لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

کہیں تو بہرِ خدا آج ذکر ِیار چلے

ماہِ ربیع الاوّل کی مناسبت سے خصوصی تحریر جسے مکرر شائع کیا جا رہا ہے محبوب کی یاد، اپنے وجود میں کسی موسم کی محتاج ہو یا نہ ہو، اپنے وفور میں اوقات کی محتاج ضرور ہوتی ہے کہ بعض مواقیت، مواجیدِ عشق میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ آج ہم پھر ربیع الاوّل میں ہیں اور موضوع ذاتِ رسولﷺکے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ خورشیدِ نبوتِ کاملہ و خاتمہ کا اس عالمِ رنگ وبو میں ظہور، جمہور اہلِ اسلام کی رائے کے مطابق، ۱۲ ربیع الاوّل بروز پیر ہوا۔ علماے کرام نے اس حسنِ انتخاب کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تخلیقِ کائنات کے عظیم منصوبے میں پیر کا دن وہ تھا کہ جس میں روے ارضی پر درخت اور سبزے اگائے گئے جن پرحیاتِ ظاہری کا دارومدار ہے۔ اسی پیر کے دن رسول ِمقبولﷺکی پیدائش عمل میں لائی گئی کہ جن پر لوگوں کی روحانی و قلبی زندگی کا دارومدار تھا۔ ربیع بہار کو کہتے ہیں جس کی آب و ہوا معتدل ہوتی ہے اور اس میں اشجار و نبات میں روئیدگی اور نشو و نَما ظہور کرتی ہے اور لوگ مادی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پس ربیع الاوّل میں آپﷺکی پیدائش گویا اس طرف اشارہ ہے کہ آپ لوگوں کے لیے اعتدال و توسط کی فراخی اور مادی و معنوی بہار لے کر آ رہے ہیں۔ موسمِ ربیع و بہار قدرت کے احسانات، نعمتوں کی وسعت و بہتات اور ان چیزوں میں برکت و نشو و نَماکا مظہر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبیِ کریمﷺکی بعثت کو ایک احسان و امتنان کے طور پر ذکر کیا: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾ (آلِ عمران:۱۶۴) ’’یقینا ًاللہ نے احسان کیا اہلِ ایمان پر جب انھی میں سے ایک رسول کو ان کی جانب مبعوث فرمایا‘‘۔ جس طرح بہار کا موسم، پَژمُردَگی کا مانع ہے اسی طرح رسولِ کریمﷺکی ذات کو کفر سے ایک مانع کے طور پر ذکر کیا گیا: ﴿وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلى عَلَيْكُمْ آياتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ﴾ (آلِ عمران:۱۰۱) ’’تم کیونکر کفر کرتے ہو کہ جب کہ تم پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں‘‘۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں﴿كَيْفَ﴾ تعجب کے طور پر استعمال ہوا ہے کہ اللہ کی آیات کے بعد رسولِ کریمﷺکی موجودگی، کفر سے ایک قوی مانع اور شبہات کے دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسول اللہﷺکی موجودگی کے بعد بھی کوئی کفر کرے تو بڑی حیرانی کی بات ہے‘‘۔ ایک بار نبیِ کریمﷺنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: «وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ»’’تم کیسے ایمان نہ لاتے کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں‘‘۔ (الجامع الصحیح) جس طرح موسمِ بہار، پت جھڑ اور سرما کی سختیوں کا خاتمہ بن کر آتا ہے اسی طرح ذات ِ رسولﷺکو عذابِ الٰہی کے موانع میں ذکر کیا گیا، فرمایا: ﴿وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ (الانفال: ۳۳) ’’اور اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا اے نبی جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا جب تک وہ استغفار کرتے ہوں‘‘۔ آپﷺکی ہدایت یقینا ًبا برکت ہے لیکن آپ کی برکت ہدایت ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپﷺکی ذاتِ شریف بھی برکت کا ایک منبع ہے۔ اس بات کی وضاحت فرمانِ رسولﷺسے ہوتی ہے۔ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو اپنی ذات پر نفاق کا اندیشہ محسوس ہوا جس کی علامت انھوں نے یہ بتائی کہ آپﷺکی مجلس میں جو حضوری کی کیفیت ہوتی ہے وہ مال و عیال کے اشتغال میں جاتی رہتی ہے تو رسول اللہﷺنے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي، وَفِي الذِّكْرِ، لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً». ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم دائمی طور پر اس طرح ہو جاؤ جیسے میرے پاس ہوتے ہو اور جیسا کہ تم ذکر کی کیفیت میں ہوتے ہو تو فرشتے تمھارے بستروں اور راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ یہ تو وقت وقت کی بات ہوتی ہے‘‘۔(مسلم) تو رسول اللہﷺنے حضوری کی کیفیت میں معاون دو چیزوں کا ذکر کیا: ایک تو اپنی صحبت و محفل «مَا تَكُونُونَ عِنْدِي»اور دوسرے آپﷺ کا ذکر و تلقین «وَفِي الذِّكْرِ»،اسی کی تفصیل سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اس تبصرے میں ملتی ہے، فرماتے ہیں: لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِﷺ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَمَا نَفَضْنَا أَيْدِيَنَا عَنِ التُّرَابِ وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبنَا. ’’جس دن رسول اللہﷺمدینہ میں داخل ہوئے اس دن مدینہ کی ہر چیز روشن ہو گئی اور جس دن آپﷺکا انتقال ہوا، ہر چیز پر اندھیرا چھا گیا اور ہم نے آپﷺکو دفن کر کے اپنے ہاتھ تک نہیں جھاڑے تھے اور آپﷺ کے دفن میں مشغول تھے کہ ہمارے دلوں میں تغیر پیدا ہو گیا‘‘۔ صاحبِ مرقاۃ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: لِانْقِطَاعِ مَادَّةِ الْوَحْيِ، وَفُقْدَانِ بَرْكَةِ صُحْبَتِهِ وَأَثَرِ إِكْسِيرِ حُضُورِ حَضْرَتِهِ.’’کیفیتوں میں یہ فرق وحی کے انقطاع اور آپﷺکی صحبتِ بابرکت اور آپ کی اکسیرِ اثر موجودگی کے فقدان کی وجہ سے آیا تھا‘‘۔ اس میں کیا شک کہ رسول اللہﷺکی برکتوں کو بچشمِ سر دیکھنے کا موقع صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی کو ملا۔ اسی دیکھنے کی عظمت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فضیلتوں کے حامل بنے۔ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ان الفاظ میں: «طُوبَى لِمَنْ رَآنِي وَمَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي وَمَنْ رَأَى مَنْ رَأَى مَنْ رَآنِي». (المعجم الاوسط) ’’بشارت ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور اس کے لیے بھی کہ جس نے میرے دیکھنے والوں کو دیکھا اور اس کو بھی بشارت کہ جس نے میرے دیکھنے والوں کے دیکھنے والے کو دیکھا‘‘۔ خوش رہیں تیرے دیکھنے والے ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے لیکن خداے رحیم اور نبیِ کریمﷺ نے بعد والوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ انھیں بھی بشارتوں سے نوازا گیا۔ کہیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے بعد والوں کو اپنا بھائی قرار دیا گیا: «أَنْتُمْ أَصْحَابِي وَإِخْوَانِي الَّذِينَ آمَنُوا بِي وَلَمْ يَرَوْنِي». ’’تم میرے صحابی ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے لیکن انھوں نے مجھے دیکھا نہیں‘‘۔ (المعجم الاوسط) اور کہیں ان کے ایمان کو خوب صورت ایمان قرار دیا گیا: «أَعْجَبَ النَّاسِ إِيمَانًا، قَوْمٌ يَجِيئُونَ مِنْ بَعْدِي، يُؤْمِنُونَ بِي وَلَمْ يَرَوْنِي». (المعجم الکبیر) ’’لوگوں میں خوب صورت ترین ایمان والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے‘‘۔ ہدایت و ذاتِ محمدی علی صاحبہا الصلاۃ و السلام دونوں کی برکت کا تسلسل، رسولِ پاکﷺکی حیات ِ دنیوی کے بعد بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں حرف ِآخر آپﷺکا یہ فرمان ہے: «حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُونَ وَيُحَدَّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ يُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ، فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ». (کشف الاستار زوائد مسند البزار) ’’میری زندگی تمھارے لیے بہتر ہے، تم مجھ سے (مشکلات و مسائل) بیان کرتے ہو اور (میری طرف سے) تمھارے لیے حل بیان کیے جاتے ہیں۔ اور میری وفات بھی تمھارے لیے بہتر ہے کہ تمھارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، جو اچھے ہوتے ہیں ان پر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور جو اعمال برے ہوں ان پر میں اللہ کی جناب میں تمھارے لیے استغفار کرتا ہوں‘‘۔

لرننگ پورٹل