سرورِ عالم سید ولدِ آدم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺکا بچپن مبارک سیرت نگاری کا اہم موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو اخص الخاص بنایا اور یہ منظور نہیں فرمایا کہ کوئی کسی بھی درجے میں آپﷺسے کسی بھی اعتبار سے بلند ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺکی تعلیم وتربیت کا ابتدا سے انتہا تک خود ہی انتظام فرمایا۔ دنیاکے کسی شخص کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آپﷺکا استاد ہے یا کسی نے آپ کی تربیت فرمائی۔ آپﷺکے والدِ ماجد کا انتقال آپ کی ولادت سے قبل ہی ہو گیا، اور چھے برس کی عمر میں والدہ ماجدہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اس کے بعد عموماً سیرت نگاروں نے یہ بات درج کی ہے کہ آپﷺکی پرورش آپ کے چچا اور دادا نے کی مگر حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ نے اس بارے میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ آپﷺکی پرورش انھوں نے نہیں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے براہ ِراست فرمائی، اور ساتھ ہی ساتھ آپﷺکی برکت سے ان سب کو بھی کئی نعمتوں سے نوازا۔
عرب میں یہ دستور تھا کہ شرفا اپنے شیر خوار بچوں کو ابتدا ہی سے دیہات میں بھیج دیتے تھے، تاکہ دیہات کی صاف وشفاف آب وہوا میں ان کی نشوونما ہو اور وہ فصیح زبان اور عرب کا اصلی تمدن سیکھ سکیں اور عربی خصوصیات ان سے علیحدہ نہ ہوں۔ یہاں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپﷺکو کسی کا احسان مند نہیں بنایا کہ کوئی آپ کی تربیت کرتا، بلکہ آپ کے لیے ان خاتون کا بندوبست فرمایا، جن کے حالات کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی سواری ایک لاغر اور دبلی گدھی اور ایک اونٹنی جس کا حال یہ تھا کہ اس سے ایک قطرہ دودھ نہیں نکلتا تھا، بھوک کی وجہ سے رات بھر سونہیں سکتے تھے، بچے کا یہ حال تھا کہ رات بھر بھوک کی وجہ سے روتا اور بلبلاتا۔ ان کا اپنا دودھ اتنا نہ تھا کہ ایک بچہ سیر ہوسکے۔ آپﷺکو تمام عورتوں پر پیش کیا گیا، لیکن یتیم ہونے کی وجہ سے کوئی آپ کو لے کر نہیں گیا، انھیں کیا معلوم تھا کہ وہ یتیم نہیں بلکہ دُرِّیتیم ہیں اور یہی وہ مبارک مولود ہیں، جن کے ہاتھوں میں قیصر وکسریٰ کے خزائن کی کنجیاں رکھی جانے والی ہیں، لہذا جب کسی نے آپ کو نہیں لیا تو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا آپ کو لے گئیں، کہ ان کو خالی ہاتھ جانا شاق معلوم ہوا۔ جیسے ہی آپﷺکو انھوں نے لیا، ان کی دنیا ہی تبدیل ہوگئی۔ برکتوں کے دروازے ان پر کھل گئے۔ اس مولودِ سعید کا گود میں لینا تھا کہ خشک پستان دودھ سے بھر گئے اور اتنا دودھ کہ آپﷺبھی سیر اب ہوئے اور آپ کےرضاعی بھائی بھی سیر ہوگئے۔ اونٹنی کا دودھ دوہنے کے لیے اٹھیں تو دیکھا کہ دودھ تھن سے بھرے ہوئے ہیں، تو انھوں نے اور ان کے شوہر نے بھی سیر ہوکر دودھ پیا۔ یہ تو ابتداتھی، پھر جتنا عرصہ آپ وہاں رہے، برکتیں نازل ہوتی رہیں، یہاں تک کہ دو سال بعد جب واپس لوٹانے کا وقت آیا تو انھوں نے آپﷺکی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سے درخواست کی کہ انھیں مزید میرے پاس رہنے دیا جائے۔
والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد آپﷺاپنے دادا کے پاس رہے اور ان کے انتقال کے بعد آپﷺکے چچا نے ان کو اپنی کفالت میں لیا۔ آپﷺجب ان حضرات کے پاس گئے، اس وقت ان کی معاشی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ وہ آپﷺکی کفالت کرتے، اس کے برعکس جو لوگ ان کی کفالت میں پہلے سے تھے ان کا معاشی بوجھ اٹھانا بھی ان کے لیے آسان نہ تھا۔ آپﷺکے چچا کے بھی معاشی حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ آپﷺکی پرورش کرتے، بلکہ وہ اپنے بچوں کی کفالت نہیں کر پا رہے تھے، جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپﷺکی پرورش میں دے دیا تھا ۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ جیسے آپﷺکی حفاظت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے ذمے لی تھی یعنی آپﷺکی اس دنیا میں آمد سے قبل مکے کی ابرہہ سے حفاظت فرمائی، یہود نے آپﷺکو زہر دیا تو اللہ نے آپﷺکی زہر کے اثر سے حفاظت فرمائی، اسی طرح اصلاً آپ ﷺکی معاشی کفالت اور پرورش کی ذمےداری بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے ذمے ہی لی تھی۔
یہ تو تھا نبی کریم ﷺکی پرورش کے بارے میں مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ کے نقطۂ نظر کا خلاصہ ، اب ہم گیلانی صاحب کے رسالے’’النبیّ الخاتم‘‘ سے ان کی متعلقہ عبارات نقل کرتے ہیں :
والدین کی وفات
پھر دیکھو! جس کا باپ مر جاتا ہے تو جھوٹی قوتوں کے ماننے والے گھبرا گھبرا کر چلاتے ہیں، واویلا مچاتے ہیں کہ اس بچے کو کون پالے گا؟ بے زوری کو زور کہنے والوں کا زور توڑنے کے لیے خود اس کے ساتھ یہ دیکھا گیا کہ پیدا ہونے کے بعد نہیں بلکہ اس سے پہلے کہ وہ آئے، اس میدان میں آئے جہاں جھوٹی قوتوں سے آزادی کا پرچم کھولا جائے گا، وہ دھوکے کی اس قوت سے آزاد ہو گیا جس کا نام دنیا نے باپ رکھا ہے۔ اور ٹھیک جس طرح ظہور سے پہلے اس کی ہستی نے اس آزادی کی شہادت ادا کی، نمودکے ساتھ ہی چند ہی دنوں کے بعد اس غلط بھروسے کا تکیہ بھی اس کے سرکے نیچے سے کھینچ لیا گیاجس کو ہم سب ماں کہتے ہیں۔
عبد المطلب کی کفالت اور ان کی وفات
جو اپنی جوانی کی قوتوں کو کھوکر بڑھاپے کی ہلی ہوئی دیوار کے سہارے زندگی کی نمائش ختم کررہا تھا، اس کی پیرانہ سری کے ساتھ آپ کے جدامجد نے چاہا تھا کہ سچی آزادی کی واشگاف ہونے والی حقیقت میں کچھ اپنی شرکت سے اشتباہ ڈال دیں، لیکن جو اپنے دعویٰ کی خود دلیل تھااس کی دلیل کمزور ہوجاتی اگر عین وقت پر عبدالمطلب کی سرپرستی کے فریب کا پردہ چاک نہ کردیا گیاہوتا، آخر وہ بھی چاک کردیاگیا۔
ابو طالب کی کفالت
حقیقت جتنے بیِّن اور شاندار چہرے کے ساتھ اب اس بے مادر پدر اور لا وارث یتیم کی پیشانی سے چمک رہی تھی، وہ نہ چمکتی، اگر کہیں بجائے بے مایہ و بے بضاعت عم محترم حضرت ابو طالب کے خدا نخواستہ آپ کی نگرانی مکہ کے ساہوکار عبدالعزیٰ المشهور بأبي لهب کے سپرد ہوتی، لیکن شیر کے بچے لومڑی کے بھٹوں میں نہیں پالے جاتے، جس قطرےکی قسمت میں موتی ہونا ہے وہ گھونگھوں اور مینڈکوں کے منھ میں نہیں گرتا۔
غریب ابو طالب کی کفالت سے اس کے برہانی وجود میں کیا ضعف پیدا ہوتا جس کے متعلق شاید بہتوں کو علم نہیں ہے کہ مدتوں ان کی یعنی ابو طالب کی گزران ان قراریط پر ہی تھی جو بکریوں اور اونٹوں کے چرانے کے صلے میں ان کا یتیم بھتیجا مکہ والوں سے مزدوری میں پاتا تھا۔ کیسی عجیب بات ہے جو اپنے حقیقی بچوں کی پرورش کا بوجھ بھی اپنے سر پر نہیں اٹھا سکتے تھے اور اسی لیے مجبورًا جعفر، عباس کی اور علی اس کی گود میں ڈال دیے گئے جن کی گود میں وہ پلنے کے لیے پیدا ہوئے تھے تو پھر یہ کیسا بے بنیاد وہم ہے کہ جس کو خود قدرت کا ہاتھ براہِ راست پال رہا تھا، اس کی پرورش کی تہمت اس کے سر جوڑی جاتی ہے جس کی، اگر سمجھا جائے تو شاید عمر کا ایک پیشتر حصّہ اسی کے بل بوتے پر گزرا جو ان کا پروردہ سمجھا جاتا ہے۔
دائی حلیمہ سعدیہ
فہموں کی قلابازیاں اس مسئلہ میں بھی تقریباً اسی قسم کی ہیں جو حلیمہ سعدیہ ؓ کےمتعلق سمجھ کے پھیر سے بلاوجہ پیدا ہوئیں۔آپ کو حلیمہ سعدیہ سے دودھ ملا؛ یا حلیمہ کی ا0ونٹنی، حلیمہ کی بکریوں، حلیمہ کے شوہر ، حلیمہ کے بچوں، بلکہ آخر میں قبیلے والوں تک کو، ان سب کو دودھ آپ ﷺہی کے ذریعے سے ملا؟ اس میں واقعہ کیا ہے اس کو سب جانتے ہیں، لیکن نہیں جانتے یانھیں جاننا چاہتے!!