ماہِ ستمبر اور ستم گر
بچپن میں کہیں ایک نظم پڑھی تھی جس کا پہلا مصرع اب تک یاد ہے: ’’ستمبر کے مہینے میں ستم گر یاد آتے ہیں‘‘، بات ایسی ہی ہے کہ ستمبر کا مہینا اہلِ پاکستان کو ستم گروں کے بالمقابل شان دار فتح کی یاد دلاتا ہے۔ ان ستم گروں کا ایک گروہ، وہ تھا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا اور طاقت کے نشے سے مخمور ہو کر بدمست ہاتھی کی طرح پاک وطن کی سرحدوں کو روندتا اور پھاندتا ہوا لاہور پر قبضے کی امنگ جگائے یلغار کرتا ہوا آگے بڑھا۔ ان کی آمد سے یوں لگتا تھا کہ بپھرے ہوئے ہاتھیوں کا غول یک لخت دوڑ لگا دے۔ ایک طرف تاحدِّ نگاہ ٹینک تھے اور دوسری طرف پیادہ فوج، لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت سے کافروں کا لشکر شکست کی کالک منھ پر مل کر فتح کی حسرت دل میں لیے بھاگ کھڑا ہوا:
کس بانکپن سے آئے تھے سرکار دیکھنا
کس کی گلی میں آ کے ہوئے خوار دیکھنا
۶، ستمبر ۱۹۶۵ء کا یہ معرکہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس کی یاد میں ۶، ستمبر کو یومِ دفاعِ پاکستان منایا جاتا ہے۔ بلاشبہہ اسلامی ریاست کا یہ دفاع ہمارے مجاہدین کا غیر معمولی کارنامہ تھا اور ان کی حوصلہ افزائی میں پاکستان کے عوام کے جذبات، علما و مشائخ کا دستِ شفقت، اساتذہ و معلّمین کی تربیت، صحافیوں اور ادیبوں کی نگارشات، غرض یہ کہ معاشرے کے تمام ہی طبقات کا کردار قابلِ رشک تھا۔
اسی ستمبر کے مہینے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جملہ مکاتب کے علماے کرام اور ان کی پیروی میں مسلمانانِ پاکستان نے ستم گروں کے ایک اور ٹولے کو شکستِ فاش دے کر ناقابلِ فراموش کارنامہ سر انجام دیا۔ یہ عظیم الشان فتح قادیونیوں کے خلاف تھی جنھوں نے اسلام کی نظریاتی سرحدوں میں اہم ترین سرحد پر حملہ کیا اور ختمِ نبوت کا انکار کرتے ہوئے دجال اور کذاب شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی قرار دیا ہے۔ ۷، ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی میں طویل مکالمے اور دلائل کے تبادلے کے بعد یہ طے کیا گیا کہ قادیانی (چاہے وہ خود کو احمدی، لاہوری یا کسی نام سے موسوم کریں) کافر ہیں اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں دوسری ترمیم کے ذریعے اس فیصلے کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وزیرِ اعظم، اراکینِ اسمبلی، پاکستان کے عوام اور بالخصوص تمام مکاتبِ فکر کے علماے کرام نے متفقہ طور پر ایسا اقدام کیا جس سے کفار کی سازشیں نہ صرف خاک میں مل گئیں بلکہ ان کی کئی دہائیوں کی جد و جہد پر پانی پھر گیا۔ صد شکر کہ یہ سعادت مسلمانِ پاکستان کے حصے میں لکھی تھی۔
اسی پس منظر میں مبارک ثانی کیس میں عدالت کے حالیہ فیصلے کا بھی خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اوّلاً تو علماے کرام ترحیب و تبریک کے مستحق ہیں کہ انھوں نے کاہشیں اٹھائیں، کاوشیں دکھائیں اور یہ میدان ان کے ہاتھ رہا۔ بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب دام ظلہ کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ کبرِ سنی کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن صاحب بنفسِ نفیس جبکہ حضرت شیخ الاسلام صاحب ترکیہ سے وڈیو لنک کے ذریعے عدالتِ عظمیٰ میں اپنے دلائل کے ساتھ پیش ہوئے۔ پھر پاکستان کے عوام کی اس مسئلے سے جذباتی وابستگی اورعوامی دباؤ نے اس مسئلے کی سنگینی کو اور بھی واضح کیا جس سے رائے عامّہ ہموار ہوئی یا سادہ الفاظ میں کہیے تو ماحول بنا۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کا رویہ حالیہ فیصلے میں بے مثال تھا۔ انھوں نے اس نازک مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے پوری سنجیدگی سے اس پر نظرِ ثانی کی کارروائی میں علماے کرام سے رہنمائی طلب کی اور ایک متفقہ فیصلہ تحریرکیا جس سے عقیدۂ تحفظِ ختمِ نبوت کو مزید تقویت پہنچی۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے وڈیو لنک کے ذریعے حضرت شیخ الاسلام صاحب سے جو گفتگو کی اس کی وڈیو نیٹ پر موجود ہے، قارئین کے لیے اس میں بہت کچھ سیکھنے کا سامان ہے۔ جہاں حضرت شیخ الاسلام صاحب کی نصح و خیر خواہی، شفقت اور سرپرستی قابلِ تعریف ہے وہیں چیف جسٹس صاحب کا مؤدبانہ رویہ، طرزِ تخاطب، الفاظ کا انتخاب غرض پوری گفتگو ہی دشمنانِ اسلام کی رو سیاہی کے لیے کافی ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ کا مسلمان ’’قاضی‘‘ دینی امور میں ’’شیخ الاسلام‘‘ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کیا یہ وہی منظر نہیں جو اسلامی سلطنت کے قاضیوں میں بالعموم نظر آتا تھا؟ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اس ریاست میں جو کچھ اسلام کے موافق ہے اس کی تعریف و توثیق ہونی چاہیے اور مزید ’’تقویٰ کی آرزو‘‘جاری رہنی چاہیے۔ اسے ’’باطل کا اقتدار‘‘ کہہ کر اکھاڑ پھینکنے کے خواب دیکھنااور شب وروز اس غم میں گھلنا کہ کب اس کی ’’جڑوں پر تیشہ‘‘ چلے اور ہم اپنی زنبیل سے’’اسلامی نظام‘‘ کی چھتری نکال کر قوم کو اُس کے سائے میں سمیٹ لیں، ’’کتنا حسیں فریب ہے جو کھا رہے ہیں ہم‘‘۔ بس اتنا ہی نہیں، ایک گروہ اس ملک کودارالکفر قرار دے کر، اس کے حاکموں اور محافظوں کی تکفیر کا علم اٹھا کر قتل و غارت پر اتر آئے، معصوموں کی جان کے درپے ہو، اپنے تئیں طاغوت کا انوکھا مفہوم گھڑ لے، اور جو انھیں سمجھائے وہ بھی باغی اور مرتد ہوجائے، اسلامی خلافت کی جو تعبیر ان کے فہم میں آئے وہ حتمی اور قطعی ہو، اس سے اختلاف ضلالت و گمراہی ہو،الامان و الحفیظ، یہ کیسی اجارہ داری ہے اور کہاں کی دین داری ہے؟ خیر جانے دیجیے، امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل نئے نہیں ہیں، صدیوں پرانی ریت ہے، صدیوں سے ان الجھنوں کو سلجھانے والے آج بھی منبر و محراب پر موجود ہیں، انھوں نے دین کا فہم ہر طبقے کے عادل ترین افرادکی صحبت میں رہ کر حاصل کیا، جہاں علم و حکمت سے مالامال، غیور اورخوددار، ماہر اور تجربہ کار مشائخِ عظام مسند آرا تھے۔ جبکہ یہاں نو آموز، جذبات سے مغلوب، دین کےسطحی فہم کے حامل افراد متنوع ناموں سے مختلف عزائم لیے معرکہ آرائی پر اتر آئے ہیں اور نتائج کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں، لیکن کون سمجھائے اور کس کس کو سمجھائے، ان ’’نادان دوستوں‘‘ کے پرجوش تبصرے دیکھ کر ہمیں انشاؔ جی کا شعر یاد آ گیا:
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں باقی بات فضول میاں
انبیاے کرام علیہم السلام کے وارثین الحمد للہ موجود بھی ہیں اور فعال بھی، وہ جانتے ہیں کہ کس مرض کا علاج کون سی بوٹی میں ہے، لیکن جو ’’انقلابی‘‘ اپنا ’’منہج‘‘ ہی ریاست کی مخالفت کو بنا لیں اور اسے باطل کا اقتدار کہہ کر ’’پھونک ڈالنے‘‘ پر تُلے بیٹھے ہوں کہ اس کی ’’خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کریں گے‘‘، یا خنجر بکف، بے نیام تلواریں لیے کُشت و خون پر آمادہ ہوں، ان کی خدمت میں ہم کیا عرض کریں، شکر ہے اب تک وہ پھونک پیدا نہیں ہوسکی جو اس وطنِ عزیز کو خاک کر سکے اور نہ کبھی ایسا ہو سکے گا (ان شاء اللہ)، وگرنہ جذبات سے لبالب انقلابیوں کے لیے تو ’’نظام کی تبدیلی‘‘ شاید کوئی کھیل تماشاہے۔ تو ٹھیک ہے، ’’کھیلنے دیں انھیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے‘‘۔ بہرکیف، ماضی قریب میں ’’عرب بہار‘‘ کے عنوان سے جو کچھ عالمِ عرب میں کھیل کھیلا گیا اُس کے نتائج سبق آموز ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینِ متین کا صحیح فہم نصیب فرمائیں۔ آمین