لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

یسئلونک دارالافتاء، فقہ اکیڈمی

 یوٹیوب کی آمدن کا حکم

سوال: اگر کسی شخص نے صحت کے حوالے سے کوئی یوٹیوب چینل بنایا ہو جس سے لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے تو کیا ایسے یوٹیوب چینل سے حاصل ہونے والی اشتہارات کی آمدنی جائز ہے۔ اسی طرح کیا دینی مقاصد یعنی درس و تدریس کے لیے بنائے گئے یوٹیوب چینل سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز ہے؟مزید یہ کہ پردہ دار خواتین کا معلوماتی یوٹیوب چینل چلانا اور اس سےآمدنی حاصل کرنا کیا جائز ہے؟ برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔ جواب: یوٹیوب چینل پر اشتہارات لگا کر اس کے ذریعے آمدنی حاصل کرنے کا جواز درج ذیل شرائط پر موقوف ہے: الف۔ اشتہار میں کسی غیر شرعی کاروبار اور ناجائز امر کی ترویج نہ کی گئی ہو ۔ ب۔اشتہار میں غیر شرعی مواد جیسے موسیقی اور بے پردہ عورتیں نہ ہوں۔ لیکن مشاہدے اورتحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوٹیوب چینل کے مالک کو اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کا اشتہار چلانے پر یوٹیوب کو پابند کرے،اور عموماً جو اشتہارات چلائے جاتے ہیں ان میں جواز کی مندرجہ بالا شرائط کی پابندی نہیں کی جاتی،اور اکثر ناجائز امور پر مشتمل اشتہارات چلادیے جاتے ہیں، نیز دیکھنے والے کی پسند نا پسند کےمطابق،اسی طرح جس ملک میں موجود ہو وہاں رائج چیزوں کےا شتہارات بھی اُس کو دکھائے جاتے ہیں،جس میں مندرجہ بالا شرائط کی پابندی تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے،اس لیےیوٹیوب چینل پر اشتہارات لگوا کر اس سے حاصل ہونےو الی آمدنی سے اجتناب ضروری ہے۔ ﴿وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان﴾ (المائدة: ۲)(إن الإعانة على المعصية حرام مطلقا بنص القرآن، أعني قوله تعالى: ﴿ولا تعاونوا على الإثم والعدوان﴾ المائدة:2‘‘(بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 360) ’’صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله – عليه الصلاة والسلام – «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة، فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر،فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه – عليه الصلاة والسلام – أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة:349/6)’’ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، وإن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمية في بيعه مطلقا، إلا إذا تعین بیعه لمحظور، ولكن نظراً إلى معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا، فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح‘‘۔(فقه البیوع علی المذاهب الأربعة،المبحث الثالث فی أحکام المبیع والثمن،الشرط الثاني:۱/ ۳۲۵) ۱۹ جنوری ۲۰۲۴ء فتوی نمبر : ۷۲۸۹ واللہ اعلم بالصواب

لرننگ پورٹل