لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

مولانا عبد الغفور صدیقی

استاذ فقہ اکیڈمی

حماس الفتح معاہدہ اورچین کاکردار

فلسطین کی دو سیاسی حریف تنظیمیں حماس اور الفتح نے چین میں سہ روزہ مذاکرات کے بعد قومی مفاہمت کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ دارالحکومت بیجنگ میں قومی مصالحت کے ایجنڈے کے تحت منعقد ہونے والے ان مذاکرات میں الفتح اور حماس سمیت چودہ فلسطینی تنظیموں نے شرکت کی۔ چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات میں حماس کی نمائندگی بین الاقوامی امور کے سر براہ موسیٰ ابو مرزوق نے کی، جب کہ الفتح کی طرف سے مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک ہوئے۔ اختتامی تقریب میں سعودی عرب، ترکیہ، روس، مصر، شام، قطر، اردن، الجزائر اور لبنان کے سفیر اور نمائندے بھی شریک ہوئے۔مشترکہ اعلامیے میں تمام فلسطینی تنظیموں نے اختلافات ختم کر کے فلسطین کی بہبود کے لیے مل کر کام کرنے اعلان کیا۔

اس معاہدے کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکمرانی کے لیے ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت تشکیل دینے پر اتفاق کیا، جب کہ غزہ کی تعمیرِ نو، نئے انتخابات کا جلد انعقاد، اور غربِ اردن، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر مشتمل فلسطینی ریاست کی سالمیت کو بر قرار رکھنا بھی اس معاہدے کے نکات میں شامل ہے۔ نیز قومی اتحاد و یک جہتی کے فروغ اور مذکورہ معاہدے کو پائیدار بنانے کے لیے تمام جماعتوں نے باہم مل کر ایک جامع لائحۂ عمل مرتب کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ چینی وزیرِ خارجہ نے بھی اپنے خطاب میں فلسطینی ریاست کی سالمیت، جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو اور اجتماعی جد و جہد کے ذریعے سلامتی کونسل میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حصول کو مذکورہ معاہدے کا اہم ہدف قرار دیا۔

حماس اور الفتح کے درمیان تعلقات ۲۰۰۶ء سے انتہائی کشیدہ ہیں۔ جب فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں الفتح کی قیادت حماس کے واضح مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاندانہ اقدامات پر اتر آئی تھی۔ اس وقت بھی تحریکِ حماس نے اپنے واضح مینڈیٹ کے باوجود فلسطین کے وسیع تر قومی مفاد کے پیشِ نظر لچک دکھاتے ہوئے ایک قومی حکومت کے قیام پر اتفاق کیا تھا، لیکن الفتح حماس کا وجود ہی مٹانے کے درپے تھی جس کی وجہ سے مصالحت کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہوسکی، بالآ خر اہلِ غزہ کی شدید مزاحمت کی تاب نہ لاتے ہوئے الفتح کو غزہ سے پسپا ہونا پڑا۔ تب سے غزہ حماس کی عمل داری میں ہے، جب کہ الفتح مغربی کنارے تک محدود ہو گئی۔

دونوں تنظیموں کے درمیان ایک بنیادی نظریاتی خلیج بھی حائل ہے، کیونکہ حماس فلسطین کے کسی بھی حصے پر اسرائیلی وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتی، اور اس ناجائز ریاست کے خاتمے کو اپنی منزل قرار دیتی ہے جس کے حصول کے لیے عسکری جد و جہد اس کے نزدیک سب سے اہم ذریعہ ہے۔ دوسری طرف الفتح مغربی کنارا، مشرقی بیت المقدس اور غزہ کے علاوہ باقی ارضِ فلسطین پر اسرائیلی وجود کو اوسلو معاہدے میں تسلیم کر چکی ہے۔ اس نے اپنے منشور سے عسکری جد و جہد کی شقوں کو حذف کر کے مفاہمت و مذاکرات کے ذریعے پُر امن تصفیے کو چارٹر کا حصہ بنایا ہے۔ فلسطین نیشنل اتھارٹی کے قیام کے بعد حماس کے خاتمے کے لیے اس کے خلاف الفتح کے پندرہ سال تک روا رکھے گئے مظالم بھی ابھی تک تاریخ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئے ہوں گے۔

بایں ہمہ موجودہ حالات میں دونوں تنظیموں کا متحد ہونا فلسطینی ریاست کی سلامتی و استحکام کے لیے انتہائی ناگزیر تھا جس کے بغیر مابعد جنگ کے، غزہ کی صورتِ حال ہزار ہا خدشوں سے بھرپور تھی، اسرائیل گذَشتہ نو ماہ کے دوران اپنی تمام تر توانائی صرف کر کے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے اور چالیس ہزار سے زیادہ معصوموں کو شہید اور لاکھوں کو معذور و اپاہج بنانے کے باوجود بھی اپنے متعین کردہ اہداف کا سراغ بھی نہیں پاسکا۔حماس کا خاتمہ تو دور کی بات، ابھی تک اس کی قید سے اپنے لوگ تک نہیں چھڑا سکا، نہ سرنگوں کا نیٹ ورک دریافت کر کے تباہ کر سکا اور نہ ہی حماس کی چوٹی کی لیڈر شپ کا کُچھ بگاڑ سکا، یہ واضح ہے کہ اسرائیل کو ابھی تک غزہ میں کوئی علامتی کامیابی بھی نہیں ملی۔

جب کہ اس کے برعکس خود اس کی اپنی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے، غزہ کی سرزمین اسرائیل کے قیمتی ٹینکوں کا قبرستان بن چکی ہے اور اس کی ڈیفنس فورسز کی بڑی تعداد بھی اس جنگ میں کھپ چکی ہے۔ فوج میں عجیب و غریب بیماریوں اور نفسیاتی مسائل نے صورتِ حال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ بحیرۂ احمر میں حوثی حملوں سے تجارت متاثر ہونے کے بعد اب حوثی میزائل تل ابیب پر دستک دینے لگے ہیں۔ایلات کی بندرگاہ پر تقریبا ًتمام سرگرمیاں ٹھپ ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب شمالی اسرائیل میں حزب الله کے خوف سے شہریوں کی بڑی تعداد علاقے سے انخلا کر چکی ہے، حالات اس نہج پر ہیں کہ اسرائیلی شہری عدمِ تحفظ کے شدید احساس سے چور ہو کر ملک سے کوچ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی آقاؤں کے دیس سمیت پوری دنیا میں اسرائیلی ہزیمت و خجالت کے رسوا کن چرچے اپنے عروج پر ہیں۔ فلسطین کے حق میں پوری دنیا کی رائے عامہ جس طرح اب ہموار ہوئی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

امریکہ بہادر بھی اسرائیلی بربریت کے مزید جواز پیش کرنے اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے سے عاجز آچکا ہے۔ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس ہر دو غزہ جنگ کے خاتمے کا کریڈٹ لے کر ووٹ حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ نیتن یاہو کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران مذکورہ امیدواران جنگ بندی کے علاوہ کسی بھی بات پر آمادہ دکھائی نہیں دیے۔ ان تمام ترحالات کے تناظر میں جلد یا بدیر غزہ جنگ بندی بدیہی امرہے۔ نیتن یاہو کی طرف سے یقین دہانیاں اور امریکی ایوانِ نمائندگان میں اس کی طرف سے حماس کی شکست کے کھوکھلے اعلان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔

حماس کے خاتمے کے بغیر جنگ بندی کے کسی بھی امکان کو مسترد کرنے والا اسرائیل اب مصر میں جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران غزہ پر اپنا سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنے کی شرط لگا کر جنگ بندی کی پیشکش کر رہا ہے۔ لیکن فلسطینی تنظیموں کے درمیان مصالحت اور پی۔ایل۔او کے تحت عبوری قومی حکومت کے قیام سے مذکورہ اسرائیلی منصوبے کے عملی نفاذ کا جواز باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ پی۔ایل۔او اقوامِ عالم کے نزدیک فلسطین کی تسلیم شدہ اور حقیقی اتھارٹی ہے۔

جنگ کے بعد سب سے بڑا چیلنج غزہ کی تعمیرِ نو اور لٹے پٹے فلسطینیوں کی واپسی اور دوبارہ آباد کاری ہے اور یہ عمل حماس کے لیے اس مصالحت کے بغیر ممکن نہیں۔یہ مصالحتی عمل الفتح کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔ کیوں کہ وہ تمام تر مفاہمت اور امن مذاکرات کے باوجود مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم کا سدِ باب نہیں کر سکی۔ پہلے سے موجود یہودی بستیوں میں کمی تو دور کی بات وہ مزید بڑھتی ہوئی یہودی آباد کاری کو بھی روکنے سے عاجز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی بیت المقدس کے حصول کے عزم پر بھی اب اوس پڑ چکی ہے۔ نتیجتا ًمغربی کنارے کے عوام اس سے شدید مایوس تھے، یہ معاہدہ اس کے لیے بھی نئی توانائی اور مقبولیت کا سبب بنے گا۔

چین فلسطین تعلقات کاتاریخی تناظر

چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی اور ۱۹۴۹ء میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد مسئلۂ تائیوان چین کی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز رہا ہے۔ کیونکہ کیمونسٹ پارٹی کی حریف چینی نیشنلسٹ پارٹی نے جنرل جیانگ کائی شیک کی قیادت میں تائیوان پر قبضہ کر کے جمہوریہ چین کے نام سے حکومت قائم کر لی۔ چنانچہ مغرب اور اس کے اتحادیوں نے کمیونزم کے عروج سے خوف زدہ ہو کر اس چھوٹے سے جزیرے پر قائم حکومت کو پورے چین کی نمائندہ خود مختار ریاست کے طور پر قبول کر کے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیّت بھی دلا دی، ۱۹۵۰ء میں جب سوشلسٹ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پرحملہ کیا تو اقوامِ متحدہ کی کمان میں امریکی فوجی مداخلت اور ۱۹۵۵ء میں ویتنام تنازعے بالخصوص ۱۹۶۵ء میں ویتنام میں امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی کے بعد چین کے امریکہ و یورپ کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی مدد سے چین امریکہ تعلقات قائم ہوئے۔ یہی تعلقات سلامتی کونسل میں چین کی مستقل رکنیت کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

اسرائیل چونکہ امریکہ و یورپ کی طفیلی ریاست تھی اس لیے چین نے ہمیشہ اسرائیل کو سامراج کے ایک حصّے کے طور پر بیان کیا، اور اس کو تائیوان سے تشبیہ دیتے ہوئے ایک نا جائز ریاست سے تعبیر کیا۔

انقلابِ چین کے رہنما اور عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤزے تنگ نے تیسری دنیا میں آزادی کی تحریکوں کی حمایت اور سامراج دشمن تنظیموں کی مدد کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے فلسطین کی جد و جہدِ آزادی کی بھر پور حمایت کی، چین نے ۱۹۵۶ء کی جنگ میں مصر کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل، فرانس اور برطانوی حملوں کو کھلی جارحیت قرار دیا۔

 ۱۹۶۴ء میں جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن قائم ہوئی تو چین نے اس کو فلسطین کی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے بیجنگ میں اپنا دفتر کھولنے کی بھی اجازت دی، پہلے پی۔ایل۔او کے رہنما احمد شقیری اور پھر ۱۹۶۵ء میں یاسر عرفات اور ابو جہاد خلیل وزیر نے چین کا دورہ کیا۔ اس دوران چینی رہنما کی طرف سے ان کو ہر قسم کی ممکنہ امداد کی یقین دہانی کروائی گئی۔

پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے کمیونسٹ رہنما جارج حبش کے بھی چین کے ساتھ قریبی تعلقات رہے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں چین نے مصر کی حمایت کی، اس جنگ کے بعد چین نے شام، لبنان اور مصر میں موجود فلسطینی تنظیموں کی بھر پور مالی امداد کے ساتھ ساتھ ان کو اسلحہ بھی فراہم کیا، جو رائفلز، ہینڈ گرنیڈ اور بارودی سرنگوں پر مشتمل تھا۔

۱۹۷۶ء میں ماؤزے تنگ کی وفات کے بعد بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں چینی پالیسی میں قدرے تبدیلی رونما ہوئی، ۱۹۷۹ء میں چین کے اسرائیل کے ساتھ بھی روابط قائم ہوئے۔ ا ب فلسطینیوں کے لیے چین کی عسکری مدد بند ہوگئی اور مالی مدد میں بھی کمی واقع ہوئی، لیکن چین فلسطینیوں کی اخلاقی حمایت سے دست بردار نہیں ہوا۔ چنانچہ جب ۱۹۸۸ء میں الجزائر میں آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان ہوا تو اس کے ایک ہفتے بعد چین نے بھی باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا۔ اسی سال بیجنگ میں موجود پی۔ایل۔او کے دفتر کو ریاستِ فلسطین کے سفارتخانے میں تبدیل کر دیا گیا۔

میڈرڈ امن کا نفرنس کے بعد ۱۹۹۲ء میں چین کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ ۱۹۹۳ء کے اوسلو معاہدے کے بعد چین نے فلسطین میں بھی سفارتی مشن مقرر کیا جو آج بھی رام اللہ میں فعال ہے۔چین کے حماس کے ساتھ بھی روابط ہیں، اس نے امریکہ و مغرب کی طرح حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا، ۷،اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کی جانب سے طوفان الاقصیٰ حملے کی چین نے کبھی مذمت نہیں کی، بلکہ وہ غیر جانبدار پالیسی کے تحت فریقین سے تحمل اور جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے۔فلسطین کے ساتھ چین کے تجارتی تعلقات بھی ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں چین میں فلسطین کے سفیر فریز مہداوی کے مطابق چین سے فلسطینی درآمدات کا حجم سالانہ تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔۱۹۹۳ء سے اب تک چین، مسئلۂ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے تین امن منصوبے بھی پیش کر چکا ہے اور کئی بار امن مذاکرات کی میزبانی کی بھی پیشکش کی ہے۔

دوسری جانب چین کے اسرائیل کے ساتھ بھی انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ بلکہ چین ایشیا میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ۲۰۲۰ء سے ۲۰۲۲ء تک چین دنیا میں اسرائیلی برآمدات کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا، چین نے ٹیکنا لوجی کے شعبے میں اسرائیل کی تخلیقی صلاحیتوں سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ اسرائیلی سیاحت کی غرض سے چین آتے ہیں، اسرائیلی یونی ورسٹیوں میں چینی طلبہ کے لیے الگ سے کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔چین میں یہودیوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہیں، لیکن انتہائی با اثر ہو نے کی وجہ سے انھوں نے چین اور اسرائیل کے درمیان تعلق کو فروغ دینے میں متحرک کردار ادا کیا ہے۔

چین نے غیر جانب داری، عدمِ مداخلت اور تنازعات میں ثالثی کی پالیسی اپنا کر مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں انتہائی رسوخ حاصل کر لیا ہے، اس سے قبل چین نے سعودیہ اور ایران جیسے روایتی حریفوں کو بھی قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ خطہ چین کی بہت بڑی تجارتی منڈی ہے۔ یہاں کا امن چین کے معاشی و سیاسی مفادات کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ خطہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے طور پر بھی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس منصوبے کا ایک حصہ بحرِ ہند سے عمان، یمن اور وہاں سے مشرقِ وسطیٰ کی طرف گھوم کر ایک دوسرے روٹ سے مل جاتا ہے۔

لرننگ پورٹل