خدا کے گھر کا رستہ مصطفیٰ کے گھر سے جاتا ہے
وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے
’’وہ نظم، جو ختمی مرتبتﷺکی مدحت سے وابستہ ہوتی ہے، نعت کہلاتی ہے، نعت کی کوئی خاص ہیئت تجویز نہیں کی گئی ہے‘‘۔(شعریات از نصیر ترابی) اردو میں نعت عربی اور فارسی سے آئی، بعض شعرانے باقاعدہ نعت لکھی، بعض نے غزل میں نعت کے ایک دو شعر نظم کیے اور مثنوی کی ابتدا میں بھی حمد و نعت اردو شعرا کا وتیرہ رہا۔
نعت کی ابتدا تو سابقہ انبیا کے مبارک صحیفوں میں میرے آقا ﷺکی آمد کی اَخبار اور آپ ﷺکے اوصاف کے بیان سے ہو چکی تھی لیکن اسے عروج؛ قرآنِ مجید میں حاصل ہوا۔ چنانچہ کہیں﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ تو کہیں ﴿عَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم﴾ کہا گیا۔کہیں ﴿مَا وَدَّعَکَ﴾ اور ﴿مَا قَلیٰ﴾ سے دل جوئی کی گئی، تو کہیں ﴿اَنْتَ فِیْھِمْ﴾ سے آپﷺکی عظمت اجاگر کی گئی۔ کبھی ﴿لَقَدْ مَنَّ اللہُ﴾ پڑھا تو آپﷺکی قدر ومنزلت آنکھوں کے راستے درونِ قلب تک جا پہنچی اورکبھی ﴿لاتَرْفَعُوْا﴾ سنتے ہی تمام تر اجساد خاکی آپﷺکی تعظیم میں جھکتےچلے گئے۔ کہیں تو شارع نے دوٹوک الفاظ میں ﴿وَمَا اٰتَاکُمْ﴾ سے آپﷺکے اقوال و افعال کی حجیت کا اعلان کیا اور جب کبھی اپنی شانِ رحمت کے اظہار کے لیے نطق فرمایا توآپﷺرحمۃ للعلمین قرار پائے،اگرکہیں﴿اِنَّمَا اَنَا بَشَر﴾ سے عبدیت اور بشریت کی طرف اشارہ ہوا تو ﴿قَابَ قَوْسَیْن﴾کے ذکر سے اپنے بندے کو رفعتوں اور قربتوں کی معراج پر پہنچا دیا۔ صلی اللہ علی محمد!
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر ایں سراپا انتظار او منتظَر
اور
لیکن رضا ؔنے ختم ِسخن اس پہ کر دیا خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
اور
مدحت اس کی کیوں نہ کریں، وہ مدحت کا حقدار بھی ہے بعدِ خدا جواپنی حدوں میں، مالک بھی مختار بھی ہے
پھر نعت گوئی کےاس پاکیزہ سلسلے کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آگے بڑھایا تو ان میں سےایک جماعت اس نیک کام میں جُت گئی، کفار کی یورش کے سبب اُس وقت نعت میں مدافعت کا رنگ غالب تھا۔ علامہ ابن سیرین رحمہ اللہ کے قول کے مطابق سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے شعر کے ذریعے کافروں کو جنگ کے خوفناک انجام سے ڈراتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انھیں ان کے کفر پر عار دلاتے اور سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان کے نسب پر (اعتراض کر کے انھیں) چوٹ پہنچاتے(أسد الغابة لابن الأثير، ۴/ ۴۶۱)۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں کی ہجو کا جواب دینی ضرورت اور فریضہ سمجھ کر دیتے اور اس خدمت پر اللہ ہی سے اجر کے طالب ہوتے۔ چنانچہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأجَبْتُ عَنْهُ وَعِنْدَ اللهِ فِيْ ذَاكَ الْجَزَآء
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا تَقِيًّا رَسُوْلَ اللهِ شِمْحَتُهُ الْوَفَآء
فَإِنَّ أَبِيْ وَوَالِدَتِيْ وَعِرْضِيْ لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِّنْكُمْ وِقَآء
ترجمہ:تو نے محمد ﷺكی برائی بيان کی میں نے اس کا جواب دیا اور اس کا بدلہ اللہ کے پاس ہے۔تو نے محمد ﷺکی برائی بیان کی جو نیک اور متقی ہیں (وہ) اللہ کے رسول ہیں، ایفاے عہد آپ کی عادت و فطرت ہے۔میرے والدین اور میری آبرو محمدی وقار کے تحفظ کے لیے قربان ہے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ دورِ اول میں نعت شریف صرف مدافعت تک محدود تھی بلکہ مدحت میں بھی ان مبارک ہستیو ں نے جولانیاں دکھائیں۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہم ہی کے شعر دیکھ لیجیے :
وَأَحسَنَ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني وَأَجمَلَ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساءُ
خُلِقتَ مُبَرَّأً مِن كُلِّ عَيبٍ كَأَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاءُ
ترجمہ:آپ ﷺسے زیادہ حسین میری آنکھ نے ہرگز نہیں دیکھااور آپ ﷺسے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔ آپﷺہر عیب سے پاک وصاف پیدا کیے گئے،گویا کہ آپ ﷺاس طرح پیدا کیے گئے جیسا کہ آپﷺنے چاہا۔
انھیں یہ بھی احساس رہتا کہ ان کی ثنا خوانی، آقاے دوجہاں کی شان میں اضافہ نہیں کرتی بلکہ آپ کی ثنا و نعت سے خود ہماری ہی شان بلند ہوتی ہے :
ما إنْ مَدَحْتُ مُحَمدا بمقالتي لكن مَدَحْتُ مقالتي بمحمد
ترجمہ:یوں نہیں ہے کہ میں نےاپنے کلام کے ذریعے محمدﷺکی مدح کی، بات تو یوں ہے کہ آپﷺکی مدح سے میں نے اپنا کلام معطر کرلیا۔پھر عہدِتابعین سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، اور تا قیامِ قیامت بلکہ دوسرے جہان میں بھی نعتِ رسولﷺکا سلسلہ جاری رہے گا۔مرزا غالب نے ایک شعر میں آپﷺکی عظمت کو کیا ہی واشگاف انداز میں بیان کیا :
غالب ثناے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
گویا کہ ہم ایسے ادنیٰ آپﷺکی عظمت کو جاننے پہچاننے سے یکسر قاصر ہیں۔ جب ذکرغالب کا چل نکلا تو دیکھیے کہ غالب نے خود کو گنجینۂ معنی کا طلسم قرار دیا، اور اسی طلسم کو اس نے نعت میں بھی برقرار رکھا، غالب کا بہت مشہور شعر ہے:
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
بظاہر تو یہ عام سا شعر معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں ایک نکتہ جو ہمارے استاد جناب ڈاکٹر شادابؔ احسانی صاحب نے بیان کیا، نکتہ یہ ہے کہ جب ہم ’’محمد‘‘ کہتے ہیں، تو میم پر ہمارے ہونٹ باہم مل جاتے ہیں اور گویا ایک بوسے کی سی شکل بن جاتی ہے، یہی غالب بھی کہتے ہیں کہ اسم محمدﷺایسا بابرکت اسم ہے کہ اسے ادا کرتے وقت خود بخود ہونٹوں سے بوسہ جاری ہوجاتا ہے۔
نعت کے موضوعات
نعت کے موضوعات کی بات کریں تو ہمارے ہاں متنوع قسم کے موضوعات ملتے ہیں جن کا تعلق شاعر کی قلبی کیفیت کے ساتھ ہے۔ آپﷺکے مخالفین کی ہجو اور آپﷺکی مدحت کی مثالیں تو گزر چکیں اس کے علاوہ بھی نعت گو حضرات نے مختلف پہلؤوں سے نعتیں لکھیں۔کہیں آپﷺکی جود و سخا اور رافت و رحمت کو نظم کیا گیا:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
اور
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں دینے والا نظر نہیں آتا
زیرِ سایہ ہوں اس کے اے امجدؔ جس کا سایہ نظر نہیں آتا
کسی نے مدینہ طیبہ کے پاکیزہ ماحول کا تذکرہ کیا:
مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ
اور کسی کی نعت روضہ ٔاقدسﷺکی تعریف و توصیف پر مشتمل نظر آئی:
پھر پیشِ نظر گنبدِ خضرا ہے، حرم ہے پھر نامِ خدا، روضہ ٔجنت میں قدم ہے
پھر شکرِ خدا، سامنے محرابِ نبی ہے پھر سر ہے مرا اور ترا نقشِ قدم ہے
محرابِِ نبی ہے کہ کوئی طورِ تجلی دل شوق سے لبریز ہے اور آنکھ بھی نم ہے
کبھی نعت کہتے کہتے گناہوں کی یاسیت یوں نوکِ زباں پر آجاتی ہے:
زِ کردہ خویش حیرانم، سیہ شُد روزِ عصیانم پشیمانم، پشیمانم، پشیماں، یا رسول اللہ
چوں بازوے شفاعت را، کُشائی بر گنہ گاراں مکُن محروم جامی را، درا آں، یا رسول اللہ
ترجمہ: میں اپنے کیے پر حیران ہوں اور گناہوں سے سیاہ ہو چکا ہوں۔ پشیمانی اور شرمند گی سے پانی پانی ہو رہا ہوں،یا رسول اللہ۔ اے اللہ کےرسول!روز محشر جب آپ شفاعت کا بازو گناہ گاروں پر کشادہ فرمائیں تو اس وقت جامی کو محروم نہ رکھیے گا۔
تو کبھی امت کی زبوں حالی مناجات کی صورت اختیار کر جاتی ہے:
نبیِ اکرم شفیعِ اعظم، دکھے دلوں کا پیام لے لو تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا، نظر سے روپوش ہے کنارا نہیں کوئی ناخدا ہمارا، خبر تو عالی مقام لے لو
یہ کیسی منزل پہ آ گئے ہیں نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے تم اپنے دامن میں آج آقا تمام اپنے غلام لے لو
بہرحال نعت کے متعدد پہلو ہیں جنھیں عربی، فارسی اور اردو شعرا نےاپنے اپنے ذوق اور فنی مہارت کو بروے کار لا کر اس کارِ عظیم میں حصہ لیا۔ البتہ ایک طرز نعت کا شعرا کے یہاں ایسا بھی پایا جاتا ہے جسے بالاتفاق ممنوع قرار دیا گیا ہے اور وہ ہے نعت میں نبی پاکﷺکو خدائی صفات سے متصف کرنا، جسے شرک بھی کہا گیا، چنانچہ بہت سے معروف نقادوں نے نعت گو شعرا کو دو باتوں پر خاص تنبیہ کی: اول تو یہی کہ نعت میں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ نبی اکرم سرکارِ دو عالمﷺکی تعریف و توصیف میں حدودِ شریعت سے تجاوز نہ کیا جائے۔ شرعی حدود سے تجاوز دریں معنیٰ کہ نعت کہتے کہتے دیگر شعائرِ دینی کی توہین نہ ہو جائے، آقائے دو جہاںﷺکو اللہ رب العزت کے بالمقابل دکھانا یا اللہ تعالیٰ کا آنحضرتﷺکی سفارش کے آگے بے بس ہونا، یا آپﷺکو نعوذ با للہ ذاتِ باری تعالیٰ کا حصہ قرار دے دینا یا آپﷺکا دیگر انبیا سے اس طرح تقابل کرنا کہ دیگر انبیا کی تحقیر لازم آئے وغیرہ۔
دوسری بات جسے نقادوں نے نعت گوئی کے لیے لازمی قرار دیا وہ یہ کہ نعت وہ کہے جسے زبان و بیان پر خوب قدرت ہو، فن سے واقف ہو اور اس بحرِ بے کراں میں غوطہ زنی کرتے کرتے ایک تجربہ حاصل کر چکا ہو۔ ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ جس پر شاعری کا بھوت سوار ہوا اس نے جھٹ ایک نعت لکھ ڈالی جس میں نہ وزن نہ قافیہ، نہ کوئی مضمون نہ تراکیب، چند منتشر جملے نعت کے نام پر لکھ لیے اور جگہ جگہ نشر کر دیے، پھر نشر کرتے وقت اپنا نام مع تخلص لکھنا بھی ان متشاعرین کے لیے ضروری ہے، اور تخلص بھی مجرد نہیں لکھا جاتا بلکہ اس پر ڈوؔئی بھی ڈالی جاتی ہے تاکہ قارئین کو بخوبی علم ہوسکے کہ یہ کس عظیم شاعر کا کلام ہے۔ مزید یہ کہ یہ کلام چونکہ نعت کے عنوان سے نشر ہوتا ہے تو لوگ اس پر تنقید سے گھبراتے ہیں مبادا نعت کی بے حرمتی نہ ہوجائے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ممدوح جتنا اعلیٰ ہو مدح بھی اتنی ہی اعلیٰ یا کم ازکم کسی نہ کسی حد تک فنی خوبیوں کی حامل ہونی چاہیے۔ اسی مضمون کو معروف نقاد ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے یوں بیان کیا ہے:’’نعت کے موضوع سے عہدہ برآں ہوناآسان نہیں، موضوع کا احترام کلام کی بے کیفی اور بے رونقی کی پردہ پوشی کرتا ہے،نقاد کو نعت گو سے باز پُرس کرنے میں تامّل ہوتا ہے اور دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چھپانے کے لیے نعت کاپردہ بھی بہت آسانی سے مل جاتاہے،شاعر ہر مرحلےپر اپنے معتقدات کی آڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاں کا تہاں رہ جاتاہے لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے‘‘۔ (ابواللیث صدیقی، لکھنؤ کا دبستان شاعری)
شاہ معین الدین ندوی اس بارے میں لکھتے ہیں:’’نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذاتِ پاک نبی ﷺکی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے۔ حُبِ رسولﷺکے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد ِ رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے، جو کم شعرا کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد،گناہ لازم آجاتا ہے۔ اس پلِ صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہِ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں‘‘۔(ادبی نقوش ص: ۲۸۴)
مولانا احمد رضاخان بریلوی نے نعت گوئی کی احتیاطیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا بہت مشکل کام ہے جس کولوگ آسان سمجھتے ہیں ،اس میں تلوار کی دھار پرچلنا ہے۔ اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے، غرض حمد میں یک جانب کوئی حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے‘‘۔(الملفوظ، حصہ دوم، مکتبہ قادریہ،ص: ۱۸۴) اعلیٰ حضرت کا ایک شعر ملاحظہ ہو جس میں وہ اسی احتیاط کا ذکر کرتے ہیں:
پیشِ نظر وہ نو بہار، سجدے کو دل ہے بے قرار روکیے سر کو روکیے، ہاں یہی امتحان ہے
اردو نعت
اردونعت کےارتقا کےحوالے سے’’نعت کائنات‘‘سےایک پیراگراف پیش ہے جس میں مختصراً نعتِ رسولﷺ کا بتدریج ارتقا اور معروف نعت گو شعرا کے نام ہیں: ’’اُردو میں شاعری کی ابتدا ارضِ دکن سے ہوئی۔دکنی مثنویوں میں فارسی مثنویوں کی طرح حمد کے بعد نعتیہ اشعار ملتے ہیں۔ ان اشعار کو مثنوی سے الگ کرلیا جائے، تو بعض اوقات اعلیٰ درجے کی نعتیں ہمیں متحیر کر دیتی ہیں۔ مثلاً زبان کی قدامت کے باوجود وجہیؔ کی ’’قطب مشتری‘‘ کے نعتیہ اشعار نہایت عمدہ ہیں اور صنفِ نعت کے جملہ تقاضے پورے کرتے ہیں۔ دکن کے بعد دہلی اور لکھنو ٔکے مثنوی نگار بھی اس روایت پر عمل پیرا ہونے کو فرض کی طرح ادا کرتے رہے۔ اسی لیے قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو اُردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ اُن کے کلام کا خاصا حصہ نعتِ رسول ﷺپر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دَور سے لے کر عہد ِجدید کے شعرا تک نعت گوئی کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اُردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث ِسعادت تصور کرتا ہے۔ اُردو نعت گوئی میں،مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، امیر مینائی،مولانا ظفر علی خاں، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری، ماہر القادری جیسے نام ہیں، جو معتبر اور معروف ہوئے۔ دَور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔خاص طور سے قریۂ اسم محمدﷺ(پاکستان) میں نعت گوئی کو کافی عروج حاصل ہوا ہے، وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ شعرا میں حفیظ تائب، عبد العزیز خالد، مظفر وارثی،خالد احمد، مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیا۔ ہندوستان کے اُردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔ اُن میں کئی تو ایسے ہیں، جن کے نعتیہ کلام کے دواوین بھی موجود ہیں‘‘۔ مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’نعت گوئی، عشقِ رسول اور شوقِ مدینہ ہندوستانی شعرا کا محبوب موضوع رہا ہے اور فارسی شاعری کے بعد سب سے بہتر اور سب سے مؤثر نعتیں اردو ہی میں ملتی ہیں‘‘۔(کاروانِ مدینہ،مجلس تحقیقات ونشریاتِ اسلام،ندوہ، لکھنؤ)
یہاں تک تو نعت کے ارتقا، موضوعات اور حساسیت و نزاکت پر بات ہوئی، اب ذیل میں اردو کے چند معروف نعت گو شعرا کے مختصر حالات اور نعتیہ کلام کے کچھ نمونےپیش کیے جاتے ہیں، حالات اور نعتیہ کلام کا اکثر حصہ ’’ریختہ‘‘ اور ’’نعت کائنات‘‘سے ماخوذ ہے:
محسن کاکوروی
نام مولوی محمد محسن، تخلص محسن، ۱۸۳۷ء کو قصبہ کاکوری مضافات لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ اپنے دادا کے دامنِ تربیت میں پرورش پائی۔ ان کے انتقال کے بعد اپنے والد اور مولوی عبدالرحیم سے علم کی تحصیل کی۔مولوی ہادی علی اشک جنھیں شاعری پر عبور تھا، انہی سے محسن کاکوروی نے اصلاحِ سخن لی۔ محسن کاکوروی نے چند روز عہدہ ٔنظامت پر کام کیا اور وہیں سے وکالتِ ہائی کورٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس زمانے میں صدر دیوانی عدالت آگرہ میں تھی۔ ۱۸۵۷ء تک آگرہ میں رہے۔ بعد ازاں مین پوری میں وکالت کرتے رہے۔شعروسخن کا شوق انھیں لڑکپن سے تھا۔ ابتدا میں کچھ غزلیں کہیں۔ اس کے بعد محض نعت میں طبع آزمائی کرتے رہے۔۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو مین پوری میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ محمد دانش غنی لکھتے ہیں:’’اردو کے تمام شاعروں میں محسنؔ کاکوروی وہ واحد شاعر ہیں جنھیں اصلاً نعت گو شاعر ہونے کے باوجود بھی اردو کے تنقید نگاروں نے اساتذہ کی صف میں جگہ دی۔ یہ جگہ بنیادی طور پر انھیں ان کے قصیدے مدیح خیر المرسلین (۱۹۷۶ء) کے باعث عطا کی گئی ہے جو بلا شبہہ ان کی شاعری کا شاہکار ہے۔ یہ ایک نعتیہ قصیدہ ہے جو فکری و فنی لحاظ سے انتہائی جاندار اور پر زور ہے۔ اس میں الفاظ کی متانت و جذالت، استعارے کی جدت، تشبیہات کی لطافت و تازگی، بندش کی چستی، خیالات کی نزاکت و بلندی قدم قدم پر پائی جاتی ہے لیکن یہ قصیدہ ناقدین اور ماہرینِ فن میں اختلاف و تنازع کا باعث بھی رہا ہے۔ اس کی وجہ اس قصیدے کی تشبیب میں ہندوستانی ماحول اور مذہبی فضا کی عکس ریزی ہے‘‘۔اس قصیدے کے بارے میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی لکھتے ہیں: ’’ایسی نرالی تشبیب آپ کو اردو کے کسی شاعر کے ہاں نہیں ملے گی۔ ذوقؔ و سوداؔ قصیدے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کی کسی تشبیب میں ایسی جدت اور زور نہیں۔‘‘ (لکھنؤ کا دبستانِ شاعری،ص ۵۰۹)
سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کے لیے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے
زمیں بنائی گئی کس کے آستاں کے لیے
کہ لا مکاں بھی اٹھا سر و قد مکاں کے لیے
ترے زمانے کے باعث زمیں کی رونق ہے
ملا زمین کو رتبہ ترے زماں کے لیے
سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل
میرے ایمانِ مفصل کا یہی ہے مجمل
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل
دین و دنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے
صرف تیرا ہی بھروسہ، تری قوت، ترا بل
ہو مرا ریشہِ امید وہ نخلِ سر سبز
جس کی ہر شاخ میں ہو پھول ہر اِک پھول میں پھل
آرزو ہے کہ ترا دھیان رہے تا دمِ مرگ
شکل تیری نظر آئے مجھے، جب آئے اجل
روح سے میری کہیں، پیار سے یوں عزرائیل
کہ مری جان مدینے کو جو چلتی ہے تو چل
دمِ مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکرِ فردا تُو نہ کر دیکھ لیا جائے گا کل
یادِ آئینہِ رُخسار سے حیرت ہو مجھے
گوشۂ قبر نظر آئے مجھے شیش محل
میزباں بن کے نکیرین کہیں: گھر ہے ترا
نہ اُٹھانا کوئی تکلیف نہ ہونا بے کل
رُخِ انور کا ترے دھیان رہے بعدِ فنا
میرے ہمراہ چلے راہِ عدم میں مشعل
حذف ہوں میرے گناہانِ ثقیل اور خفیف
آئیں میزاں میں جب افعالِ صحیح و معتل
مری شامت سے ہو آراستہ گیسوئے سیاہ
عارضِ شاہدِ محشر ہو اگر حُسنِ عمل
صفِ محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مدّاح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ، یہ غزل
کہیں جبریل اشارے سے: ہاں! بسم اللہ
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ مَتھُرا بادل
امیر مینائی
امیر مینائی کا نام امیر احمد تھا ۔ وہ نواب نصیر الدین حیدر کے عہد میں سنہ ۱۸۲۸ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ امیر مینائی نے شروع میں اپنے بڑے بھائی اور والد سے تعلیم پائی اور اس کے بعد مفتی سعد اللہ مرادآبادی سے فارسی، عربی اور ادب میں مہارت حاصل کی۔انھوں نے علماے فرنگی محل سے بھی فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کی لیکن ان کا اپنا کہنا ہے کہ علومِ متداولہ کی تکمیل ان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ ان کو شاعری کا شوق بچپن سے تھا،پندرہ سال کی عمر میں منشی مظفر علی اسیر کے شاگرد ہو گئے جو اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور ماہرِعروض تھے۔امیر کے کلام اور ان کے کمال کی تعریفیں سن کر۱۸۵۲ء میں نواب واجد علی شاہ نے ان کو طلب کیا اور ۲۰۰ روپے ماہانہ پر اپنے شہزادوں کی تعلیم کا کام ان کے سپرد کر دیا۔امیر مینائی طبعاً شریف النفس، پاک باز،عبادت گزار اور متّقی تھے۔درگاہِ صابریہ کے سجّادہ نشین امیر شاہ صاحب سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔مزاج میں توکل،فقیری اور استغناتھاجس نے تواضع اورانکسار کی صفات کو چمکا دیا تھا۔ ان کے بارے میں حکیم عبد الحئی کہتے ہیں:’’وہ مسَلَّمُ الثبوت استاد تھے،کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے دست و گریباں ہے،بندش کی چستی اور تراکیب کی درستی سے لفظوں کی خوب صورتی پہلو بہ پہلو جوڑتے ہیں‘‘۔ان کے بہت سے شعر زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ شاعری سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس نے ان کا یہ شعر: ’’خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر*سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ نہ سنا ہو۔ محامدِ خاتم النبیین ان کا نعتیہ کلام ہے۔ ۱۹۰۰ ءمیں حیدرآباد میں وفات پائی۔
بھاتا نہیں کوئی، نظر آتا نہیں کوئی
دل میں وہی آنکھوں میں وہی چھائے ہوئے ہیں
خلق کے سرور، شافعِ محشر صلی اللہ علیہ و سلم
مرسلِ داوَر، خاص پیمبر صلی اللہ علیہ و سلم
نورِ مجسم، نیرِ اعظم، سرورِ عالم، مونسِ آدم
نوح کے ہمدم، خضر کے رہبر صلی اللہ علیہ و سلم
بحرِ سخاوت، کانِ مروت، آیۂ رحمت، شافعِ اُمت
مالکِ جنت، قاسمِ کوثر صلی اللہ علیہ و سلم
رہبرِ موسیٰ، ہادیِ عیسیٰ، تارکِ دنیا، مالکِ عقبیٰ
ہاتھ کا تکیہ، خاک کا بستر صلی اللہ علیہ و سلم
سردِ خراماں، چہرہ گلستاں، جبہۂ تاباں، مہرِ درخشاں
سنبلِ پیچاں، زلفِ معنبر صلی اللہ علیہ و سلم
قبلۂ عالم، کعبۂ اعظم، سب سے مقدم، راز سے محرم
جانِ مجسم، روحِ مصور صلی اللہ علیہ و سلم
مہر سے مملو ریشہ ریشہ، نعت امیرؔ اپنا ہے پیشہ
ورد ہمیشہ، دن بھر، شب بھر صلی اللہ علیہ و سلم
دل آپ پر تصدق، جاں آپ پر سے صدقے
آنکھوں سے سر ہے قرباں، آنکھیں ہیں سر سے صدقے
کہتے ہیں گرد عارض، باہم یہ دونوں گیسو
میں ہوں ادھر سے صدقے، تو بھی ادھر سے صدقے
کہتا ہے مہر؛ مہ سے، رخ دیکھ کر نبی کا
تو شام سے ہے قرباں، میں ہوں سحر سے صدقے
بولے ملَک، جو آدم نازاں ہوئے ولا پر
تم آج ہو فدائی، ہم پیشتر سے صدقے
جو مال امیر ؔکا ہے، مالک ہیں آپ اس کے
دل آپ پر سے صدقے جاں آپ پر سے صدقے
الطاف حسین حالی
الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ حالی نے ابتدائی تعلیم پانی پت میں ہی حاصل کی اور قرآن حفظ کیا۔ پانی پت اور دہلی میں انھوں نے کسی ترتیب و نظام کے بغیر فارسی،عربی،فلسفہ و منطق اور حدیث و تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ادب میں انھوں نے جو خاص بصیرت حاصل کی وہ ان کے اپنے شوق،مطالعے اور محنت کی بدولت تھی۔ دہلی کے قیام کے دوران وہ مرزا غالب کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے اور ان کے بعض فارسی قصائد ان ہی سے سبقاًپڑھے۔ اس کے بعد وہ خود بھی شعر کہنے لگے اور اپنی کچھ غزلیں مرزا کے سامنے بغرض ِاصلاح پیش کیں تو انھوں نے کہا:’’اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیتا لیکن تمھاری نسبت میرا خیال ہے کہ تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے‘‘۔ ان کی ملاقات نواب مصطفیٰ خان شیفتہ،رئیسِ دہلی سے ہوئی جو ان کو اپنے ساتھ جہانگیر آباد لے گئے اور انھیں اپنا مصاحب اور اپنے بچوں کا اتالیق بنا دیا۔شیفتہ ؛غالب کے دوست،اردو فارسی کے شاعر تھے اور مبالغے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ وہ سیدھی سادی اور سچی باتوں کو حسنِ بیان سے دلفریب بنانے کو شاعری کا کمال سمجھتے تھے اور عامیانہ خیال سے متنفر تھے۔حالی کی شاعرانہ ذہن سازی میں شیفتہ کی صحبت کا بڑا دخل تھا۔ ۱۹۰۴ء میں حکومت نے انھیں شمس العلماء کے خطاب سے نوازا ۔ شبلی نے انھیں خطاب دیے جانے پر کہا کہ اب صحیح معنوں میں اس خطاب کی عزت افزائی ہوئی۔ حالی شرافت اور نیک نفسی کا مجسمہ تھے۔مزاج میں ضبط و اعتدال،رواداری اور بلند نظری ان کی ایسی خوبیاں تھیں جن کی جھللک ان کے کلام میں بھی نظر آتی ہے۔اردو ادب کی جو وسیع و عریض،خوبصورت اور دلفریب عمارت آج نظر آتی ہے اس کی بنیاد کے پتھر حالی نے ہی بچھاے تھے۔ ا پنی مسدسِ مد و جزرِ اسلام میں وہ قوم کی زبوں حالی پر خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا۔ مسدس نے سارے ملک میں جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔سر سید احمد خان کہا کرتے تھے: ’’اگر روزِ محشر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لایا تو کہہ دوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوائی‘‘۔ ۱۹۱۴ء میں ان کا انتقال ہوا۔
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
احمد رضا خاں بریلوی
آپ کا نام احمد رضا تھا، رضا تخلص کرتے تھے۔ ولادت ۱۸۵۶ ء میں ہندوستان کےمشہور شہر بریلی میں ہوئی۔ آپ کی تربیت ایک علمی گھرانے میں ہوئی جس کے نتیجے میں آپ نے صرف چار، پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا تھا اور اپنی بے پنا ہ خداداد صلاحیتوں اور حیرت انگیز قوتِ حافظہ کی بنا پر صرف تیرہ سال اور دس ماہ کی عمر میں علمِ تفسیر، حدیث، فقہ و اصولِ فقہ، منطق و فلسفہ، علمِ کلام اور مروجہ علوم ِدینیہ کی تکمیل کرلی۔زبان و بیان پر آپ کی گرفت بہت مضبوط تھی، چنانچہ آپ کے بارے میں مولانا ابو الحسن علی الندوی لکھتے ہیں: ’’وہ نہایت کثیر المطالعہ، وسیع المعلومات اور متبحر عالم تھے، رواں دواں قلم کے مالک اور تصنیف و تالیف میں جامع فکر کے حامل تھے‘‘۔ اسی طرح مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:’’مولانا احمد رضا خاں صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں، جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا صاحب ایک زبردست عالمِ دین اور فقیہ ہیں‘‘۔۱۹۲۱ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ شاعری میں ان کے پیشِ نظر مداحِ رسولﷺسیدنا حسان بن ثابت رضی ا لله عنہ کی ذات ِگرامی مشعلِ راہ تھی۔اپنے دور کے شعرا میں مولانا کفایت علی کافی کی نعت گوئی سے متاثر تھے۔ آپ کا دیوان حدائقِ بخشش کے نام سے شائع ہوا۔ نعتیہ کلاموں کےحوالے سے جو مقبولیت اور پذیرائی احمد رضا خان بریلوی کی نعتوں کو ملی ہے وہ بے مثال ہے۔ عابدؔ نظامی لکھتے ہیں: ’’یہ کوئی شاعرانہ تعلّی نہیں، بلکہ عینِ حقیقت ہے،ان کے اشعار پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے فصاحت وبلاغت،حلاوت وملاحت،لطافت ونزاکت یہ سب ان کے ہاں کی لونڈیاں ہیں‘‘۔ بقول شان الحق حقی: ”میرے نزدیک مولانا کا نعتیہ کلام ادبی تنقید سے مبرا ہے۔ اس پر کسی ادبی تنقید کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مقبولیت اور دلپذیری ہی اس کا سب سے بڑا ادبی کمال اور مولانا کے مرتبے پر دال ہے‘‘۔ کوثر نیازی نے آپ کے بارے میں لکھا: ’’بریلی شریف میں ایک شخص پیدا ہوا جو نعت گوئی کا امام تھا اور احمد رضا خاں جس کا نام تھا‘‘۔
مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی
سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے
باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے
حرماں نصیب ہوں تجھے اُمید گہ کہوں
جانِ مراد و کانِ تمنا کہوں تجھے
اللہ رے تیرے جسم منور کی تابشیں
اے جانِ جاں میں جانِ تجلّیٰ کہوں تجھے
مجرم ہوں اپنے عفو کا ساماں کروں شہا
یعنی شفیع روزِ جزا کا کہوں تجھے
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
لیکن رضؔا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے
مُبارک ہو شفاعت کے لیے احمد سا والی ہے
قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے
جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے
تِرا قدِ مبارک گلبنِ رحمت کی ڈالی ہے
اسے بو کر تِرے رب نے بنا رحمت کی ڈالی ہے
میں اک محتاجِ بے وقعت گدا تیرے سگِ در کا
تِری سرکار والا ہے، تِرا دربار عالی ہے
تِری بخشش پسندی، عذر جوئی، توبہ خواہی سے
عمومِ بے گناہی جرم شانِ لا اُبالی ہے
ابو بکر و عمر، عثمان و حیدر جس کے بلبل ہیں
تِرا سروِ سہی اس گلبنِ خوبی کی ڈالی ہے
رضؔا قسمت ہی کھل جائے، جو گیلاں سے خطاب آئے
کہ تو ادنیٰ سگِ درگاہِ خدامِ معالی ہے
ظفر علی خان
ظفر علی خان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے،مدیر بھی اور آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی۔ ان کی پیدائش ۱۸۷۳ءمیں سیالکوٹ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کرم آباد میں حاصل کی اور اس کے بعد اینگلو محمڈ ن کالج علی گڑھ میں زیرِ تعلیم رہے۔ مولانا ظفر علی خاں اس وقت کے مشہور روزنامے ’’زمیندار‘‘ کے مدیر رہے۔اس اخبار نے اپنے وقت میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل ومعاملات کی عکاسی اور سماج کے ایک بڑے طبقے میں ان مسائل کے حوالے سے رائے سازی میں اہم کردار ادا کیا۔مولانا کی شاعری بھی ان کی اسی سیاسی اور سماجی جدوجہد کا ایک ذریعہ رہی، ان کی نظموں کے موضوعات ان کے وقت کی اتھل پتھل کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ ان کی بیشتر نظمیں وقتی تقاضوں کے پیشِ نظر تخلیق کی گئی ہیں۔ شفیق الرحمن؛ ظفر علی خان کا تعارف بہت عمدہ انداز میں یوں کراتے ہیں: ’’وہ شاعری کی جملہ اصناف پر قدرتِ کاملہ اور مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ، نظم اور نعت کون سی صنف سخن تھی جس پر انھوں نے طبع آزمائی کی ہو اور اربابِ فن سے داد وصول نہ کی ہو‘‘۔ آپ کوعربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر یکساں عبور تھا۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں سر سید احمد خان کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں انھیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ طلبہ برادری کی طرف سے ان کی قومی اور علمی خدمات پر انھیں خراجِ تحسین پیش کریں۔ اس موقعے پر ظفر علی خان نے فارسی میں اپنا لکھا ہوا ایک قصیدہ پیش کیا۔ یہ قصیدہ اُن کی قادر الکلامی کا شہ پارہ تھا۔ اوائلِ شباب ہی میں مولانا کی خلاقانہ اہلیتوں اور موزونیِ طبع نے مولانا الطاف حسین حالی ایسے کہنہ مشق بزرگ شاعر کو ان کی تحسین و ستائش پر اس حد تک مجبور کر دیا کہ مسدس کے خالق نے انھیں ’’فخرِ اَقران‘‘ قرار دیا۔ ان کا شعر’’وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں…اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں‘‘ زبان زدِ عام ہے۔ ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
پھوٹا جو سینۂ شبِ تارِ الست سے
اس نورِ اولیں کا اجالا تمہی تو ہو
سب کچھ تمہا رے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایتِ اولی تمہی تو ہو
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اکِ روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
رحمت کی گھٹائیں پھیل گئیں افلاک کے گنبد گنبد پر
وحدت کی تجلی کوند گئی آفاق کے سینا زاروں میں
گر ارض وسما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہوں گلزاروں میں، یہ نور نہ ہو سیاروں میں
وہ جنس نہیں ایمان جسے، لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو،یہ قرآں کے سیپاروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
علامہ اقبال
۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ عربی، فارسی ادب اور اسلامیات کی تعلیم مولوی میر حسن سے حاصل کی۔۱۸۹۵ء میں لاہور آگئے۔ ۱۹۲۲ء میں ان کی اعلیٰ قابلیت کے باعث انھیں’’سر‘‘ کا خطاب ملا۔ اقبال نے شروع میں کچھ غزلیں ارشد گورگانی کو دکھائیں۔ داغ سے بذریعہ خط کتابت بھی تلمذ رہا۔ اقبال بیسویں صدی کے اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ان کے اردو مجموعہ ہاے کلام کے نام یہ ہیں: ’’بانگِ درا‘‘، ’’بالِ جبریل‘‘، ’’ضربِ کلیم‘‘،’’ارمغانِ حجاز‘‘(اردو اور فارسی کلام)۔ ’’کلیاتِ اقبال‘‘ اردو بھی چھپ گئی ہے۔ فارسی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’اسرارِ خودی‘‘، ’’رموزِ بے خودی‘‘، ’’پیامِ مشرق‘‘، ’’زبورِ عجم‘‘، ’’جاوید نامہ‘‘، ’’مسافر‘‘، ’’پس چہ باید کرد‘‘۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ہر چند اقبال نے رسمی معنوں میں کبھی نعت نہیں کہی تاہم عشقِ رسولﷺکا یہ عالم ہے کہ اُن کا تخیل بار بار انھیں بارگاہِ رسالت مآبﷺمیں لے جاتا ہے، جہاں وہ ملتِ اسلامی کی زبوں حالی پر فریاد کناں نظر آتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر عزیز احسن:’’اقبال کے شعری سرمائے میں جہاں جہاں حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ذکر ِمبارک آیا ہے اس میں عمومیت سے زیادہ محرکات عشق کا اختصاصی پہلو جھلکتا ہے۔ اقبال کی فکری دنیا میں جتنے نکات منصبِ رسالت کی تفہیم کے ضمن میں منصۂ شہود پر آئے وہ شاید ہی کسی اور شاعر یا مسلمان مفکر کی تحریروں میں آئے ہوں۔ حضور ِاکرم ﷺکی ذات والا صفات سے اقبال کا عشق جدید و قدیم فکری زاویوں سے روشناس لوگوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اور مبنی بر اخلاص بھی۔شدتِ حُبِّ رسول ﷺکا اظہار ان کے متعدد اشعار میں جا بجا ملتا ہے‘‘۔ خان نیاز الدین خان کے نام ایک مکتوب میں اقبال لکھتے ہیں:’’میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریمﷺزندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا۔اس واسطے خاموش رہتا ہوں‘‘۔
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
سالارِ کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے
وہ داناے سبل، ختم الرسل، مولاے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیِ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰس، وہی طہٰ
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب!
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب!
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب!
شوکتِ سنجرؔ و سلیم ؔ تیرے جلال کی نمود!
فقر جنیدؔ و بایزیدؔ تیرا جمالِ بے نقاب!
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب! میرا سجود بھی حجاب!
تیری نگاہِ ناز سے، دونوں مراد پا گئے
عقل، غیاب و جستجو! عشق، حضور و اضطراب
ابوالا ثر حفیظ جالندھری
نام محمد حفیظ، ابوالاثر کنیت، حفیظ تخلص، ۱۴؍جنوری۱۹۰۰ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔مروجہ دینی تعلیم کے بعد اسکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔ مولانا غلام قادر گرامی جوان کے ہم وطن تھے، ان کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا۔ اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ ’’اعجاز‘‘ جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ان کا شروع سے اس وقت تک شعروادب اوڑھنا بچھونا تھا۔ رسالہ’’شباب‘‘میں ملازمت کرلی۔اس کے بعد ’’نونہال‘‘ اور ’’ہزار داستان‘‘ کی ادارت ان کے سپرد ہوئی۔ پھر ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ سے منسلک رہے۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور کے درباری شاعر رہے۔ قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ کو بہت شہر ت ملی۔ شاہنامۂ اسلام ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ حفیظ جالندھری کے بارے اظہر جاوید لکھتے ہیں: ’’جو کام حفیظ جالندھری نے شاعری سے لیا ہے وہ منفرد، یکتا اور سب سے بالا ہے۔ وہ شاعر تو بے مثل ہے ہی۔ حیرت اور مسرت کی بات ہے کہ ان کا اسلامی تاریخ کا مطالعہ بہت گہرا ہے اور انھوں نے اسے جس طرح ہضم کرکے شعروں میں پرویا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں، نہایت سادہ بیان لیکن پروقار اور معیاری۔ حفیظ کو جس طرح اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور ہندی پر عبور اور ان کے استعمال کا ادراک ہےیہ ہمارے اردو زبان کے اور خصوصاً حفیظ کے ہم عصروں میں سے بہت کم ہی کو نصیب ہوا ہے‘‘۔ان کا مشہور شعر ہے: ہم میں ہی تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تم کو آ سکے*تم نے ہمیں بھلا دیا، ہم نہ تمھیں بھلا سکے۔
غلاموں کو سریرِ سلطنت پر جس نے بٹھلایا
یتیموں کے سروں پر کر دیا اقبال کا سایا
گداؤں کو شہنشاہی کے قابل کر دیا جس نے
غرورِ نسل کا افسوں باطل کر دیا جس نے
وہ جس نے تخت اوندھے کر دیے شاہانِ جابر کے
بڑھائے مرتبے دنیا میں ہر انسانِ صابر کے
وہ جس کا ذکر ہوتا ہے، زمینوں آسمانوں میں
فرشتوں کی دعاؤں میں، مؤذن کی اذانوں میں
وہ جس کے معجزے نے نظمِ ہستی کو سنوارا ہے
جو بے یاروں کا یارا، بے سہاروں کا سہارا ہے
وہ نورِ لَم یزل جو باعثِ تخلیقِ عالم ہے
خدا کے بعد جس کا اِسمِ اعظم؛ اِسم اعظم ہے
ثنا خواں جس کا قرآں ہے، ثنا ہے جس کی قرآں میں
اُسی پر میرا ایماں ہے، وہی ہے میرے ایماں میں
سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات، فخرِ نوع انسانی
سلام اے ظلِ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی
سلام اے سرِّ وحدت، اے سراجِ بزمِ ایمانی
زہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آگئی گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربانی
سلام اے صاحبِ خلقِ عظیم، انساں کو سکھلا دے
یہی اعمالِ پاکیزہ، یہی اشغالِ روحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشہ، ترا جلوہ
تبسم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی
اگرچہ فقرُ فخری رتبہ ہے تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے فرِ کسرائی و خاقانی
زمانہ منتظر ہے اب نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی
زمیں کا گوشہ گوشہ نور سے معمور ہو جائے
ترے پرتو سے مل جائے ہر اک ذرے کو تابانی
حفیظِؔ بے نوا کیا ہے، گداےکوچۂ الفت
عقیدت کی جبیں تیری مروت سے ہے نورانی
ترا در ہو مرا سر ہو، مرا دل ہو ترا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی
سلام، اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام، اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
ماہر القادری
ماہر القادری ایک بہترین نثر نگار اور کلاسیکی طرز کے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ نام منظور حسین تھا۔ ۳۰ جولائی ۱۹۰۶ء کو کیسر کلاں ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۶ء میں علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد بجنور سے نکلنے والے مشہور اخبار ’’مدینہ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ ’’مدینہ‘‘ کے علاوہ اور بھی کئی اخباروں اور رسالوں کی ادارت کی۔۱۲ مئی ۱۹۷۸ء کو جدہ میں ایک مشاعرے کے دوران حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوا۔ مدحیہ شاعری میں سب سے زیادہ شہرت ان کے لکھے ہوئے سلام کو حاصل ہوئی جو منظرِ عام پر آتے ہی کلاسیک کا حصہ بن گیا۔قیامِ حیدرآباد کے دوران میں جب نواب بہادر یار جنگ کی تقاریر کا طوطی بولتا تھا، نواب صاحب نے قائد اعظم سے ان کا تعارف یوں کرایا: ’’میری تقریروں اور ان (ماہرالقادری) کی نظموں نے مسلمانانِ دکن میں بیداری پیدا کی ہے‘‘۔اعجاز رحمانی لکھتے ہیں:’’میں نےمولانا ماہر القادری کو تقریباً بارہ،تیرہ سال بہت قریب سے دیکھا، بیشتر محفلوں اور مشاعروں میں ساتھ ساتھ رہا۔ میں نے مولانا کی ذات کو ہر مقام پرمنفرد پایا۔ موصوف اپنی دانست میں نہ کبھی غلط بات کہتے تھے نہ سننے کے عادی تھے۔ ان کی صاف گوئی ایک مثال تھی۔ماہر صاحب سعودی عرب میں مقیم تھے۔ شاہِ سعود کی جانب سے شاہی ضیافت کا دعوت نامہ ملا۔ دعوت رات کے ایسے وقت تھی جس میں شرکت سے عشا کی نماز حرم شریف میں نہیں ملتی،اس لیے دعوت میں شرکت نہیں کی۔ استفسار پر مولانا نے بتایا کہ میں اگر دعوت میں شریک ہوتا تو ایک لاکھ نمازوں کے ثواب سے محروم ہوجاتا۔ رسالہ فاران ماہر القادری نمبر میں ایک صاحب نے واقعہ لکھا کہ جب ماہر صاحب نے داڑھی رکھنا شروع کی، اور ایک ملاقات میں میں نے داڑھی کی مبارکباد پیش کی تو آہستہ سے بولے: ’’آپ کی مبارکباد کا شکریہ تاہم مجھے اس بات کی ندامت ہے کہ زندگی کا ایک بڑا عرصہ تارکِ سنت بن کر گزرا‘‘۔۱۹۳۷ ء میں جب یہ (سلام) کتابی شکل میں شائع ہوئی، تو مولانا مناظر احسن گیلانی نے دیباچے میں لکھا تھا: ’’میں پیشین گوئی کرتا ہوں کہ یہ سلام کھٹمنڈو سے لے کر راس کماری تک مشہور ہوگا‘‘ اور یہ پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ ان کی ایک معرکہ آرا نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ انتہائی مقبول ہوئی۔
رسول مجتبی کہیے، محمد مصطفی کہیے
خدا کے بعد بس وہ ہیں، پھر اس کے بعد کیا کہیے
محمد کی نبوت دائرہ ہے نورِ وحدت کا
اسی کو ابتدا کہیے اسی کو انتہا کہیے
غبارِراہِ طیبہ سرمۂ چشمِ بصیرت ہے
یہی وہ خاک ہے جس خاک کو خاکِ شفا کہیے
مدینہ یاد آتا ہے تو پھر آنسو نہیں رکتے
مری آنکھوں کو ماہرؔ، چشمہ ٔ آب بقا کہیے
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اس پر جو امت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہ دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی
سلام اس پر کہ جس کا نام لے کر اس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تختِ قیصریت اوجِ دارائی
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
سلام اس ذات پر جس کے پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے
درود اس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اس پر، جسے شمعِ شبستان ازل کہیے
درود اس ذات پر فخرِ بنی آدم جسے کہیے
اقبال عظیم
نام اقبال عظیم اور اقبال تخلص تھا۔ ۸؍ جولائی ۱۹۱۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔آبائی وطن سہارن پور تھا۔ آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کا امتحان ۱۹۴۰ء میں پاس کیا۔ملازمت کا آغاز بہ حیثیتِ مدرس کیا۔ملازمت کے آخری پانچ برسوں میں صوبائی سکریٹریٹ نے ریسرچ آفیسر کی حیثیت سے ا ن کی خدمات حاصل کرلیں۔ اپریل ۱۹۷۰ء میں بینائی زائل ہونے کے باعث ڈھاکہ سے کراچی اپنے اعزہ کے پاس آگئے۔ اقبال عظیم نے شعروسخن میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اصلاح لی۔ ۲۲؍ستمبر۲۰۰۰ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ اردو شاعری کا آغاززمانۂ طالبِ علمی سے ہی کیا۔نعت نگاری میں آپ نے خصوصی مقام پایا۔ شاعری کا پہلا مجموعہ’’مضراب‘‘ ۱۹۷۵ء میں شایع ہوا۔اقبال عظیم کا دوسرا مجموعہ نعتوں پرمشتمل ’’قاب قوسین‘‘۱۹۷۷ء میں منظرِ عام پر آیا۔ عشقِ رسولﷺان کی ہر ہرنعت سے جھلکتا ہے۔ اقبال عظیم اپنے متعلق لکھتے ہیں: ’’دیارِ رسولﷺتک رسائی کو میں اپنی زندگی کا حاصل اور ذوقِ غزل گوئی کا سب سے بڑا انعام جانتا ہوں‘‘۔ ایک جگہ اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مدینے کی گلیوں کا کوئی گداگر مجھے آواز دے، میں اُڑ کر وہاں جا پہنچوں اور گنبدِ خضرا کے زیرِ سایہ بابِ جبریلؑ کی چوکھٹ پر بیٹھ کر ساری زندگی نعتِ رسولﷺکہتا رہوں، پڑھتا رہوں، کہتا رہوں، پڑھتا رہوں‘‘۔
قیامت کا اک دن معین ہے لیکن، ہمارے لیے ہر نفَس ہے قیامت
مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری، قیامت نہیں ہے، تو پھر اور کیا ہے
کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی، قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی
جو پوچھا ہے تم نے، کہ میں نذر کرنے، کو کیا لے گیا تھا، تو تفصیل سن لو
تھا نعتوں کا اک ہار، اشکوں کے موتی، درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی
دھنی اپنی قسمت کا، ہے تو وہی ہے، دیارِ نبی جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا، نگاہِ کرم جس پہ آقانے ڈالی
میں اُس آستانِ حرم کا گدا ہوں، جہاں سر جھکاتے ہیں شاہانِ عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا، مرا سر ہے شایانِ تاجِ بلالی
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
غلامانِ محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دلِ گرویدہ گرویدہ سرِ شوریدہ شوریدہ
مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ
وہی اقبال ؔ جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر، ہم بھی بے بس نہیں، بے سہارا نہیں
خود انھی کو پکاریں گے ہم دور سے، راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصدا بھٹک جائیں گے
ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے، ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا، بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
سر جھکانے کی فرصت ملے گی کِسے، خود ہی پلکوں سے سجدے ٹپک جائیں گے
نامِ آقا جہاں بھی لیا جائے گا، ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائے گا
نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا، ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے
اے مدینے کے زائر خدا کے لیے، داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
بات بڑھ جائے گی، دل تڑپ جائے گا، میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے
ان کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر، کس مسافر کو ہے کتنا شوقِ سفر
ہم کو اقبالؔ جب بھی اجازت ملی، ہم بھی آقا کے دربار تک جائیں گے
مظفر وارثی
نام محمد مظفر الدین احمد صدیقی اور تخلص مظفر ہے۔۲۳؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور میں بودوباش اختیار کی۔بہترین نعت گو کا ایوارڈ پاکستان ٹیلی وژن سے ۱۹۸۰ء میں حاصل کیا۔ غالب اکیڈمی دہلی کی جانب سے بہترین شاعر کا ’’افتخارِ غالب‘‘ ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ آپ ان خوش قسمت عشاقانِ نبیﷺ میں سے ہیں کہ جنھیں نعت گوئی کی ساتھ ساتھ ایک مسحور کن آواز اور دل نشین انداز بھی عطا ہوا۔ کافی عرصہ علیل رہنے کے بعد ۲۸جنوری ۲۰۱۱ء کو ۷۷ برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ آپ اردوشاعری کی تاریخ کا اہم ستون اورعہد حاضر میں اردو نعت کا انتہائی معتبر نام ہیں، تاہم آپ نے ہر صنفِ شعرغزل، نظم، حمد، نعت وسلام، گیت، قطعات اور ہائیکووغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کی شاعری اپنے منفرد اسلوب اور موضوعات کے تنوع کے باعث پیش منظر کے شاعروں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اردوکے نامورشاعرجناب احسان دانش نے لکھا تھا: ’’نئی طرز کے لکھنے والوں میں جدید غزل کا معیار مظفر وارثی کی غزل سے قائم ہوتا ہے‘‘۔ ان کی مشہور ترین نعت’’میرا پیمبر عظیم تر ہے‘‘ زبان زد عام ہے۔
یا رحمتہ اللعالمین
الہام جامہ ہے تیرا
قرآن عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں
یا رحمتہ اللعالمین
قبضہ تیری پرچھائیں کا
بینائی پر ادراک پر
پیروں کی جنبش خاک پر
اور آہٹیں افلاک پر
گردِ سفر تاروں کی ضَو
مرکب بُراقِ تیز رَو
سائیس جبرئیلِ امیں
یا رحمتہ اللعالمین
پھر گڈریوں کو لعل دے
جاں پتھروں میں ڈال دے
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
دعویٰ ہے تیری چاہ کا
اس اُمتِ گُم راہ کا
تیرے سوا کوئی نہیں
یا رحمتہ اللعالمین
مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب، آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی، خط بھی، دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے، خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سی جَو،ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائيں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
جو اپنا دامن لہو سے بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے، صادق ہے، معتبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے