادی کی صورت میں ایک ایسا عمل شروع کرا دیا کہ جس کے نتیجے میں محبوب خدا ﷺ کی ہر ادا، اور ہر طریقہ محفوظ ہو گیا ۔

فقہی اختلاف اور اسلاف کا رویہ

فقہی اختلافات کی نوعیت کیا ہے؟ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی عبارات ملاحظہ فرمائیے:’’ائمہ کا یہ اختلاف اندھے تعصب کی وجہ سے نہیں تھا، لہذا باوجود اس اختلاف وه ایک دوسرے کےپیچھے نمازپڑھتے تھے جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اوران کے تلامذہ،اورامام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ مدینہ کے مالكی مذہب کے ائمہ کے پیچھے نماز پڑهتے تھے، اگرچہ وه نماز میں بسم الله سراً اور جہراً نہیں پڑھتے۔ اور ہارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑھائی اور امام ابو يوسف حنفی رحمہ اللہ نے ان کی امامت میں نماز پڑھی اورنماز کا اعاده نہیں کیا ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضو کے قائل تھے، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضونہیں کیا توآپ اس کے پیچھے نمازپڑھتے ہیں ؟ توفرمایا: کیوں نہیں! میں امام مالك رحمہ اللہ وسعيد بن المسيب رحمہ اللہ کےپیچھے نمازپڑھتا ہوں، اور روایت میں آیا ہے کہ امام الشافعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑھا،اورامام الشافعی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ کئی دفعہ ہم اہلِ عراق کے مذہب کو بھی لیتے ہیں ‘‘۔(حجة الله البالغة، باب حكاية حال الناس قبل المائة الرابعة وبعدها، فصل في مسائل ضلت فيها الأفهام)

مولانامناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’خود ان بزرگوں کے آپس کے تعلقات مثالی تھے۔امام شافعی، امام مالک کے شاگرد رشید تھے اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد کے بھی شاگرد تھے۔امام احمد بن حنبل اپنے استاد امام شافعی علیہم الرحمہ کی رکاب تھام کر بازاروں میں گھوما کرتے تھے۔ ان کو چھوڑیں ان کے متبعین کا بھی یہی حال تھا ۔ ایک حنفی بھی حضرت شافعی رحمہ اللہ کا نام، امام کے لقب کے ساتھ لینا پسند کرتا ہے اور دوسروں کو بھی یہی حال تھا‘‘۔

یہ رِیت اسلامی تاریخ میں عام رہی ہےکہ ایک حنفی کا استاد شافعی ہوا تو اس شافعی کا استاد کوئی مالکی یا حنبلی رہا ۔ تصوف و تزکیہ کی بات کریں تو عبد القادر جیلانی حنبلی مسلک ہیں لیکن ان کے پیروکاروں اور نام لیواؤں کی اکثریت حنفی ہے ۔ امام غزالی الشافعی کے عقیدت مند آپ کو دوسرے مسالک میں بھی زیادہ ہی ملیں گے۔جلال الدین رومی اور مجدد الف ثانی کے حنفی ہونے کے باوجود دوسرے مسالک میں ان کے نام لیوا کم نہیں ہیں۔

کیا اہلسنت میں کبھی افتراق نہیں ہوا؟

جب ہم نے یہ طے کیا کہ اہل سنت فرقہ ٔناجیہ ہے اور یہ کہ اختلاف الگ شے ہے اور افتراق ایک دیگر چیز ہے اور یہ کہ اہل سنت کے مختلف گروہوں میں اختلاف تو پایا جاتا ہے لیکن افتراق ان میں نہیں پایا جاتا،تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اہل سنت میں کبھی افتراق پیدا نہیں ہوا؟تو اس سوال کا جواب،بدقسمتی سے ہاں میں ہے کہ اہلسنت میں بھی کبھی کبھی یہ بیماری زور پکڑتی رہی ہے۔ لیکن سوال یہ کہ ہے کہ افتراق کون سا؟

 جس طرح نفاق دو ہیں ایک عملی اور ایک نظریاتی یا اعتقادی اور جس طرح کفر دو ہیں، امام بخاری کے الفاظ میں کہیں تو كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ یعنی کفر عملی اور کفر اعتقادی،اسی طرح ہم بغرض تفہیم عرض کرتے ہیں کہ تفرقہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے ایک نظریاتی اور ایک عملی۔ بعض اوقات ایک گروہ، اصولی و نظری اور علمی طور پر اہل سنت کے منہج پر ہوتا ہےاور دوسرے گروہ ِاہل سنت کو بھی وہ برحق تسلیم کرتا ہے اور انھیں اہل سنت سے خارج یا ضال و مضل قرار نہیں دیتا ہے لیکن مناسب تربیت نہ ہونے اور آداب الخلاف سے ناواقفی اور بعض دوسرے نفسیاتی اور اخلاقی مسائل کی وجہ سے، دوسرے مسلک کے لوگوں کے ساتھ وہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو فرقوں کے ساتھ رکھناروا ہے۔

تاریخ میں ایسے ادوار یقیناً گزرے ہیں کہ اہل سنت کے بعض گروہوں نے آپس چپقلش اختیار کی لیکن اس میں کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ لوگوں کا حصہ زیادہ تھا۔لیکن سوچیے اگر عمومی رجحان یہ ہوتا تو جن علاقوں میں سرکاری طور پر فقہ حنفی رائج تھی یا فقہ مالکی رائج تھی تو کیا وہاں دوسرے کسی مسلک کا وجود باقی رہ جاتا؟

علامہ مقدسی رحمہ اللہ کے حوالے سے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’خراسان میں حنفیوں اور شافعیوں کی چپقلش رہتی ہے، بعض دفعہ خونریزی کا خدشہ ہوتا ہےتو حکومت کو دخل اندازی کی ضرورت پڑتی ہے‘‘۔ بعض شہروں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’یہاں کے قصابوں اور درزیوں میں جھگڑے رہتے ہیں اور وہ سنی شیعہ بن کر لڑتے ہیں‘‘۔یمامہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’وہاں قصابوں اور بدوؤں کی مذہبی لڑائیاں لگی رہتی ہیں‘‘۔اسی طرح رے میں بھی مذہبی لڑائیوں کے دلخراش واقعات انھوں نے نقل کیے ہیں ۔ مولانا کا تجزیہ یہ ہے کہ            آپ دیکھ رہے ہیں کہ قصابوں، درزیوں، بدوؤں یا اسی قسم کے بیچارے عامیوں اور ناواقفوں کو بے وقوف بنا کر اپنا کام نکالنے والے اس زمانے میں بھی اپنا کام نکالتے رہے ہیں اور آج بھی اس راہ میں کامیابی کے لیے عوام کے انہی طبقات کو تاکا جاتا ہے، ورنہ جہاں کے مسلمان پڑھے لکھے، صاحب فہم و بصیرت تھے انہی مورخین کے بیان سے معلوم ہوتا تھا کہ حریفوں کی وہاں نہیں چلتی تھی ۔ مقدسی کی کتاب میں اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں ۔ مثلا قیروان، جواس زمانے میں لاکھوں کی آبادی والا شہر تھا کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس شہر میں حنفی اور مالکی بھی ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی کش مکش نہیں ہے اور سب مل جل کر محبت و الفت کی زندگی بسر کرتے ہیں‘‘۔اسی طرح بلخ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ہے:’’ا س شہر کو دیکھا کہ مذہبی جھگڑوں سے پاک ہے البتہ غیر مذہبی جھگڑوں کا وہاں پر زور ہے‘‘۔

اس بیان سے مولانا کی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ دنگے فساد اور تفرقےکا کوئی تعلق دین و مذہب یا مسلک سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک نفسیاتی عارضہ اور اخلاقی زوال ہے جو بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے یہ لوگ مذہب میں ہوں گے تو وہاں بھی تفرقہ کریں گے اور گھریلو یا خاندانی زندگی میں بھی ایسا ہی طرز عمل اختیار کریں گے ۔

 ضروری یہ ہے کہ مسلک کو فرقہ سمجھنے سے اجتناب کے ساتھ ساتھ، مسلکی اختلاف کے آداب سیکھے جائیں، اپنے مسلک کی معتدل مزاج، علمی شخصیات سے رابطہ میں رہا جائے اور دوسرے مسلک کے عوام کےساتھ محبت اور ان کے علماء کے ساتھ عقیدت کا رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی جائے۔

سنن ابن ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی، بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)‘‘ ۔ اللہ ہمیں شذوذ، اتباعِ شہوات اور گمراہیوں سے بچائے۔ آمین

لرننگ پورٹل