مبارک ثانی کیس اور سپریم کورٹ کا فیصلہ: دیر آید درست آید
ختمِ نبوت یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، آپﷺ کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول کسی بھی شکل میں مبعوث نہیں ہو سکتا، یہ اسلام کے ان اساسی عقائد میں سے ایک ہے جس میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایا جاتا۔ اور یہ عقیدہ محکم نصوصِ قرآنی، احادیثِ متواترہ اور اجماعِ امّت سے ثابت ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال سے پوری امّت اسی عقیدے پر گامزن ہے اور اس کا ہر فرد عقیدۂ ختمِ نبوّت کے تحفظ کی نگہبانی اپنا دینی فریضہ تصور کرتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ انھوں نے کسی بھی دور میں اس فریضے سے غفلت نہیں برتی۔ جب بھی کسی زمانے میں کسی جھوٹے نبی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو امت نے نہ صرف یہ کہ اسے مسترد کیا بلکہ ایسے جھوٹے نبیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا۔ کیونکہ ختمِ نبوّت کے عقیدے کا منکر نہ صرف دائرۂ اسلام سے خارج ہے بلکہ ایسا شخص زندیق کہلاتا ہے، جس کا شریعتِ اسلامی میں حکم یہ ہے کہ اسلامی حکومت اسے سزاے موت دےگی۔ اس کی مثال صدرِ اسلام میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی جیسے جھوٹے نبی ہیں، جن کے وجودِ نا مسعود سے زمین پاک کر دی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیدۂ ختمِ نبوت کا انکار صرف کفر نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کی پوری عمارت ڈھانے کے مترادف ہے۔
جب اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مغربی سامراج نے برِّصغیر پر قبضہ کیا تو فطری طور پر مسلمان قوم ان کا ہدف بنی کیونکہ یہاں وہ اقتدار مسلمانوں سے چھین چکے تھے۔ چنانچہ اسلامی معاشرت کی بیخ کنی کے لیے انھوں نے بڑا زور لگایا۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے مسلمانوں کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنے اور انھیں آپس میں تقسیم کرنے کی پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں مسلمان مختلف مسلکی گروہوں میں بٹ گئے۔ پھر اسی پر بس نہیں کیا اور یہاں ایک جھوٹے شخص مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں مدعی ِ نبوت کھڑا کیا، جس نےپہلے مہدی، پھر مسیح اور بعد میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس جھوٹے دعوے کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے پیروکاروں کو مسلمان اور دیگر تمام مسلمانوں کو کافر کہلوانے پر بھی اصرار کیا۔ چنانچہ ملتِ اسلامیہ نے تمام اختلافات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اس جھوٹے شخص کا تعاقب کیا۔ انگریز دورِ حکومت میں محدّثِ کبیر حضرت مولانا انور شاہ کشمیری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، پیر مہر علی شاہ، علامہ محمد اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا سید سلیمان ندوی رحمہم اللہ جیسے اکابرِ امّت نے اس فتنے کی سنگینی اور اس کے عواقب و نتائج کا احساس کیا، اور وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے علیٰحدہ قوم قرار دیا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے عدالتوں میں قانونی جنگ بھی لڑی اور اس موضوع پر گراں قدر کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ پھر جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کئی تحریکیں چلیں اور ہزاروں جان نثارانِ ختمِ نبوّت نے اس راہ میں جانیں قربان کیں۔ بالآخر ان عظیم قربانیوں کی بدولت ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس موضوع پر طویل مباحثہ ہوا اور قادیانیوں کو اس میں اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا۔ چنانچہ طویل جرح، سوال و جواب اور غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ پھر صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء میں آرڈیننس پاس کیا جس میں قادیانیوں پر اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے اور اسلامی شعائر اختیار کرنے پر پابندی لگائی۔ اس کے بعد جب بھی آئین میں ترامیم کی گئیں تو پارلیمنٹ نے ختمِ نبوت سے متعلق دفعات کو اپنی اصل شکل میں بحال رکھا۔ بعد ازاں پاکستان کے ساتھ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں بھی قادیانیوں کو ملتِ اسلامیہ سے الگ تصور کیا گیا۔ باوجود اس کے کہ قادیانی زندیق ہیں اور زندیق سزاے موت کا مستحق ہوتا ہے، پھر بھی پاکستان کے آئین میں انھیں رعایت دے کر غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کیا گیا اور دیگر اقلیتوں کی طرح ان کے حقوق کا بھی تحفظ کیا گیا۔ مگر قادیانی ملتِ اسلامیہ کے اس اجتماعی فیصلے پر راضی نہیں ہیں اور آئینِ پاکستان کی ان دفعات کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ بین الاقوامی سپورٹ کے ذریعے آئینِ پاکستان کی ان دفعات پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستانی قوم نے ان کی یہ ناپاک کوششوں کو ہمیشہ ناکام بنایا ہے۔ لہذا ختمِ نبوّت کا عقیدہ جہاں اسلام کے اساسی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے وہاں یہ واحد مسئلہ ہے جس کے متعلق پاکستان کے تمام طبقات باہم متحدو متفق ہیں۔ جب بھی یہ مسئلہ اٹھتاہے وہ آپس کے تمام اختلافات بھلا کر یک زبان ہو جاتے ہیں۔ اس سے قادیانیوں کے متعلق پاکستانی قوم کی حساسیت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی آئین میں ترمیم کا موقع آیا ہو یا قادیانیوں کے متعلق اعلیٰ عدالتوں میں کوئی مقدمہ چل رہا ہو تو پاکستان کے عوام کی نظریں اسی طرف لگی رہتی ہیں کہ کہیں کسی بیرونی دباؤ کے تحت ان دفعات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے یا کوئی ایسی عدالتی تشریح سامنے نہ آئے جس سے یہ مسئلہ پھر سے اُٹھ جائے۔ چنانچہ ان ہی مسائل میں سے ایک مبارک ثانی کیس بھی ہے جس کی تفصیلات یہاں پیشِ خدمت ہیں:
پانچ سال قبل ۷ مارچ ۲۰۱۹ء کو چناب نگر میں قادیانی کمیونٹی کے کچھ افراد نے ایک تعلیمی ادارے میں قرآن کی تحریف شدہ تفسیر ’’تفسیرِ صغیر‘‘ کو بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا۔ جب تحریکِ ختمِ نبوّت سے وابستہ حضرات کو اس واقعے کا پتا چلا تو انھوں نے تین سال کی کوششوں کے بعد۶، دسمبر ۲۰۲۲ء کو اس مبینہ جرم کے مرتکبین کے خلاف پنجاب قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ ء، تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۵ بی، اور دفعہ ۲۹۸ سی کے تحت مقدمہ درج کیا۔ چنانچہ ۷،جنوری ۲۰۲۳ ء کو مذکورہ بالا قانونی شقوں کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں مبارک ثانی نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل دائر کی گئی جو پہلے ایڈیشنل جج اور پھر لاہور ہائیکورٹ نے مسترد کر دی۔ چنانچہ اس کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔ ملزم کے وکیل کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ جب مبینہ ملزم نے یہ جرم کیا تھا اس وقت پنجاب قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ ء (اگر کوئی غیر مسلم شخص قرآنِ کریم کی کسی آیت کا ایسا ترجمہ یا ایسی تفسیر کرتا ہے جو مسلمانوں کے عقائد سے متصادم ہو، تو ایسی کتاب کا لکھنے والا، پرنٹ کرنے یا چھاپنے والا، اور ریکارڈ کرنے والا دفعہ ۹ کے تحت سزا کا مستحق ہوگا) کے تحت کسی متنازع کتاب کو تقسیم کرنا جرم تھا ہی نہیں، اس لیے ملزم پر اس کے متعلق فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ ملزم کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ ملزم پر تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۸سی اور ۲۹۵ بی کا اطلاق بھی نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ ایف آئی آر کے مندرجات اور چالان کے مطابق نہیں۔ ملزم کے وکیل کے مذکورہ موقف کے بعد سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل ۱۲ کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ صادر کیا کہ کسی شخص پر کسی ایسے جرم کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا جو اس وقت جرم تھا ہی نہیں جب وہ اس کا مرتکب ہو رہا تھا۔ اسی طرح عدالت نے مدعی کے وکیل سے کہا کہ ایف آئی آر اور چالان میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جس سے ملزم پر مذکورہ دفعات کا اطلاق ہوتا ہو۔ لہذا کمزور ایف آئی آر او ر تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ملزم کی ضمانت منظور کر لی، اور کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے ملزم پر جو فردِ جرم عائد کی ہے اس میں سے مذکورہ دفعات خارج کی جاتی ہیں۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی معاملات سے متعلق کیس دیکھتے ہوئے عدالتوں کو انتہائی احتیاط برتنی چاہیے، یہ بھی کہا کہ اسلام میں جبر نہیں ہے کیونکہ یہ فلسفۂ احتساب کے خلاف ہے۔ عدالت نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۲۰، اے نے ہر شہری کو کوئی بھی مذہب اپنانے، عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیا ہے۔ اسی آرٹیکل کی شق بی کے تحت ہر مذہبی اقلیت کو مذہبی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 22 میں کسی بھی مذہبی فرقے کو اپنے فرقے کے طلبہ کےلیے قائم کردہ تعلیمی اداروں کے اندر اپنی مذہبی تعلیمات دینے کا حق دیا گیا ہے۔ لہذا یہ ایسے بنیادی حقوق ہیں جو سلب نہیں کیے جا سکتے۔
عدالت کے اس فیصلے اور اس کے ضمن میں مذکوہ ریمارکس نے کافی الجھنیں پیدا کیں اور عام طور پر اس کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ سپریم کورٹ نے قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت دے دی ہے۔ کیونکہ عدالت نے یہاں عام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر مشتمل دفعات کے ضمن میں قادیانیوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے دے کر تعزیرات پاکستان دفعہ ۲۹۸ سی میں قادیانیوں کی دیگر اقلیتوں سے الگ حیثیت سے صرفِ نظر کیا۔ اگر ہم جائزہ لیں تو دفعہ 298 سی عام اقلیتوں کے برعکس خصوصی طور پر قادیانیوں کی حیثیت واضح کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ: ’’قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی بھی فرد جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا ہے، یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، خواہ الفاظ کے ذریعے، یا زبانی یا تحریری، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے، اسے ایک مدت کے لیے قید کی سزا دی جائےگی۔ اس میں تین سال تک توسیع ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو گا‘‘۔ اتنے واضح آئینی نقطۂ نظر کے باوجود عدالتی فیصلے سے ایسا محسوس ہوا کہ سپریم کورٹ قادیانیوں کو دیگر اقلیتوں کی طرح باور کراتی ہے۔ بہرحال، اس فیصلے کے قانونی پہلو جو بھی تھے مگر عدالت کے ان غیر ذمے دارانہ ریمارکس نے یہ شبہہ ضرور پیدا کیا کہ خدانخواستہ مستقبل میں یہ ریمارکس غلط انداز میں عدالتی نظیر کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پوری قوم کو مایوس کیا، اور اس کیس کی حساسیت کی وجہ سے مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے علماے کرام نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی۔ اس کے ساتھ سپریم کورٹ کی درخواست پر تمام مکاتبِ فکر کے معتبر علماے کرام نےاپنا متفقہ موقف بھی سپریم کورٹ میں پیش کیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ۲۹ مئی ۲۰۲۴ء کو اپنے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے ۲۰۱۹ء میں جو ’’تفسیرِ صغیر‘‘ تقسیم کی وہ پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے، لیکن یہ قانون ۲۰۲۱ ء میں لاگو ہوا، جبکہ ۲۰۱۹ء میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا۔ کیونکہ پنجاب قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کے تحت صرف لکھنے والا، پرنٹ کرنے والا، اور شائع کرنے والا مجرم تھا، جبکہ تقسیم کرنے والا اس قانون کے تحت مجرم نہیں تھا۔ لہذا، ۲۰۱۹ء میں ہونے والے واقعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021ء میں بطورِ جرم قانون میں شامل ہوئیں۔ عدالت کے مذکورہ فیصلے میں قانونی نکات کی تشریح میں ماہرینِ قانون اور علماے کرام نے کافی تسامحات کی نشاندہی کی اور ان غلط عدالتی تشریحات نے معاملے کی حساسیت میں مزید اضافہ کیا اور اس کے نتیجے میں پوری قوم میں اشتعال پیدا ہوا۔ چنانچہ یہ معاملہ قومی اسمبلی تک پہنچا اور قومی اسمبلی کے اراکین نے متفقہ طور پر اس فیصلے پر عدمِ اطمینان ظاہر کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اسے قائمہ کمیٹی براے قانون و انصاف میں زیرِ بحث لانے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں تمام جماعتوں نے متفقہ موقف اختیار کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے علماے کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے ساتھ سپریم کورٹ میں اضافی نظر ِثانی کی درخواست دائر کی جائے۔ لہذا، ۱۷، اگست کو یہ درخواست دائر کی گئی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی۔ ۲۲، اگست کو چیف جسٹس پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی اور تمام مکاتبِ فکر کے جید علماے کرام کو دعوت دی تاکہ وہ شرعی رہنمائی کریں۔ سپریم کورٹ کی دعوت پر تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماے کرام، دینی جماعتوں کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان عدالت میں حاضر ہوئے۔ ان میں جمعیت علماے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن، مولانا محمدطیب قریشی، مفتی شیرمحمد خان، صاحب زادہ ابو الخیر محمد زبیر اور مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور دیگر علماے کرام شامل تھے۔ مفتی منیب الرحمٰن، حافظ نعیم الرحمٰن، پروفیسر ساجد میر اور مولانا اعجاز مصطفیٰ نے اپنے نمائندے بھیج دیے۔ جبکہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم ترکیہ کے سفر پر ہونے کی وجہ سے اور علامہ جواد نقوی لاہور سے بذریعۂ ویڈیو لنک شریک ہوئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تمام علماے کرام کی رہنمائی پر ان کا شکریہ ادا کیا، اور خاص طور پر شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں انسان ہوں، مجھ سے غلطی ہو سکتی ہے، آپ حضرات فیصلے میں غلطی کی نشاندہی کریں، مجھے اس کی اصلاح کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام صاحب دامت برکاتہم نے فیصلے کے متنازع پیراگراف ۷ اور ۴۲ کی نشاندہی کی جس سے تمام علماے کرام نے اتفاق کیا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے فرمایا کہ پیرا گراف سات میں لکھا ہے کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا۔ اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ قادیانی اپنے نجی تعلیمی ادارے بنا سکتے ہیں اور ان میں اپنے فرقے کی تعلیم دے سکتے ہیں اور اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح فیصلے کے پیراگراف بیالیس میں لکھا گیا ہے کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں (قادیانی گروہ اور لاہوری گروہ) کو غیرِ مسلم قرار دینے کے بعد انھیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال کریں گے اور نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔ اس پیراگراف میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کی اجازت دی گئی ہے۔ ان دونوں پیراگرافوں سے جو متبادر ہو رہا ہے وہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۸ سی کے خلاف ہے، جو قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں اور اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ شیخ الاسلام صاحب دامت برکاتہم نے تجویز دی کہ یہ پیراگراف اپنے متعلقات سمیت مکمل حذف کیے جائیں، اور پیراگراف ۴۹ کی ایک عبارت کو اس عبارت سے تبدیل کیا جائے: ’’جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ پیشِ نظر مقدمے کے ملزَم پر مجموعی تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵بی اور سی، اور ۲۹۸بی اور سی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، ضمانت کے اس مقدمے میں جبکہ ملزَم کا ٹرائل ابھی باقی ہے ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی فیصلہ دیں۔ چونکہ ٹرائل کورٹ میں ابھی مقدمہ چل رہا ہے، ٹرائل کورٹ کو چاہیے کہ ہمارے فیصلے مورخہ ۶، فروری سے متاثر ہوئے بغیر مقدمے کی کارروائی جاری رکھے اور تمام حالاتِ مقدمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا خالص میرٹ پر فیصلہ کرے کہ ملزم پر مذکورہ دفعات کے تحت جرم بنتا ہے یا نہیں۔ اور اس طرح نظرِ ثانی کی تمام درخواستیں جزوی طور پر منظور کی جاتی ہیں‘‘۔ جناب چیف جسٹس نے مذکورہ عبارت کا متن طلب کیا، اور علماے کرام اور قانونی ماہرین کی تجاویز سننے کے بعد مبارک ثانی کیس میں ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیراگراف ۷ اور ۴۲ کو حذف کرنے کا حکم دے دیا۔ اور ساتھ یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کیس کے حذف شدہ پیراگراف کو کسی بھی دوسرے کیس میں بطورِ عدالتی نظیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ بھی کہا کہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق صرف دو صورتوں میں ملیں گے یا تو وہ خود کو غیر مسلم تصور کر لیں یا پھر ختمِ نبوّت کو مان لیں۔
بہرحال، چیف جسٹس نے فیصلے میں موجود غلطیوں کو نہ صرف کھلے دل سے تسلیم کرتےہوئے ان کی تصحیح کی بلکہ انھوں نے ایک انتہائی حساس معاملے کو جو پورے ملک میں بے چینی کا باعث بنا ہوا تھا بڑی خوش اسلوبی سے حل کر دیا۔ چنانچہ پوری قوم نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تحسین کی اور جمعیت علماے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف جسٹس کے مثبت رویے پر انھیں داد دی اور جمعے کو یومِ تشکر منانے کا اعلان کیا۔ اسی طرح انھوں نے ۷،ستمبر کو ختمِ نبوّت کو آئین کا حصہ بنتے ہوئے پچاس سال پورے ہونے پر مینارِ پاکستان لاہور کے مقام پر گولڈن جوبلی منانے کا بھی اعلان کیا۔