﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ () فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾ سورۃ التوبہ: ۱۲۹–۱۲۸
’’(لوگو) تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے، جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے، جسے تمہاری بھلائی کی دھن لگی ہوئی ہے، جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق، نہایت مہربان ہے۔ پھر بھی اگر یہ لوگ منھ موڑیں تو (اے رسول ! ان سے) کہہ دو کہ : میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے‘‘۔
سورۂ توبہ میں لوگوں کے لیے باعثِ مشقت احکام ، جہاد و قتال اور انفاق کا بیان ہے ۔ رسول اللہ ﷺاور اہلِ ایمان، کفار کے مقابلے میں ان تقاضوں کی ادائی کی مشقتیں اٹھا رہے تھے، جبکہ منافقین رسول اللہ ﷺسے دھوکہ دہی میں مشغول تھے۔ اب سورت کے آخر میں رسول اللہ ﷺکی عظمت بیان کی گئی جس میں ایک طرف تو رسول اللہ ﷺکی تسلی کا سامان ہے اور دوسری طرف اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کی دلجوئی ہے کہ جس قائد اور مقتدا کی پیروی میں مشکلات جھیل رہے ہیں وہ عظیم تر ہیں اور آپ کی پیروی کے واسطے اس شرف میں حصے دار ہوں گے اور تیسری طرف کفار و منافقین کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ کس عالی شان شخصیتِ رسالت مآبﷺکی عداوت و غدر کے مرتکب ہو کر شرف ابدی سے محروم ہو رہے ہیں ۔
صفاتِ محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام
﴿مِنْ أَنْفُسِكُمْ﴾
’’ تمہی میں سے ہیں‘‘۔ عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قراءت میں یہ لفظ فا کے زبر کے ساتھ أَنْفَسِكُمْ بھی پڑھا گیا ہے ۔ یعنی آپ ﷺسب سے زیادہ نفیس ہیں۔مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺتمہارے ہم جنس یعنی بشر ہیں۔ پھر ہم نسل و ہم زباں ہیں اس لیے آپ کی باتوں کو سمجھنا اور نمونہ بنانا آسان ہے۔
آپ ﷺحسب و نسب میں بھی عالی شان ہیں۔ بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ: عرب کے ہر قبیلے سے قریش کا کوئی نہ کوئی تعلق بنتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنےفرمایا : میری پیدائش ، اسلام کی طرح کے نکاح کے ذریعے سے ہوئی نہ کہ جاہلیت کی بدکاری سے(سنن الکبری، بیہقی ) اور یہ بھی فرمایا کہ میرا نسب ، میرے ماں باپ سے لے کر آدم علیہ السلام تک جاہلیت کی بدکرداریوں سے محفوظ چلا آیا ہے۔(المعجم الاوسط ) پھر یہ کہ آپﷺسب سے زیادہ اللہ کے اطاعت گزار اور اخلاق میں سب سے اعلی و ارفع ہیں۔
﴿عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾
یعنی جو چیز آپ کے مخاطبین کے لیے باعثِ مشقت ہو وہ آپ پر بھی شاق گزرتی ہے۔ آپﷺکی ساری دعوت و شریعت باعثِ رحمت و دافعِ مضرت ہے۔آپﷺنے فرمایا: مجھے تو سہولت و کشادگی ہی کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور آپ نے اپنے لائے ہوئے دین کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ دین تو ہے ہی آسان ۔
﴿حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ﴾
رسول اللہ ﷺکی بے انتہا رغبت کو حرص سے تعبیر کیا گیا یعنی آپ لوگوں کی ہدایت اور دنیاوی اور اخروی فوائد بہم پہنچانے کے درپے رہتےہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا:جنت کےقریب لے جانے والی اور دوزخ سے دور کرنے والی ہر چیز میں نے تمہارے لیے واضح کر دی (المعجم الکبیر) اور آپﷺنے مثال دیتے ہوئے فرمایا: ’’تم پتنگوں کی طرح آگ میں گھسے جا رہے ہو اور میں تمہارے کپڑوں سے کھینچ کر تمہیں پیچھے ہٹا رہا ہوں‘‘۔(مسند احمد )
﴿بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾
یعنی آپ رحمت میں بہت شدید ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے یہاں اپنے ناموں میں سے دو نام(یعنی رؤوف اور رحیم) اپنے رسول کو عطا کیے۔ رافت و رحمت کا منبع ذاتِ باری تعالی ہے ﴿وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ﴾حدیث کے مطابق اللہ تعالی نے اپنی رحمت کا ایک حصہ اپنی تمام مخلوق میں تقسیم کر دیا، تو کہا جا سکتا ہے کہ اس رحمت میں سے ایک بڑا حصہ رحمتِ محمدی علی صاحبھا الصلاۃ و السلام ہی ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا ﴿فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ﴾ )آل عمران: 159 (’’اللہ کی رحمت کے سبب اے نبی! آپ ان لوگوں کے لیے نرم خو ہیں‘‘ ۔
اگلی آیت میں فرمایا کہ اگر رسول اللہ کی اتنی صفات جان کر بھی لوگ آپ پر فدا نہ ہوں تو اے نبی ان کی پروا نہ کریں، اللہ آپ کو کافی ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں آپ اسی پہ توکل کریں اور وہ عرش عظیم کا رب آپ کی پشت پناہی کرے گا تو آپ کو مخالفین و معاندین کی کوئی چال نقصان نہیں دے سکے گی۔
﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾
’’پھر بھی اگر یہ لوگ منھ موڑیں تو (اے رسول ! ان سے) کہہ دو کہ : میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے‘‘۔ رسول اللہ ﷺنے اس دعا کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص یہ دعا صبح و شام سات بار پڑھ لیا کرے تو اللہ اس کے دین و دنیا کی مشکلات کو دور فرما دے گا۔