زینت و شہوت
إِنَّ مِمَّا أَخْشَى عَلَيْكُمْ شَهَوَاتِ الْغَيِّ فِي بُطُونِكُمْ وَفُرُوجِكُمْ وَمُضِلَّاتِ الْهَوَى﴾ (مسند احمد) ’’میں تمھارے بارے میں اندیشہ رکھتا ہوں، بطن و فرج کی سرکش شہوات اور گمراہ کن خواہشات کا‘‘۔اب انسان سےتقاضا یہ ہے کہ ان جبلتوں کو اپنی عقل و فطرت اور شریعت کے تابع رکھے تاکہ ان جبلتوں کا حیوان پنا، ہماری فطرت، ہمارے قلب اور ہمارے روحانی وجود کو کہیں مغلوب نہ کر دے۔
دورِ فتن کا مطلب
قربتِ عالمی
Communication gap (مواصلاتی فاصلہ) خاصا کم ہو گیا ہے۔ انسانوں کی شہوتوں کو بھڑکانے والی جو چیزیں مغرب والوں نے اپنے لیے میسر کی ہیں، ان کے اخبار و آثار گویا اہلِ اسلام کو،اہلِ شرق کو بھی بغیر کسی زمانی و مکانی فصل کے میسر ہیں۔
Human Character (انسانی کردار) وجود میں آیا ہے، یہ کردار اصل میں تو مغرب میں پیدا ہوا ہے لیکن مواصلاتی فاصلے کے سمٹنے سے اس کردار کے اثرات ہم پر بھی ہیں۔ یہ جو خاص طرح کا انسان یا کردار ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے مغربی ہے لیکن اب نہ غربی رہا نہ شرقی بلکہ عالمی بن چکا ہے۔ تو اس عالمی کردار میں جو چیزیں مشترک ہیں ان میں سر فہرست سرکش انفرادیت ہے اور دوسری بے لگام لذت!
انفرادیت قدیم و جدید میں
بنیادی طور پر انسان اللہ تعالیٰ کی ایک منفرد مخلوق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر بہت ورائٹی رکھی ہے۔ انسان کا اپنے بارے میں یہ احساس کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے خَلق کیا ہے ہمیشہ سے ہے۔ تو اپنے Unique Being (تخلیقِ منفرد) ہونے کااحساس اور تصورِ انفرادیت قدیم سے رہا ہے لیکن وہ قدیم تصور انفرادیت کچھ اور تھا اور دور جدید کی انفرادیت کچھ اور ہے۔
Grow کیا جاتا تھا، انسان کو Develop کیا جاتا تھا۔ لیکن اس انفرادیت اور امتیاز کا مدار ذات باری تعالیٰ تھی۔ وہ لوگ سمجھتے تھے ہم میں اپنی خصوصیت برقرار رکھنے کا جذبہ ہے تو ٹھیک ہے ہم خاص بنیں گے لیکن ﴿أَهْلُ الْقُرْآنِ هُمْ أَهْلُ اللهِ وَخَاصَّتُهُ﴾ (مسند احمد) ’’قرآن والے ہی اہل اللہ اور اس کے خواص ہیں‘‘کے مصداق بن کر، اور اگر ہم میں مقرب بننے کا شوق ہے تو ہم تقرب الی اللہ میں ﴿أَيُّهُمْ أَقْرَبُ﴾ (الإسراء: 57) کا سماں باندھ کر﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق: 19) کےمصداق عبادت میں لگیں گے اور اگر ہم میں آسائش پسندی اور اس کے لیے سبقت بازی کا جذبہ ہے تو﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾ (المطففين: 26)کے مصداق ہم جنت کی نعمتیں پانےکی سعی کریں گے۔
رب کی رضاپانے کا یہ جو طرز عمل ہے اس کے لیے ہمارے صوفیا کے ہاں دو طرح کے الفاظ استعمال ہوتے تھے: ایک سُلوک کا اور ایک سَیر کا، سلوک یہ تھا کہ زندگی ایک سفر ہے اور ایک راستہ ہے، یہ دنیا منزل نہیں ہے، یہ کوئی ہمیشہ کا پڑاؤ نہیں ہے،قرآن مجید کی ابتدا ہی میں اس بات کو واضح کردیا گیا اور ہر نماز میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مشروع کردیا کہ ہم یہ دعا کیا کریں کہ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ (الفاتحہ: 6) ”کہ اے اللہ! تو ہمیں سیدھی راہ دکھا“۔ تو سلوک کے تصور کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس راستے سے دل نہیں لگانا بلکہ اسے روندتے ہوئے، آگے بڑھنا ہے اور اس طرح بڑھنا ہے کہ اللہ کی طرف چلنے میں ہماری طبیعت میں کسل نہ ہو، طبیعت میں پژمُردگی نہ ہو، بلکہ نَشاط،لگن اور جذبے کے ساتھ ہم اللہ کی طرف بڑھتے رہیں۔ دوسرا جو لفظ ہے وہ ”سیر إلی الله“ کا تھا۔اللہ کی طرف پرواز کرنا اور تصور یہ تھا کہ انسان کو اللہ کی طرف لپکنا ہے، اللہ کی طرف پرواز کرنی ہے، تو ان چیزوں کے اندر بھی (Ambitions ) اُمنگ و آرزو کا عنصر تھا کہ ہمیں اللہ کے راستوں پر چلنا ہے اوردوسروں سےآگے نکلنا ہے﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ (البقرة: 148) ”ہمیں خیرات کے کاموں میں،بھلائی کے کاموں میں آگے نکلنا ہے“اور ہمیں اللہ کی طرف پرواز کرنی ہے، تو اس تصور میں اگرچہ دوسری چیزیں بھی ہیں آخرت بھی ہے جنت بھی ہے اس کی نعمتیں بھی ہیں۔پھر اس میں ایک اپنی انفرادیت اور امتیاز بھی ہے کہ میں نے آگے چلنا ہے آگے بڑھنا ہے اور اونچا رتبہ پانا ہے لیکن ان تمام باتوں کا تعلق بہرحال ذات باری تعالی سے ہے۔ ان تمام باتوں میں سے کوئی بات بھی بذاتہ مقصود نہیں ہے بلکہ جنت کواس لیے پانا ہے کہ وہ رب کی رضا کا مقام ہے اور سب سے آگے اس لیے بڑھنا ہے کہ اپنے رب کے زیادہ نزدیک پہنچنے کا شوق ہے۔ تو انفرادیت کا یہ جو تصور ہے وہ خدا مرکز ہے۔
جدید انسان کے ہاں اب جو انفرادیت ہے وہ کسی بڑے مقصد کے تابع نہیں ہے۔ وہ خدا بنیاد نہیں ہے۔وہ اپنی عظمت اور اپنی بڑائی میں اضافہ تو کرنا چاہتا ہے، اپنے آپ کو آگے لے جانا اور خود کو سب سے ممتاز ثابت کرنا تو چاہتا ہے لیکن خدا کی بندگی میں نہیں بلکہ انہی شہوات کی تسکین میں جن کا ذکر پہلے ہو چکا۔ یا پھر اپنے بھائی بندوں پر اپنی فضیلت جتانے کے لیے اور یہ احساسِ تَفَوُّق بھی شہوات کی ایک قسم ہے۔جدید انسان میں انفرادیت کی کا یہ جو وصف پیدا ہوا ہے یہ چونکہ خدا بنیاد نہیں ہے اس لیے سرکشی پر مبنی ہے۔ عہد جدید کا انسان ہر حال میں اپنی انفرادیت برقرار رکھنا چاہتا ہے، چاہے یہ انفرادیت ارتکاب حرام و منکر کے ذریعے ہو یا ترک فرض و معروف کےذریعے۔کوئی ضابطہ چاہے اخلاقی و قانونی ہو یا سماجی و دینی اس کی دھجیاں بکھیرنے سے اگر انفرادیت کو سہارا ملتا ہے تو عہد جدید کے انسان کو اس سےکوئی باک نہیں، یہ ہے وہ صورتحال جس کی وجہ سے ہم کہہ رہے ہیں جدید انسان کا شوق انفرادیت سرکشی اور بغاوت پر مبنی ہے۔
لذت پسندی سے لذت پرستی تک
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ﴾ (الحديد: 20) ’’یاد رکھو ! دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، زیب وزینت ہے اور آپس میں فخر کرنا ہے اور مال اور اولاد میں کثرت کو طلب کرنا ہے‘‘۔
Grow کرگیا ہے۔اس کا دورانیہ بہت لمبا ہوگیا ہے اور بہت پکی عمر تک جاکر بھی انسان کے اندر یہ جو لذت کی طلب ہے وہ جیسے کم نہیں ہورہی بلکہ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ ہے جدید انسان کی ایک دوسری ’’خصوصیت‘‘ !
نرگسیت
دور جدید کی ایک اور برائی جو وبا کی طرح مغرب میں پھیل چکی ہے اور اس کا اثر ہمارے اوپر بھی آرہا ہےوہ Narcissism ہے جس کو نرگسیت بھی کہتے ہیں کہ انسان خود کو ہی اپنا محبوب بنا لے اور ہر آن اپنی محبت میں مبتلا رہے، ہر وقت اپنے آپ کو دیکھتا رہے اور اپنے بارے میں جیسے بہت اونچا گمان قائم کر لے۔ تو پرانے لوگوں کا ایسا معاملہ نہیں تھا۔وہ اصحاب الفضائل تو ہوتے تھے لیکن ان کا اپنے بارے میں جو تصور (Self-Image ) ہوتا تھا وہ ہمیشہ ان کےاصل کردار (Actual Self ) سے کہیں کم ہوتا تھا۔یعنی حقیقت میں جتنے بھی اور جیسے بھی ہوتے تھے، ہمیشہ اس سے بہت کم اپنے آپ کو دیکھتے تھے۔ اس کو ہمارے ہاں ( Under Estimate ) کرنا کہا جاتا ہے، تو وہ جیسے ان کی ایک عام عادت تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ ان کو یہ وہم بھی نہیں ہوتا تھا کہ ہم اپنے اساتذہ اور بڑوں سے آگے نکل جائیں گے یا ہم ان سے بہتر ہو سکتے ہیں، چاہے عملاً وہ بہت آگے نکل بھی چکے ہوں اور باہر کی دنیا یہ مانتی بھی ہو کہ انھوں نے ائمہ کا مرتبہ پا لیا ہے، اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ نرگسیت یعنی اپنے بارے میں خوش گمانی رکھنا، اپنے حسن کا دیوانہ بنے پھرنا،اپنی خوبیوں اور خوبصورتیوں کو کھوجنا، ان پہ یقین رکھنا اور دوسروں کو ان کا یقین دلانا،اپنے شخصیتوں کی تعمیر و ترقی کے مینار قائم کرکے دوسروں کو دکھانا بہت عام ہو گیا ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے ان ساری چیزوں کو بہت مہمیز دی ہے، نرگسیت کے لیے اس نے بہت سے ٹولز فراہم کردیے۔ مختلف قسم کے میڈیا نے اپنی ذات اور اپنی صفات کی تشہیر و نمود کی بہت سی سہولیات فراہم کر دیں۔ایک تو اس تشہیر ذات میں ایک خاص طرح کی لذت بھی ہے،دوسرے کاروبارِ دنیا، نوکری ملازمت اور سماجی تعلق و رتبے میں بھی جب اسے معاون پایا گیا تو گویا اسے ضروری سمجھ لیا گیا۔ انسان پوری طرح اپنی ذات کے سحر میں مبتلا ہو گیا اور اس طرح انفرادیت کا معاملہ بھی بڑھتا گیا۔
انفعالیت ( Passivity)
جدید عہد کا ایک اور وصف ( Passivity ) انفعالیت ہے۔ مغرب کے بہت سے لوگوں نے اپنے تجزیے میں اسے بیان کیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جدید آدمی بہت زیادہ ( Active ) متحرک ہے۔ بہت زیادہ سمجھتا ہے، بہت آزاد خیال اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ جس طرح جدیدیت کی ابتدا میں عقل اور ذہن ( Reason, Rationality ) پر بہت زور دیا جاتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ گویا انسان جیسے بالکل انہی کا پابند ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا۔اسی طرح جدید عہد میں تحرک و تحریک، فعالیت اور کارگردگی (activity) پر خاصا زور دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر (Passivity ) انفعالیت اور لاتعلقی غیر معمولی طور پر بڑھ چکی ہے۔ اور جس طرح روایتی لوگ تھے کہ وہ (Tradition Directive) تابعِ روایت تھے۔یعنی روایت ان کو راہ دکھایا ( Direct)کرتی تھی، ان کی لَگام ان کے اپنے ہاتھ میں تھی نہ ہی عام عوام کے ہاتھ میں بلکہ ان کی لگام ’’ روایت‘‘ کے ہاتھ میں تھی، وہ روایت جو کہ ان کے اسلاف سے اور ان کے پُرکھوں سے چلی آرہی تھی۔لیکن پھر ایک دور آیا جس میں انھوں نے روایت سے انحراف اور بغاوت کی اور لگے انفرادیت اور خود ارادیت کی باتیں کرنے، لیکن ان دعووں اور باتوں کے بعد بھی وہ نہ اپنے پابند ہیں اور نہ ہی دوسروں سے آزاد بلکہ زیادہ تر دوسروں ہی کے تابع ہیں، فرق کیا پڑا پہلے لوگ روایت کے پابند تھے اب ’’اِیجاد‘‘کے پابند ہیں یعنی پہلے روایت انھیں ہدایت دے کر اپنا تابع بناتی تھی،اب ٹیکنالوجی اور جدید آلات انھیں سحر زدہ کر کے اپنے پیچھے چلاتے ہیں۔
اسی طرح کہنے کو آج کا انسان زیادہ متحرک و فعال ( Active ) ہے۔اپنے احوال اور اپنے مسائل پر اس کی گہری نظر ہے۔ ہر طرف تحرک و تحریک، فعالیت اور کارگردگی (Activity) کا غلغلہ ہے لیکن انسان ہے کہ غیر فعال اور غیر متعلق ( passive ) ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بھی اصل میں جدید ٹیکنالوجی کا اثر ہے۔اس دور میں خبر و اخبار اور واقفیت عامہ کا سب سے بڑا ذریعہ (Medium) جو انسان کو بالکل غیر فعال اور بے حس و لا تعلق ( Passive ) بنادیتا ہے وہ ٹیلی ویژن (Television)ہے۔ ٹیلی ویژن کے بارے میں بہت سی ایسی تحقیقات سامنے آچکی ہیں کہ یہ جو آلہ ( Medium ) ہے یہ انسان کو منفعل (passive) بناتا ہے۔ اسے عکس کا دور یا تہذیب (Image Culture) بھی کہتے ہیں۔ متحرک اور غیر متحرک تصویر ( (movie and picture کا جو سارا حاصل ہے وہ انفعالیت ہے۔ جب انسان کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ بیدار و فعال ( Active ) ہوتا ہے۔( Culture ) کلچر، اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ لکھتا ہے، تفکر کرتا ہے، سوچ و بچار کرتا ہے پھر آگے چلتا ہے، جبکہ اسکرین کے سامنے انسان بالکل passive ہو جاتا ہے اور کچھ چیزیں جس انداز سے اس پر (Imparted ) ظاہرہوتی ہیں تو اس کے لیے تفکیر وغیرہ کا موقع نہیں ہوتا، نہ صرف یہ بلکہ انسان؛ سکرین میں کھب کر ماحول حتی کہ اپنی ذات تک سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔اس سارےعمل سے انسانوں میں جو کیفیت پیدا ہو رہی ہے،وہ( Passivity ) انفعالیت ہے۔
ایک نئی سماجی اساس
ایک علمی بحث ہے کہ سماج یا کلچر کی بنیاد کیا ہے۔ Sorokin ایک مشہور Sociologist (ماہر عُمرانیات)تھا، اس نے کہا کہ Culture (سماج ) دو طرح کے ہوتے ہیں: پہلاIdeational culture۔یہ وہ کلچر ہوتا ہے جو اپنی بنیاد Ideas (نظریات ) پر رکھتا ہے، جو افکار کی بنیاد پر کھڑا ہے اور دوسرا ہے Sensate Culture،یہ کلچر انسان کے حواس کو اپیل کرتا ہے، اس کی بنیاد محسوسات پر ہوتی ہے۔ اس دنیا میں جتنے بھی بڑے (Ideas) نظریات ہوتے ہیں وہ سب ( Meta Physical)ماورا ء الطبیعاتی ہوتے ہیں، اس لیے ہمیشہ سے Ideational culture کی بنیاد Meta Physicalمعاملات و نظریات پر رہی ہے۔اس کے برعکس جو Sensate Culture ہوتا ہے اس کا مدار اور اس کی بنیاد Physical(مادّی) چیزوں پر ہوتی ہے۔اس سے ایک سطحیت اور ظاہریت سی پیدا ہو جاتی ہے۔ Sorokin نے مغرب کے بارے میں کہا تھا کہ وہ Sensate Culture کے فیز میں داخل ہوگیا ہے اور اس میں حواس کی اہمیت بنیادی ہے اور حواس کے ذریعے چیزوں کو دیکھنا جبکہ چیزوں کے ساتھ کوئی نظریاتی تعلق انسان کا نہ ہو۔ جیسا ہم نے عرض کیا کہ اس سے سطحیت پیدا ہوئی، انسان حقیقت سے دور ہوئے اس سے چیزوں کے ساتھ ایک کھوکھلا تعلق وجود میں آیا،جو دیکھنے میں تعلق ہے لیکن حقیقت سے دور ایک کھوکھلا تعلق!!
مشغولیت بے کار
پیچھے جو Passivity کی بات چلی تھی تو وہ اس بات سے جڑی ہوئی ہےکہ مندرجہ بالا سماجی تبدیلی سے جس طرح سے چیزوں کے ساتھ کھوکھلا تعلق وجود میں آیا۔اسی طرح کاموں کے ساتھ بھی ایک کھوکھلا تعلق وجود میں آیا۔یہ بھی Passivity ہی کی ایک قسم ہے یعنی ایک Passivity تو وہ ہے جو کام اور حرکت سے گریز کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، اور ایک Passivity وہ ہے جو حقیقی کام سے گریز کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ تو اسی کھوکھلے پن کا نتیجہ ہے کہ بلاوجہ کی مشغولیت(Busyness ) پیدا ہوئی، تیزی اور حرکت بہت لیکن منزل کی جانب پیش رفت دوگام بھی نہیں ؎
منیرؔ اس مُلک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
لینا یہ بھی Passivity کی ایک قسم اور ظاہر بین سماج کا سرمایہ ہے۔
Industrial Age ہے اور اس کے بعد پھر اب Information Technology کا Cyber Age شروع ہوگیا ہے تو Passivity کی یہ قسم بہت بڑھ گئی ہے۔اب آپ دیکھیے کہ خاص طور پر کمپیوٹر سائنس یا پروگرامنگ یا ان فیلڈز سے جو لوگ متعلق ہوتے ہیں، وہ بہت زیادہ Occupied ہوتے ہیں اپنے کام میں، جبکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کا وقت،اس کی توجہ اور اس کی کشش کا جو Main Object ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہونا چاہیے یا آخرت کو ہونا چاہیے،لیکن اب معاش کی ایسی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں جو انسانوں کے لیے بہت زیادہ Over weldment ہیں بہت Occupier ہیں اور خاص طور پر وہ لوگ جو IT وغیرہ سے متعلق ہیں ان کو اس کا تجربہ ہے کہ ان کے لیے عبادات کرنا یا اللہ سے متعلق رہنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے، یعنی اتنا زیادہ وہ اس ماحول کے اندر رہتے ہیں کہ اگر وہ نماز کے اندر بھی ہیں تو اس وقت بھی ان کا ذہن انہی چیزوں میں چل رہا ہوتا ہے،تو یہ جو ایک خاص طرح کی مصروفیت اور مشغولیت ہے جس نے لوگوں کو ذاتِ حق سے مشغول کر کے ان کی اصل منزل سے دور کر دیا ہے۔
دروں بینی سےگریز
دور جدید کی ایک بڑی برائی جو مذکورہ بالا سب چیزوں خصوصاً ’’خدا بینی‘‘ سے گریز کا نتیجہ ہے کہ انسان کے باطن میں جیسے ایک خلا سا بن گیا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے ایک فرمان میں ﴿غِنَى النَّفْسِ ﴾(صحیح مسلم)کے الفاظ آتے ہیں تو غِنَى النَّفْسِ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان کا نفس غنی ہو، مخلوقات سے مستغنی ہو اور ایک مطلب علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس کا نفس باثروت ہو یعنی نفس کے اندر فضائل موجود ہوں تو وہ نفس گویا امیر نفس ہے جس کے اندر توکل، تواضع، اِخبات، صبر اورشکر ہے تو گویا یہ ایک باثروت نفس ہے۔لیکن وہی بات کہ دنیا کی کشش اتنی بڑھادی گئی ہے، اس میں اتنی رنگا رنگی ڈال دی گئی ہے اور حواس سے دیکھی جانے والی چیزوں کو باطنی یا غیر مرئی حقائق پر اتنا زیادہ بڑھاوا دیا گیا ہے کہ ایک تو انسان اب اپنے اندر جھانکتا نہیں ہے، اپنے اندر غور نہیں کرتا اور اگر جھانک بھی لے تو اس کے لیے وحشت کا سامان زیادہ ہے اس لیے کہ باطن تو نیکی اور فضائل سے مزین ہی نہیں ہے اور اس وجہ سے پھر وہ خود بینی سے گریزکرتا ہے۔ خارج کی دنیا اتنی خوبصورت بنادی گئی ہے اتنی پرکشش بنادی گئی ہے کہ جب انسان اپنے اندر جھانکتا ہے تو اس کو خلا محسوس ہوتا ہے لگتا ہے اندر کچھ ہے ہی نہیں، تو اس وجہ سے پھر وہ گویا اپنے اندر جھانکنے سے ہی پرہیز کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ بہت خوفناک ہے کہ دروں بینی اور احتساب نفس کی کمی سے، ان برائیوں کی اصلاح کی طرف توجہ بھی نہیں ہوتی جن کا ذکر پہلے ہو چکا۔ تو یہ کچھ مسائل ہیں جو اس دور میں ایک جدید آدمی کو درپیش ہیں اور ہم میں سے ہر ایک ان چیزوں کا، کسی نہ کسی درجے میں گزیدہ اور سے متاثر ہے۔
بچاؤ کا راستہ
مَا النَّجَاةُ ﴾’’ نجات کیا ہے؟‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا : ﴿ أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ﴾’’اپنی زبان کو تھام کر رکھو، روک کر رکھو اورتمہارا گھر تمھیں کافی ہو جائے‘‘۔اسی کو ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے﴿كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ﴾(ابو داود)’’اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ، یعنی اپنے گھروں میں ہی رہا کرو‘‘۔ اور تیسری بات آپ نے فرمائی﴿وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ﴾ ’’اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو‘‘۔
اس حدیث کا موضوع عزلت و خلوت ہے۔ہمارے اکابر میں اس پر بحث رہی ہے کہ انسان کے لیے بہتر اور افضل کیا ہے، کیا عزلت نشینی، خلوت اختیار کرنا،تنہائی اختیار کرنا، لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا کیا یہ رویہ بہتر ہے، یا لوگوں میں گھل مل کر رہنا، لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھنا یہ بہتر ہے۔ امام غزالی علیہ الرحمہ نے”احیاء علوم الدین“ میں ایک باب الگ سےقائم کیا ہے کہ عزلت اور اختلاط میں سےکیا چیز بہتر ہے،اورانھوں نے دونوں مؤقف اور ان کے دلائل نقل کیے ہیں اور پھر عزلت اختلاط کے آداب اور فوائدو فضائل بیان کیے ہیں۔ ہم اس بحث کے اہم نکات کو یہاں پیش کرتے ہیں :
اصل اختلاط ہے
انسانوں کے ساتھ ملنے جلنے یا الگ تھلگ رہنے کے اعتبار سے جو اصل طریقہ ہے وہ اختلاط یعنی لوگوں میں گھل مل کر رہنا ہے۔ یہی اصل اور عام طریقہ ہے، عام حالات اور نارمل صورتِ حال میں اختلاط کے اصول پر ہی عمل کیا جائے گا۔آپﷺنے فرمایا ﴿الْمُؤْمِنُ الَّذِى يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يُخَالِطُ النَّاسَ وَلاَ يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ﴾(سنن ترمذی)’’ایسا مؤمن جو لوگوں میں گھلا مِلا رہتا ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، وہ اس مؤمن سے کہیں بہتر ہے جو لوگوں میں گھلتا مِلتا نہیں ہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا‘‘۔ امام نووی علیہ الرحمہ نے ”ریاض الصالحین“ میں اس موضوع پر خوبصورت استدلال قائم فرمایا ہے۔پہلے انھوں نے گوشہ نشینی کا ذکر کیا اور یہ قرار دیا کہ یہ دائمی اور عمومی حکم نہیں ہے بلکہ گوشہ نشینی کا حکم اور اس کی فضیلت خصوصی حالات میں ہے:باب استحباب العزلة عند فساد الناس والزمان أَو الخوف من فتنة في الدين ووقوع في حرام وشبهات ونحوها’’لوگوں یا زمانے کے فساد کے وقت، یا دین میں فتنے کے شکار ہونے کے خوف یا حر ام و مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو جانے کےاندیشے کے تحت، گوشی نشینی کی فضیلت کا بیان‘‘۔ امام صاحب کی اس تقریر سے بالکل ظاہر ہے کہ عزلت کا پسندیدہ ہونا عمومی نہیں ہے بلکہ فتنے کے اندیشے کے تحت مخصوص حالات میں ہے۔اس کے بعد آپ نے کچھ روایات نقل کیں، اور اس کے بعد پھر ایک بہت طویل ”ترجمۃ الباب“قائم کیا ہے: باب فضل الاختلاط بالناس وحضور جُمَعِهم وجماعاتهم، ومشاهد الخير، ومجالس الذكر معهم’’لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے،جمعہ، جماعت، نیکی کے مواقع اور مجالس ذکروغیرہ میں حاضر ہونے کی فضیلت کا بیان‘‘۔ اس استدلال کے بعد انھوں نے الفاظ میں بتایا کہ اصل یہی ہے، نبی اکرمﷺ کی سنت بھی یہی ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاے راشدین کا اسوہ بھی یہی ہے، ہمارے ائمۂ کرام علیہم الرحمہ کا طریقہ بھی یہی ہے کہ لوگوں میں گھل مِل کے رہا جائے اور جمعہ وجماعت اور ان کی اعیاد اور ان کے سارے معاملات میں شرکت کی جائے۔
اختلاط کے آداب و فوائد
حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے اختلاط کے کچھ فوائد بتائے ہیں، ہمیں دیکھنا چاہیےکہ ہم معاشرے کا حصہ ہیں، لوگوں میں گھل مل کر رہتے ہیں تو کیا یہ فوائد اٹھا بھی رہے ہیں کہ نہیں۔ کچھ صفات جوڑوں کی شکل میں بیان کی ہیں۔پہلا فائدہ انھوں نے کہا ہے ”التعلیم والتعلم“ لوگوں میں گھلے ملے رہنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان ان سے سیکھتا اور ان کو سکھاتا ہے، جب انسان لوگوں میں رہے گا تو اس کے لیے اس کا موقع ہوگا کہ وہ لوگوں سے سیکھے گا بھی اور اگر وہ کچھ علم رکھتا ہے، کچھ جانتا ہے تو دوسروں کو سکھائے گا بھی، اور یہ دونوں چیزیں انسان کےواسطے اس کی آخرت کے لیے بہت مفید اور فائدہ مند ہیں۔ پھر انھوں نے دوسری چیز بتائی ہے”التأديب وَالتَّأَدُّب‘‘، پہلی دو چیزوں’’التعلیم والتعلم‘‘ کا تعلق علم سے تھا اور ان دو چیزوں ”التأديب وَالتَّأَدُّب‘‘ کا تعلق ادب سےہے۔ علم اور ادب، یہ ترکیب ہمارے اکابرین کے ہاں بہت بیان کی جاتی تھی، ہمارے ہاں ”تعلیم وتربیت‘‘ مستعمل ہے، تعلیم کا تعلق علم اور معلومات سے ہے جب کہ تادیب کا تعلق ادب، عمل اور معمولات سے ہے۔تعلیم کا زیادہ تر تعلق جاننے سے ہے، جبکہ تادیب کا زیادہ تر تعلق سیکھنے سے ہے۔گویا نیکی کی باتوں کی واقفیت اور علمیت حاصل کرنا اور ان کو جاننا تعلیم ہے اور انہی باتوں میں عملیت پیدا کرنا ا، ان کو سیکھنا اور انھیں اپنی سیرت و کردار میں داخل کرنا ادب یا تادیب ہے۔ تاديب کا مطلب دوسروں کو ادب سکھانا،ان کی تربیت کرنا اور ان کی سیرت و کردار کی تعمیر کرنا، جبکہ تادّب کا مطلب ہے دوسروں سے ادب و آداب سیکھنا، تربیت حاصل کرنا اور ان کی سیرت و کردار کی روشنی میں اپنی سیرت و کردار کی تعمیر کرنا۔
تعلیم و تعلم کے ساتھ، ادب و آداب سیکھنا بھی ضروری ہیں، اور آداب زیادہ تر صحبت سے حاصل ہوتے ہیں، تادیب میں یہ نہیں ہوتا کہ تلقین بہت زیادہ ہو، دراصل لوگوں کی صحبت سے،لوگوں کو دیکھ کر انسان ادب حاصل کرتا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں: ”الطبع السلیم سراق“کہ طبع سلیم بھی چور ہوتی ہےیعنی انسان دوسرے سے تاثر قبول کرتا ہے دوسرے سے چیزیں لیتا ہے، اس طرح کی بہت سی باتیں ہمارے اکابرین کے ہاں ملتی ہیں کہ ہم بہت زیادہ علم کی نسبت تھوڑے سے ادب کے زیادہ محتاج ہیں، یا یہ کہ ہم اپنے اساتذہ کے پاس جاتے تھے، ان کے پاس بیٹھتے تھے اور ہم ان کے علم سے زیادہ ان کے ادب سے فائدہ حاصل کرتے تھے۔ تو لوگوں میں گھلنے ملنے کا دوسرا فائدہالتأديب وَالتَّأَدُّب ہے۔ جب ہم لوگوں میں گھل مِل کر رہ رہے ہوں تو ہم یہ کوشش کریں کہ اگر ہماری کوئی اچھی تربیت ہوئی ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے کچھ اخلاقی محاسن عطا کیے ہیں، تو ہم دوسروں کی تادیب کا ذریعہ بنیں، دوسروں کو سکھانے کی کوشش کریں۔اور جو خود سے بہتر اخلاق اور کردار والے لوگ ہیں تو ان سے سیکھنے اور تربیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔تو یہ دو طرفہ معاملہ ہوتا رہے۔ لوگوں میں رہ کر ہمارا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ لوگوں کو سکھائیں اور ان سے سیکھیں۔
تیسری چیز جو انھوں نے بتائی ہے وہ ہے’’الاستئناس والإيناس‘‘ لوگوں سے اُنس رکھنا اور لوگوں سے اُنس پانا،دیکھیں ہم انسان ہیں اور لفظِ انسان کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ نسیان سے ہےلیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ لفظ انسان ’’اُنس‘‘سے ہے، تو گویا انسان کو اللہ تعالیٰ نے اُنس کے مادے سے خَلق کیا یعنی انسان انس پسند ہے۔ ایک معروف روایت ہے:﴿ الْمُؤْمِنُ مَأْلَفٌ، وَلَا خَيْرَ فِيمَنْ لَا يَأْلَفُ، وَلَا يُؤْلَفُ﴾(مسند احمد) ’’مؤمن سراپا الفت ہوتا ہے اور اس مؤمن میں کوئی خیر نہیں ہے جو دوسروں سے الفت نہیں رکھتا، اور اس سے الفت نہیں رکھی جاتی‘‘۔ استیناس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان سے اُنس حاصل کرنا، اور ایناس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اُنس فراہم کرنا، تو یہ تبھی ہو گا جب انسان لوگوں میں گھلا مِلا رہے گا ان سے میل جول اور اختلاط کرے گا تب ہی موقع ہوگا ورنہ تو انس کا کوئی موقع ہی نہ ہو گا۔اہل ایمان کا ایک دوسرے سے محبت رکھنا، ایک دینی ضرورت اور دینی ذمےداری ہے۔ مشہور روایت ہے: ﴿لا تدخُلُوا الجنَّةَ حتى تُؤمِنُوا ولا تُؤمِنوا حتى تحابُّوا، أفلا أدلُكُم على أمرٍ إذا فعلتُمُوهُ تحاببتُم أفشُوا السَّلام بينكُم﴾(ابو داود) ’’تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان والے نہ بنو اور تم مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، کیا میں تمہاری رہنمائی نہ کروں ایک ایسے کام کی طرف کہ اگر تم وہ کام کرلو تو تمہاری آپس میں محبت پیدا ہوجائے گی،(وہ کام یہ ہے کہ) آپس میں سلام کو عام کرو۔تو اہلِ ایمان کی محبت پانا ایک فضیلت بھی ہے اور ایک ضرورت بھی، اللہ کے نبی اکرمﷺ سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ کوئی ایسا عمل بتادیں کہ ميں الله كا بھی محبوب بن جاؤں اور لوگوں کا بھی محبوب بن جاؤں! ﴿ أَحَبَّنِي اللَّهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ﴾(ابن ماجہ)’’ تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ تمہارا مؤقف غلط ہے کہ تم لوگوں کے محبوب کیوں بننا چاہتے ہوں، لوگوں کا محبوب بننا انسان کے اندر یہ جذبہ رکھا گیا ہے، اور صالحین کا محبوب ہونا گویا اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کی علامت ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ اللهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ: إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، قَالَ: فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ ﴾(صحيح مسلم)’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں کہ فلاں بندے سے میں محبت کرتا ہوں، آپ بھی اس سے محبت کریں تو جبریل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر فرشتوں میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں بندے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس کے بعد زمین والوں میں اس کی قبولیت رکھ دی جاتی ہے‘‘۔
نيل الثواب وإنالته‘‘ لوگوں کے ذریعے ثواب حاصل کرنا اور لوگوں کو ثواب پہنچانا، لوگوں کے ذریعے ثواب حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی خدمت کرنا، کوئی بیمار ہے تو اس کی عیادت کے لیے جانا، کوئی فوت ہوگیا ہے تو اس کے جنازے پر جانا، کوئی تکلیف میں ہے تو اس کی مدد کرنا۔ اس میں ہم اجر بھی پا رہے ہوتے ہیں اور اجر پہنچابھی رہے ہوتے ہیں، لوگوں کو اجر دینے کا، نیکی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، اگر ہم بیمار ہیں تو گویا لوگوں کے لیے ایک موقع ہےکہ وہ ہماری عیادت کے لیے آئیں، ہم اگر کسی کو دعوت پر بلارہے ہیں تو ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اس دعوت کو قبول کریں۔
التَّوَاضُعُ ‘‘یعنی مخالطت سے انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔امام صاحب نے تفصیل سے لکھا ہے کہ اگر علم کے بغیر ہی انسان خلوت اختیار کرلے تو وہ نِکارت ہے جو انسان کو خراب کرتی ہے اور کہا کہ جو آدمی علم جانتا ہے اور جس کے اندر اچھے احساس ہیں اس کے لیے خلوت مفید ہے، یعنی وہ قرآن سے تعلق رکھے گا، علمِ دین سے تعلق رکھے گا، لیکن ایک آدمی اگر جاہل ہے تو اس کے لیے خلوت مضر ثابت ہوسکتی ہے اور پھر اس کے اندر ایک تکبر بھی پیدا ہوجاتا ہے، اسی لیے بہت سے اکابرین سے منقول ہےکہ خلوت کی اصل نیت یہ ہو کہ میں لوگوں کو اپنے شر سے بچارہا ہوں۔ بہرحال جب انسان لوگوں میں گھل مِل کر رہتا ہے تو اس سے انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے، انسان کے اندر انکسار پیدا ہوتا ہے، اور پھر انسان دوسروں کے لیے ایثار کرتا ہے، وقت کا بھی ایثار کرتا ہے، مال کا بھی ایثار کرتا ہے اور بہت سی چیزوں کا معاملہ کرتا ہے۔
التَّجَارُب‘‘بیان کیاہےکہ انسان لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو تجربہ حاصل کرتا ہے۔بعض ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں جو محض نظریاتی طور پر انسان نہیں سیکھ سکتا جب تک ان کامشاہدہ اور پھر عملی تجربہ نہ ہو، تو جب انسان لوگوں میں رہے گا تو بہت سی ایسی چیزوں کو حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ ایک فائدہ امام صاحب نے’’النفع والإنتفاع‘‘بھی بیان کیا ہے یعنی دوسروں کے لیے فائدہ مند بننا اور ان سے فائدہ اٹھانا۔
ہم لوگوں میں گھل مِل کر رہتے ہی ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم امام صاحب علیہ الرحمہ کی بیان کردہ چیزوں کو مستحضر رکھیں، ان کو مقصود بنائیں اور انھیں اختیار کرنےکی نیت کریں، تو ہمارا لوگوں میں رہنا بسنا ہمارے لیے بھی زیادہ Productive ہوجائے گا،دوسروں کے لیے بھی زیادہ مفید ہوجائے گا۔
عزلت و خلوت، کچھ اصولی باتیں
؟ تو جاننا چاہیے کہ ضرور رہتی ہے۔ اگر حالات بالکل نارمل بھی ہوں تب بھی انسان ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہ سکتا ہے۔ لیکن حالات بدلتے بھی رہتے ہیں کبھی داخلی حالات بدلتے ہیں اور کبھی خارجی، دونوں طرح کی تبدیلیاں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ انسان بھی اپنے عام اور اصل حال، جلوت و اختلاط کو تبدیل کرے اور خلوت و عزلت کا سہارا لے۔تو اب ہم انہی دو یعنی خلوت و عزلت کی کچھ بات کرتے ہیں۔
عزلت اور خلوت میں فرق
حالتِ فتن : جب فتنہ و فساد اتنا بڑھ جائے کہ انسان کا خود حق پر قائم رہنا مشکل اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ شدید ہو جائے۔
حالتِ امن اور عزتِ اسلام
Privilege حاصل تھی جو ہمیں حاصل نہیں ہے، ایک تو یہ ہے کہ سماج خیر پر مبنی تھا اور جو نظمِ امت تھا وہ بھی خیر پر تھا، اور ایسے حالات میں انسانوں کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذوق کے مطابق جس چیز کو چاہیں اختیار کرسکیں، کچھ لوگوں کے اندر تبتل کا ذوق بڑھا ہوا ہوتا ہے تو وہ اس کو Afford کرلیتے تھے۔سلف کے واقعاتِ عزلت کو اسی پر محمول کرنا چاہیے۔
حالتِ فتن اور عزلت
ائْتَمِرُوا بِالمَعْرُوفِ وَتَنَاهَوْا عَنِ المُنْكَرِ، حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا، وَهَوًى مُتَّبَعًا، وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً، وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ، فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعِ العَوَامَّ، فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ القَبْضِ عَلَى الجَمْرِ﴾(سنن ترمذی) ’’نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو،یہاں تک کہ تم دیکھو کہ لالچ کو اپنامطاع بنا لیا گیا ہے، اور خواہشات کی پیروی عام ہو جائے، اور دنیا کو دین پر ترجیح دی جانے لگے اور ہر بندہ اپنی ہی رائے کے گھمنڈ میں مبتلا ہو، تو عوام کی فکر چھوڑ کر اپنی ذات کی فکر کرو،كيونکہ ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا ایسامشکل ہو گا جیسے انگارا ہاتھ میں لینا ‘‘۔
’’ایام صبر‘‘ اصل میں اشارہ ہے عزلت اور گوشہ نشینی کی طرف اس لیے کہ صبر خلاف نفس چیزوں پہ خود کوروکے رکھنے کو کہتے ہیں چونکہ ان برے حالات میں اختلاط و معاشرت کو ترک کر کے عزلت اختیار کرنا ہو گی اور اس ترک و اختیار میں لامحالہ شدید قسم کا صبر کرنا پڑے گا۔ (مستفاد من مرقاة المفاتيح)تو ایسے دور میں جب فتنے عروج پہ ہوں اور انسان کو اپنےدین و ایمان کا خطرہ محسوس ہونے لگے تو دین و ایمان کو بچانے کے لیے گوشہ نشینی اور عزلت اختیار کرنا جائز ہے۔ایک بار نبی کریمﷺ نے فرمایا : ﴿ يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ ﴾(صحيح بخاری) ’’قریب ہے (کہ وہ دن آ جائیں ) کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں جن کے پیچھےوہ پہاڑوں کی چو ٹیوں اور وادیوں میں گھوماکرے اپنے دین کو فتنے سے بچانےکےلیے‘‘۔ علیحدگی کے بیان کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں اور وادیوں کا ذکر، ان حالاتِ فتن میں لوگوں سے الگ تھلگ رہنے کی فضیلت پر مبالغہ کی طرف اشارہ ہے۔(مستفاد من مرقاۃ المفاتیح) فتنے کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا باہم شدید اختلاف پایا جائے اور نوبت جنگ و جدل تک جاپہنچے۔ حق مشتبہ ہو جائے اور واضح نہ ہو پا رہا ہو کہ حق کس گروہ کے ساتھ ہے۔تو جس پر حق واضح نہ ہو بلکہ مشتبہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ تما م گروہوں اور لوگوں سے الگ ہو جائے اس طرح کی مثالیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ملتی ہیں کہ مشاجرات کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا یہ خیال تھا کہ حق مشتبہ ہوگیا ہے اور معلوم نہیں ہورہا ناحق کون ہے اور برحق کون ہے، تو انھوں نے علیحدگی اختیار کرلی اور جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے یہی روایتیں بیان کیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ جب ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو ﴿ فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ، وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ، وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ ﴾(ابو داود) ’’اپنی کمانیں توڑ ڈالو، اپنی ڈھالیں پاش پاش کر دو اور اپنی تلوار پتھر پر مار(کر کند کر ) دو‘‘۔
حالتِ امن اور غربتِ اسلام
خلوت گزینی ایک فطری عمل
تَبَتُّل رکھا تو گیا ہے، قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ بات معلوم ہو گی کہ جب انسان کے اندر اللہ کی طرف لپک پیدا ہوتی ہے تو اس کا فطری اظہار ذکر، عبادت اور تبتل ہی میں ہوتا ہے۔ اسی کی ایک صورت اعتکاف ہے،اس كے علاوه ایک اور چیز جو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو دے رکھی ہے وہ قیام اللیل ہے، یہ بھی تبتل یا خلوت کا بہت اچھا موقع ہے کہ جیسے یہ انسان کابالکل Private Face ہے اور اس میں انسان اپنی نیند کاایثار کررہا ہے۔لہذا، اپنے درس و تدریس، خطبہ و خطابت، تصنیف و تالیف، تعلیم و تعلم،جس طرح کی بھی دینی مصروفیت آپ کی ہو اس کے ساتھ کچھ وقت خلوت کا رکھنا چاہیے، جس میں اپنے رب سے لو لگائی جا سکے۔
خلوت کے فوائد
پہلا فائدہ
’’التفرّغ للعبادة والفكر والإستئناس بمناجاة الله‘‘ اللہ کی عبادت کے لیے اور غور و فکر کےليے فراغت حاصل کرنا اور اللہ تعالی سے دعا و مناجات میں دل لگانا۔جب انسان خلوت اختیارکرے گا تو عبادت کے لیے کچھ فارغ ہوجائے گا اور ظاہری بات ہے کہ انسان کا مقصدِ زیست ہی عبادت ہے۔ انسان خلوت اختیار کرے گا تو تعبّدی امورمیں انسان کے لیے یکسوئی ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں یکسو ہو سکے گا،ا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی طرف متوجہ ہوگا۔
’’التخلص بالعزلة عن المعاصي‘‘
’’الخلاص من الفتن‘‘
چوتھا فائدہ
’’الخلاص من شر الناس‘‘لوگوں کے شر سے بچاؤ۔لوگوں کی طرف سے جو اذیتیں اورتکالیف پہنچائی جاتی ہیں، اگر انسان لوگوں سے دوری کا رویہ اختیار کرے گا تو اس سے بھی اس کی بچت ہوجائے گی۔ مثلا بد گمانی،تہمت، غیبت، ایذایا جان، مال، آبرو کے ضمن میں جتنی بھی تکالیف ہیں، انسان خلوت میں رہ کر ان سے بچ جائے گا۔
پانچواں فائدہ
’’قطع الطمع‘‘ طمع ختم ہوجانا۔ انسان ہر وقت لوگوں میں گھلا مِلا رہتا ہے تو لوگوں سے توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں، اور پھر انسان ہر وقت لوگوں سے یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے اِس سے یہ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اُس سے یہ فائدہ پہنچ سکتا ہے، یہ کوئی اچھی حالت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے﴿أَجْمِعِ الْيَأْسَ عَمَّا فِى أَيْدِى النَّاسِ﴾(ابن ماجہ) ’’جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے اپنے اندر مایوسی پیدا کرلو‘‘۔ تو انسان جب لوگوں سے علیحدہ ہوجائے گا تو پھر کچھ توقعات بھی نہیں رہیں گی لوگوں سے اور لوگوں سے لالچ کا معاملہ بھی نہیں ہوگا۔
’’الخلاص من مشاهدة الثُقَلَاءِ والحَمقَى‘‘ الْعُزْلَةُ رَاحَةٌ مِنْ خُلاَّطِ السُّوءِعزلت برے لوگوں سے خلاصی اور راحت کانام ہے۔
اپنا اپنا حصہ
آخر میں ہم پھر عرض کرتے ہیں کہ طویل مدت کے لیےالگ تھلگ رہنا جسے ہم نے عزلت کہا تھا، وہ عام حالات میں بہرحال پسندیدہ نہیں ہے، ہم اس سے کم تر علیحدگی، جو کم وقت کے لیے ہو جسے ہم نے خلوت کا نام دیا تھا اس کی بات کر رہے ہیں، اسے عارضی عزلت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت مفید ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک قول روایت کیا جاتا ہے ﴿خُذُوا بِحَظِّكُمْ مِنَ الْعُزْلَةِ﴾(العزلة للخطابي)’’عزلت میں سے اپنا حصہ لیا کرو‘‘۔
تو خلوت میں سے اپنا اپنا حصہ لینا چاہیے۔ ہم اتنا حصہ تو لے ہی سکتے ہیں کہ کچھ مدت کے لیے خلوت اختیار کر لیا کریں۔ مہینے میں کم از کم ایک دن مخصوص کریں، اس میں آپ تھوڑا سا لوگوں سے علیحدہ ہوں اور تمام سماجی رابطے منقطع کردیں۔اس میں اپنی زندگی، موت، آخرت پر کچھ غور و فکر کر لیا جائے۔ اپنی قبر اورقیامت کے بارے میں کچھ سوچا جائے۔اللہ تعالی کے ذکر، اللہ کی کتاب کے ساتھ، اور عبادت میں کچھ اشتغال پیدا کیا جائے،دعا و مناجات میں دل لگایا جائے۔