منافقین نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہا هُوَ أُذُنٌ ’’وہ تو کان ہی ہیں‘‘ تو اللہ تعالی نے اس بات کو اذیت رسول قرار دےکر انہیں عذاب الیم کی وعید سنائی ۔جب کان کہنے جیسی ہلکی بات اپنے محبوب کی شان میں اللہ کو گوارا نہیں ہے تو آپ ﷺ کے اخلاق و کردار پر انگلی اٹھانا یا آپ کے ازواج و اولاد پر طعن کرنا، یا آپ ﷺ کے کارٹون بنانا، یا ایسے مکروہ کام کرنے والوں کی حمایت کرنا یا توہین رسالت کے خلاف موجود قانون سازی کو ختم کرنا یا اسے کالا قانون قرار دینا کتنا اللہ کے غضب کو بھڑکانے والا ہے ہم تصور نہیں کر سکتے ۔نبی کریم ﷺ نے کئی گستاخوں کو اس تصریح کے ساتھ قتل کرایا کہ اس نے اللہ و رسول کو اذیت دی ہے۔ آپﷺ کے بعد صحابہ کرام اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین، فقہاے مجتہدین اور علماے راسخین علیہم الرحمۃ سبھی اس پر متفق رہے ہیں کہ جو بھی توہین رسالت کا ارتکاب کرے گا اس کی سز ا موت ہے۔
بے ہدایتے سوچتے ہیں آخر ایک شخص، محمد بن عبد اللہ کی توہین کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا دیا گیا۔ تو اس کی طرف اشارہ خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو تکلیف دی‘‘۔ (ترمذی ) جیسے بادشاہ اپنے سفیروں کی توہین برداشت نہیں کر سکتے اسی طرح اللہ تعالی بھی اپنے پیغمبر اور اپنے نبی کی توہین گوارا نہیں کرتا۔اللہ تعالی لوگوں کو ہدایت دینا چاہتے ہیں تو نبی کریم ﷺ ہدایت کا نور ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو صراط مستقیم پہ چلانا چاہتے ہیں تو محمد رسول اللہ ﷺ اس کے رہنما ہیں ۔ اللہ تعالی نیکی کو پسند کرتے ہیں تو نبی آخر الزماں نیکی سکھانے والے ہیں اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحمت کرنا چاہتے ہیں تو محمد مصطفی ﷺ، رحمت اللعالمین ہیں ۔ اللہ تعالی، اپنی عبادت کے لیے انسانوں کو بنانے والے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ لوگوں کو اس عبادت پہ لگانے والے ہیں ۔ اب کوئی بدبخت اس نبی رحمت ِ کل زماں ہی کی گستاخی پہ آمادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ باغی اللہ تعالیٰ کی ہر سکیم کو توڑنا چاہ رہا ہے ۔
جہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ گستاخ رسول کی سزا موت ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ اس سزا کا نفاذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ کسی عام آدمی کو نہیں چاہیے کہ وہ قانون کا نفاذ خود کرتے ہوئے کسی گستاخ کو خود قتل کرے بلکہ چاہیے کہ پولیس کو اطلاع دے کر یہ سمجھے کہ اس نے اپنی ذمے داری ادا کر دی البتہ حکومت اور انتظامیہ کو یہ ذمےداری احسن طریقے سے ادا کرنی چاہیے اور اس حساسیت کا اندازہ کرنا چاہیے جو بالکل صحیح طور پر ناموس رسالت کے بارے میں مسلمانوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔
ہم نے لکھا اور ہمارا یہ لکھنا،علماے کرام ہی کی پیروی میں ہے کہ کسی عام فرد کو قانون ہاتھ میں لے کر گستاخ کا سر قلم نہیں کرنا چاہیے لیکن جس ملک میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہدایات کے مطابق صدر، اپنے ہی دین، اپنی ہی عدالت عالیہ اور ایوان کے بنائے ہوئے قانون کو ختم کرنے یا کم از کم غیر موثر کرنے کے بیانات دے، جہاں توہین رسالت کی ایف آئی آر کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہو کہ ڈی ایس پی کے بغیر پرچہ کاٹا نہ جا سکے، جہاں یوسف کذاب کے ناقابل ضمانت مقدمے کی سماعت کو جان بوجھ کر دو سال موخر کر کے اس کی ضمانت کا راستہ پیدا کیا جائے ۔جہاں سیشن کورٹ سے سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی سے گورنر وقت، ہمدردی و یکجہتی کا اظہار اور ملاقات کر کے تسلی دے، توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون کہہ کر اسے ختم کرنے کا اعلان کرے۔جہاں ہائی کورٹ سے توثیق شدہ سزائے موت کو سپریم کورٹ گواہیوں کو اس بنا پر رد کر کے کالعدم قرار دے کہ گواہوں میں سے کسی نے حاضرین کی تعداد، دوسو بتائی اور کسی نے ایک ہزار، حالانکہ گواہی تعداد کے بارے میں نہ تھی بلکہ ایک فرد کے ایک قول کے بارے میں تھی!!وہ عدالتی نظام جس میں توہین رسالت کے اکثر مجرم ماتحت عدالتوں سے سزا پانے کے بعد اعلی عدالتوں سے بے گناہ قرار دیے جاتے ہوں،جہاں توہین رسالت کے الزام سے باعزت یا بے عزت بری ہونے والوں کو امریکہ اور کنیڈا کی شہریت سے نوازا جائے اور انہیں کانفرنسوں میں شامل کیا جائے اور میڈیا پر ان کی تصویریں دکھائی جائیں تو شمع رسالت کے پروانوں کے دل دکھنا اور جذبات سے بے قابو ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مہذب اور زیادہ تربیت یافتہ کون ہو سکتا ہے لیکن توہین رسالت دیکھ کر وہ بھی صبر نہ کر پاتے تھے۔ کئی ایک نے بغیر رسول اللہ ﷺ کو بتائے یا اجازت لیے گستاخوں کو واصل جہنم کیا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان گستاخوں کے خون کو هدر یعنی رائگاں قرار دیا کہ نہ ان کا کوئی خون بہا ہے اور نہ ہی قصاص۔اب یہاں حدیث رسول ﷺ اور فقہاے کرام کے متفقہ اصول کے خلاف، ایک رائگاں اور گندے خون کو بہا دینے کی ایک عاشقانہ یا جذباتی حرکت کر گزرنے والے کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو یہ ایک مزید نادانی ہے جو مسلمانوں کے جذبات کو مزید بھڑکانے والی ہے اس سے ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہو گا نہ کہ کمی!!ہاں فقہائے کرام کے اقوال کی روشنی میں، بغرض تربیت گستاخ کو قتل کرنے والے غازی کو تعزیری سزا دی جا سکتی ہے تاکہ وہ آئندہ قانون ہاتھ میں نہ لے۔
اسلام کے اصول عدل کا تقاضا ہے کہ توہین رسالت کے مجرموں کو شفاف عدالتی کاروائی کی سہولت دی جائے اور عاشقان رسول ﷺ کو ان کے خلوص ِ عشق کے اعتراف کے باوجود، گستاخوں کے ماورائے عدالت قتل سے روکا جائے اس لیے کہ بعض دفعہ ناواقفی سے کوئی معصوم بھی قتل ہو سکتا ہے جیسا کہ مبینہ طور پر ابھی حال ہی میں ایک ایسا واقعہ ہوا بھی ہے اور اس مارا ماری سے معاشرہ افراتفری کا شکار بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کے لیے ایک طرف تو، عوام الناس کو اس حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ اعلان کرنا چاہیے کہ جو بھی توہین رسالت کرے گا وہ جرم کی قرار واقعی سزا پائے گا اور دوسری طرف عوام کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی کیا جائے ۔ ایک طرف تو آپ دینی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے والے میڈیا اور تعلیمی نظام کی سرپرستی کریں اور دینی اداروں اور شخصیات کو دبانے کی کوشش کریں اور ساتھ ہی یہ بھی خیال کریں کہ آپ کی عوام معاملات میں عین شریعت کے مطابق ردعمل ظاہر کریں تو یہ امر محال ہے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ توہین رسالت کا الزام لگا کر ثابت نہ کر سکنے والوں پر تعزیری سزا نافذ کی جائے تاکہ جھوٹے الزامات کا قلع قمع ہو سکے ۔اسی طرح اگر کسی مبینہ گستاخ کو قتل کرنے والےکے با رےمیں یہ ثابت ہو جائے کہ قاتل نے کسی ذاتی سبب سے قتل کیا ہے اور اپنے جرم کو چھپانے کے لیے وہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا رہا ہے تو اسے قتل کی حقیقی وجہ کے مطابق ہی سز ادینی چاہیے ۔
گستاخ رسول ﷺ کی سزا ئے موت پر اتفاق عام کے بعد، فقہاے کرام کے ہاں بعض جزیات میں اختلاف رہا ہے لیکن اس اختلاف کے باوجود مسلمان سلطنتوں میں یہ سزا نافذ رہی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا رہا ۔ لیکن شاید تاریخ میں پہلی بار فقہاے کرام کے ان اختلافات کو، توہین رسالت کے خاتمے یا غیر موثر کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ مذموم کوشش کامیاب ہو بھی جائے اور ناموس رسالت والے قوانین میں لبرل قسم کی تبدیلیاں کر بھی دی جائیں تو بھی عشق کے قانون نہیں بدلتے، جہاں موقع ملے گا مسلمان، گستاخ کوجہنم واصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور آپ کو قانون کی عملداری کا مسئلہ درپیش ہی رہے گا ۔ ضرورت اس کی ہے کہ دائیں بائیں سے نکلنے کے بجائے تمام مسلم ممالک،اپنے علاقے میں رائج فقہ کے مطابق توہین رسالت کی سزا پہ عملدر آمد اور عوام کی دینی تربیت شروع کر دیں ۔