لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

جمعرات 16 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 19 ستمبر 2024

عالمِ عرب کی اسلامی تحریکیں اور مستشرقین

حسن البنا شہید کی قائم کردہ اخوان المسلمین عالمِ عرب کی ایک نمایاں اور مؤثر اسلامی تحریک ہے، اس کی جڑیں پورے عالمِ عرب میں بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ علمی، سماجی اور جہادی میدانوں میں اس نے تاریخی کارنامے رقم کیے ہیں۔ سیاست میں بھی یہ متعدد ممالک میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ استعمار کے خلاف ہر معرکے میں چاہے وہ عالمِ عرب سے برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے خاتمے کی جدو جہد ہو یا صیہونی ریاست کی ناک میں نکیل ڈالنا ہو، اس نے ہر اوَل دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ گذَشتہ صدی میں سوشل ازم کے مقابلے میں بھی اس کا کردار اہمیت کا حامل تھا۔ سوشل ازم کے مقابلے میں عرب ممالک اور کسی حد تک امریکہ کو بھی اخوان کا ساتھ دینے کی ضرورت تھی، اس لیے وہ عرب ممالک جو امریکی کیمپ میں تھے اخوانيوں کے ان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔ اور جن عرب ممالک میں سوشلسٹ جماعتوں کا قبضہ تھا، وہاں اخوانی ان کے ظلم وستم کا نشانہ بنے۔ اس زمانے میں اخوانی قیادت ان عرب ممالک میں پناہ گزین رہی جو امریکی کیمپ میں تھے۔ مگر کویت عراق جنگ کے بعد یہ صورتِ حال برقرار نہ رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کی عام اسلامی تحریکوں طرح مصر کی اخوان المسلمین نے بھی عراق کویت جنگ کی آڑ میں آئی ہوئی امریکی افواج کی مخالفت کرتے ہوئے عراق کی حمایت کی اور عالمِ عرب سے امریکی افواج کے انخلا کے لیے مہم شروع کی۔ اس کے بعد ان ممالک میں بھی اخوانیوں کے لیے حالات سازگار نہ رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کویت سمیت متعدد ممالک کے اخوانیوں نے اپنے اپنے ممالک میں الگ ناموں سے اپنی شناخت متعارف کرائی، اور صرف نظریاتی طور پر اخوان کی نسبت پر اکتفا کیا۔ پھر جب سوشل ازم کا خطرہ ٹل گیا تو اخوانیوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہونے لگا اور رہی سہی کسر عرب بہار نے پوری کر دی۔

اسلامی تحریکیں دورِ جدید میں احیاے اسلام کے لیے اپنے فعال کردار کی بنا پر مستشرقین کی توجہ کا بھی مرکز رہی ہیں۔ اخوان المسلمین اس میں سرِفہرست ہے۔ اس تحریک کا خصوصی مطالعہ کرنے والوں میں سے بعض مشہور نام یہ ہیں: پروفیسر کیری روسفیسکی ویکام (Carrie Rosefsky Wickham)، منا غباشی، ماسان براون اور حسام تمام وغیرہ۔ عام طور پر مستشرقین اسلامی تحریکوں کو اعتدال پسند اور انتہاپسند کے خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں جہادی تنظیموں کو انتہاپسند جبکہ سیاسی اور دعوتی میدانوں میں سرگرم تحریکوں کو اعتدال پسند قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ تاریخی طور پر ان کی نظریاتی اور عملی تبدیلیوں کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔ امریکی ریاست جارجیا کے ایموری یونیورسٹی میں سیاسیات کی معاون پروفیسر کیری روسفیسکی ویکام (Carrie Rosefsky Wickham) نے تقریباً دو عشرے اخوان المسلمین کی تحریک کے متعلق تحقیق میں گزارے۔ انھوں نے بریسٹن یونیورسٹی سے اپنا پی ایچ ڈی مقالہ اخوان المسلمین پر لکھا اور 2002ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، جس کے لیے انھوں نے کئی برس مصر میں گزارے۔ اس کے بعد انھوں نے اخوان پر ’’اخوان المسلمین:اسلامی تحریک کا ارتقا‘‘ (The Muslim Brotherhood: Evolution of an Islamist Movement) کے عنوان سے دوسری کتاب لکھی، جس کی تیاری میں انھوں نے نو سال صرف کیے۔ اس کتاب میں انھوں نے اسلامی تحریکوں کو دیکھنے کا تناظر ہی بدل دیا۔ وہ یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ اسلامی تحریکوں میں اعتدال پسندی سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ بھی مغربی معیار کے مطابق لبرل اور جمہوری موقف اختیار کرتی ہیں یا محض اسلحہ نہیں اٹھاتیں اور سیاست میں حصہ لیتی ہیں؟ ویکام چار الگ معیارات قائم کر کے اسلامی تحریکوں کی تاریخی تبدیلیوں کا جائزہ لیتی ہیں:

۱) اسلامی تحریکوں کا دینی نصوص کی تفسیر و تشریح میں انفرادی آرا اختیار کرنے کے بارے میں موقف کیا ہے؟

2) دوسروں کی آرا قبول کرنے اور اقداری اور ثقافتی معاملات میں افراد پر خاص ہیئت لازم کرنے کے بارے میں ان تحریکوں کی کیا آرا ہیں؟

3)ان تحریکوں کا سیاسی رواداری، انفرادی آزادی اور انفرادی طرزِ حیات اپنانے کے بارے میں کیا موقف ہے؟

4)ان تحریکوں کا وطنیت اور مساوات کے بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے، چاہے وہ مرد و خواتین سے متعلق ہو یا مسلم اور غیر مسلم سے متعلق، خاص طور پر شخصی معاملات میں جیسے نکاح و طلاق اور میراث وغیرہ۔

ویکام جس طرح اسلامی تحریکوں کا تاریخی طور پر فکری اور سماجی تبدیلیوں کا جائزہ لیتی ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ مغرب کس باریک بینی اور محنت سے ہمارے حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور پھر ظاہر ہے پالیسیاں بھی اسی حساب سے بنتی ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں غورِ طلب امر یہ ہے کہ وہ ممالک جنھوں نے مغرب کی نظر میں اپنے آپ کو قابلِ قبول بنانے کے لیے اسلام کا جدید چہرہ پیش کرنے کا راستہ اپنایا ہے، اور اپنے اقتدار بچانے کی خاطر اخوان المسلمین اور دیگر اسلامی تحریکوں کے برعکس امریکہ اور اسرائیل سے بنا کر رکھنے کی پالیسی اختیار کی ہے، ان کا یہ ماڈل بھی کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مغرب کے یہاں ہمارے معتدل اور غیر معتدل یا دوسرے لفظوں میں قابلِ قبول اور ناقابلِ قبول ہونے کا معیار کیا ہے، اس کا اندازہ مذکورہ بالا سطور سے کیا جا سکتا ہے۔ لہذا ہمارے اہلِ تجدد اور حکمران چاہے کتنا ہی منظورِ نظر بننے کی کوشش کریں جب تک وہ مغرب کے طے کردہ معیارات پر پورے نہیں اتریں گے اور مسلمان معاشروں کو مکمّل طور پر تحلیل کر کے مغربی تہذیب میں ضم میں نہیں کریں گے مغرب کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔ مگر کیا ہمارے اہلِ دانش اور اربابِ اقتدار اس کے لیے تیار ہیں؟

لرننگ پورٹل