لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

لاگ ان / رجسٹر
پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

پیر 13 ربیع الاول 1446 بہ مطابق 16 ستمبر 2024

مولانا حماد احمد ترکؔ

نائب مدیر ماہ نامہ مفاہیم کراچی

شوقِ شہادت

یہ کون مجاہد ہے جو شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں پھر کر ایک ہی نعرہ لگاتا ہے: لن نعترف بإسرائیل، ’’ہم اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے‘‘ اور ہر جلسے میں یہی دہراتا ہے کہ: لا توجد دولة اسمها إسرائیل، ’’ایسی کوئی ریاست ہے ہی نہیں جس کا نام اسرائیل ہو‘‘۔ جس نے اپنا گھر چھوڑا، وطن سے نکالا گیا، اسیری کی مشقتیں اٹھائیں، کتنی ہی بہاریں گنوائیں، قریبی دوست مارے گئے، بچے اور پوتے القدس پہ وارے گئے، کیا کیا دکھ اٹھائے لیکن موت سے ذرا نہ گھبرائے۔ دنیا جانتی تھی کہ رئيس المكتب السياسي لحركة حماس، إسماعيل هَنِيَّة جس منصب پر ہیں وہ بہت اہم بھی ہے اور خطرناک بھی، ہر لحظہ ان کی جان خطرے میں ہے۔ لیکن انھوں نے کبھی اپنی جان کی پروا نہ کی۔ شیح عزالدین القسام، شیح احمد یاسین، دکتور عبد العزیز الرنتیسی، صلاح شحادہ، عدنان الغول، یحییٰ عیاش، عماد عقل، اسماعیل ابو شنب، احمد الجعبری، رائد العطار، صالح العاروری اور نہ جانے کتنے ہی قائدین، القدس کی راہ میں رتبۂ شہادت سے سر فراز ہوئے، یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا۔ دکتور اسماعیل ہنیہ بھی ان شہدا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ابنِ ماجہ کی اس حدیث شریف کا مصداق بن گئے: «يَبتغي الموتَ أوِ القتلَ مظانَّهُ»’’ہر اس جگہ قتل اور موت کو تلاش کرتا ہو، جہاں اس کے ہونے کا گمان ہو‘‘:

واہ رے شوقِ شہادت کوے قاتل کی طرف
گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں

اسماعیل ہنیہ شہید کی مظلومانہ شہادت بزدل دشمن کی ناکامی اور نامرادی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانا اسلام دشمنوں کا پرانا وتیرہ ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ منافقین اور یہود کیسے نبیِ اکرمﷺکو نقصان پہنچانے اور آپ کی جان لینے کےدرپے رہتے تھے۔ خلیفۂ ثانی، امیر المومنین، فاتحِ بیت المقدس سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو کس بزدلی سے شہید کیا گیا۔ فاتحِ بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو جنگ میں شکست نہ دے سکے تو خیمے میں سوتے وقت آپ پر بزدلانہ حملہ کر دیا ۔ یہی کچھ طویل عرصے سےحماس کے قائدین کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔

حالیہ جنگ کے دوران بھی ہم متعدد فلسطینی قائدین سے محروم ہو چکے ہیں، جن میں شیخ اسماعیل ہنیہ کے بعد دوسرا بڑا نام اِن کے نائب شیخ صالح العاروری کا ہے جنھیں ۲،جنوری کو لبنان میں ان کی رہائش گاہ پر بمباری میں شہید کر دیا گیا۔ اگرچہ نیتن یاہو نے حماس کے سب سے زیادہ مطلوب کمانڈر محمد الضیف کی موت کا بھی اعلان کیا تھا لیکن حماس نے اس کی تردید کر دی۔ یاد رہے کہ محمد الضیف پر اس سے قبل متعدد جان لیوا حملے ہو چکے ہیں، لیکن ہر حملے میں الضیف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محفوظ رہے ہیں۔ اسی طرح وزارت براے داخلی امن کے سربراہ فائق المبحوح الشفا اسپتال پر حملے کےدوران شہید ہوئے۔ انھی شہدا میں اسامہ المزینی بھی شامل ہیں جنھیں ۲۱، اکتوبر کو غزہ میں نشانہ بنایا گیا۔ اسامہ المزینی شیخ احمد یاسین رحمہ اللہ کے داماد اور حماس کے نمایاں قائد تھے۔ ۳،اگست کو مغربی کنارے کے شہر طولکرم میں قسام کے معروف کمانڈرہیثم البلیدی کی گاڑی پر ڈرون حملہ ہوا جس میں وہ اپنے تین ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ ۶، اگست کو اسرائیلی فوج نے حماس کے قائد محمد محاسنہ کو فضائی حملے میں شہید کیا اور ان کی شہادت کے مناظر نشر کیے۔ محمد محاسنہ حماس کے لیے اسلحےکی فراہمی کے ذمے دار تھے۔ جس روز شیخ اسماعیل ہنیہ شہید رحمہ اللہ پرحملہ ہوا، اسی صبح حزب اللہ کے مرکزی قائد فواد شکر کو صیہونی میزائل نے بیروت کی ایک عمارت میں نشانہ بنایا۔

شیخ اسماعیل ہنیہ شہید رحمہ اللہ۳۱،جولائی کو نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران میں موجود تھے جہاں انھیں ایک عمارت میں میزائل حملے سے نشانہ بنایا گیا۔ شیخ کی پہلی نمازِ جنازہ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے پڑھائی جبکہ دوسری نمازِ جنازہ قطر میں حماس کے رہنما خلیل الحیۃ کی امامت میں ادا کی گئی۔ ترکیہ اور پاکستان سمیت متعدد ممالک میں غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔ بالخصوص آیا صوفیا استنبول اور فیصل مسجد اسلام آباد میں اہلِ فلسطین سے اظہارِ یک جہتی کے لیے مسلمانوں کا جمِ غفیر امنڈ آیا۔ مسجدِ اقصیٰ کے امام شیخ عکرمہ صبری نے نمازِ جمعہ کے بعد شیخ اسماعیل ہنیہ کو شہید قرار دیا اور ان کے لیے دعاؤں کا اہتمام کیا جس پر قابض صیہونی حکومت بپھر گئی اور شیخ کو گرفتار کر لیا گیا۔ شیخ کی گرفتاری پر فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا جس پر انھیں رہا کر کے دو دن کے لیے مسجد سے بے دخل کر دیا گیا۔ بعد میں یہ بےدخلی چھے مہینے تک بڑھا دی گئی۔

پورا عالمِ اسلام اس دل دوز سانحے سے افسردہ اور غمگین ہے سوائے ایک ’’قلیل اقلیت‘‘ کے، جنھیں ہمیشہ امت کے مجموعی موقِف سے اختلاف رہا۔ یہ طبقہ غالی سلفی علما پر مشتمل ہے جنھیں شہید اسماعیل ہنیہ ایک ’’منتخب‘‘ حکومت کے باغی اور ’’اِرہابی‘‘ نظر آتے ہیں۔ ذرا مروت ہوتی تو اس سانحے پر سکوت ہی اختیار کر لیتے، نمک چھڑکنا ضروری تھا؟ متعدد اسلامی ممالک سے تعزیتی پیغامات ارسال کیے گئے، وفود نے شہید رحمہ اللہ کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اور ان کی قربانیوں پر انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ہاں، سعودیہ، دبئی اور ان ایسے ’’اسلامی‘‘ ممالک کے نمائندے مہر بہ لب نظر آئے، اسرائیل کے خلاف ایک جملہ ان کے منھ سے نہ نکل سکا، خیر… اس کی امید بھی نہیں تھی،شکوہ ہی کیا:

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

شیخ اسماعیل ہنیہ شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے دن ہی ۳۱،جولائی کو ایک اور عظیم مجاہد، ۲۷ سال صحافی اسماعیل الغول شہید ہوگئے۔ اسماعیل الغول الجزیرہ کے نوجوان صحافی تھے جو معرکۂ طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے غزہ میں نشریات کر رہے تھے۔۳۱،جولائی کو صحافی اسماعیل الغول شیخ اسماعیل ہنیہ شہید کے تباہ شدہ گھر پہنچے اور ملبے کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر شیخ اسماعیل ہنیہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ شیخ کے گھر سے واپسی پر اسماعیل الغول کی گاڑی کو راکٹ سےنشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے کیمرہ مین رامی الریفی کے ساتھ شہید ہو گئے۔ اسماعیل الغول کی داستان نہایت ایمان افروز ہے۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے کیمرے کے سامنے یہ کہنے میں کوئی شرم نہیں کہ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں، یہاں سب لوگوں کی طرح میں بھی بھوک سے بے قرار ہوں۔ ہم روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہیں لیکن یہ ہمارے لیے کوئی عیب نہیں، عیب تو ان میں ہے جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اسماعیل الغول نے دھماکے سنے، لاشیں اٹھائیں، جسمانی اعضا بکھرے ہوئے دیکھے، زخمی بچوں سے گفتگو کی، جوانوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے مرتے دیکھا، ان کے دیکھتے ہی دیکھتے پورا غزہ کھنڈر ہوگیا، چالیس ہزار لوگ لقمۂ اجل بن گئے، اسماعیل گرفتار ہوئے، تشدد کیا گیا، دھمکایا گیا،سامان چھین لیا گیا،صیہونیوں کے اسیر ہوئے، تحقیر آمیز رویہ برداشت کیا، زخم اٹھائے لیکن ان کا حوصلہ کم نہ ہوا۔ غزہ میں اب تک ۱۶۵صحافی جامِ شہادت نوش کرچکے۔اسماعیل الغول، رامی الریفی اور ان ایسے دیگر صحافی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنی جان کا سودا کیا اور غزہ سے نکلنا قبول نہ کیااور پوری دنیا کو غاصب صیہونیوں کا مکروہ چہرہ دکھانے میں اپنی زندگیاں قربان کردیں۔

غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے وحشیانہ حملے بدستور جاری ہیں بلکہ ان حملوں میں بہت شدت آچکی ہے۔ غزہ کی آبادی اور عمارتیں بمباری سے کھنڈر بن چکی ہیں، غزہ کے رہائشی جن کیمپوں میں پناہ گزین ہیں وہاں بھی ڈرون طیاروں، جنگی جہازوں اور توپ خانوں سے شہریوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔ گذَشتہ تین ہفتوں سے اسرائیل ان اسکولوں کو نشانہ بنا رہا ہے جہاں عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ مدرسہ نصر اللہ، مدرسہ حسن سلامہ، مدرسہ حمامہ، مدرسہ خدیجہ اور دیگر اسکول صیہونیوں کی ستم گری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اگست کے دوسرے ہفتے میں قابض اور وحشی اسرائیل نے کئی ایسے مقامات کو نشانات بنایا جہاں شہریوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ مسجد التابعین پر نمازِ فجر کے دوران بمباری کی گئی جس میں تقریباً سو افراد شہید ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ جسمانی اعضا ہر طرف بکھر گئے۔ کتنے ہی شہدا ایسے ہیں جن کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی۔ اسپتالوں میں کسی قسم کی سہولت موجود نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں میں ۷،اکتوبر سے اب تک ۱۵۲، اسکول تباہ کیے جا چکے ہیں جن میں ۱۰۴۰ پناہ گزین شہید ہوئے۔ غزہ میں اب تک مجموعی طور پر ۴۹۴۸۰فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ۹۱۱۲۸ زخمی ہیں۔۴۰ ہزار شہدا کی میتیں اسپتالوں تک پہنچی ہیں باقی شہدا کی میتوں کا کوئی علم نہیں ہے۔ شہدا میں ۱۶۳۱۴ بچے بھی شامل ہیں۔

قابض صیہونی فوج کے بزدلانہ حملوں کے ردِّعمل میں مجاہدین کی کارروائیاں بھی تیز ہو گئی ہیں۔ مغربی کنارے میں جنین، طولکرم، القدس، الخلیل وغیرہ میں کہیں بم دھماکے اور کہیں بندوق سےحملے جاری ہیں۔ چاقو سے سپاہیوں اور اسرائیلی شہریوں کو جہنم واصل کرنے کے واقعات تسلسل سے پیش آ رہے ہیں۔ اگست کے آغاز میں تل ابیب کے قریب طولون نامی مقام پر ایک چاقو حملے میں دو اسرائیلی شہری قتل اور دو زخمی ہو گئے۔ ان حملوں سے اسرائیلی شہری بہت خوف زدہ ہیں۔ اسرائیلی صحافیوں اور عوام کی جانب سے ان حملوں کا ذمے دار صیہونی وزیر براے امن ایتمار بن غفیر کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود اولمرت اور قائدِ حزبِ اختلاف یائر لاپید نے بھی اندرونی کشیدگی پر بن غفیر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس وقت نیتن یاہو کواس وحشت پر آمادہ کرنے اور شہریوں کے قتلِ عام کی حوصلہ افزائی کرنے میں سب سے بڑا کردار اسی لعین کا ہے۔بن غفیر ایک ایسا رذیل، کمینہ صفت اور متعصب صیہونی ہے جو اسرائیلی ریاست کی بقا کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ جب کبھی نیتن یاہو عوامی مطالبات اور عالمی دباؤ کے زیرِ اثر جنگ بندی کا معاہدہ کرنے لگتا ہے، بن غفیر اسے روٹھ جانے اور حکومت سے الگ ہو جانے کی دھمکی دیتا ہے۔

کتائب القسام، سرایا القدس اور دیگر جہادی تنظیموں کےحملے مسلسل جاری ہیں جن میں ٹینک، بکتر بند اور پیادہ افواج کو یومیہ بنیادوں پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔خاص طور پر القسام نے۵،اگست کو ایک نئی دھماکہ خیز ڈیوائس سِجِّیل متعارف کروائی۔یہ ڈیوائس ان میزائلوں سے تیار کی گئی ہے جو صیہونی جہازوں سے گرائے گئے لیکن پھٹ نہ سکے۔ القسام کے نمائندے کے مطابق اس ڈیوائس کے پہلے کامیاب تجربے میں صیہونی سپاہیوں کے ٹکڑے دور دور تک بکھر گئے۔

ایک عجیب واقعہ یہ رونما ہوا کہ اگست کے آغاز میں دائیں بازو کے سینکڑوں مذہبی یہودیوں نے بیتِ لید کی فوجی چھاؤنی پر حملہ کر دیا اور یہ حملہ کئی گھنٹے جاری رہا۔ مختلف چھاؤنیوں سے فوجی دستے اس حملے کو روکنے کے لیے بیتِ لید پہنچے حتی کہ آرمی چیف بذاتِ خود اس حملے کو رکوانے کے لیے متحرک ہوا، حملے کا سبب جاننا چاہیں گے؟ سبب یہ تھا کہ اسرائیلی جیل سدیه تیمان میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ’’بدسلوکی‘‘ پر چند اسرائیلی فوجیوں کو برطرف کرکے تحقیقات کا اعلان کیا گیا، مذہبی یہودیوں کا کہنا تھا ان مشکل حالات میں جبکہ اسرائیل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، اپنے سپاہیوں کوگرفتار کرنا صریح ظلم ہے۔ سدیه تیمان میں کیا ہوا تھا اور تحقیقات کیوں شروع ہوئیں، ہم یہ تفصیل آپ کو عن قریب بتائیں گے۔

اسرائیل پر خارج سے حملوں میں حزب اللہ اور انصار اللہ دونوں جماعتیں سر گرم ہیں۔ حزب اللہ کے حملوں کی خبریں تو یومیہ بنیادوں پر الجزیرہ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس وقت شمالی محاذ اسرائیل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ خاص طور پر حزب اللہ کے قائد فواد شکر پر میزائل حملے کے بعد لبنان کی جانب سے حملوں میں بہت شدت آ گئی ہے۔ کبھی ۲۰، کبھی۴۰اور کبھی۶۰میزائل بہ یک وقت فائر ہوتے ہیں، بالخصوص ۱۹،جولائی کو لبنان سے ۲۴ گھنٹوں کے ۷۰ میزائل فائر ہوئے جن کاہدف شمال کے مختلف شہر تھے۔ الجزیرہ کے مطابق حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کے شہروں کریات شمونہ، شتولا، منارہ، میتولااور متسوفا کو پے در پے حملوں سے ویران کر دیا ہے اور اکثر شہری اسرائیل سے فرار ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی بہت بڑی نفری شمالی محاذ پر مصروف ہے۔ یہاں ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ ۲۷، جولائی کو مجدل شمس میں ایک میزائل حملہ ہوا۔یہ میزائل مجدل شمس میں ایک کھیل کے میدان میں گرا جس کے نتیجے میں بچوں سمیت ۱۲،شہری ہلاک اور۳۰،زخمی ہوئے۔مجدل شمس،شام کی سرحد سے متصل مقبوضہ اسرائیل میں واقع گولان کے قریب ایک علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی جنگ کےبعد قبضہ کیا تھا۔ اسرائیلی حکام نے اس حملے کو ۷،اکتوبر کے بعد دوسرا بڑا حملہ قرار دیا اور حزب اللہ کو اس کاذمے دار ٹھہرایا جبکہ حزب اللہ نے شدت کے ساتھ اس حملے کی نفی کی اور اسے اسرائیل کا اینٹی میزائل شیل قرار دیا۔ اس حملے کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ میں کشیدگی مزید بڑھ گئی۔

معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں یمنی حوثیوں کی جماعت انصار اللہ کاکردار بھی بہت اہم ہے۔ انصاراللہ نے تقریباً آٹھ ماہ سے باب المندب کو بند کر رکھا ہے۔ باب المندب اسرائیل کے لیے اہم ترین آبی گزرگاہ ہے اور اسرائیلی ترجمان کا بیان ہے کہ باب المندب بند کرنا ہمارا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ امریکہ نے برطانیہ اور فرانس سمیت دس ممالک پر مشتمل خصوصی فوج تیار کی تاکہ انصاراللہ کا محاصرہ توڑ کر اسرائیلی بندرگاہ ایلات تک سامان کی ترسیل ممکن ہو سکے لیکن اب تک تمام کوششیں ناکام ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ متعدد بار یمنی فضائی حدود میں داخل ہو کر حملہ کر چکے ہیں، سنگین حملوں کی دھمکیاں تو آئے روز دی جارہی ہیں لیکن یمنی افواج ثابت قدم ہیں۔ اس معرکے میں انصار اللہ کا بھی کافی نقصان ہوا ہے۔ اس آبی گزرگاہ کی بندش سے اسرائیل کو بہت نقصان ہوا، اور اگر اسرائیل کو سامان کی فراہمی مکمل رک جاتی تو یقیناً یہ جنگ اس شدت سے جاری نہ رہتی لیکن وہی ’’اسلامی‘‘ ممالک جو شیخ اسماعیل ہنیہ شہید کی تعزیت کے لیے ایک جملہ بھی نہ بول سکے، مستقل اور مسلسل اسرائیل کا سامان اپنی بندرگاہوں سے وصول کر کے زمینی راستے سے اسرائیل تک پہنچارہے ہیں۔آفرین ہے اس استقلال پر!

سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے
ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے

کچھ عرصہ قبل یمنی فوج انصار اللہ اورعراق کی عسکری جماعتالمقاومة الإسلامیة في العراق نے مشترکہ کارروائی میں حیفا کی بندرگاہ پرایک اسرائیلی کشتی کو نشانہ بنایا تھا اور اسے جلانے میں کامیاب رہے تھے،ایسا ہی ایک حملہ ۱۹، جولائی کو کیا گیا۔ الجزیرہ کے مطابق اس حملے کی ذمے داری انصار اللہ نے قبول کی۔ یمن سے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب پر کامیاب ڈرون حملہ کیا گیا، نہ کسی راڈار پر اس ڈرون کی اطلاع موصول ہوئی اور نہ ہی آئرن ڈوم اسے روک سکا۔اس ڈرون نےبحرِ احمر کے راستے دس گھنٹےسے زیادہ سفر کیا، امریکی اور برطانوی بحریہ کے راڈار، اردن کا جاسوسی نظام اور پھر اسرائیلی جاسوسی نظام کو دھوکا دینے کے لیے ۲۳۰۰کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے یہ ڈرون تل ابیب کے وسط میں امریکی سفارت خانے کے قریب ایک عمارت کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوا۔یہ ڈرون ایرانی ساختہ ’’صماد ۳‘‘ تھا جس کے بارے میں اسرائیل کے ایک فوجی سربراہ آرئیل فریش کا کہنا تھا کہ اس نوعیت نے ڈرون حملے روکنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ڈرون فضا میں مستقل حرکت کرتا ہے اور اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے۔حجم میں بہت چھوٹا اور سستا ہوتا ہے۔ راڈار سے اس کی نشاندہی کرنا یا اسے آئرن ڈوم سے نشانہ بنانا مشکل ہے۔ اس نوعیت کے حملوں کو روکنے کے لیے ایف ۱۶ طیارے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ایف ۱۶ سے اس طرح کے ڈرون طیاروں کا تتبع کرنا اور ان کو تباہ کرنابہت زیادہ مہنگا ہے۔ اسرائیلی ترجمان کے مطابق اسرائیل پر حالیہ جنگ میں یمن سے دو سو ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔ اس حملے نے اسرائیل کی ناکامی اور رسوائی میں کئی گنا اضافہ کردیاہے،الجزیرہ کے عسکری تجزیہ نگار حاتم کریم الفلاحی کا کہنا تھا کہ لبنان کے میزائل روکنے میں ناکامی سےیہ واضح تھا کہ صیہونی ریاست کے شمال میں موجود شہری غیر محفوظ ہیں اور اسرائیل ان کا دفاع کرنے میں ناکام ہے،اب معلوم ہوتا ہے کہ پورا اسرائیل ہی غیر محفوظ ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف یائر لاپید نے اس حملے کے بعد نیتن یاہو کی اس صریح ناکامی پر شدید تنقیدکی۔حماس نے اس حملے پر اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم انصار اللہ کے اس حملے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ حملہ فلسطینیوں پر وحشیانہ سلوک کا ردِّعمل ہے۔۴،اگست کو انصار اللہ نے ایک اور بڑی کارروائی کرتے ہوئے خلیجِ عدن میں ایک بحری جہاز کومیزائلوں سے تباہ کر دیا۔ انصار اللہ کے مطابق یہ جہاز تنبیہ کے باوجود اسرائیل جانے کی کوشش کر رہا تھا۔اسی دن انصار اللہ نے ایک امریکی ساختہ ڈرون ایم۔کیو ۹کو مار گرایا۔ اس جنگ کے دوران یہ ساتواں ایم۔کیو ۹طیارہ ہے جو انصار اللہ نے گرایا ہے۔ ایم۔کیو ۹ ایک جنگی ڈرون طیارہ ہے جو امریکی بحریہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ۳۰ملین ڈالر سے تیار کردہ یہ ڈرون ۴۸۲کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا ہے اورسنگین جنگی حالات کے لیے تیار کیا گیا ہے۔اس حملے کے دو دن بعد ۶، اگست کو عراق میں عین الاسد میں قائم امریکی فوجی چھاؤنی پر عراقی مقاومت نے کامیاب میزائل حملہ کیا جس میں امریکی سپاہیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

دوسری جانب، فرانس میں اولمپکس کے متعدد مقابلوں میں فلسطین سے اظہارِ یک جہتی کے لیے فلسطینی جھنڈے لہرائے گئے۔ شائقین مختلف انداز سے فلسطینیوں پر قابض اسرائیلی ریاست کا ظلم دنیا کو یاد دلاتے رہے۔ الجزیرہ نے ایک اور دلچسپ رپورٹ شائع کی جس میں ایک جاپانی شخص یوسوکی فوروساوا کو دکھایا گیا کہ وہ ٹوکیو کی گلیوں میں تنِ تنہا فلسطین کا جھنڈا لیے پھرتا رہتا ہے،الجزیرہ نے اسے’’ٹوکیو کی سڑکوں پر غزہ کا واحد مددگار‘‘ قرار دیا۔ یہ شخص ۷،اکتوبر سے اب تک عوامی مقامات، بازاروں، ریلوے اسٹیشن، چوکوں اور چوراہوں پر فلسطین کے جھنڈے لیے پھرتا ہے اور لوگوں کو فلسطینیوں کی مظلومیت یاد دلاتا ہے۔ مختلف کتبے آویزاں کرتا ہے جن پر’’فلسطین آزاد ہے‘‘، ’’انسانیت کا قتلِ عام بند کرو‘‘اور’’اب گولیاں چلانا بند کرو‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ یوسوکی کا یہ فعل بلاشبہہ لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید عمل ہے کہ انھوں نے’’شکوۂ ظلمتِ شب‘‘ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ’’اپنے حصے کی شمع بھی جلائی‘‘۔

غزہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر بئر السبع کے قریب صحراے نقب میں ایک اسرائیلی چھاؤنی قائم ہے جسے سدیه تیمان کہا جاتا ہے۔ خاص جنگی حالات میں یہ چھاؤنی جیل کے طور پر استعمال ہوتی ہے جیسا کہ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۴ء میں ہوئی۔۷،اکتوبر کے حملے کےبعد اسے دوبارہ جیل میں تبدیل کر دیا گیااور یہاں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ گوانتا نامو سے کہیں زیادہ گھناؤنا سلوک کیا گیا۔اس جیل میں قیدیوں کے ساتھ انتہائی سفاکانہ سلوک کیا جارہاہے۔فلسطینی شہریوں کو یہاں لا کر ان کے اعضا کاٹ دیے جاتے ہیں، گھنٹوں کھانے، پینے اور حرکت کرنے سے روکا جاتا ہے، ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ہتھوڑے مار مار شہید کر دیا جاتا ہے۔اس جیل میں اب تک ۳۶ قیدی تشدد سے شہید ہوچکے ہیں۔الجزیرہ کے مطابق چھاؤنی کے اندر تعینات ایک ذمےدار سے رابطہ کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہاں تفتیش اور معلومات اگلوانے کے لیے نہیں انتقام کے لیے تشدد کیا جاتا ہے۔ اس حملے کا انتقام لیا جاتا ہے جوسات اکتوبر کو کیا گیا تھا۔اس ظلم و جبر کی داستان دنیا میں عام ہوئی تو پوری دنیا میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشل نے فوری طور پر اس جیل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جسے قابض صیہونی ریاست کے وحشی وزیر براے قومی امن ایتمار بن غفیر نے مسترد کردیا۔ قیدیوں سے بدسلوکی پر دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا۔بالخصوص آسٹریا، ناروے،اردن،ترکیہ،مراکش،کینیڈا اور جرمنی میں زبردست مظاہرے ہوئے۔اس جیل میں قیدیوں کے ساتھ صرف جسمانی ہی نہیں جنسی تشدد بھی کیا گیا، انھیں بے آبرو کیا گیا، ان کی تحقیر اور تذلیل کی گئی، انھیں مستقل بےلباس رکھا گیا،اس غلیظ رویے پر اسرائیل نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر چند افسروں کو گرفتار کیا جو خاص طور پر جنسی تشدد میں ملوث تھے۔جیسے ہی اس گرفتاری کی خبر منظرِعام پر آئی، سینکڑوں مذہبی یہودی احتجاج کے لیے نکل آئے اور انھوں نے بیتِ لید کی چھاؤنی پر حملہ کرکے افسران کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔بعد میں ان گرفتار افسروں کو رہا کرکے گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔

اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک پرشیخ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نےشہادت سے کچھ دن قبل اعلان کیا کہ ۳،اگست کو فلسطینی قیدیوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔شیخ کی اس خواہش پر عمل کرتے ہوئے پوری دنیا میں ۳،اگست فلسطینی قیدیوں کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔فلسطینی اداروں کی طرف سے قیدیوں کے جو اعداد و شمار شائع کیے گئے ان کے مطابق ۷،اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے سے۹۸۰۰شہری جبکہ غزہ سے۵۰۰۰شہری حراست میں لیے گئے ہیں۔ دورانِ حراست ۴۸قیدی شہید ہوئے جن میں۳۶ سدیه تیمان میں اسیر تھے۔ اسرائیلی جیلوں میں اسیر فلسطینیوں کی حالت قابلِ رحم ہے، اُن کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ اور یہ سلوک صرف مردوں کے ساتھ نہیں خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

غزہ سے گرفتار کی گئی ایک فلسطینی خاتون نے رہائی کے بعد مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو میں جو صورتِ حال بتائی وہ انتہائی شرم ناک ہے۔یہ خاتون غزہ کے کسی علاقے میں اپنے کم سن بچوں کے ساتھ پانی کی تلاش میں تھیں، بچے پیاس سے بلک رہے تھے، اتنے میں کچھ فاصلے پر موجود ایک صیہونی سپاہی نے انھیں پانی کی بوتل دکھا کر قریب بلایا، بچوں نے انھیں روکا لیکن ماں اپنے بچوں کو پیاس میں تڑپتا کیسے دیکھ سکتی تھی، وہ خاتون اس امید پر سپاہی کے پاس چلی گئیں کہ وہاں سے پانی ملے گا۔ اس سپاہی نے انھیں دھوکے سے بلا کر گرفتار کرلیا۔ان کے بچوں کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا، وہ باربار کہتی رہیں کہ بچوں کے پاس کوئی نہیں ہے، اس کے باوجود انھیں ہاتھ پاؤں باندھ کر اسرائیلی جیل منتقل کردیا گیا۔جیل میں جو کچھ ہوا اسے لکھنا ناممکن ہے۔بس اتنا کہہ سکتے ہیں اہلِ فلسطین! ہم شرمندہ ہیں، اے غزہ کی خواتین! ہم شرمسار ہیں، ہمارے پاس غزہ کے بچوں کو بہلانے کے لیے کچھ نہیں، ہاں ہمارے پاس گولڈ میڈل ہے، ہمارے پاس ارشد ندیم جیسا کھلاڑی ہے، ہمارے پاس فنکاروں کے لیے، گلوکاروں اور میراثیوں کے لیے بہت کچھ ہے، ہمارے حکمران بہت سخی ہیں، ایک نیزہ پھینکے پر کروڑوں روپے لٹا سکتے ہیں، لیکن غزہ کے بچے اب تک ایسا کوئی نیزہ نہیں پھینک سکے جس کے عوض انھیں بھی انعام کا مستحق سمجھا جائے۔ ہماری بہنیں فلسطین میں کوئی ایسا کارنامہ نہیں کرسکیں جو انھیں التفات کے قابل بنائے۔ ہمارے مجاہدین اب تک کسی ’’امتیازی‘‘ شان کے حامل نہیں ہوسکے کہ انھیں تمغے کا اہل سمجھتے،اے اہلِ فلسطین!ہم شرمندہ ہیں۔

لرننگ پورٹل